حالات قابو میں ہیں
اس قسم کی خبریں آئے دن اخباروں میں آپ بھی پڑھتے ہوں گے جن میں ملک کے کسی نہ کسی حصے میں ’’آرگنائزر‘‘، ’’فلم انڈیا‘‘ اور ’’پانجنیہ‘‘ جیسے قوم پرست اخباروں کے پڑھنے والوں کے حسب معمول جوش میں آجانے کی وجہ سے کسی مار دھاڑ والی فلم کے انداز پر فرقہ وارانہ فساد، لسانی دنگے یا علاقائی جو تم پیزار کی نوبت آجاتی ہے۔
مذہب کے نام پر ہونے والے ان غیر مذہبی اور خالص سیاسی یک طرفہ فسادات میں یہ فری اسٹائل شقی قوم پرست، عورتوں کو اس طرح بے عزت اور اغوا، بچوں کو یتیم اور یسیر، جوانوں کو حتم اور بوڑھوں کو زندہ درگورکرتے، ان کے مکانوں اور دکانوں کو لوٹنے کے بعد، مکان اور دکان کے ساتھ انہیں بھی زندہ جلادیتے اوریہ سب کچھ اس معصومیت کے ساتھ کرتے ہیں کہ بے چارے جے پرکاش نارائن جیسے سرودیے تک کو مظلوم میں ظالم کی جھلک نظر آنے لگتی ہے۔
ناراین۔۔۔ نارائن۔۔۔!
اخباروں میں ان واقعات کو نہایت دباکر روک تھام اور نظر انداز کرکے، اس طور پر دیا جاتا ہے کہ ہولناک سے ہولناک فساد، ایک معمولی فوجداری، بلکہ دھول دھپا معلوم ہونے لگتا ہے۔ ابھی حال ہی میں ایک اخبار جو سیکولرازم، (مذہبی رواداری نہ کہ لامذہبیت) کا علمبردار فرض کیا جاتا ہے، اس کے اس صفحہ پر جہاں کھیل کود کی خبریں اور دوسری تفریحات فراہم کی جاتی ہیں، انہیں کے ساتھ احمد آباد کے ہولناک فسادات کا تازہ ترین اسکور بھی شائع ہوا تھا۔ خیر یہ تو کوئی بات نہیں، ہماری جان گئی اور آپ کی ادا ٹھہری۔ ورنہ ہمیں تو وہ ترقی پسند اخبار بھی یاد ہے جس میں فساد کی خبریں’’بازار بھاؤ‘‘ کے ساتھ چھپتی تھیں۔ خیر یہ تو سمجھ لیجیے کہ اخبار ہے اور غنیمت ہے کہ فسادوساد کی خبریں چھاپ بھی دیتا ہے ورنہ عام طور پر اخباروں میں فسادات کی تفصیلات اس طرح چھپتی ہیں کہ اوپر سے بالکل معمولی واقعہ معلوم ہوتی ہیں، بلکہ کوئی خبر ہی نہیں معلوم ہوتی اوراندر سے وہی سنگین سے سنگین تر۔ اس لیے خاصے تجربے کے بعد مجبوراً میں اب کسی اقلیتی خبر کو بجائے شروع کے آخیر سے پڑھنا شروع کرنے کا قائل ہوں۔ یعنی جہاں سے خبر ختم ہوتی ہے، میں سمجھتا ہوں کہ یہ یہاں سے شروع ہورہی ہے۔ ہر خبر آنسو گیس، لاٹھی چارج، فائرنگ، دفعہ۱۴۴، کرفیو اور فوج کی طلبی کی مختصر ترین تفصیلات فراہم کرنے کے بعد یہ خوشخبری سنائی جاتی ہے، ’’حالات قابو میں ہیں۔‘‘
اور ہم پھر ایک بار دھوکا کھاکر مطمئن ہوجاتے ہیں کہ کم از کم اس بارسیاں کوتوال نہیں بھئے۔ مگر اگلے دن پھر وہی خبر مزید خوں خوار طریقے پر نمودار ہوتی ہے اور آخر میں پھر وہی ٹیپ کا بند، کشت وخون کی تفصیلات کے بعد ہوتا ہے۔
’’حالات قابو میں ہیں۔‘‘
حالانکہ یہ تو ہمارا دل ہی جانتا ہے کہ ہماری جیسی پتلی گردن والے کے علاوہ کوئی بھی قابو میں نہیں ہے۔ خیر قابو میں تو بڑے بڑے آجائیں، مگر اس کے لیے صرف ایک شرط ہوا کرتی ہے اور وہ یہ کہ بندہ پرور آپ قابو میں لانے کی زحمت توگوارا فرمائیں۔
اسی وجہ سے جو جنتا قابو میں ہے، اس کے اتنا زیادہ بے قابوہونے کی خبریں برابر اخباروں میں آتی رہتی ہیں اور اسی کے ساتھ ساتھ یہ خوش خبری بھی ہوتی ہے، ’’حالات قابو میں ہیں۔‘‘ یعنی پیریڈ لیے قابو میں ہیں، لڑکے قابو میں ہیں، ماسٹر قابو میں ہیں۔ لیڈر قابو میں ہیں، پارٹیاں قابو میں ہیں، بدعنوان عملے قابو میں ہیں، غذائی آمیزش والے قابو میں ہیں، فرقہ پرست قابو میں ہیں، پیاری پولیس قابو میں ہے، بلیکیے قابو میں ہیں اور غرض سبھی قابو میں ہیں۔ تو پھر آخر بے قابو کون ہے؟ او ر مسئلہ کیا ہے جس کا اتنا شور رہتا ہے؟ ذمےداران جن کے بارے میں آج تک یہ فیصلہ نہ ہوسکا کہ وہ فساد روکنے کے بہانے فساد کراتے ہیں، یا فساد کرانے کے بہانے فساد روکتے ہیں اور ایسے بھی ذمہ دار پائے جاتے ہیں جو ذمےداری کو پوری طرح ایمانداری سے سنبھالنے کے لیے بالکل ناوابستہ، یعنی غیر جانب دار ہوجاتے ہیں۔ ایسے ہی ایک ناوابستہ ذمے دار نے شطرنج کا قومی ٹورنامنٹ اس لیے جیت لیا تھا کہ فساد کے دوران ان کے کھیل کی مشق بہت زیادہ بڑھ گئی تھی۔ ہر پڑھنے اور سننے والے کی طرح، مجھے بھی کسی خبر کو پڑھنے کے بعد اس کو سمجھنے میں دلچسپی ہوتی ہے۔ لہٰذا اب جو میں نے اس قسم کی ناشدنی خبروں کو سمجھنے کی کوشش کی تو میرے چھکّے چھوٹ گئے۔ کیونکہ جس خبر کا بھی، خبروں کی آزادی کے اس دور میں پیچھا کیا، تو وہ اصل سے خاصی لمبی چوڑی نکلی۔ اس پر مجھے اپنے دوست خاں صاحب یاد آگئے جو ہر چیز کو اتنا زیادہ بڑھا چڑھا کر بیان کرتے تھے کہ مجھے اصلیت تک پہنچنے کے لیے ان کی ہر بات کو کم از کم سو سے تقسیم کرنا ہوتا تھا۔ مگر جب انہوں نے ایک دن بتایا کہ شہر میں ہیضے کی وبا پھیل گئی ہے اور بہتر ہے کہ احتیاطاً میں کچھ دن کے لیے کسی اور شہر چلا جاؤں، تو میں نے احتیاطاً معاملہ کی چھان بین کی۔ پتا چلا کہ انہیں رات کو کھانے کے بعد فوراً ہی سوجانے کی وجہ سے نا صرف ایک عدد کھٹی ڈکار آگئی تھی۔
اس کے بعد میں نے احتیاطاً ان کی باتوں کو ہزار سے تقسیم کرنا شروع کردیا۔ مگر آخیر میں محض تعلقات برقرار رکھنے کی خاطر دل ہی دل میں ان کی ہر بات کو کئی لاکھ سے تقسیم کر دیتا تھا۔
ان خبروں پر بے اختیار جب ہمیں اپنے دوست یاد آنے لگے تو ہم نے اخباروں کی خبروں کی اصلیت جاننے کے لیے انہیں ضرب دینا شروع کردیا۔ مگر پریشانی یہ ہے کہ ہمیں زیادہ پہاڑے نہیں یاد ہیں، جب کہ ضرب کی رفتار بھی ہمارے دوست کی تقسیم کی رفتار کو مات پر مات دیتی چلی جار ہی ہے اور وہ دن دور نہیں جب اپنے ان معصوم دوست اور نادان دوستوں کی باتوں اور خبروں کو سمجھنے کے لیے باقاعدہ ریاضی کی اعلیٰ تعلیم حاصل کرنا پڑے گی۔
حالات کس حد تک قابو میں ہیں، اس کا سمجھنا اب ہمارے لیے بہت آسان ہوگیا ہے کیونکہ حالات کی جدید لغت میں قابو کے معنیٰ بالکل بے قابو ہیں اور مجمع منتشر کرنے کے معنی ’’مجمع لگانا‘‘ اور مجمع کا پتھرا ؤ کرنا کے معنی لوٹ مار، آتش زنی، آنسو گیس استعمال کرنے کے بعد فائرنگ، لاٹھی چارج کے معنی کرفیو آرڈر اور کرفیو کے معنی ’’فوج کی طلبی۔‘‘ پی اے سی بلانے کے معنی اس علاقے کو فوج کے سپرد کرنا ہےاور جہاں فوج کا لفظ استعمال ہوا، ہم سمجھ جائیں گے کہ فوج پہنچنے سے پہلے ہی وہ علاقہ سپرد خاک کیا جا چکا ہے۔
اس کے بعد بھی اگر یہ سمجھنا ضروری ہے کہ ’’حالات قابو میں ہیں‘‘ تو آخر یہ تسلم کرلینے میں کیا ’’مذاق‘‘ (مضائقہ) ہے؟ کہ آخر کون سے حالات قابو میں ہیں۔ معاشی؟ سیاسی؟ اقتصادی؟ سماجی؟ تہذیبی؟ مذہبی؟ ثقافتی؟ اقلیتی ؟ تنظیمی؟ خلاقی؟ پھر آخر وہ کون سے پرائیویٹ حالات باقی رہ جاتے ہیں جن کے قابو میں رہنے کی توقع کی جائے۔ دستور، فائل اوراخبارمیں اگر حالات قابو میں ہیں تو پھر ہمیں قومی یک جہتی کی خاطر یہ مان لینے میں آخر کیا تکلف ہے کہ حالات قابو میں ہیں۔
جب سرکاری طور پر حالات قابو میں ہیں تو پھر میری سرکار کے ماننے نہ ماننے سے حاصل؟ اس لیے میرے پیارے پڑھنے والو اب تم ہی بتا ؤکہ کیا،
’’حالات قابو میں ہیں۔‘‘
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.