Font by Mehr Nastaliq Web

aaj ik aur baras biit gayā us ke baġhair

jis ke hote hue hote the zamāne mere

رد کریں ڈاؤن لوڈ شعر

دیمکوں کی ملکہ سے ایک ملاقات

مجتبی حسین

دیمکوں کی ملکہ سے ایک ملاقات

مجتبی حسین

MORE BYمجتبی حسین

    ایک زمانہ تھا جب میرا زیادہ تر وقت لائبریریوں میں گذرتا تھا۔ لیکن جب میں نے دیکھا کہ سماج میں جہلا ترقی کرتے چلے جارہے ہیں اور اونچی اونچی کرسیوں پرقبضہ جما چکے ہیں تو میں نے سوچا کہ لعنت ہے ایسے علم پر جس سے علم کی پیاس تو بھلے ہی بجھ جائےلیکن پیٹ کی آگ نہ بجھنے پائے۔ ملک کی یونیورسٹی پرغصہ بھی آیا کہ اگروہ علم کو پھیلانے کے بجائے جہالت کو ہی عام کرنے کا بیڑہ اٹھا لیتیں تو آج ملک نہ جانے کتنی ترقی کر لیتا۔ اس خیال کے آتے ہی میں نے لائبریریوں کو خیرباد کہا اور پھر کبھی ان کی طرف آنکھ اٹھا کر بھی نہ دیکھا۔ میں نے باہرآکرجہالت کے گرسیکھنے کی کوشش کی۔ یہاں تک کہ سیاستدانوں کی صحبتوں سے فیض یاب ہوا کہ یہ ہستیاں جہالت کا سرچشمہ ہوتی ہیں۔ لیکن یہ گر نہ آیا۔ کسی نے سچ کہا ہے کہ علم کی دولت آدمی کے پاس ایک بار آجاتی ہے تو پھر کبھی نہیں جاتی۔ میں نے لاکھ کوشش کی کہ اپنے اندر یہ جو علم کا افلاس ہے اسے کسی طرح باہر نکالوں اور اس کی جگہ جہالت کی دولت سے اپنے سارے وجود کو مالا مال کردوں مگر یہ کام نہ ہوسکا۔ یہ اور بات ہے کہ ایک عرصہ تک علم سے لگاتار اور مسلسل دور رہنے کی وجہ سے میں نے تھوڑی بہت ترقی کر لی ہے۔

    مگر پچھلے دنوں بات کچھ یوں ہوئی کہ میں اپنے ایک دوست کے ساتھ کہیں جارہا تھا۔ راستہ میں اسے اچانک ایک ضروری کام یاد آگیا۔ اس نےکہا کہ وہ دوگھنٹوں میں واپس آجائےگا۔ تب تک میں یہیں اس کا انتظار کروں۔ سامنے ایک پارک تھا۔ سوچا کہ یہاں وقت گذار لوں لیکن اس عمرمیں نوجوانوں کی خوشگوارمصروفیتوں اور ناخوشگوار حرکتوں میں مخل ہونا پسند نہ آیا۔ سامنے ایک ہوٹل تھا جہاں نہایت اونچی آواز میں موسیقی کو بجا کر گاہکوں کو ہوٹل کے اندر آنے سے روکا جارہا تھا۔ اب وہ پرانی لائبریری ہی برابر میں رہ گئی تھی جس میں میں اپنے زمانہ جاہلیت میں نہایت پابندی سے جایا کرتا تھا۔ خیال آیا کہ چلو آج لائبریری میں چل کر دیکھتے ہیں کہ کس حال میں ہیں یارانِ وطن۔

    افسوس ہوا کہ اب بھی وہاں کچھ لوگ علم کی دولت کو سمیٹنے میں مصروف تھے۔ چونکہ علم کی دولت چرائی نہیں جاسکتی۔ اسی لئے ایک صاحب ضروری علم کو حاصل کرنے کے بعد اپنے سارے گھوڑے بیچ کر کتاب پر سر رکھ کر سو رہے تھے۔ چاروں طرف کتابیں ہی کتابیں تھیں۔ بہت دنوں بعد لسان العصر حضرت شیکسپئیر، مصورِ فطرت علامہ ورڈ سورتھ، شمس العلماء تھامس ہارڈی، مصورِغم جان کیٹس وغیرہ کی کتابوں کا دیدار کرنے کا موقع ملا۔ میں نے سوچا کہ ان کتابوں میں اب میرے لئے کیا رکھا ہے۔ کیوں نہ اردو کتابوں کی ورق گردانی کی جائے۔ چنانچہ جب میں لائر یری کے اردو سکشن میں داخل ہوا تو یوں لگا جیسے میں کسی بھوت بنگلہ میں داخل ہوگیا ہوں۔ میں خوفزدہ سا ہوگیا۔ لیکن ڈرتے ڈرتے میں نے گرد میں اٹی ہوئی ’کلیات میر‘ کھولی تودیکھا کہ اس میں سے ایک موٹی تازی دیمک بھاگنے کی کوشش کر رہی ہے۔ میں اسے مارنا ہی چاہتا تھا کہ اچانک دیمک نے کہا، ’’خبردار! جو مجھے ہاتھ لگایا تو۔ میں دیمکوں کی ملکہ ہوں۔ باادب باملاحظہ ہوشیار۔ ابھی ابھی محمد حسین آزاد کی ’آب حیات‘ کا خاتمہ کر کے یہاں پہنچی ہوں۔ جس نے ’آب حیات‘ پی رکھا ہو اسے تم کیا مارو گے۔ قاتل سے دبنے والے اے آسماں نہیں ہم۔‘‘

    دیمک کے منہ سے اردوکے مصرعہ کو سن کر میں بھونچکاسا رہ گیا۔ میں نے حیرت سے کہا، ’’تم تو بہت اچھی اردو بول لیتی ہو بلکہ اردو شعروں پر بھی ہاتھ صاف کر لیتی ہو۔‘‘

    بولی، ’’اب تو اردو ادب ہی میرا اوڑھنا بچھونا اور کھانا پینا بن گیا ہے۔‘‘

    پوچھا، ’’کیا اردو زبان تمہیں بہت پسند ہے؟‘‘

    بولی، ’’پسند نا پسند کا کیا سوال پیدا ہوتا ہے۔ زندگی میں سب سے بڑی اہمیت آرام اور سکون کی ہوتی ہے جو یہاں مجھے مل جاتا ہے۔ تم جس سماج میں رہتے ہو وہاں آرام، سکون اور شانتی کا دور دور تک کہیں کوئی پتہ نہیں ہے۔ امن و امان کی تلاش میں مارے مارے پھرتے ہو۔ اب اگر میں یہاں آرام سے رہنے لگی ہوں تو تمہیں کیوں تکلیف ہو رہی ہے۔‘‘

    میں نے پوچھا، ’’لیکن تمہیں یہاں سکون کس طرح مل جاتا ہے؟‘‘

    بولی، ’’ان کتابوں کو پڑھنے کے لئے اب یہاں کوئی آتا ہی نہیں ہے۔ مجھےتو یوں لگتا ہے جیسے یہ ساری کتابیں میرے لئے فوڈ کارپوریشن آف انڈیا کا درجہ رکھتی ہیں۔ مجھے تو یقین ہے کہ تم جو اب یہاں آئے ہو تو تم بھی کتابیں پڑھنے کے لئے نہیں آئے ہو۔ کہیں تم خود مصنف تو نہیں ہو؟‘‘

    میں نے حیرت سے پوچھا، ’’تم نے کیسے پہچانا کہ میں مصنف ہوں۔‘‘

    بولی، ’’میں تمہیں جانتی ہوں۔ ایک رسالہ کی ورق نوشی کرتے ہوئے میں نے تمہاری تصویردیکھی تھی بلکہ تھوڑی سی تصویر کھائی بھی تھی۔ ایک دم بدذائقہ اورکڑوی کسیلی نکلی۔ حالانکہ وہ تمہاری جوانی کی تصویر تھی۔ پھربھی اتنی کڑوی کہ کئی دنوں تک منہ کا مزہ خراب رہا۔ میں تو بڑی مشکل سے صرف تمہاری آنکھیں ہی کھاسکی تھی کیونکہ تمہارے چہرے میں کھانے کے لیےہے ہی کیا۔ تم اردو کے مصنفوں میں یہی تو خرابی ہے کہ تصویریں ہمیشہ اپنی نوجوانی کی چھپواتے ہواورتحریریں بچوں کی سی لکھتے ہو۔ اور ہاں خوب یاد آیا تم نے کبھی سرسید احمد خان کو بغیر داڑھی کے دیکھا ہے؟ نہیں دیکھا تو ’آثارالصنادید‘ کی وہ جلد دیکھ لو جو سامنے پڑی ہے۔ ایک دن خیال آیا کہ سر سید داڑھی اوراپنی مخصوص ٹوپی کے بغیر کیسےلگتے ہوں گے۔ اس خیال کے آتے ہی میں نے بڑے جتن کے ساتھ سرسید احمد خان کی ساری داڑھی نہایت احتیاط سے کھالی۔ پھر ٹوپی کا صفایا کیا۔ اب جو سر سید احمد خان کی تصویر دیکھی تو معاملہ وہی تھا۔ قیس تصویر کے پردے میں بھی عریاں نکلا۔ اب یہ تصویر میرے آرٹ کا ایک نادر نمونہ ہے۔ مجھے تصویروں میں مسکراہٹیں بہت پسند آتی ہیں۔ مونالیزا کی مسکراہٹ تو اتنی کھائی کہ کئی بار بدہضمی ہوگئی۔ زمانے کو اس کی مسکراہٹ آج تک سمجھ میں نہیں آئی۔ مجھے اس کا ذائقہ سمجھ میں نہیں آیا۔ عجیب کھٹ میٹھا سا ذائقہ ہے۔ کھاتے جاؤ تو بس کھاتےہی چلے جاؤ۔ پیٹ بھلے ہی بھر جائے لیکن نیت نہیں بھرتی۔‘‘

    میں نے کہا، ’’تم تو آرٹ کے بارے میں بھی بہت کچھ جانتی ہو۔‘‘

    بولی، ’’جب آدمی کا پیٹ بھرا ہو تو وہ آرٹ اور کلچر کی طرف راغب ہوتا ہے۔ میں نے دیکھا ہے کہ کیڑوں مکوڑوں کا پیٹ بھر جائے تو وہ بھی یہی کرتے ہیں۔ تب احساس ہوا کہ انسانوں اور کیڑوں مکوڑوں میں کوئی زیادہ فرق نہیں ہے۔ خیر اب تو تم لوگ بھی اپنی زندگی حشرات الارض کی طرح ہی گزار رہے ہو۔‘‘

    میں نے کہا، ’’اب جب کہ تم نے خاصے اردو ادب کو چاٹ لیا ہے تو یہ بتاؤ یہ تمہیں کیسے لگتا ہے؟‘‘

    بولی، ’’شروع شروع میں یہ میرے پلے نہیں پڑا تھا۔ بڑا ریاض کیا۔ متقدمین کے دیوان چاٹے۔ مشکل یہ ہوئی کہ میں نے سب سے پہلے ’دیوانِ غالب‘ پر ہاتھ صاف کرنے کی کوشش کی۔ خاک سمجھ میں نہ آیا۔ لہٰذا مولوی اسماعیل میرٹھی کی آسان اور زود ہضم نظمیں پہلے نوشِ جان لیں۔ پھر وہ کیا کہتے ہیں آپ کے مفلر والے شاعر، وہی جو پانی پت میں رہتے تھے مگر وہاں کی جنگوں میں شریک نہیں تھے۔ ارے اپنے وہی مولانا حالی۔ ان کی نصیحت آمیز شاعری پڑھی۔ شاعری کم کرتے تھے نصیحت زیادہ کرتے تھے۔ وہ تو اچھا ہوا کہ تم لوگوں نے ان کی نصیحتوں پرعمل نہیں کیا۔ اگر کیا ہوتا تو آج تمہارے گلے میں بھی روایات کا ایک بوسیدہ سا مفلر ہوتا۔ اب تو خیر سے سارا ہی اردو ادب میری مٹھی میں ہے۔ سب کو چاٹ چکی ہوں۔ ایک بارغلطی سے جوش ملیح آبادی کی ایک رباعی چاٹ لی طبیعت میں ایسا بھونچال آیا کہ سارا وجود آپے سے باہرہونےلگا۔ اس کے اثر کو زائل کرنے کے لئے چاروناچار، جاں نثاراخترکی گھرآنگن والی شاعری چاٹنی پڑی۔

    ویسے تو میں نے دنیا کی کم وبیش ساری زبانوں کی کتابیں چاٹ لی ہیں لیکن اردو شاعروں میں ہی یہ وصف دیکھا ہے کہ اپنے معشوق کو کبھی چین سے بیٹھنے نہیں دیتے۔ کوئی معشوق کے گیسو سنوارنا چاہتا ہے توکوئی انہیں بکھیردینا چاہتا ہے۔ کوئی وصل کا طالب ہے تو کوئی ہجر کی لذتوں میں سرشار رہنا چاہتا ہے۔ کوئی معشوق کو کوٹھے پربلانے کا قائل ہے تو کوئی اس کا دیدار بھی یوں کرنا چاہتا ہے جیسے چوری کر رہا ہو۔ تم لوگ آخر معشوق سے چاہتے کیا ہو۔ اسے ہزار طرح پریشان کیوں کرتے ہو۔ اردو شاعری میں معشوق خود شاعر سے کہیں زیادہ مصروف نظر آتا ہے۔ یہ بات کسی اور زبان کے معشوق میں نظر نہیں آئی۔ اردو شاعروں کا عشق بھی عجیب و غریب ہے۔ عشق کرنا ہو تو سیدھے سیدھے عشق کروبھائی۔ کس نے کہا ہے تم سے کہ معشوق کی یاد آئے تو آسمان کی طرف دیکھ کر تارے گنتے رہو۔ اس کی یاد نے زور مارا تو اپنا گریبان پھاڑنے کے لئے بیٹھ جاؤ۔ معلوم ہے کپڑا کتنا مہنگا ہوگیا ہے۔ سیدھے سیدھے معشوق کے پاس جاتے کیوں نہیں۔ اپنے دل کا مدعا بیان کیوں نہیں کرتے۔ عاشق، بزدل اورڈرپوک ہو تو ایسے ہی چونچلے کر کے اپنے دل کو بہلاتا رہتا ہے۔‘‘

    میں نے کہا، ’’اردو ادب پرتوتمہاری گہری نظر ہے۔‘‘

    بولی، ’’اب جو کوئی اس کی طرف نظراٹھا کردیکھتا ہی نہیں تو سوچا کہ کیوں نہ میں ہی نظر رکھ لوں۔‘‘

    پوچھا، ’’داغ دہلوی کےکلام کےبارےمیں تمہاراکیاخیال ہے؟‘‘

    بولی، ’’ان کا کلام گانےکےچکرمیں اچھی خاصی بیبیاں طوائفیں بن گئیں۔ مجھے تو طبلہ اورسارنگی کے بغیران کا کلام سمجھ میں ہی نہیں آتا۔‘‘

    پوچھا، ’’اورہمارے فانی بدایونی؟‘‘

    بولی، ’’ان کےغم پربے پناہ ہنسی آتی ہے۔ عجیب مضحکہ خیر غم ہے۔‘‘

    ’’اور مولانا آزاد؟‘‘

    بولی، ’’زندگی بھر ٹھاٹ سے عربی لکھتے رہے اور لوگ اسے اردو سمجھ کر پڑھتے رہے۔ عربی کے کسی ادیب کو اردو میں شاید ہی اتنی شہرت ملی ہو۔‘‘

    میں نے کہا، ’’یہ بتاؤ تمہیں اردو کی کتابیں کیسی لگتی ہیں؟‘‘

    بولی، ’’تمہارا جوادب لیتھو گرافی کے ذریعہ چھپا ہے اسے کھاؤ تو یوں لگتا ہے جیسے باسی روٹی کے ٹکڑے چبا رہی ہوں۔ پھر جگہ جگہ کتابت کی غلطیاں کباب میں ہڈی کی طرح چلی آتی ہیں۔ لیکن جو کتابیں اردو اکیڈمیوں کے جزوی مالی تعاون کے ذریعے چھپنے لگی ہیں وہ بہت لذیذ ہوتی ہیں۔ میں تو جزوی امداد کی چاٹ میں کل کتاب ہی کو کھا جاتی ہوں۔ ان میں ادب ہو یا نہ ہو کھانے میں لذیذ ہوتی ہیں کیونکہ مفت خوری میں جو مزہ ہے وہ محنت کی کمائی میں کہاں۔ اعزازی زندگی گذارنے کی شان ہی جداگانہ ہوتی ہے۔ ہاں ایک بات اور، اردو کا مصنف اور شاعر اپنی کتابوں کے دیباچوں میں بات بات پر اس قدر شکریے کیوں ادا کرتا ہے۔ پبلیشر اور سرپرستوں وغیرہ کا شکریہ تو خیر پھر بھی برداشت کیا جاسکتا ہے لیکن اردو کا مصنف اس سائیکل رکشا والے کا بھی شکریہ ادا کرنے پر مجبور نظر آتا ہے جس میں بیٹھ کر وہ کتاب کی پروف ریڈنگ کرنے جایا کرتا تھا۔ اس کا شکریہ ادا کرنے سے تو یہی گمان ہوتا ہے کہ اردو کا مصنف سائیکل رکشا والے کو کرایہ ادا نہیں کرتا۔ تبھی تو اتنا گڑگڑا کراور ہاتھ جوڑ جوڑ کر ممنون ہوتا رہتا ہے۔ میں نے تو یہاں تک دیکھا کہ ایک شاعر نے اپنے مجموعہ کلام کی اشاعت کے لئے چمڑے کے ایک بیوپاری کا یوں شکریہ ادا کیا تھا جیسے چمڑے کا یہ بیوپاری نہ ہوتا تو اردو ادب دربدر ٹھوکریں کھاتا پھرتا اور وہ بھی ننگے پاؤں۔ بھیا چمڑے کا کاروبار اور چمڑی کا کاروبار دو الگ الگ چیزیں ہیں۔ تم اپنی شاعری میں چمڑی کا کاروبار کرتے ہو۔ پھر چمڑے کے بیوپاری کو اس کی ساری خباثتوں کے ساتھ ادب میں کیوں لے آتے ہو؟‘‘

    میں نے کہا، ’’کیا تم یہ چاہتی ہو کہ اردو کے ادیب اور شاعر کسی کا شکریہ نہ ادا کریں؟‘‘

    بولی، ’’شکریہ ادا کرنا اچھی بات ہے لیکن اصل میں جس کا شکریہ ادا ہونا چاہئے اس کا تو ادا کرو۔‘‘

    میں نے پوچھا، ’’مثلاً کس کا؟‘‘

    شرما کر بولی، ’’مجھے کہتے ہوئے لاج سی آتی ہے۔ اردو کے ادیبوں اور شاعروں کو تو اب میرے سوا کسی اور کا شکریہ ادا نہیں کرنا چاہئے کیونکہ بالآخراب میں ہی ان کی کتابوں میں پائی جاتی ہوں، ورنہ انہیں پوچھتا کون ہے؟‘‘

    دیمکوں کی ملکہ کی بات بالکل سچی تھی۔ میں نے گھبرا کر کہا، ’’تم بالکل ٹھیک کہتی ہو۔ اگلی بار اگر میری کوئی کتاب چھپی تو اس میں تمہارا شکریہ ضرورادا کروں گا۔‘‘

    ہنس کربولی، ’’اتنی ساری بات چیت کے بعد بھی تم اپنی کتاب چھپواؤگے۔ بڑے بےشرم اورڈھیٹ ہو۔ مرضی تمہاری۔ ویسے میرا شکریہ ادا کرنے کے بجائے کتاب ہی میرے نام معنون کردو تو کیسا رہے گا۔‘‘

    یہ کہہ کردیمکوں کی ملکہ ’کلیات میر‘ کی گہرائیوں میں کہیں گم ہوگئی اورمیں لائبریری سے بالکل نکل آیا۔

    یہ متن درج ذیل زمرے میں بھی شامل ہے

    Additional information available

    Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.

    OKAY

    About this sher

    Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.

    Close

    rare Unpublished content

    This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.

    OKAY

    Jashn-e-Rekhta | 13-14-15 December 2024 - Jawaharlal Nehru Stadium , Gate No. 1, New Delhi

    Get Tickets
    بولیے