Font by Mehr Nastaliq Web

aaj ik aur baras biit gayā us ke baġhair

jis ke hote hue hote the zamāne mere

رد کریں ڈاؤن لوڈ شعر

اتوار

MORE BYشوکت تھانوی

    وہ مبارک ومسعود دن جس کی قدر شاہ داند یا بداندجوہری ’’یعنی یا تو عیسائی سمجھ سکتے ہیں یا ہمارے ایسے ملازمت پیشہ ان لوگوں کا یہاں ذکر ہی نہیں جو گھر بیٹھے شنبہ دوشنبہ‘‘ سب کو ایک ہی لاٹھی ہانکا کرتے ہیں اور ان کو خبربھی نہیں ہوتی کہ ہفتہ کے بعد کون سا دن آنے والا ہے۔ سچ تو یہ ہے کہ وہ لوگ اتوار کی کیا قدر کرسکتے ہیں۔ ان کے نزدیک جیسے بدھ اور منگل ویسے ہی اتوار۔ اس اتوار کی قدر تو کوئی ہمارے دل سے پوچھے کہ یہی وہ دن ہے۔

    دن گنے جاتے تھے جس دن کے لئے

    یقین کیجئے کہ اس دن کا انتظار پیر کے دن سے شروع ہوجاتا ہے۔ بات اصل میں یہ ہے کہ ہمارے ایسے بیچارے ملازمت پیشہ خدا کے بندے اپنی ذاتی زندگی کا دن تمام ہفتہ صرف اتوار ہی کو سمجھتے ہیں، اس کے علاوہ باقی تمام دن کی بندگی اوربیچارگی میں اس طرح گزارتے ہیں کہ ہم کو اپنے انسان ہونے کا ایک دفعہ بھی احساس نہیں ہوتا، معلوم ہوتا ہے کہ کوئی مشین ہے، اگر لکھنے والا بٹن دبا دیا گیا تو لکھ رہے ہیں، اگر بیٹھنے والا پرزہ چلا گیا تو بیٹھے ہوئے ہیں، مختصر یہ کہ صبح ہوتے ہیں دفتر آنا، دفتر میں ایک مقررہ خدمت انجام دینا شام کو دفتر سے جانا سب کچھ اس طرح ہوتا ہے کہ

    اپنی خوشی نہ آئے نہ اپنی خوشی چلے

    کی ایک متحرک تصویر معلوم ہوتے ہیں۔ ہم نے کبھی یہ غور نہیں کیا کہ علاوہ اتوار کے ہم انسان بھی رہتے ہیں یا نہیں اور نہ اس مسئلہ پر غور کرنے کا موقع ملا لیکن جب کبھی اتوار کے دن ہم نے اپنی زندگی پر غور کیا تو یہی نتیجہ نکلا کہ ہماری زندگی کے دن شمار کرنے والے جو چاہیں شمار کریں لیکن ہم تو یہی سمجھتے ہیں کہ بس اتوار کا دن تو ہماری زندگی کے دنوں میں شمار کئے جانے کے قابل ہے اس کے علاوہ باقی دن تو خدا جانے ہم زندگی بسرکرتے ہیں یا زندگی ہم کو بسر کرتی ہے اب اس سے اندازہ فرمائیے اگر بجائے بہادر شاہ ظفر کے آپ کے جناب غالب صاحب قبلہ ہم کو یہ دعا دیتے ہیں کہ

    تم سلامت رہو ہزار برس

    ہر برس کے ہوں دن پچاس ہزار

    تو یا تو ہم ان سے کہتے کہ قبلہ عالم یہ دعا آپ ہی کو مبارک رہے۔ ہم کو تو ایسی دعا دیجئے کہ ہماری جتنی زندگی بھی ہے اس میں چاہے کچھ تخفیف کردی جائے لیکن ہر دن اتوار بن جائے یا کم از کم ہفتہ میں دوتین مرتبہ تو اتوار آیا کرے۔

    ذرا غور تو فرمائیے کہ ایک اتوار کا دن ہفتہ بھر کے بعد آتا ہے جس میں معمولی دنوں کی طرح بارہ گھنٹے ہوتے ہیں۔ ان ہی بارہ گھنٹوں میں اپنی خوشی کھانا کھائے، اپنی خوشی نہائے، اپنی خوشی بال بنوائے، اپنی خوشی سیر کو جائیے اوراگر کہیں اپنی خوشی سورہے توتمام کام آئندہ اتوار تک ملتوی یا اگر بیگم صاحبہ نے موقع غنیمت جان کر اور وقت کی قدر کرتے ہوئے اپنی خوشیاں پوری کرانا شروع کردیں تو بس دن بھر گھر سے بزاز کی دکان، گھر سے اناج کی منڈی، گھر سے جوتے والے کی دکان، گھر سے گوٹا کناری، لیس، بانکڑی والے کی دکان کے سوسو چکر کاٹنے اور چورن چٹنی دال کا مسالہ فراہم کرتے کرتے شام کو اس طرح تھک کر پڑے رہیے گویا دن بھرہل جوتا ہے۔ قصہ یہ کہ ہمارا تمام پروگرام ہفتہ بھر اتوار کے دن کے لیے ملتوی رہتا ہے اور اسی طرح بیگم صاحبہ بھی اتوار کی تاک میں لگی رہتی ہیں،

    نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ اتوار کے دن ہمارا ذاتی پروگرام ایسا ہوجاتا ہے کہ ہفتہ بھرکا کھایا یا پیا نکلوا کر چھوڑتا ہے۔ ہم تو تمام ہفتہ یہ کرتے ہیں کہ بالوں پر ہاتھ پھیرا اور زیر لب کہہ دیا اب کی اتوار کو بنوائیں گے، جوتے پرنظر پڑی اور طے کرلیا اب کی اتوار کو پالش ہوگی، کپڑوں کو دیکھا اور ارادہ کرلیا کہ’’اب کی اتوار کو نہا کر بدلیں گے۔‘‘ کسی نے نہ ملنے کی شکایت کی تو وعدہ کرلیا کہ اب کی اتوار کو حاضر ہوں گا، کوئی مرگیا تو تعزیت کے لیے بھی اتوار کا دن مقرر کیا گیا، کسی نے ہم سے ملنے کو کہا تو اتوار کا دن دیا، کہیں سفر کو جانا ہے تو اتوار کے دن کی سفر کی ٹھہری، شکار کو دل چاہا تو اتوار پر اٹھا رکھا۔

    غرضیکہ تمام ہفتہ جو جو باتیں ہم کو اپنی زندگی کے متعلق یاد آئیں ہم نے سب کو اتوار کے سپرد کردیا لیکن ہم کو یہ خبر نہیں ہوتی کہ اسی طرح بیگم صاحبہ نمک ختم ہونے پر، کپڑے پھٹنے پر، زیور ٹوٹنے پر، غرضیکہ ہر بات پر اتوار کو یاد کیا کرتی ہیں اور اتوارکے دن ان کووہ باتیں سوجھتی ہیں کہ ہمارے فرشتوں کو بھی نہیں سوجھ سکتیں۔ وہ تو کہئے اس دن ہمارے دفتر کی طرح ہسپتال کچہریاں، ڈاک خانہ، مدرسے وغیرہ سب بند ہوتے ہیں ورنہ بچوں کو ہسپتال لے جانا، سکول میں نام لکھوانا وغیرہ بھی اسی دن پر اٹھا رکھا جاتا اور اب شکر ہے کہ ہم کو اس سے ایک طرح کی یکسوئی حاصل ہے اس میں شک نہیں کہ اتوار کے دن کی مشغولتیں معمولی دنوں سے دگنی اور چوگنی ہوتی ہیں لیکن اس کے باوجود ہم اتوار کے عاشق صرف اس لئے ہیں کہ وہ تمام مشغولتیں ہم کو اپنی او ر اپنی ذاتی زندگی سے متعلق معلوم ہوتی ہیں اور باقی دنوں میں تو نہیں معلوم ہم کس طرح اور کس کے لئے جیتے ہیں۔

    Additional information available

    Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.

    OKAY

    About this sher

    Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.

    Close

    rare Unpublished content

    This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.

    OKAY

    Jashn-e-Rekhta | 13-14-15 December 2024 - Jawaharlal Nehru Stadium , Gate No. 1, New Delhi

    Get Tickets
    بولیے