حسینہ ایٹم بم
اسے شاید ایٹم بم اس لیے کہتے ہیں کہ جو ہیرو اس کے ساتھ ایک گانا فلما لے، وہ پھر ہیرو کم اور ہیروشیما زیادہ لگنے لگتا ہے۔ وہ فلم انڈسٹری کے قابل دید مقامات میں سے ایک ہے۔ بچپن ہی سے اس میں اداکارہ بننے کی صلاحیتیں تھیں۔ یعنی دن کا کام رات کو کرتی۔ بارہ سال کی عمر میں ہی اس کی آواز اتنی بدل گئی کہ وہ ناں کہتی تو ہاں لگتا البتہ ہاں کہتی نہ تھی، ہاں کرتی تھی۔
تعلق اس خاندان سے جہاں مائیں بیٹیوں کو اتنا چیک نہیں کرتیں، جتنا چیک سمجھتی ہیں۔ اس کی نانی کے دور میں ایک حکمران نے ان کے کشتوں کے پشتے لگا دیے تو انہوں نے ان کی پشتوں کو کشتے لگا دیے۔ اس کی والدہ کی باتیں حکمت بھری ہوتی ہیں یعنی ہر چند فقروں کے بعد معجونوں اور مربوں کا ذکر ہوتا ہے۔ البتہ یہ خود مربے کو مربعے کہتی ہیں۔ عمر کے بارے میں ان کے ہاں کوئی جھوٹ نہیں بولتا۔ اس کی والدہ سے عمر پوچھو تو کہے گی، ’’تیس کے اوپر ہوں۔‘‘ اور وہ واقعی ٹھیک کہتی ہے۔ اس کی عمر تیس سے اوپر ہے یعنی ستر سال ہے۔ گھر میں حسینہ ایٹم بم کی اپنی والدہ کے ساتھ تصویر ہے، جب اس کی والدہ ابھی دس بارہ سال کی بچی تھی۔ حسینہ ایٹم بم ڈبے کے دودھ پر پلی جس کی وجہ اس کی والدہ یہ بتاتی ہے کہ ڈاکٹر نے کہا تھا، ’’بچی کے منہ میں جو کچھ ڈالو، اسے پہلے ابال لو۔‘‘ بچپن میں جب شام کو اسے ٹیوشن پڑھانے والا ٹیچر پوچھتا کہ گیارہ کے بعد کیا آتا ہے تو کہتی، ’’ماسٹر صاحب گیارہ کے بعد کوئی نہیں آتا، بے شک قسم لے لیں۔‘‘
سال میں چند مہینے شادی شدہ رہتی ہے۔ کہتی ہے، ’’میرے تین بچے ہیں، ایک پہلے خاوند سے، ایک تیسرے سے اور ایک میرا اپنا ہے۔‘‘ پوچھو کہ جب تیسرا بچہ پیدا ہوا اس سے کافی عرصہ قبل تمہارا شوہر فوت ہو چکا تھا۔ کہے گی، ’’وہ فوت ہوا تھا، میں تو فوت نہیں ہوئی تھی۔‘‘ جو بچی پہلے اسے ماں کہتی، اب یہ اسے یوں ملتی ہے جیسے اس کی بہن ہو۔ یوں اس نے رویے سے اس کی ماں بہن ایک کردی ہے۔ کہتی ہے، پہلا خاوند اس قدر شکی تھا کہ میں نے مری کی پہاڑیوں پر بیٹھ کر اسے تصویر بھیجی اور لکھا میرا سارا دن مری کی پہاڑیوں پر تمہارے بغیر یوں تنہا گزرتا ہے تو وہ بجائے مجت کا جواب محبت سے دیتا، اس نے آگے سے یہ لکھ بھیجا کہ تم تنہا تھی تو پھر یہ تصویر کس نے کھینچی؟
پہلے گھر ایسا تھا کہ اسے پہلو بدلنے کے لیے بھی خاوند کو باہر بھیجنا پڑتا۔ جوں جوں گھر بڑا ہوتا گیا، خاوند چھوٹا ہوتا گیا۔ بعد میں گھر اتنا بڑا ہوگیا کہ اسے خاوند سے بھی بات کرنے کے لیے ٹیلی فون استعمال کرنا پڑتا۔ پھر ایک روز وہ سٹوڈیو جاتے ہوئے نوکروں سے کہہ گئی کہ میری واپسی تک وہ تمام چیزیں جنھیں میں استعمال نہیں کرتی، گھر میں نہیں ہونی چاہئیں اور وہ اس کے گھر واپس آنے سے پہلے ہی گھر چھوڑ کر چلا گیا۔
دوسری شادی دو دن ہی چلی۔ اس کے جاگیردار عاشق نے شادی سے اگلی صبح جب وہ بغیر میک اپ کے سوئی ہوئی، اٹھ کر سویرے سویرے اخبار پڑھ رہی تھی، اسے ساس سمجھ کر گفتگو شروع کردی جو طلاق پر جا کے ختم ہوئی۔ اس نے خاوند کی زندگی پر جو انمٹ نقوش چھوڑے، ان میں سے ایک اس کے ماتھے پر بھی تھا۔ کہتی ہے، ’’تیسرے خاوند سے پہلی لڑائی کی صلح اس مولوی نے کرائی جو ان کا نکاح پڑھانے آیا تھا۔‘‘ ایک بار خاوند نے لڑکر قسم کھائی کہ مہینہ تمہیں منہ نہ دکھاؤں گا۔ بہت پریشان ہوئی۔ ایک فلم ساز نے تسلی دیتے ہوئے کہا، ’’پریشان ہونے کی کیا ضرورت ہے؟ چٹکی بجاتے مہینہ گزر جائے گا۔‘‘ تو کہنے لگی، ’’اسی لیے تو پریشان ہوں۔‘‘ کہتی، ’’میں کئی کئی دن اس کے ساتھ باوفا رہتی لیکن پھر بھی وہ شادی کی سالگرہ پر پانچ منٹ کی خاموشی اختیار کرتا۔ چوتھی سالگرہ پر وہ ہمیشہ کے لیے خاموش ہو گیا۔‘‘
دنیا میں بندہ آتا ہے تو ننگا ہوتا ہے اور جب جاتا ہے، سفید لٹھے میں ملبوس ہوتا ہے۔ گویا قیام دنیا کا واقعہ اتنا ہی ہے جتنا ننگے کا لباس پہننا۔ حسینہ ایٹم بم وہ لباس پہنتی ہے جو دیر سے شروع ہو اور جلدی ختم ہوجائے۔ لباس پہنا ہو تو پتہ نہیں چلتا کہ وہ لباس کے اندر ہے اور باہر نکلنا چاہتی ہے یا لباس سے باہر ہے اور اندر جانا چاہتی ہے۔ بیٹھی ہوئی تصویر لگتی ہے۔ ’ف‘ کہتا ہے، ’’وہ تصویر تو ہے مگر اوور ایکسپوزڈ اور اوور ڈیویلپڈ۔‘‘ اس کا لباس اس قدر تنگ ہوتا ہے کہ پاس کھڑے شخص کا سانس لینا مشکل ہوجاتا ہے۔ پشاور کی رہنے والی ہے اور کہتے ہیں، پشتو فلموں کو پسند کرتی ہے۔ حالانکہ بھری محفل میں اس سے پشتو فلم کا ذکر کر دیا جائے تو منہ پھیر کر کھڑی ہو جاتی ہے۔ البتہ اپنے علاقے کے مردوں کا اس قدر احترام کرتی ہے کہ ان کی طرف پشت کرکے کھڑی نہیں ہوتی۔
امریکہ میں رہی۔ ایک صحافی نے پوچھا، ’’وہاں آپ صبح سویرے اٹھ کر سب سے پہلے کیا کرتی تھیں؟‘‘ کہنے لگی، ’’سب سے پہلے اٹھ کر میں واپس اپنے اپارٹمنٹ میں آتی۔‘‘ دوران گفتگو اپنے بارے میں ’’ہم‘‘ استعمال کرتی ہے۔ پہلی شادی کے وقت سہیلیوں کے درمیان بیٹھی تھی تو مولوی صاحب نے پوچھا، ’’آپ کو فلاں بن فلاں قبول ہے۔‘‘ تو شرما کر کہا، ’’ہم کو قبول ہے۔‘‘ تو مولوی صاحب نے فوراً ٹوکا، ’’بی بی! صرف اپنی بات کریں۔‘‘
کسی نے پوچھا، ’’آپ کو سب سے پہلے جس نے پیار کیا آپ نے اسے کیا کہا؟ بولی، ’’اس کو میں نے کیا کہنا تھا، کیونکہ اس وقت تک تو میں نے ابھی بولنا شروع نہیں کیا تھا۔‘‘ جس جسم پر تکیہ تھا، اب وہ خود تکیہ لگتا ہے۔ پہلے اس کی گردن صراحی جیسی تھی، اب تو یہ خود صراحی لگتا ہے جو بہت سراہی گئی۔ خاندان تو وہ ہے جس میں بیٹی کو ماں کا بوجھ بھی اٹھانا پڑتا ہے مگر اسے دیکھ کر لگتا ہے، اس نے اپنا بوجھ اتنا اٹھایا نہیں، جتنا لٹکایا ہوا ہے۔ اس کا بدن قوسوں سے مل کر بنا ہے مگر ہر قوس کوس کوس کی ہے۔ جلد اتنی پتلی کہ جھکے تو لگتا ہے ابھی جسم کا کوئی حصہ ڈھلک کر نیچے اتر پڑے گا۔ بازو اتنے لمبے کہ فلم میں انگڑائی لے تو سکرین سے باہر نکل آتے ہیں۔
اس کا گھر دیکھ کر بندہ گھبرا جاتا ہے مگر وہ پھر بھی گھیر لیتی ہے۔ سلمنگ سنٹر جاتی رہی، جس سے آہستہ آہستہ اس کا لباس سلم ہوتا گیا۔ مگر جسم اب بھی ایسا ہے کہ صرف کھڑے ہونے کے لیے اسے ایک بندے کی جگہ آگے اور ایک ہی کی پیچھے خالی رکھنا پڑتی ہے۔ چائے کے ساتھ سکینڈل پسند کرتی ہے کہ اس سے چائے میں چینی ڈالنے کی ضرورت نہیں رہتی۔ کہتی ہے، ’’جو ان وفادار ہونا چاہتا ہے مگر ہو نہیں سکتا اور بوڑھا بے وفا ہونا چاہتا ہے مگر ہو نہیں سکتا، یوں وہ بہانے بہانے خود کو جوان ثابت کرتی رہتی ہے۔‘‘
اس کی اداسی بھی ایک ادا سی ہی ہوتی ہے۔ پوچھو، ’’محبت کیسے شروع ہوتی ہے؟‘‘ تو کہے گی، ’’محبت م سے شروع ہوتی ہے۔‘‘ کسی نے کہا کہ میاں بیوی کے جھگڑوں میں ثالث بچے ہوتے ہیں، تو کہنے لگی بالکل غلط، میاں بیوی کے جھگڑوں میں ثالث رات ہوتی ہے۔ کہتی ہے، ’’مرد اور عورت کی سوچ ایک جیسی ہوتی ہے، عورت مرد سے سونا مانگتی ہے اور مرد بھی بدلے میں سونا ہی چاہتا ہے۔‘‘
اس قدر بولتی ہے کہ صرف ’’نہیں‘‘ کہنے میں تین گھنٹے لگا دیتی ہے۔ البتہ ’’ہاں‘‘ کہنے میں سیکنڈ نہیں لگاتی۔ کہتی ہے، اب اتنی عمر کی نہیں رہی، جتنی پندہ سال پہلے تھی، پانچ سال بڑی ہو چکی ہوں۔ صحافیوں سے ناراض رہتی ہے کہ یہ کچھ کا کچھ لکھ دیتے ہیں۔ ’’بولی ایک بار میں نے کہا، میرا چہرہ دیکھ کر وقت رک جاتا ہے تو انہوں نے اگلے دن یہ چھاپ دیا کہ میں اپنے چہرے سے چلتا ہوا کلاک روک سکتی ہوں۔‘‘
ایک دفعہ اس کے کسی پرستار نے سٹوڈیو سے لوٹتے ہوئے اس کا زبردستی ہاتھ پکڑ لیا تو اس نے غصے سے کہا، ’’اگر تم نے آدھ گھنٹے کے اندر اندر میرا ہاتھ نہ چھوڑا تو میں پولیس کو بلا لوں گی۔‘‘ ہلکی پھلکی کتابیں پسند کرتی ہے۔ کہتی ہے، ہلکی پھلکی ہوں تو انہیں ایک جگہ سے دوسری جگہ لے جانے میں آسانی رہتی ہے۔ ایک دفعہ ’ف‘ اسے ملنے گیا تو وہ ننگے پاؤں دروازہ کھولنے آئی۔ اس کے پاؤں ٹھوڑی تک ننگے تھے۔ کہتی ہے، ’’اگر کوئی اداکارہ کو لباس کے بغیر دیکھ کر خوش نہ ہو تو یقین کرلیں، وہ جیب کترا ہے۔‘‘ وہ دنیا کے ہر مرد سے محبت کرنا چاہتی ہے۔ اس میں کوئی برائی نہیں مگر مسئلہ یہ ہے کہ وہ علیحدہ علیحدہ کرنا چاہتی ہے۔ صبح اٹھ کر جب تک میک اپ نہ کرلے، خود اپنی شکل نہیں دیکھتی۔ کہتی ہے، ’’مجھے لپ اسٹک لگانے کے بیس طریقے آتے ہیں۔‘‘
’ف‘ نے کہا، ’’ہمیں تو ایک طریقے کا پتہ ہے، لپ اسٹک ہونٹوں پر ملو‘‘ تو بولی، ’’اکیس!‘‘ لپ اسٹک لگائے بغیر تو وہ ٹیلی فون پر بات نہیں کرتی۔ ایک بار اس کی والدہ اس قدر بیمار ہوئی کہ بستر پر چادر کی طرح بچھ گئی کسی نے کہا، ’’اللہ سے دعا کرو۔ ان کی حالت سے تو لگتا ہے کہ موت کا فرشہ آنا چاہتا ہے‘‘ اس نے فوراً متوجہ ہوکر پوچھا، ’’کون آنا چاہتا ہے؟ ذرا میری لپ اسٹک دینا۔‘‘
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.