تکیہ کلام
’’تکیۂ کلام‘‘ سے یہاں ہماری مراد وہ تکیۂ کلام نہیں جو بات چیت کے دوران میں بار بار مداخلت جا و بے جا کرتا ہے بلکہ یہاں تکیۂ کلام سے مراد وہ کلام ہے جو تکیوں پر زیورِطبع سے آراستہ ہوتا ہے اور جس پر آپ اپنا سر رکھ کر سوجاتے ہیں اور جوآپ کی نیندیں ’’حلال‘‘ کرتا ہے۔ پرسوں کی بات ہے کہ ہم نے ایک محفل میں غالبؔ کا شعر پڑھا،
نیند اس کی ہے دماغ اس کا ہے راتیں اس کی ہیں
تیری زلفیں جس کے شانوں پر پریشان ہوگئیں
اس شعر کو سن کر ایک صاحب پہلے تو چونکے۔ پھر گہری سوچ میں غرق ہوگئے اور اپنا سر کھجاتے ہوئے بولے : ’’اگر میرا حافظہ خراب نہ ہوا ہو تو یہ شعر میں نے ضرور کہیں پڑھا ہے۔‘‘ ہم نے ان کی یادداشت کا امتحان لینے کی خاطر پوچھا۔ ’’تب تو سوچ کر بتائیے کہ آپ نے یہ شعر کہاں پڑھا تھا‘‘ وہ کچھ دیر سوچ کر بولے : ’’بھئی! لو یاد آیا۔ یہ شعر ہم نے رحمٰن خاں ٹھیکیدار کے تکیہ کے غلاف پر پڑھا تھا۔ بھلا تمہیں یہ شعر کس طرح یاد ہوگیا؟ کیا تمہیں بھی اس تکیہ پر سونے کا اتفاق ہوا تھا؟‘‘ ہم نے کہا: ’’آپ کیسی باتیں کرتے ہیں۔ یہ شعر تو دیوانِ غالبؔ میں موجود ہے۔ رحمٰن خاں ٹھیکیدار سے ہمارا کیا تعلق؟‘‘ اس پر وہ بولے ’’بھئی! دیوانِ غالبؔ سے ہمارا کیا تعلق۔ ہم تو شعر و شاعری صرف تکیوں کے غلافوں پر پڑھ لیتے ہیں۔ جب شاعری آپ کو تکیوں کے غلافوں پر پڑھنے کومل جاتی ہے تو اس کے لیے شعراکے دواوین الٹنے پلٹنے کی کیا ضرورت ہے؟‘‘ ان صاحب کے جواب سن کر ہمیں پہلی بار احساس ہوا کہ جس زبان میں شعر و شاعری کی بہتات ہوتی ہے اس کا یہی حشر ہوتا ہے۔ شاعری کا ’’پیمانۂ صبر‘‘ جب لبریز ہوجاتا ہے تو اشعار چھلک کر تکیوں پر گر جاتے ہیں، چادروں پر بکھرجاتے ہیں، لاریوں کی پیشانیوں پر چپک جاتے ہیں، رکشاؤں کی پیٹھ پر بیٹھ جاتے ہیں اور حد تو یہ ہے کہ دسترخوانوں تک کی زینت بن جاتے ہیں۔ کتنی ہی بار ایسا ہوا کہ ہم دسترخوان پر کھانا کھانے بیٹھے ہیں کہ اچانک دسترخوان پر چنے ہوئے کسی شعر نے ہمیں چونکا دیا۔ اور ہم کھانا کھانے کی بجائے سر دھنتے رہ گئے۔ بعض سخن فہم حضرات تو ایسے بھی ہوتے ہیں جو دسترخوانوں پر فارسی میں اشعار لکھواتے ہیں، جیسے
شکر بجا آرکہ مہمانِ تو
روزیٔ خود می خورد از خوانِ تو
نتیجہ ان فارسی اشعار کی اشاعت کا یہ ہوتا ہے کہ مہمان کھانا کم کھاتے ہیں اور شعر کے معنی و مفہوم کو سمجھنے کی کوشش زیادہ کرتے ہیں اور جب وہ معنی و مفہوم کے چکر سے آزاد ہوتے ہیں تو پتہ چلتا ہے کہ میزبان نے سارا کھانا خود ہی کھالیا ہے۔
دسترخوانوں کے اشعار کی بات چھوڑیے، کیوں کہ اب ہم دسترخوانوں پر چنی جانے والی اشیائے خوردونوش میں مختلف ملاوٹوں کے علاوہ اشعار کی ملاوٹ کے بھی عادی ہوگئے ہیں لیکن یاں بات تکیوں اور ان کے کلام کی چل رہی ہے۔ ہم نے ایسے معرکتہ الآرا شعر تکیوں پر دیکھے ہیں کہ اگر کوئی ان تکیوں پر سوجائے تو پھر زندگی بھر ان تکیوں پر سے اٹھنے کا نام نہ لے۔
ہمیں ایک بار سفر پر جانے کا اتفاق ہوا۔ ایک شناسا کے ہاں مہمان ٹھہرے۔ چونکہ ہم حسبِ روایت بستر اپنے ساتھ نہیں لے گئے تھے اس لیے میزبان نے ہمارے بستر کا انتظام کیا۔ اب جو ہم بستر پر پہنچے تو کیا دیکھتے ہیں کہ تکیہ پر نہایت جلی حروف میں یہ شعر لکھا ہوا ہے،
کسی کے حسن کا جادو بسا ہے تکیہ میں
جہانِ عارض و گیسو بسا ہے تکیہ میں
اب آپ سے کیا بتائیں کہ ہمارے حق میں یہ بستر، بسترِ مرگ ثابت ہوا۔ رات بھر کروٹیں بدلتے رہے، اختر شماری تک کرتے رہے۔ ہر بار یہی سوچتے رہے کہ آخر تکیہ میں کس کے حسن کا جادو بسا ہے، آخر وہ کون مہ جبین ہے جس کا جہانِ عارض و گیسو اس تکیہ میں پنہاں ہے۔ بار بار تکیہ کو اُلٹ پلٹ کر دیکھا۔ اس تکیہ نے ہم میں وہ سارے آثار پیدا کردیے جوآغاز عشق کے لیے ضروری سمجھے جاتے ہیں۔ وفورِ عشق نے اتنا سر اٹھایا کہ ہم بار بار تکیہ پر اپنا سر پٹختے رہے۔ بالآخر ہم نے فیصلہ کیا کہ صبح ہوگی تو ہم اس نازنین کو ضرور دیکھیں گے جس کے حسن کا جادو اس تکیہ کے توسط سے ہمارے سر چڑھ کر بولنے لگا تھا۔
صبح ہوئی تو ہم نے چوری چھپے اس نازنین کو دیکھ ہی لیا۔ اس نازنین کے ڈیل ڈول اور وضع قطع کو دیکھنے کے بعد ہم اس نتیجہ پر پہنچے کہ محترمہ کو یہ شعر تکیہ پر نہیں، گاؤتکیہ پر لکھنا چاہئے تھا۔ کیوں کہ ان کے حسن کا ’’سمبل‘‘ صرف گاؤتکیہ ہی ہوسکتا تھا۔
اس واقعہ کے بعد تکیہ کے اشعار پر سے نہ صرف ہمارا یقان اٹھ گیا بلکہ جب بھی کوئی منظوم تکیہ ہمارے سر کے نیچے آیا تو ہم نے چپکے سے اس کا غلاف اتار لیا کہ کون اپنی نیند حرام کرے۔ آپ نے تکیوں کے وہ اشعار ضرور پڑھے ہوں گے جن پر سو کر آپ نہایت ڈراؤنے خواب دیکھنے لگتے ہیں۔ مثال کے طور پر چند اشعار ملاحظہ ہوں ؎
کونین تک سمیٹ لیے ہیں غلاف میں
ٹکڑے جگر کے ٹانک دیے ہیں غلاف میں
خواب ہائے دل نشیں کا اِک جہاں آباد ہو
تکیہ جنت بھی اٹھا لائے اگر ارشاد ہو
چمن در چمن ہے غلاف آئیے تو
ذرا اس پہ آرام فرمائیے تو
غنچہ ہائے دل کھلے، سر رکھ کے گستاخی معاف
گلشنِ امید کے سب پھول چن لایا غلاف
غور فرمائیے کہ ان اشعار پر کیاآپ ’’تکیہ‘‘ کرسکتے ہیں؟ گویا تکیہ نہ ہوا، الہٰ دین کا چراغ ہوا کہ کونین تک اس میں سمٹ کر آگئے۔
ہمیں یاد ہے کہ ہمارے ایک دوست کو ادھورے خواب دیکھنے کی بیماری تھی، وہ تھوڑا سا خواب دیکھتے کہ بجلی فیل ہوجاتی اور وہ نیند سے چونک پڑتے۔ ایک دن ہم سے بولے : ’’بھئی! عجیب بات ہے کہ مجھے ادھورے خواب نظر آتے ہیں۔ آخر پورے خواب کیوں نظر نہیں آتے۔ میں خوابوں کے ’’ٹریلر‘‘ دیکھتے دیکھتے عاجز آگیا ہوں۔‘‘ ہم نے ان کے بستر کا معائنہ کیا تو دیکھا کہ تکیہ پر ایسا شعر لکھا ہوا ہے جو ’’بحر‘‘ سے خارج ہے۔ اس پر ہم نے کہا،
’’بھئی! اس کا اصل راز یہ ہے کہ تم ایسے تکیہ پر سوتے ہو جس پر بے بحر شعر لکھا ہوا ہے اور اس تکیہ کی کرامت سے تمہارے خواب بھی بحر سے خارج ہوجاتے ہیں۔ اس شعر کو بدلو تو تمہارے خوابوں کی صحت بھی بہتر ہوجائے گی۔‘‘
یہ تو ایک معمولی سا واقعہ ہے۔ ہمارے ایک اور دوست کا قصہ ہے کہ انہیں عرصہ سے بلڈپریشر کی شکایت تھی۔ جب وہ بستر پر سوجاتے تو ان کا بلڈپریشر آسمان سے باتیں کرنے لگتا۔ جب ایلوپیتھی علاج سے فائدہ نہ ہوا تو ایک حکیم صاحب کی خدمات حاصل کیں۔ حکیم صاحب نے ان کا بغور معائنہ کیا۔ زبان اتنی بار باہر نکلوائی کہ وہ ہانپنے لگے۔ مگر اسی اثناء میں حکیم صاحب کی نظر تکیہ پر پڑی اور وہ تکیہ کی جانب لپکے، شعر کو غور سے پڑا اور تنک کر بولے :
’’اس تکیہ کو ابھی یہاں سے ہٹائیے۔ بلڈپریشر کی اصل جڑ تو یہ تکیہ ہے۔ واہ صاحب واہ! کمال کردیا آپ نے۔ آپ کو بلڈپریشر کی شکایت ہے اور آپ نے شاعرِ انقلاب حضرت جوشؔ ملیح آبادی کا شعر تکیہ پر طبع کروارکھا ہے۔ جانتے ہو جوشؔ کی شاعری میں کتنا جوش ہوتا ہے۔ جوشؔ کے شعر پر آپ سوجائیں گے تو دورانِ حون نہیں بڑھے گا تو اور کیا ہوگا؟ اس تکیہ کواسی وقت یہاں سے ہٹائیے۔ خبردار جو آئندہہ سے آپ نے جوشؔ کے تکیہ پر سر رکھا۔ اگر شعروں پر سونا ایسا ہی ضروری ہے تو داغؔ کے غلاف پر سوجائیے، جگرؔ کے غلاف کو اپنے سر کے نیچے رکھیے۔ ان شعرا کا کلام آپ کے بلڈپریشر کو کم کردے گا۔ آپ کو فرحت ملے گی، بھوک زیادہ لگے گی آپ کے جسم میں خون کی مقدار میں اضافہ ہوگا وغیرہ وغیرہ۔‘‘
حکیم صاحب کے اس مشورے کے بعد ہمارے دوست نے نہ صرف ’’جوشؔ کا غلاف‘‘ بدل دیا بلکہ اب وہ جوشؔ کے کلام کو ہاتھ لگاتے ہوئے بھی خوف محسوس کرتے ہیں کہ کہیں پھر بلڈپریشر کا عارضہ لاحق نہ ہوجائے۔
لیکن تکیوں کے کلام کی ایک افادیت بھی ہوتی ہے جس کا راز صرف اہل دل ہی جانتے ہیں۔ یہ کوئی مبالغہ نہیں کہ ایک اہل دل کی شادی صرف تکیوں کے اشعار کے باعث ہوئی تھی۔ ہوا یوں تھا کہ یہ صاحب کہیں مہمان بن کر گئے ہوئے تھے۔ رات میں میزبان کے گھر میں سے ان کے لیے جب بستر آیا تو اس میں ایک تکیہ بھی تھا، جس پر یہ شعر لکھا ہوا تھا،
شمیمِ طرّہ گیسوئے یار لایا ہوں
میں اپنے ساتھ چمن کی بہار لایا ہوں
آدمی چونکہ ہوشیار تھے، اس لیے اس غلاف کا مطلب سمجھ گئے۔
دوسرے دن بازار گئے اور ایک ریڈی میڈ غلاف خرید لائے، جس پر یہ شعر لکھا ہوا تھا،
اٹھا تو سر پٹک دیا تکیہ پہ بار بار
شب بھر گواہ، یہ بھی مرے دردِ دل کا تھا
انہوں نے چپکے سے تکیہ کا پرانا غلاف اتارا اور نیا غلاف اس پر چڑھا دیا۔ اب یہ تکیہ ان کا پیام لے کر اندر واپس ہوا۔ نہ جانے اس شعر نے کیا قیامت مچائی۔ شام میں جب پھر تکیہ واپس ہوا تو اس پر ایک نیاشعر لکھا ہوا تھا،
مرا جذبِ دل مرے کام آرہا ہے
اب ان کی طرف سے پیام آرہا ہے
دوسرے دن، ان صاحب نے یہ غلاف بھی ا تار لیا اور پھر ایک طبع زاد غلاف چڑھادیا،
رات بھر دیدۂ نمناک میں لہراتے رہے
سانس کی طرح سے آپ آتے رہے جاتے رہے
غرض اس ’’تکیہ بردار‘‘ عشق نے وہ جوش مارا کہ سلام و پیام کا سلسلہ بڑھتا رہا اور بالآخر ان دونوں کی شادی ہوگئی۔ چنانچہ اب یہ دونوں ایک ہی شعر پر تکیہ کر رہے ہیں۔ لیکن اب ان تکیوں کے اشعار کی ماہیت تبدیل ہوگئی ہے۔ چنانچہ ہم نے پرسوں ان کی خواب گاہ میں جو تازہ تکیہ دیکھا تھا اس پر یہ شعر درج تھا،
اس سیہ بخت کی راتیں بھی کوئی راتیں ہیں
خوابِ راحت بھی جسے خوابِ پریشاں ہوجائے
یہ تو خیر عام آدمیوں کے تکیوں کی بات تھی۔ اگر آپ دانشوروں کے تکیوں کو دیکھیں گے تو یقیناً دنگ رہ جائیں گے۔ ان کے تکیوں پر ایسے صوفیانہ اور فلسفیانہ اشعار لکھے جاتے ہیں کہ اچھا خاصا آدمی بھی فلسفی بننے کی کوشش کر بیٹھتا ہے۔ مثلاً ایک دانشور نے اپنے تکیہ پر یہ شعر لکھ رکھا تھا،
موت کا ایک دن معین ہے
نیند کیوں رات بھر نہیں آتی
سچ پوچھیے تو اس تکیہ پر کوئی عام آدمی سو ہی نہیں سکتا۔ ایسے فلسفیانہ شعر پر تو صرف ایک دانش مند ہی سوسکتا ہے اور اسی کو ایسے فلسفیانہ تکیے زیب دیتے ہیں۔
آئیے، اب ان شعراکے تکیوں کی بات ہوجائے جن کے لیے شاعری اوڑھنا بچھونا ہوتی ہے۔ یعنی ان کے تکیوں پر شعر ہوتے ہیں۔ حدہوگئی کہ ہم نے ایک شاعری کی مچھردانی پر بھی شعروں کا جنگل اگا ہوا دیکھا۔ ہم نے ایک شاعر کے گھر میں ایک منظوم تکیہ دیکھا جس پر یہ شعر درج تھا،
یار سوتا ہے بصد ناز بصد رعنائی
محوِ نظارہ ہوں بیدار کروں یا نہ کروں
ہم نے اس شعر کو پڑھ کر کہا: ’’بھئی واہ کیا خوب شعر کہا ہے، کس کا شعر ہے؟‘‘
ہمارے سوال کو سن کر ان کا چہرہ تمتما اٹھا اور بولے : ’’معاف کیجیے، میں کسی دوسرے کے کلام پر تکیہ نہیں کرتا۔ یہ شعر میرا ذاتی ہے اور یہ بات میری خودداری کے خلاف ہے کہ میں دوسروں کے اشعار پر سوجاؤں۔ آپ مجھے کیا سمجھتے ہیں۔ بھلا یہ بھی کوئی بات ہوئی کہ کوئی شاعر اپنے تکیہ پر میرؔ کے تکیہ کا شعر لکھ مارے،
سرہانے میرؔ کے آہستہ بولو
ابھی ٹک روتے روتے سوگیا ہے
ہم نے ان کے غصہ کو تاڑ کر معافی مانگ لی اور چپ ہو رہے۔ بعد میں ان کے گھر کی اشیاء پر جو نظر ڈالی تو ہر شے شعر میں لت پت نظر آئی۔ پھر بہت دنوں بعد پتہ چلا کہ شاعر موصوف کی جو غزلیں مختلف رسالوں سے ’’ناقابلِ اشاعت‘‘ قرار پاکر واپس آتی ہیں، انہیں وہ اپنے گھر کی چادروں پر چھپوادیتے ہیں، تکیوں کے غلافوں پر چڑھا دیتے ہیں اور میزپوشوں پر زیورِ طبع سے آراستہ کرتے ہیں۔ ہم تکیوں کے ذریعہ ادب کی ترقی کے ضرور قائل ہیں لیکن ہمیں یہ بات پسند نہیں کہ ناقابلِ اشاعت اشعار بھی تکیوں پر چھاپے جائیں۔ پھر جب ہماری شاعری میں نئے رجحانات آرہے ہوں تو تکیوں میں بھی نئے رجحانات کا آنا نہایت ضروری ہے۔ کیا ہی اچھا ہو کہ کوئی سخن فہم اپنے تکیہ پر آزاد نظم لکھوائے۔ اگر تکیہ اس نظم کو قبول کرنے میں تنگ دامنی کا شکوہ کرے تو اس نظم کو دوتین تکیوں پر شائع کیا جائے۔ مثلاً نظم کا ایک بند تو ایک تکیہ پر ہو اور اس کے نیچے یہ عبارت درج ہو،
’’براہِ کرم تکیہ الٹیے۔‘‘
اور تکیہ الٹنے پر بھی کام نہ بنے تو نیچے یہ عبارت لکھی جائے،
’’باقی نظم ملاحظہ ہو گاؤ تکیہ نمبر(۱)پر۔‘‘
اور گاؤتکیہ بھی اس طوالت کو برداشت نہ کرسکے تو اس کے نیچے لکھا جائے،
’’باقی نظم ملاحظہ ہو شطرنجی کلاں پر۔‘‘
اور جب یہ نظم ختم ہوجائے تو اس کے نیچے ’غیر مطبوعہ‘ کے الفاظ کا بھی اضافہ کردیا جائے۔
ہمیں یقین ہے کہ ’’منظوم تکیوں‘‘ کے شائقین اپنے تکیوں کو شاعری کے جدید رجحانات سے ہم آہنگ کرنے کی سعی فرمائیں گے۔
سب سے آخر میں ہم اس مضمون کے لیے ان خاتون کے تہہ دل سے ممنون ہیں جن سے ہم نے تکیوں کے چند اشعار مانگے تو انھوں نے اپنے نوکر کو ہمارے گھر بھیجا۔ اس نوکر نے آتے ہی ہم سے کہا،
’’صاحب اپنے نوکر کو باہر بھیجیے تاکہ وہ تکیہ کے اشعار رکشہ میں سے اتارسکے۔‘‘
ہم نے حیرت سے پوچھا، ’’تمہاری بیگم صاحبہ نے آخر اتنے اشعار کیوں بھیجے کہ انہیں رکشہ میں ڈال کر ہمارے یہاں لانا پڑا؟‘‘
وہ بولا، ’’صاحب، آپ نے بیگم صاحبہ سے تکیہ کے اشعار مانگے تھے اور انھوں نے اپنے گھر کے سارے تکیے آپ کے پاس بھجوادیے ہیں، آپ ان تکیوں کا مطالعہ کرنے کے بعد انہیں واپس بھیج دیجیے۔‘‘
ہم اس دھوبی کے بھی شکرگزار ہیں جو گھاٹ پر کپڑے دھو رہا تھا۔ ہم نے اس دھوبی کو دیکھا کہ وہ ایک کپڑا پانی میں سے نکالتا ہے، اسے کھولتا ہے، پھر اپنی عینک آنکھوں پر لگاتا ہے، کپڑے پر کوئی عبارت پڑھتا ہے اور پھر اس کپڑے کو پتھر پر زور زور سے پٹخنے لگتا ہے۔ہم نے اس کی اس حرکت کا بغور مشاہدہ کیا تو پتہ چلا کہ وہ بعض کپڑے تو زور سے پٹختا ہے اور بعض کپڑے نہایت آہستگی اور سلیقے سے دھوتا ہے۔
ہم نے پوچھا، ’’بھئی! تم بعض کپڑے زور سے پٹختے ہو اور بعض نہایت آہستگی سے۔ آخر یہ کیا راز ہے؟‘‘
وہ بولا، ’’صاحب! یہ دراصل تکیہ کے غلاف ہیں اور میں تکیہ کے ہر غلاف کو دھونے سے پہلے اسے کھولتا ہوں اور اس پر لکھا ہوا شعر پڑھتا ہوں۔ اگر شعر مجھے پسند نہ آئے تو اس غلاف کو زور زور سے پتھر پر پٹختا ہوں، یعنی ادبی اصطلاح میں ہوٹنگ کرتا ہوں اور اگر اتفاق سے کوئی شعر پسندآئے تو نہایت سلیقے سے دھوتا ہوں کہ اچھا شعر ساری قوم کی امانت ہوتا ہے۔‘‘
ہم اس ادب دوست دھوبی اور اس کے گدھے کے بھی، جو اُن اشعار کا بوجھ اپنی پیٹھ پر لادے پھرتا ہے، ممنون ہیں کہ اس نے بعض اچھے اشعار ہمیں فراہم کیے جو اس مضمون میں شامل نہیں ہیں۔
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.