سوئز بینک میں کھاتہ ہمارا
حضرات! میں کسی مجبوری اور دباؤ کے بغیر اور پورے ہوش و حواس کے ساتھ یہ اعلان کرنا چاہتا ہوں کہ سوئٹزرلینڈ کے ایک بینک میں میرا اکاؤنٹ موجود ہے۔ آپ اس بات کو نہیں مانتے تو نہ مانئے۔ میری بیوی بھی پہلے اس بات کو نہیں مانتی تھی۔ اب نہ صرف اس بات کو مان رہی ہے بلکہ مجھے بھی ماننے لگی ہے۔ آپ یقیناً یہ سوچ رہے ہوں گے کہ جب سارے لوگ اپنے کھاتوں کو پوشیدہ رکھنے کے سو سو جتن کررہے ہیں تو ایسے میں مجھے اپنے آپ ہی اپنے کھاتے کی موجودگی کا اعلان کرنے کی ضرورت کیوں پیش آرہی ہے۔ ایک دن میں دفتر سے بے حد تھکا ماندہ گھر پہنچا تو بیوی نے کہا، ’’آپ جو اتنا تھک جاتے ہیں تو اس کا مطلب یہ ہے کہ آپ دفتر میں کام بھی کرتے ہیں۔‘‘
میں نے کہا، ’’بھلا یہ بھی کوئی پوچھنے کی بات ہے۔ آدمی کام کرنے سے ہی تو تھکتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ آج تک میں نے کسی سیاستدان اور مولوی کو تھکا ماندہ نہیں پایا۔‘‘
بولی، ’’آدمی محنت کرتا ہے تو پھر اسے اس کا صلہ بھی ملتا ہے۔ تم جو اتنی محنت کرتے ہو تو تمہیں کیا مل رہا ہے؟‘‘
ظاہر ہے کہ اس مشکل سوال کا آسان جواب جب ملک کے ماہرین معاشیات کے پاس بھی نہیں ہے تو میں کیا خاک جواب دیتا۔ سو میں خاموش ہوگیا۔ میں نے سوچا کہ تیس برس کی رفاقت میں، میں نے اپنی بیوی کو روز کی خوشیاں اسی روز دینے کے سوائے اور کیا کیا ہے۔ اس کی جھولی میں ایک ایک دن اور ایک ایک پل کو جوڑ کر جمع کیا ہوا تیس برسوں کے عرصہ پر پھیلا ہوا ماضی تو ہے لیکن آنے والے کل کا کوئی ایسا لمحہ نہیں ہے جسے عام زبان میں خوش آئند مستقبل کہتے ہیں۔ میں نے سوچا آج اسے تھوڑا سا مستقبل بھی دے دیتے ہیں۔ لہٰذا میں نے کہا، ’’یہ تم کیا محنت اور صلہ کے پیچھے حیران ہو رہی ہو۔ آج میں تمہیں ایک خوش خبری سنانا چاہتا ہوں کہ سوئٹزرلینڈ کے ایک بینک میں میرا اکاؤنٹ موجود ہے۔‘‘ یہ سنتے ہی میری بیوی کا منہ حیرت سے کھلا کا کھلا رہ گیا۔ بڑی دیر بعد جب وہ بند ہوا تو اس نے اچانک گھر کے دروازے اور کھڑکیاں بند کرنی شروع کردیں۔
میں نے کہا، ’’یہ کیا کر رہی ہو؟‘‘
بولی، ’’سوئٹزرلینڈ کے بینک کے کھاتے کی بات کوئی یوں کھلم کھلا کرتا ہے۔ اگر بفرض ِمحال سوئٹزرلینڈ کے کسی بینک میں تمہارا کھاتہ ہے بھی تو تمہیں اس کا اعلان کرنے کی کیا ضرورت ہے۔ اگر مجھے اس کھاتے کا سراغ لگانا ہو تو میں کسی خفیہ ایجنسی کے ذریعے اس کا پتہ لگا سکتی ہوں یا پھر ایک دن ملک کے کسی اخبار میں خود بخود اس کی خبر چھپ جائے گی۔ مگر پہلے یہ بتاؤ کیا سچ مچ سوئٹزرلینڈکے بینک میں تمہارا کھاتہ موجود ہے؟‘‘
میں نے کہا، ’’سچ بتاؤ! آج تک میں نے تم سے کبھی جھوٹ کہا ہے؟‘‘
بولی، ’’سوتو ہے مگر یہ کھاتہ تم نے کھولا کب؟‘‘
میں نے کہا، ’’چار سال پہلے جب میں یوروپ گیا تھا؟‘‘
میرے اس جواب نے میری بیوی کو اور بھی حیرت میں ڈال دیا کیونکہ اسے پتہ تھا کہ جب میں یورپ کے لئے روانہ ہوا تھا تو میری جیب میں صرف بیس ڈالر تھے۔ اگرچہ حکومت نے مجھے اجازت دی تھی کہ اگر میں بیرونی زرِمبادلہ حاصل کرنا چاہوں تو پانچ سو ڈالر تک خرید سکتا ہوں۔ لیکن بیرونی کرنسی خریدنے کے لئے پہلے مجھے ہندوستانی کرنسی کی ضرورت تھی۔ بیرونی کرنسی تو مجھے مل رہی تھی لیکن اصل سوال ہندوستانی کرنسی کا تھا۔ یہ تو آپ جانتے ہیں کہ ہندوستان میں رہ کر ہندوستانی کرنسی کو حاصل کرنا کتنا مشکل کام ہے۔ اتنے میں میری بیوی دنیا کا نقشہ اٹھا کر لے آئی اور بولی، ’’ذرا دکھاؤ تو سہی۔ یہ موا سوئٹزرلینڈ ہے کہاں؟ اور اس میں ہمارا اکاؤنٹ کہاں رکھا ہوا ہے؟‘‘
میں نے دنیا کے نقشہ میں اسے سوئٹزرلینڈکو دکھانے کی کوشش شروع کردی۔لیکن کمبخت سوئٹزرلینڈ اتنا چھوٹا نکلا کہ اس پر جب جب انگلی رکھتا تو پورے کا پورا سوئٹزرلینڈ غائب ہو جاتا تھا۔ بالآخر قلم کی نوک سےسوئٹزرلینڈ کے حدودِ اربعہ اس پر واضح کئے تو بولی، ’’یہ تو اتنا چھوٹا ہے کہ اس میں کسی بینک کی عمارت شاید ہی سما سکے۔ ہمارے بینک اکاؤنٹ کے سمانے کا نمبر تو بعد میں آئے گا۔‘‘
میں نے کہا، ’’تم ٹھیک کہتی ہو۔ مجھے یاد ہے کہ میں اپنے دوست کے ساتھ جنوبی فرانس کے راستہ سے بذریعہ موٹر سوئٹزرلینڈ میں داخل ہوا تھا۔ اس ملک کا اتنا ذکر سنا تھا سوچا کہ ذرا اس ملک کے اندر پہنچ کر اس کا دیدار کر لیتے ہیں۔ میرا دوست موٹر تیز چلاتا ہے۔ تھوڑی دیر بعد سڑک پر کچھ سپاہیوں نے ہمیں روک لیا اور پوچھا، ’’کہاں کا ارادہ ہے؟‘‘
عرض کیا، ’’اک ذرا سوئٹزرلینڈتک جانے کا ارادہ ہے۔‘‘
سپاہیوں نے کہا، ’’قبلہ! آپ جہاں جانا چاہتے ہیں وہاں سے واپس جارہے ہیں۔‘‘
چاروناچار ہمیں پھر سوئٹزرلینڈمیں واپس ہونا پڑا اور موٹر کی رفتار دھیمی کرنی پڑی کہ کہیں ہم تیز رفتاری میں کسی اور ملک میں نہ نکل جائیں۔ بیوی نے کہا، ’’مگر تم تو سوئٹزرلینڈسیر سپاٹے کے لئے گئے تھے۔ وہاں کے قدرتی مناظر کو دیکھنے گئے تھے۔ یہ انکاؤنٹ کھولنے والا معاملہ کب ظہور میں آیا؟‘‘
میں نے کہا، ’’بیگم! کان کھول کر سن لو۔ یہ پہاڑ اورقدرتی مناظر سب بہانے بنانے کی باتیں ہیں۔ آج تک کوئی سوئٹزرلینڈمیں صرف پہاڑ دیکھنے کے لئے نہیں گیا۔ پہاڑ کی آڑ میں وہ کچھ اور کرنے جاتا ہے۔ سوئٹزرلینڈ کے پہاڑ اس لئے اچھے لگتے ہیں کہ ان کے دامن میں سوئٹزرلینڈ کے وہ مشہور و معروف بینک ہیں جن میں اپنا پیشہ جمع کراؤ تو پیسہ جمع کرنے والے کی بیوی تک کو معلوم نہیں ہوتا کہ اس میں اس کے شوہر کا پیسہ جمع ہے۔ ایک صاحب کہہ رہے تھے کہ بعض صورتوں میں تو خود بینک کے انتظامیہ کو بھی پتہ نہیں ہوتا کہ اس کے بینک میں کس کا کتنا پیسہ جمع ہے۔ ان بینکوں کو وہاں سے ہٹا لو تو سوئٹزرلینڈکے قدرتی مناظراوران پہاڑوں کی ساری خوبصورتی دھری کی دھری رہ جائے۔ سچ تو یہ ہے کہ جس نے پہلگام اور گلمرگ اور پیر پنجال میں ہمالیہ کے پہاڑ دیکھے ہیں اسے سوئٹزرلینڈکے پہاڑ کیا پسند آئیں گے۔رہی برف کی بات تو اسے تو ہم ہر روز ریفریجریٹر میں دیکھتے ہیں۔ اب بتاؤ سوئٹزرلینڈ میں کیا رہ جاتا ہے۔ ہاں کسی زمانے میں یہاں کی گھڑیاں بہت مشہور تھیں۔ اب جاپان نے ان کی ایسی تیسی کردی ہے۔ کسی نے سچ کہا ہے کہ گھڑی سازی کے معاملہ میں ہرملک کا ایک وقت ہوتا ہے۔سوئٹزرلینڈکی گھڑی اب ٹل چکی ہے۔ اب اس کے بینکوں میں پیسہ جمع کرنے والوں پرگھڑی آئی ہے۔ اس لئے یاد رکھو کہ جو کوئی سوئٹزرلینڈجائے گا وہاں اپنا پیسہ جمع کرا کے آئےگا۔‘‘ بیوی نے کہا، ’’تو اس کا مطلب یہ ہواکہ تم سوئٹزرلینڈصرف اپنا کھاتہ کھلوانے گئے تھے؟‘‘
میں نے کہا، ’’اور کیا پہاڑ دیکھنے تھوڑی گیاتھا۔‘‘
بولی، ’’جب کھاتہ کھلوانا ہی تھا تو ہندوستان کے کسی بینک میں رقم جمع کراتے۔‘‘
میں نے کہا، ’’کیا تم نہیں جانتیں کہ ہمارے بینکوں کی کیا حالت ہے۔ آئے دن تو ڈاکے پڑتے رہتے ہیں۔ لوگ بینکوں کے کھلنے کا اتنا انتظار نہیں کرتے جتنا کہ ڈاکوان بینکوں کے بند ہونے کا انتظار کرتے ہیں۔ پھر سوئٹزرلینڈ میں بینک کا کھاتہ کھولنے کا لطف ہی کچھ اور ہے۔‘‘
اور یوں میں نے ایک خوش آئند مستقبل کے کچھ لمحے اپنی بیوی کو سونپ دیئے۔ اس بات کو ہوتے تین مہینے بیت گئے۔ نہ تو اس نے مجھ سے اکاؤنٹ نمبر پوچھا، نہ اکاؤنٹ کا خفیہ نام اور نہ ہی یہ پوچھا کہ اس اکاؤنٹ میں کتنی رقم جمع ہے۔ یہ ضرور ہے کہ پچھلے تین مہینوں سے وہ بہت خوش ہے۔ اس کی زندگی میں ایک ایسا خوشگوار اعتماد پیدا ہو چکا ہے جس کی نظیر پچھلے تیس برسوں میں مجھے کبھی نظر نہ آئی۔ البتہ یہ ضرور ہے کہ اس اعتراف کے بعد میں اپنے آپ میں اعتماد کی کمی محسوس کررہا ہوں۔
حضرات! یہ توآپ بخوبی جانتے ہیں کہ بینکوں سے میرا کتنا تعلق ہوسکتا ہے۔ ایک محفل میں ایک مشہور و معروف ادیب سے ایک مشہور و معروف بینکر کا تعارف کرایا گیا تو بینکر نے ادیب سے کہا، ’’آپ سے مل کربڑی خوشی ہوئی لیکن میری بدقسمتی یہ ہے کہ میں نے آج تک آپ کی کوئی کتاب نہیں پڑھی۔‘‘
اس پر ادیب نے کہا، ’’مجھے بھی آپ سے مل کر بڑی خوشی ہوئی لیکن میری بدقسمتی یہ ہے کہ آج تک میں کسی بینک میں داخل نہیں ہوا۔‘‘
میں اتنا بڑا ادیب تو خیر نہیں ہوں کہ کبھی کسی بینک میں قدم ہی نہ رکھ پاؤں۔میں بینک ضرور جاتا ہوں۔ بینک میں میرا کھاتہ بھی موجود ہے۔ میری تنخواہ چونکہ چیک سے ملتی ہے۔اسی لئے بینک میں کھاتہ کھولنا ضروری تھا۔ یہ اور بات ہے کہ میرا کھاتہ، میرا اور میری بیوی کا، ’جوائنٹ اکاؤنٹ‘ ہے۔ اس جوائنٹ اکاؤنٹ کی خصوصیت یہ ہے کہ اس میں رقم جمع کرنے کی ذمہ داری تو میری ہوتی ہے مگر اس میں سے رقم نکالنے کا خوشگوار فریضہ میری بیوی کو انجام دینا پڑتا ہے۔ اندرونِ ملک اپنی تو یہ مالی حالت ہے کہ کوئی آفت کا مارا مجھ سے بیس پچیس روپئے بھی ادھار مانگتا ہے تو میں اس کا بے حد شکریہ ادا کرتا ہوں۔ اسے رقم تو نہیں دیتا البتہ شکریہ اس بات کا ادا کرتا ہوں کہ وہ مجھے اس قابل تو سمجھتا ہے کہ مجھ سے بیس پچیس روپئے ادھار مانگے جاسکیں۔
اس صورتِ حال کے باوجود سوئٹزرلینڈکے بینک میں میرا کھاتہ موجود ہے اور اس معاملہ کوآپ کے سامنے رکھنے کی وجہ صرف اتنی ہے کہ پچھلے تین مہینوں سے میں عجیب و غریب کیفیت سے گزر رہا ہوں۔ جیسا کہ آپ جانتے ہیں کہ میں نے پوری رازداری اورایمانداری کے ساتھ اپنے کھاتہ کی اطلاع اپنی بیوی کو دی تھی۔مجھے یقین تھا کہ وہ خاندان کے اس راز کو اپنے سینے میں چھپائے رکھے گی۔ مگر رفتہ رفتہ مجھے احساس ہونے لگا کہ اس راز کی روشنی میرے گھر کے اطراف دھیرے دھیرے پھیلنے لگی ہے۔ ایک مہینے پہلے کی بات ہے۔ میں محلہ کی ایک دکان سے موزے خریدنے گیا تھا۔ مجھے موزوں کی ایک جوڑی پسند آئی لیکن دکاندار نے قیمت جو بتائی وہ ہندوستان میں میرے موجودہ بینک بیلنس کی بساط سے باہر تھی۔
دکاندارنے مجھے آنکھ مارکر کہا، ’’صاحب! آپ یہ موزے لیجئے۔بیس پچیس روپئے کے فرق پر نہ جائیے۔ باقی پیسے بعد میں دیجئے جب سوئٹزر لینڈ سے آپ کا پیسہ آجائے گا۔‘‘ تھوڑی دیر کے لئے میں چونک سا گیا لیکن سوچا کہ ان دنوں چونکہ سوئٹزرلینڈ کے بینکوں کا بہت چرچا ہے اس لئے دکاندار نے مذاق میں یہ بات کہی ہوگی۔ پھر میں نے محسوس کیا کہ محلہ کے وہ لوگ جو مجھ سے منہ چھپاتے تھے یا مجھ سے کتراتے تھے نہ صرف اپنا منہ دکھانے لگے ہیں۔ بلکہ ضرورت سے زیادہ سلام بھی کرنے لگے ہیں۔
پڑوسیوں کے بارے میں آپ جانتے ہیں کہ یہ صرف آپ کی خوشیوں میں بڑھ چڑھ کر حصہ لیتے ہیں۔ اور اگر آپ کی زندگی میں دکھ نہ ہوں تو انہیں پیدا کرنے کی کوشش بھی کرتے ہیں۔ یہ پڑوسی اب مجھےعجیب وغریب نظروں سے دیکھتے ہیں۔ میرے ایک پڑوسی کپڑے کا کاروبار کرتے ہیں لیکن کاروبار کرنے کا ڈھنگ کچھ ایسا ہے جیسے سارے ملک کو ننگا کر کے چھوڑیں گے۔ پیسے کی وہ ریل پیل ہے کہ نہ جانے اتنا پیسہ کہاں رکھتے ہیں۔ بیس برسوں کے پڑوسی ہیں لیکن ان سے تعلقات پچھلے دو مہینوں میں ہی قائم ہوئے۔ ان کی بیوی ان دنوں میری بیوی کی سب سےاچھی اور چہیتی سہیلی بنی ہوئی ہے۔ دو تین مرتبہ مجھے بھی اپنے گھر بلا چکے ہیں۔ جب بھی بلاتے ہیں میرےساتھ وہ سلوک کرتے ہیں جو اہلِ غرض بے ایمان وزیروں کے ساتھ روا رکھتے ہیں۔ پچھلے ہفتہ میری بیوی نے بتایا کہ میری پڑوسی کی بیوی اس سے یہ جاننا چاہتی ہے کہ سوئٹزرلینڈکے بینک میں کھاتہ کھولنے کا کیا طریقہ ہے؟
میں نےکہا، ’’انہیں کیسےمعلوم ہوا کہ میرا کھاتہ سوئٹزرلینڈکے بینک میں موجود ہے؟‘‘
بیوی نے کہا، ’’تم بھی کیسی باتیں کرتے ہو۔ انہیں کیسے پتہ چل سکتا ہے کہ سوئٹزرلینڈ کے بینک میں تمہارا کھاتہ ہے۔ تم چونکہ پڑھے لکھے آدمی ہو اسی لئے تم سےکھاتہ کھولنے کا طریقہ جاننا چاہتے ہوں گے۔ بتانے میں کیا حرج ہے، آخرکو پڑوسی ہیں۔‘‘
میں نے کہا، ’’پڑوسی تو بیس برس سے ہیں۔ لیکن پڑوسیوں کا سا سلوک صرف پچھلے دو مہینوں سے کیوں کر رہے ہیں؟‘‘ پھر بھی میں نے کھاتہ کھولنے کا طریقہ انہیں بتا دیا۔ یہاں تک تو خیر ٹھیک تھا۔ پرسوں ایک عجیب و غریب واقعہ پیش آیا۔ میں صبح ڈرائنگ روم میں بیٹھا داڑھی بنا رہا تھا کہ ایک بھکاری حسبِ معمول میرے گھر پر آواز لگانے لگا۔ دوسرے بھکاری نے، جو میرے پڑوسی کے گھر پر کھڑا تھا، میرے گھر کے سامنے کھڑے ہوئے بھکاری سے کہا، ’’میاں! اس گھر پر آواز لگا کر کیوں اپنا وقت ضائع کرتے ہو۔ اس کا تو سارا پیسہ سوئٹزر لینڈ میں ہے۔ناحق کیوں انہیں تنگ کرتے ہو۔‘‘ پانی اب میرے سر سے اونچا ہو چکا تھا۔ میں نے فوراً اپنی بیوی کو طلب کیا اور کہا، ’’تمہیں یاد ہوگا کہ تین مہینے پہلے میں نے تمہیں اس راز سے واقف کرایا تھا کہ سوئٹزرلینڈ کے ایک بینک میں میرا اکاؤٹ موجود ہے۔‘‘
بیوی نے کہا، ’’یاد رکھنے کی بات کرتے ہو۔ میں تو دن کے چوبیسوں گھنٹے اس بات کو یاد رکھتی ہوں۔ تمہیں اب اچانک اس اکاؤنٹ کی کیوں یاد آگئی۔ تم نے پہلی بار اپنے اکاؤنٹ کا جو اعتراف کیا تھا کیا وہ غلط تھا؟‘‘
میں نے کہا، ’’غلط نہیں تھا مگر میرا اعتراف ادھورا تھا۔ میں نے تمہیں اپنے کھاتے کانمبر، کھاتے کا خفیہ نام اور کھاتے میں جمع رقم کے بارے میں کچھ بھی نہیں بتایا تھا۔‘‘
بیوی نے کہا، ’’میں اچھی طرح جانتی ہوں کہ تمہارے کھاتے کا نمبر ’چار سو بیس‘ ہے، کھاتہ کا خفیہ نام ’گوبھی کا پھول‘ ہے اور اس کھاتے میں سوئٹزرلینڈ کے صرف دس مارک جمع ہیں۔‘‘
میں نے حیرت سے پوچھا! ’’تمہیں کس نے بتایا؟‘‘
بولی، ’’میں نے اس سلسلہ میں ایک خفیہ ایجنسی کی خدمات حاصل کی تھیں۔ ’فیرسیکس‘ نام ہے اس کا۔ سوئٹزرلینڈ کے کھاتوں کا سراغ اسی طرح لگایا جاتا ہے۔‘‘ میں نے کہا، ’’بات دراصل یہ تھی کہ سوئٹزرلینڈ میں جب دیکھنے کو کچھ بھی نہیں ملا اور وہاں سے واپس چلتے وقت میری جیب میں دس سوئس مارک بچ رہے تو میں نے سوچا کیوں نہ اس رقم کو سوئٹزرلینڈ کے کسی بینک میں جمع کرادوں۔ ہندوستان میں یہ سہولت ہے کہ کسی تاریخی مقام کو دیکھنے جاتے ہیں تو اس مقام پراپنا نام بھی لکھ کرآسکتے ہیں تاکہ نہ صرف سند رہے بلکہ اپنی نشانی بھی موجود رہے۔ سوئٹزر لینڈ میں مجھے یہ سہولت بھی میسرنہیں تھی۔ لہٰذا میں نے یادگار کے طور پراپنا اکاؤنٹ کھول دیا۔ یہ کوئی اہمیت کی بات نہیں ہے اور تمہیں بھی اسے اہمیت نہیں دینا چاہئے۔ اب تو میں اس اکاؤنٹ کو بند کرانے کی سوچ رہا ہوں۔‘‘
بیوی نے کہا، ’’خبردار! جو اس اکاؤنٹ کو بند کیا تو۔ آج سے اسے بھی جوائنٹ اکاؤنٹ ہی سمجھو۔ ان دنوں سماج میں عزت اسی کی ہے جس کا سوئٹزرلینڈ کے بینکوں میں اکاؤنٹ ہو۔ چار برس پہلے جب تم سوئٹزرلینڈ گئے تھے تو ہندوستان میں سوئٹزر لینڈ کا اتنا کریز نہیں تھا۔ تم نے تو جذباتی ہو کر غفلت میں اس اکاؤنٹ کو کھولا تھا۔ مجھے کیا پتہ تھا کہ کبھی تمہاری غفلت سے فائدہ بھی پہنچ سکتا ہے۔ تم یقین کرو سوئٹزرلینڈ کے بینک میں جمع کئے ہوئے تمہارے دس مارک ہندوستان میں دس کروڑ کے برابر ہیں۔ دیکھتے نہیں سماج میں تمہاری کتنی عزت ہو رہی ہے۔کتنی دعوتیں کھا چکے ہو۔ دکاندار ادھار تک دینے لگے ہیں۔ جو لوگ برابری کے ساتھ ملتے تھے وہ اب جھک جھک کر ملنے لگے ہیں۔ اور تو اور محلہ کے لیڈیز کلب کی چیئرپرسن کے طور پرآج میرا بلا مقابلہ انتخاب ہونے والا ہے۔ یہ سب کس کی بدولت ہے۔ ذراسوچوتو۔ ملک کے سارے شرفا اب اپنے اکاؤنٹ سوئٹزرلینڈ کے بینکوں میں کھولنے لگے ہیں اورتم اپنا کھاتہ بند کرنے چلے ہو۔ خدا کا شکرادا کرو کہ ایک اتفاقی غلطی سے تمہارا شمار بھی شرفا میں ہونے لگا ہے ورنہ زندگی بھر یونہی جوتیاں چٹخاتے پھرتے۔ یہ میری گزارش نہیں حکم ہے کہ یہ اکاؤنٹ اب بند نہیں ہوگا۔‘‘
یہ کہہ کر میری بیوی لیڈیز کلب کی چیئرپرسن کے انتخاب میں حصہ لینے کے لئے چلی گئی اور میں دنیا کے نقشہ میں پھر سے سوئٹزرلینڈ کو تلاش کرنے لگا۔
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.