ہوتا ہے شب و روز تماشا مرے آگے!
تو یوں ہوا کہ ہم چار دوست پہنچے درگاہ حضرت نظام الدین۔ اتفاق رائے سے بس سے چلنا قرار پایا۔ مین روڈ سے بس سے اتر کر جیسے ہی اس مزار والی گلی کا رخ کیا، تو خود کو ’’بازار مصر‘‘ میں پایا۔ جہاں نہ آبرو محفوظ معلوم ہوتی تھی اور نہ ہی والیٹ۔ عجیب عجیب حلیے والے کئی فقیر مزار تک کے پروٹوکال کے لیے حاضر تھے۔ اب یہ خدا ہی کو معلوم تھا کہ ان کی موجودگی باحیثیت سائل کے تھی یا اس وقت وہ دہلی کے مشہور ومعروف فنکار ’’جیب کترے‘‘ کے فرائض انجام دے رہے تھے۔ البتہ یہ اطمینان رہا کہ غیرمطلوبہ حادثے میں بھی وہ بس اتنی ہی رقم لوٹینگے کہ جتنی رقم سے ایک سمیک کی پڑیا باآسانی خریدی جا سکے۔
دوکاندار عجیب عجیب آوازوں سے اپنی طرف بلاتے تھے۔ لیکن اس پر قہر یہ کہ بلانے کے لیے جس طرح کے اشارے وہ کر رہے تھے، اس طرح کے اشارے کرنے کا حق میری ناقص رائے میں یا محبوبہ دل نواز کو پہنچتا ہے یا بازار حسن کی طوائفوں کو۔ بہرحال کارواں آگے بڑھا اور بازار مصر کی اس مخصوص گلی تک پہنچا کہ جسکو زلیخہ کا در کہا جائے۔ وہ گلی جہاں سے عام بازار ختم ہوکر درگاہ کا خاص بازار شروع ہوتا ہے۔ یہاں کوئی یوسف محفوظ نہیں۔ گلی میں قدم رکھتے ہی گمان ہوا کہ ذرا نظر بچی تو اسی بازار میں بیچ دیئے جائیں گے۔ ایک بھاری بھرکم آدمی نے دوکان کے سائیڈ والی دیوار پر پان تھوکا اور با آواز بلند کہا ، ’’کدھر جارے ہو بھائی صاب؟ جوتے یہاں اتارو پہلے۔‘‘ میرا ایک دوست وہاں پہلے بھی آ چکا تھا اس لئے اس کے اشارے پر ہم نے اس آواز کو ان سنا کیا اور آگے بڑھ گئے۔ پتلی پتلی ٹیڑھی میڑھی گلیاں۔ دونوں طرف چھوٹی چھوٹی دکانیں اور دکانیں ہری چادروں اور گلاب کے پھولوں اور چنوریوں اور اگربتیوں سے بھری تھیں۔ ہر دوکان کے کونے پر آدھا جھولتا سا دوکاندار چادر کے لیے بلاتا اور ادھر ان کا ایک ایک کارندہ جو دوکان کے آگے گلی میں مسلط تھا، پکڑ پکڑ کر جوتے اتارنے کی بانداز ِ دیگر تلقین کرتا۔ جب بالکل دروازے پر پہنچ گئے تو اب ایک دوکان پر جوتے اتارے، لیکن دوکاندار اسی شرط پر جوتے رکھنے کو راضی ہوا کہ ہم چار رندوں میں سے ایک عقیدت مند نے اس سے کچھ پھول خریدے۔
درگاہ کے اندر کا منظر دیکھنے سے تعلق رکھتا تھا۔ پوری درگاہ لوگوں سے بھری ہوئی تھی۔ ہم امیر خسرو سے ملتے ہوئے ذرا آگے بڑھے تو صحن میں قوالی ہو رہی تھی۔ حالانکہ سننے والے کم ہی تھے۔ ہم چار نوجوان جاکر قوالوں کے نزدیک بیٹھے تو قوالوں میں جیسے جان آ گئی۔ ڈھولک کے گرد کچھ روپیے پڑے تھے۔ جس سے انکشاف ہوا ہمارے وہاں پیسے لٹانے کی بیجا امید اور قوالوں کے والیوم میں آئی تبدیلی کا ایک منطقی ربط ضرور ہے۔ اب کیونکہ قوال اچھے نہیں تھے تو پیسہ کم آ رہا تھا۔ اور کیونکہ پیسہ کم آ رہا تھا اسلئے قوال انمنے ڈھنگ سے گا رہے تھے۔
ڈھولک والا تو پھر بھی ٹھیک، لیکن ہارمونیم والے استاد کا کلام کچھ اس طرح سنا،
خواجہ میرے خواجہ۔۔۔
دل میں سماں جا۔۔۔
اوئے لونڈے، آگے سے ہیٹ جا
شاہوں کا شاہ تو۔۔۔
بی بی بیٹھ جاؤ
علی کا دلارا۔۔۔
خواجہ۔۔۔ خواجہ۔۔۔
ہاں ادھر لے آؤ
او۔۔۔ خواجہ
(اور اس بیچ اسسٹینٹ نے جمع رقم کو سمیٹنا شروع کیا۔ اور کیونکہ رقم کم تھی اسلئے ذرا برہم معلوم ہوتا تھا۔)
دل میں سماں جا۔۔۔
ہمیں نہ کچھ دینا تھا۔ نہ دیا۔ وہاں سے اٹھے۔ قوال نے ایک مایوس مگر زہر آسیب نگاہ ہم ہرجائییوں پر ڈالی۔ اور پھر اس دعوے کے ساتھ گانا شروع کیا کہ ’’خواجہ اب بس تو ہی ہے۔‘‘
ہم نے ازراہ تفنن اس احاطے کا طواف شروع کیا۔ جہاں بیٹھے ہوئے لوگ کسی حج اصغر کے لیے حاضر ہوئے معلوم ہوتے تھے۔ میں ایک ایک قبر پر رک کر سرہانے کے ان پتھروں کو پڑھ رہا تھا، جس پر اکثر خسرو کا کلام لکھا تھا۔
تبھی ایک چیخ سنائی دی۔ کسی عورت کے چلاّنے کی آواز۔ ہم اس چیخ کی جانب دوڑے۔ چیخنے والی خاتون وہیں تھی، جہاں سے کچھ قدم کے فاصلے پر حضرت نظام الدین کی قبر ہے، اور چند قدم کی دوری پر وہ مایوس قوال، جو اس وقت الگ الگ انداز سے خواجہ سے ملنے کی رکویسٹ کر رہا ہے۔ لیکن مجھے لگا کہ اسکو ویزا ملنے میں ذرا وقت لگےگا تو تب تک اس عورت پر کانسنٹریٹ کیا جائے، جو اب تک بالوں کو کھول کر فرش پر گر پڑی تھی۔ اور عجیب سے ڈراؤنے انداز میں سر کو گھمائے جاتی تھی۔ ابھی ادھر کا معاملہ سمجھ بھی نہ پایا تھا کہ پاس میں بیٹھی ہوئی ایک اور عورت کھڑی ہوئی۔ تیز دوڑی ہوئی مزار کی دیوار کو چھوکر واپس آنے لگی۔ مجھے لگا کہ اگر اسکی رفتار کم نہ ہوئی تو یہ سیدھی ہمارے اوپر آ گرے گی۔ ابھی سنبھل بھی نہ پایا تھا کہ عورت زمین سے تقریباً 3 فیٹ اوپر اچھلی اور ہوا میں ایک کلا کھاتے ہوئے فرش پر کمر کے بل چت جا گری۔ تیز آواز ہوئی۔
دل دھک سے رہ گیا!
ایسا ہولناک منظر پہلی بار دیکھا تھا۔ پوچھنے پر معلوم ہوا کہ اس پر ’’اوپری اثر‘‘ ہے اور بابا اسکا بھوت اتار رہے ہیں۔ مجھے معاملہ بڑا دلچسپ لگ رہا تھا۔ تبھی ایک کونے میں بیٹھا ہوا ایک دبلا پتلا سا ایک شخص دیوار میں ٹکر مارنے لگا۔ شو قدرے جاندار ہو چلا تھا۔ سو میں وہیں جم کر بیٹھ گیا۔ میرے دوست شاید کچھ ڈر گئے تھے۔ میں کسی بات پر ذرا سا مسکرایا تو برابر والے حاجی صاحب نے اس طرح جھڑک دیا کہ گویا میرا ایمان خطرے میں آ گیا۔ میں نے آہستہ سے حاجی صاحب سے پوچھا، کہ حضور، ان پر سے جو بھوت اترینگے کیا آپ انمیں سے ایک مجھ پر چڑھوا سکتے ہیں۔ میں بھی یہ تجربہ کرنا چاہتا ہوں!
بس۔۔۔! الامان! الحفیظ!
اگر میرا ایک دوست مجھے فوراً ہی باہر نہ لے آیا ہوتا تو لازماً وہاں ایک قبر کا اضافہ ہو جانا طے تھا۔ لیکن میں یہ سوچ رہا تھا کہ کیا مجھے بھی خسرو کے کلام والا پتھر نصیب ہوتا؟
باہر آئے۔ دوست تیز تیز قدموں سے چلے جاتے تھے۔ چلتے چلتے میری نظر ایک دوکان پر پڑی۔ دوکان ذرا اندر کی طرف تھی۔ سائن بورڈ پر لکھا تھا، ’’کالے عمل والے بنگالی بابا‘‘ مجھے پھر خواہش ہوئی کہ اس کالے لباس اور ڈھیر ساری مالاؤں والے بابا سے ملوں، لیکن میرے دوست ارادہ سمجھتے ہوئے مجھے تقریباً اغوا کیے جانے والے انداز میں اٹھا کر باہر لے آئے۔
پھر ہم چند قدم کے فاصلے پر موجود غالب کے مزار پر آ گئے۔ یہاں بلا کی خاموشی تھی۔ گھنٹوں بیٹھا رہا۔ سامنے ایک شفاق پتھر کی تربت تھی۔ جسکی کچھ مٹھی خاک میں دفن ایک بوڑھا شاعر تھا۔ جو کہہ رہا تھا،
ہوتا ہے شب وروز تماشہ میرے آگے!
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.