میں گالیاں نہیں دیتا۔ یا یوں کہئے، کہ دے ہی نہیں سکتا۔ دراصل گالیوں کے معاملے میں میرا علم کبھی ’’بدتمیز‘‘ اور ’’ابے سالے‘‘ سے آگے نہ بڑھ سکا۔ نہ گالیوں کے آداب سے شناسائی ہے اور نہ انکے صحیح اردو تلفظ ہی سے کوئی واقفیت۔ کئی مرتبہ لوگوں کو جاہ وجلال کے ساتھ گالیاں دیتے ہوئے دیکھتا ہوں، تو سوچتا ہوں کہ کبھی اس علم نایاب سے متعارف نہ ہو سکا۔ اور آپ اپنی نظروں میں پشیمان ہو جاتا ہوں۔
یوں تو میرا حلقۂ احباب کم وبیش اسی مزاج علم وشوق کا وارث ہے کہ جو غالب یا افلاطون کے حلقۂ یاراں میں پایا جاتا ہوگا۔ اور ان یاروں کی نفاست اور زباں فہمی کو کیا کہئے کہ ایک روز جو کسی لفظ پر تلفظ ذرا گڑبڑایا، تو ہمارے ایک کرم فرما نے یوں ارشاد فرمایا کہ ’’شعیب میاں ایک شعر سنیں۔ اور اگر اسکے وحی معنی تم جان سکے کہ جسکو جاننے کا حق ہے تو یہ دس روپئے کا نقد انعام تمہارا ہوا۔‘‘
مجھے دس روپئے میں تو بہرحال دلچسپی تھی ہی، مگر اشتیاق اس پر کہ آخر وہ شعر کیا ہوگا؟ جب مجھ سے اصرار کرنے کی رسم پوری کروا چکے تو فرمایا،
حسن جمال یار پہ بجلی سی گر پڑی
پوچھا جو یار نے کہ کیسے مجاز ہیں
میں مسکرایا۔ عرض کیا کہ ’’اگر ’’مزاج‘‘ کی جگہ ’’مجاز‘‘ پوچھے جائیں تو یہی ہوتا ہے۔‘‘ وہ بھی مسکرا دیئے۔
یہ تو خیر احباب کا قصہ رہا۔ لیکن اس وقت آپ کو ایسے باکمال ادیبوں اور سخن فہموں سے متعارف کرانا نہیں مقصود۔ بلکہ ایک ایسے دوست کا ذکر زباں پر ہے کہ جسکی زبان گالیوں کے لعل وگہر کو خوب سمجھتی ہے۔ جو نہ صرف مغلظات کا فن جانتا ہے بلکہ اسکے ادب آداب سے بھی خوب واقف ہے۔ پوری انسانی تاریخ کا ایک بڑا حصہ میری نظروں سے گزرا۔ دنیا جہان کے شہروں سے گزر ہوا۔ آدم کے لاکھوں بیٹوں سے ہم کلام ہوا۔ کتنے ہی کرداروں میں رنگ بھرتا رہا۔ لکھتا رہا۔ قدیم سے قدیم زبانوں کے لغوی اور ادبی مطالعے کئے۔ لیکن جو نایاب الفاظ اور القاب اس زبان خاص سے ادا ہوتے ہیں۔ ان سے واقفیت تو کچھ لیلیٰ کے سوداگروں ہی کو رہی ہو، تو خیر سے رہی ہو۔ میری عقل ناقص اسکی اہل کہاں۔
اقتدار نام ہے۔ ذرا حلیہ ملاحظہ ہو۔ رنگ کو سانولا لکھنا غیر مناسب معلوم ہوتا ہے اسلئے گیہوئیں کے ڈارکترین شیڈ سے تشیبہ دی جا سکتی ہے۔ زلفیں سیاہ۔ لمبی اور پیچھے کسی تدبیر خاص سے بندھی ہوئی۔ چہرے پر ذرا لمبی سی داڑھی، مگر اس احتیاط کے ساتھ کہ مولوی کی داڑھی سے مشابہت نہ ہونے پائے۔ سرمہ لگیں بڑی بڑی سرمئی آنکھیں۔ ماتھے پر نماز کا کالا رنگ۔ جو سیاہ کی بجائے اگر سفید رنگ کا ہوتا تو زیادہ نمودار ہوتا۔ ذرا لمبا، مگر درمیانہ قد۔ چست ٹی شرٹ یا شرٹ سے ملبوس۔ مگر جینس کی پتلون گھٹنے پر سے ہمیشہ ہی فیشن کے مطابق پھٹی ہوئی۔ یہ ہیں برادر عزیز اقتدار صاحب۔
یوں تو الحمدللہ انہو ں نے اپنی زبان کو کچھ اس طرح سے تربیت دی ہے کہ ہر فقرے میں عموماً 2 یا 3 گالیوں کی آمیزش برجستہ ہوتی جاتی ہے۔ لیکن اگر مصلحت خاص کے تحت کسی جملے میں گالی نا دے پائیں تو جملۂ ثانی میں گالی دینا واجب کا درجہ رکھتا ہے۔ یہی عمل اگر اتفاقاً دو جملوں کا ہو جائے تو پھر تیسرے فقرے پر گالی کا دینا فرض کی حیثیت رکھتا ہے۔ اور چوتھے فقرے پر گالی نہ دینا گناہ کبیرہ اور پانچویں پر حرام۔
معاملہ جو بھی ہو۔ عنوان کوئی بھی ہو، اس سے گرز نہیں۔ جب تک گالیوں کی آمیزش نہ ہو تو بات مکمل نہیں ہوتی۔
اور تو خیر انکا کیا تذکرہ کرنا۔ قربان جائیے انکی اس ادائےخاص پر کہ اگر کبھی کوئی دین کی بات بھی چل رہی ہو۔ اور صحابہ اور بزرگوں کے درمیان گالی نہ دے پائیں تو ہر 3۔4 جملوں کے بعد چاہے ابو لہب ہی کا ذکر کیوں نا کرنا پڑے، مگر مغلظات کا کوئی نہ کوئی جواز ڈھونڈھ ہی لیتے ہیں۔
سچ تو یہ ہے کہ یہ گالیاں انکی زبان سے بھلی بھی معلوم ہوتی ہیں۔ مگر اس فطرت نایاب پر کیا کہئے کہ دنیا میں کوئی ایسی شئی نہیں کہ جو انکی گالیوں کی زد میں نہ آتی ہو۔ اگر چائے ٹھیک نہ بنی ہو تو چائے کو گالیاں۔ چائے بنانے والے کو گالیاں۔ چائے لانے والے کو گالیاں۔ دودھ کو، شکر کو، کپ کو، حتی کہ چائے کے رنگ کو گالیاں۔ اور اگر اتفاق سے چائے اچھی بن جائے تو تعریف بھی گالیوں ہی کے ساتھ ممکن ہے۔
ایک مرتبہ کسی نے ذرا حماقت کر دی۔ تو انہوں نے عزت کے ساتھ موصوف کو بلوا بھیجا۔ اسکے والد کا نام دریافت کیا اور مع ولدیت ان ان نایاب قسم کے مغلظات سے نوازا کہ رہے نام مالک کا۔ وہ اپنی گالیوں کے درمیان جن رشتوں کا ذکر کرتے ہیں۔ انکی تفصیلات تو کسی صحیفے ہی میں کہیں درج ہونگی مگر جسم کے جن اجزا کی نشاندہی انکی گالیوں میں ملتی ہے اسکے لیے کم از کم چار پانچ مرتبہ ڈاکٹری میں فارغ التحصیل ہونا لازم ہے۔
قصہ کہنے کا شوق ہے۔ اور ان قصوں میں مغلظات کے ایسے کلی پھوندنے لگاتے ہیں کہ داستان گوئی کا ماحول بنتا جاتا ہے۔ ایک قصہ سے دوسرے میں اس چابک دستی سے سوئچ کرتے ہیں کہ سننے والوں کو احساس ہی نہیں کہ وہ کب ایک نئے قصہ کی کاٹھ میں جکڑ لیے گئے۔ قصہ گوئی کے دوران اگر کوئی نامراد ساماں جو ذرا کروٹ بدلے یا کوئی نوجوان جو اپنی ’’نوجوانی‘‘ کا میسج دیکھنے کی غرض سے موبائل کو ہاتھ لگا دے تو اقتدار اعلیٰ کے غضب کو دعوت دے۔
میں اپنی کم آئیگی اور لاعلمی پر پشیمان، محفل کے کسی کونے میں بیٹھا اس علم نایاب میں اپنی دسترس نہ ہونے کا ملال کرتا ہوں۔ یار کی زباں دیکھوں تو غالب یاد آتا ہے،
آتے ہیں غیب سے یہ مضامیں خیال میں۔۔۔
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.