جانا ہمارا کاک ٹیل پارٹی میں
ڈی۔ جے اور انگرکھا
’’تمہارے پاس D.J ہے؟‘‘ مسٹر اینڈرسن نے پوچھا۔
’’یہ کیا ہوتی ہے؟‘‘
’’ڈنرجیکٹ۔ بلیک ٹائی۔‘‘
’’وہی جس کا کالر سیاہ ساٹن کا ہوتا ہے اور پتلون پر بینڈ بجانے والو ں کی سی ریشمی پٹی لگی ہوتی ہے؟‘‘
’’سلواتو لو۔ بینک سے ڈسمس ہونے کے بعد بینک کی انتظامیہ کی طرف سے بینڈ بجانے پر کوئی پابندی نہیں۔ تم نے سنا ہوگا، ڈنرجیکٹ پہن کر تو بینکر کی بھی اشرافوں کی سی صورت نکل آتی ہے۔‘‘
’’سر! میں ڈنرجیکٹ پہن کر کہاں جاؤں گا؟ اردو میں مثل ہے کہ جنگل میں مور ناچا کس نے دیکھا۔‘‘
’’ HOW STUPID! جاننا چاہیے کہ مور تو صرف اپنی مادہ کو دکھانے کے لیے ناچتا ہے۔ اسے آدمیوں سے کیا رغبت ہوسکتی ہے؟ پروموشن کے بعد تم بوٹ کلب یا سندھ کلب کے ممبر نہیں بنے؟ کیا ساری تنخواہ دال روٹی پر ہی ضائع کر دیتے ہو؟ اب تو غیر یورپین بھی ممبر ہو سکتے ہیں۔‘‘
’’میں بس سے آتا جاتا ہوں۔ پیر الٰہی بخش کالونی کے بس اسٹاپ کے بھیڑ بھڑ کے، کشتم پچھاڑ سے دل ڈرتا ہے۔ دوڈھائی میل پیدل چل کر صبح گرو مندر سے بس پکڑتا ہوں، تاکہ دفتر بغیر قمیص کے نہ پہنچوں۔‘‘
’’بینک کے جنرل منیجر کو اس سے سروکار نہیں کہ تم اپنے نیم رضامند وجود کو ڈرائنگ روم سے بینک میں کس طرح ڈھو کر لاتے ہو۔‘‘
’’بائی دی وے، میرے کوارٹر میں کوئی ڈرائنگ روم نہیں ہے۔ ہمارے حصے میں ایک کمرہ آیا ہے، جس میں قالین بھی نہیں۔ WALL-TO-WALL بچے بچھے رہتے ہیں۔‘‘
’’میں تمہاری مفلوک الحالی کی بے مثل منظر کشی سے بے حد متاثر ہوا ہوں۔ لیکن یاد رہے کہ مغرب میں ذاتی مشکلات کا ’اسٹرپ ٹیز‘ بدمذاقی سمجھی جاتی ہے۔ اچھا تو ۲۷ تاریخ کو میرے ساتھ کاک ٹیل میں چلنا۔ پھر تمہیں CALEDONIAN SOCIETY کے ANNUAL BALL میں بھی لے چلوں گا۔ اسکاٹ کلچر اور پہناوے دیکھ کر آنکھیں پھٹی کی پھٹی رہ جائیں گی۔ ڈنر جیکٹ فوراً بنوا لو۔ افسوس کہ تمہارا کوئی معقول ’فارمل ڈریس‘ نہیں۔ تمہارے جتنے بھی پہناوے ہیں سب کے سب UNSCIENTIFIC‘‘
’’کیسے؟‘‘ ہم نے بات کو طول دیا کہ وہ باتیں کرنے کے موڈ میں تھا۔
’’عجیب بات ہے۔ عورتیں تو اپنے خوب صورت چہرے کو نقاب سے اور ملحقہ ارتفاعی تجاوزات کو دوپٹے سے ڈھانک لیتی ہیں اور مرد؟ برا نہ ماننا۔ میں نے کلکتہ میوزیم میں اودھ کے نواب کی تصویر دیکھی تھی۔ ڈھاکہ ململ کے انگرکھے میں سے ایک عدد نوابی چوچی بطور نمونہ باہر نکال رکھی تھی۔ دوسری بھی ویسی ہی ہوگی۔ VERY UNSCIENTIFIC! اپنے لباس پر غور تو کرو۔ ۱۱۶ ڈگری ٹمپریچر میں سر پر بیس گز لمبا صافہ، اور جنوب میں دس گز گھیر کی شلوار! مانسون کی امس میں اچکن اور ناف سے لے کر ٹخنوں تک سرکس والوں کا سا انڈرویئر۔ کیا کہتے ہیں اسے؟‘‘
’’چوڑی دار پاجامہ۔‘‘
“ALL VERY UNSCIENTIFIC! ”
’’لیکن یوروپین لباس اس سے بھی زیادہ ان سائینٹفک ہے۔ یورپ میں برف گر رہی ہو اور ٹمپریچر نقطہ انجماد سے بیس ڈگری کم ہو تو ہٹے کٹے مرد تو گھنٹوں تک دوہرے اُونی موزے، LEGGING اور گرم پتلون پہنتے ہیں اور نازک اندام عورتوں کی ٹانگیں، رانوں تک کھلی رہتی ہیں!‘‘
’’سودخور ملا! تمہیں ننگی ٹانگوں پر کیا اعتراض ہے؟‘‘
’’سر! مجھے تو باقی ماندہ لباس پر اعتراض ہے۔‘‘
’’تم نے کل مجھے بیلجین فرینک کا بھاؤ غلط بتا دیا۔ آئندہ ایسی غلطی نہ کرنا۔‘‘ اس نے اس طرح کہا جیسے ہمارا فقرہ سنا ہی نہیں۔
مے سے غرض نشاط ہے کس روسیاہ کو
یہ وہ زمانہ تھا جب برٹش کمپنیوں، فوج، آئی سی ایس اور انگریزوں کی ماتحتی میں کام کرنے والے دیسی افسر اپنے آپ کو روشن خیال، سوشل اور اہل ثابت کرنے کی خاطر دل پر جبر کر کے شراب پینا سیکھتے تھے۔ کچھ دن کی مشق کے بعد ایسے رواں ہوتے کہ نہ پینے کے لیے دل پہ جبر کرنا پڑتا تھا۔ روز کہیں نہ کہیں کاک ٹیل پارٹی ہوتی تھی اور آدمی ذرا سوشل اور خوش اخلاق ہو تو سال کے ۳۶۵ دن دوسروں کے خرچ پر خود کو ہر شام الو بنا سکتا تھا۔ کاک ٹیل پارٹی بیک وقت انگریزوں سے تقریب بہر ملاقات، مفت مے نوشی اور صاحبان امروز تک رسائی کا پاسپورٹ ہوتی تھی۔ عجب مخمصہ تھا۔ کچھ مسلمان افسر تو اس الزام میں نکال دیے جاتے تھے کہ وہ سوشل نہیں، یعنی شراب نہیں پیتے۔ بقیہ افسروں کو اس بناپر برخاست کردیا جاتا کہ وہ ALCOHOLIC ہوگئے ہیں اور مکسڈ پارٹیز میں دند مچانے لگے ہیں۔
دوچار ہی خوش قسمت ایسے ہوتے ہیں جو برخاست ہونے کی ذلت سے بچ جاتے تھے۔ یہ وہ ہوتے تھے جو ڈسمس ہونے سے پہلے ہی جگر کے ’’سروسس‘‘ میں باعزت طریقے سے وفات پا جاتے تھے۔ راویانِ رنگین بیاں سے روایت ہے کہ قرونِ وسطیٰ میں انگلینڈ میں لوگ بھوت پریت کے بڑے قائل تھے۔ ہر کسی عورت پر چڑیل ڈائن کا شبہ کرتے۔ پھر یہ تحقیق کرنے کے لیے کہ وہ واقعی چڑیل ہے یا بے گناہ، گاؤں کے پنچ پٹیل اس کے ہاتھ پاؤں رسیوں سے کستے اور بھاری پتھر سے باندھ کر نزدیک ترین دریا میں پھینک دیتے۔ اگر وہ ڈوب جائے تو یہ اس بات کا ثبوت تھا کہ وہ چڑیل نہیں، بالکل معصوم تھی۔ اور اگر نہ ڈوبے تو اس کا چڑیل ہونا مسلم۔ اس صورت میں اسے پانی سے نکالتے۔ گرم کپڑے پہناتے۔ اچھے اچھے کھانے کھلاتے۔ اور پھر آگ میں زندہ جلا دیتے کہ چڑیل کی اس زمانے میں یہی سزا تھی۔ الزاموں کی نوعیت بدلتی رہی ہے، مگر زمانے کا طرزِ تعزیر آج بھی وہی ہے۔
بنا ہے شہ کا مصاحب پھرے ہے اِتراتا
مسٹر اینڈرسن کچھ دن سے ہم پر مہربان تھے۔ ہم ان کے مشیر خاص تھے۔ مطلب یہ کہ ہر اہم مسئلہ پر وہ ہم سے مشورہ لیتے اور ہمیشہ اس کے خلاف عمل کرکے کامیاب ہوتے۔ دوسرے دن انہوں نے پھر تاکیداً کہا ۲۷ تاریخ نہ بھولنا۔ ایسی کاک ٹیل پارٹیوں کے دعوت نامے حاصل کرنا تمہارے فرائض منصبی میں داخل ہے۔ چوٹی کے انگریزوں سے میں خود تمہارا تعارف کراؤں گا۔‘‘ ادھر کچھ عرصہ سے ہم خود محسوس کر رہے تھے کہ ہرچند ہماری تنخواہ میں ایک پیسے کا بھی اضافہ نہیں ہوا، لیکن جب سے ہم چیف اکاونٹنٹ، سیکرٹری اور انسپکٹر آف برانچز کے عہدوں پر بیک وقت فائز ہوئے ہیں، ہماری ’’امیج‘‘میں ایک خوشگوار تبدیلی آگئی ہے۔ ہمارا مطلب یہ ہے کہ اسی تنخواہ میں ہم بہتر سگرٹ دوٹکڑے کرکے پینے لگے تھے۔ ڈالڈا چھوڑ کر اب اصلی گھی کے نام پر دھوکا کھانا شروع کردیا تھا۔ لباس اور اس کے لوازمات سے بھی نخوت جھلکتی تھی۔ یعنی ٹائی کی گرہ پھولی ہوئی ہوتی تھی۔ اب ایسے موزے بھی نہیں پہنتے تھے جن میں ایسا سوراخ ہو جس میں سے گردن نکال کر انگوٹھا آزادی کا سانس لے سکے۔
جس محلے میں تھا ہمارا گھر
چاؤ میں اگلے ہفتے مکان بھی تبدیل کرلیا۔ اس محلے میں ایک نہیں، کئی سوداگررہتے تھے۔ علاقے کے POSH ہونے کا اندازہ اس سے لگا لیجئےکہ ہماری چھوٹی بٹیا ہمسائے کے بچوں کے بارے میں ہم سے پوچھنے لگی، بابا! یہ ہر روز عید کے کپڑے کیوں پہنے پھرتے ہیں؟ گڈومیاں نے ہمسائے کی دیواروں پر ساگوان کی PANELLING اپنی چھ سالہ زندگی میں پہلی بار دیکھی تو ہم سے کہا کہ انہوں نے دیواروں پر بھی فرنیچر لٹکا رکھا ہے۔ چند روز بعد دائیں ہاتھ والی پڑوسن نے بتایا کہ بائیں ہاتھ والی پڑوسن کہہ رہی تھی کہ ہم اپنے بچوں کو اس کے نئے قالین پر حوائجِ ضروری سے فارغ کروانے لے جاتے ہیں۔ ملاقات ولاقات تو محض بہانہ ہے۔
’’کوئی پوچھے، انہیں اس LOCALITY میں آنے کی کیا مار پڑی تھی۔ ایرانی قالین دیکھے بغیر لاڈلوں کا پیشاب نہیں اترتا۔‘‘ ہمارےغسل خانے میں کائی لگے گھڑوں اور ٹنکی کے بجائے اب گرم اور ٹھنڈے پانی کا اہتمام تھا۔ یعنی واش بیسن کی ٹونٹی سے گرمیوں میں گرم اور سردیوں میں سرد پانی نکلتا تھا۔ مہینے کے آخری تاریخوں میں کوئلے سے دانت نہیں مانجھتے تھے، بلکہ ٹیوب پر کود کود کر ٹوتھ پیسٹ کشید کرتے تھے۔ مختصر یہ کہ ہر چیز سے افسری کی شان ٹپکنے لگی۔ بینک اکاؤنٹ سے بھی سرخی جھلکنے لگی۔
انہی دنوں اینڈرسن نے اپنا جی۔ ای۔ سی کا پرانا فرج از راہِ پرورش چار سو روپے میں ہمیں فروخت کردیا۔ نیا ساڑھے سات سو میں آتا تھا۔ ہمارے ہاں مہینوں اس میں پپیتے لڑھکتے اور بینگن برفاتے رہے۔ پہلے دن تو ہم نے اس میں کوری صراحی بھی رکھی دیکھی تھی۔ تین چار دن استعمال کرنے کے بعد معلوم ہوا کہ اس کا موٹر اینڈرسن کے مزاج کی طرح ہے۔ یعنی چار پانچ منٹ چل کر آگ بگولا ہو جاتا اور شور و غوغا کرنے لگتا۔ اسے ٹھنڈا رکھنے کے لیے ہم نے اسی کمپنی کا بنا ہوا پنکھا سوا تین سو میں خریدا۔ نئے فرج کے مقابلے میں مجموعی سودا پھر بھی ۲۵روپے سستا پڑا۔ اور انہی داموں ایک کے بجائے دو چیزیں ہاتھ لگ گئیں۔ پنکھا چوبیس گھنٹے فرج کے بلڈپریشر کو بگڑنےسے باز رکھتا تھا۔ گرمی زیادہ پڑے تو ہم اپنی مصالحتی چارپائی پنکھے اور فرج کے درمیان ڈال لیتے تھے۔
پیرہن یوسفی
اب ہم اجلے پوشی کا آٹھ آنے یومیہ تاوان ادا کر کے، پیر الہی بخش کالونی لانڈری سے اپنے کپڑے اس ’ارجنٹ‘ بیدردی سے نہیں دھلواتے اور پھڑواتے تھے جو قمیص صبح دفتر جاتے وقت دے گئے وہ اسی شام شتابی چھڑوالی یا گھر پر ’ڈیلیور‘ کر دی گئی۔ اس زمانے میں ہم اپنی میلی قمیص رات کو دھوبی کے پاس ہرگز نہیں رہنے دیتے تھے۔ اب ہم نے ۸ روپے سیکڑا پر تین قمیص دھونےکے لیےایک نیا دھوبی لگا لیا۔ کپڑوں کی چوری بھی نہیں کرتا تھا۔ بلکہ طبیعت میں اتنی احتیاط تھی کہ پہلے ہی دَھوب میں دو قمیصوں کے کالروں کی دونوں نوکوں پر سامنے کی طرف دھوبی مارکہ لگادیا تھا تاکہ ان نشانوں کو دیکھ کر احباب پہچان جائیں کہ قمیص کے نیچے ہم ہی ہیں۔
پچھلا دھوبی کالر پر تو استری اچھی نہیں کرتا تھا مگر موزوں اور انڈرویئر میں خوب کلف لگاتا تھا۔ بنیان میں کلف لگا کر سکیڑنے کی شکایت ہم نے قصداً نہیں کی۔ اس لیے کہ ۳۶ انچ کا جو بنیان دھلنے جاتا تھا وہ ۴۶ انچ کا ہوکر آتا تھا۔ میانوالی کے اس دھوبی کی چوڑی چھاتی سے تنگ آکر ہم نے خود ڈھونڈ ڈھانڈ کر یہ لکھنؤ کا دھوبی لگایا تھا کہ اس کے ناپ ہم سے ملتے تھے۔ لیکن ہم یہ دیکھ کر بھونچکے رہ گئے کہ بنیان پہلے ہی دَھوب میں ۵۶ انچ کا ہوگیا۔ اور اس میں باسکٹ بال کی سی دو ٹوکریاں بھی بن گئیں۔ اگلی دھلائی پر وہ ایک لڈو چاند سا بیٹا ہونے کی خوشی میں لایا۔ نومولود کا وزن ایک پنسیری بتاتا تھا جس کی تصدیق ہمارے بنیان سے بھی ہوتی تھی۔
باقی رہا دفتر، تو وہی کلرک جن کی ہم نے خوشامد کر کے کام سیکھا تھا، اب ہمیں پہلے تمیز سے ’سر! ‘ کہتے پھر آنکھ مار کے ہماری جمع و تفریق کی غلطی نکالنے کی جسارت کرتے۔ جمعدار اجمل خاں اب ہمیں تم کہنے لگا۔ پہلے تسی کہتا تھا۔ غرض کہ جیسا آپ نےملاحظہ فرمایا ہماری قدر و قیمت اپنی نظرں میں کافی بڑھ چکی تھی۔ بعض لمحے ایسے بھی آنےلگے جب یوں محسوس ہوتا گویا ہم ہندو دیو مالا کی وہ گائے ہیں جس کے سینگوں پر دنیا ٹھیری ہوئی ہے۔ جب وہ تھکن سے جھرجھری لے کر سینگ بدلتی ہے تو بھونچال آجاتا ہے۔ کراچی کی بڑی بڑی دعوتوں میں بھی ہم مدعو ہونے لگے۔ بڑی دعوتوں سے ہماری مراد ایسی تقریبیں ہیں جن میں مہمانوں کی تعداد چار ہزار سے زیادہ ہو اور جہاں مدعوئین کی فہرست ٹیلی فون ڈائرکٹری نقل کرکے مرتب کی جاتی ہے۔ ان میں ہمیں، مع میزبان، کوئی نہیں پہچانتا تھا، سوائے تمبو قناتوں والے نظام دین کے آدمیوں کے، جن سے روز روز کی ملاقات کے سبب خاصی بے تکلفی ہوگئی تھی۔
کاک ٹیل کے آداب
خدا اور اس کے بندے ماریں یا چھوڑیں، جھوٹ نہیں بولیں گے۔ جب اینڈرسن سے یہ سنا کہ یہاں شراب پینا فرائض منصبی میں داخل ہے تو ایک دفعہ تو عجب روحانی انشراح محسوس ہوا۔ دھیرے دھیرے پارٹی کی تیاریاں ہونے لگیں۔ ابھی دو ہفتے پڑے تھے۔ پروفیسر قاضی عبد القدوس ایم۔ اے (گولڈ میڈلسٹ) سے کاک ٹیل پارٹی کے آداب بے خودی کے بارے میں استصواب کیا تو انہوں نے کم و بیش وہی معلومات فراہم کیں جو شیخ سعدی کے زمانے میں بھی دستیاب تھیں۔ مثلاً یہ کہ شراب، شباب اور دولت۔۔۔ انہیں پاکر جو مست نہ ہو، وہی مرد ہے۔ عرض کیا، جن بچاروں کو یہ لعنتیں میسر نہ ہوں ان کے مرد ہونے کا بھی کوئی چانس ہے کہ نہیں؟ بولے، کیوں نہیں۔ مرد باید کہ ہراساں نہ شود۔ ہراساں پر عرفی کا ایک شعر سنو۔
جو شعر انہوں نے سنایا اس کا عرفی سے ہی نہیں، ہراساں ہونے سے بھی کوئی تعلق نہ تھا۔ شعر کا سرور بڑھا اور زبان کھلی تو فرمایا کہ غالب نے مے کے مقابلے میں شہد کو مگس کی قے کہا ہے۔ شعر اور شراب دونوں ہی دافع حجاب ہیں۔ اور یہ نہ بھولو کہ تمہارے پیشے میں حجاب حرام ہے۔ کبھی تم نے غور کیا، شراب کو ’ڈرنکس‘ کہا جائے تو کم حرام معلوم ہوتی ہے! اور ہاں! جب نظریں نظروں سے اور شرابیں شرابوں سے ملیں تو کاک ٹیل ہرجائی کے پیار کی مانند تند و تیز ہو جاتی ہے۔
’’کیا لوگ شرابوں کا بھی ’دین الہی‘ بناتے ہیں؟‘‘ ہم نے ان کے ہیرو اکبر اعظم پر چوٹ کی۔
’’اسی کو تو کاک ٹیل کہتے ہیں۔ آکسفورڈ ڈکشنری میں آیا ہے کہ۔۔۔‘‘
ان کی علمی اڑان بڑھتی چلی گئی تو ہم نے ’بیلی لینڈنگ‘ کراتے ہوئے پوچھا، ’’پروفیسر! کاک ٹیل پارٹی میں گلاس کون سے ہاتھ میں پکڑتے ہیں؟‘‘ بولے، ’’آف کورس! دائیں ہاتھ میں۔‘‘ پوچھا، ’’پھر مصافحہ کون سے ہاتھ سے کریں گے؟‘‘ ذرا دیر کو سوچ میں پڑگئے۔ پھر فرمایا، ’’اگر دوسرے نے بھی گلاس دائیں ہاتھ میں تھام رکھا ہو تو پھر بائیں ہاتھ ہی سے مصافحہ واجب ہے۔‘‘
مرزا عبد الودود بیگ سے صلاح کی تو اس ابتدائی اعلان کے بعد کہ کاک ٹیل پارٹی ملک کی مضبوط ترین پارٹی ہے، فرمایا، ’’دو پریکٹیکل ٹپ دیتا ہوں۔ اول یہ کہ یہ شے کڑوی ہوتی ہے۔ منھ نہیں بگاڑنا چاہیے۔ تمہارا تو سارا بچپن جوشاندے، کونین مکسچر، کیسٹرآئل، ٹنکچر آیوڈین اور چکرورتی کی ارتھمیٹک سے ہی شغل کرتے گزرا ہے۔ پھر کیا ڈرنا؟ ہائے! کیا خوب کہا ہے ظالم نے،
جو پینے والے ہیں وہ پی کے منہ بناتے ہیں
جناب شیخ جو ہیں، منھ بناکے پیتے ہیں‘‘
پوچھا، ’’اور اگر ہم بالکل نہ پئیں تو کس وقت منہ بنانا مناسب و مباح ہوگا؟‘‘
’’مگر یہ تو حضور والا کے چہرے کا نارمل ایکسپریشن ہے! خیر۔ دوسرا ٹپ میں نے رسالہ MEN ONLY میں دیکھا تھا۔ لکھا تھا کہ کاک ٹیل پارٹی میں کوئی بھی بیٹھ کر شراب نہیں پی سکتا۔ مکروہ ہو جاتی ہے۔‘‘
پوچھا، ’’کیوں؟‘‘
پہلے تو چکرائے۔ پھر سنبھل کر بولے، ’’ہاں! کاک ٹیل میں سب کھڑے ہوکر پیتے ہیں۔ تاکہ جب گر پڑیں تو اندازہ ہو جائے کہ اب اعتدال لازم ہے۔‘‘
سیاہ چاول، رم اور مغرور گردن والی
جیسے جیسے ۲۷ تاریخ نزدیک آتی گئی، ہماری گھبراہٹ میں اضافہ ہوتا گیا۔ راہ راست سے بھٹکانے والا کوئی رہبر نہ ملا کہ ہماری دوڑ پاک بوہمیین کافی ہاؤس تک تھی۔ بالآخر نواب زادہ غفران اللہ خاں سے رجوع کیا جو کراچی کے ہر کلب کے ممبر تھے اور جن کے بغیر شہر کی کوئی کاک ٹیل پارٹی مکمل نہیں سمجھی جاتی تھی۔ ہر فقرے پر، خواہ اپنا ہو یا پرایا، بے ساختہ قہقہے لگانے کے سبب THE LAUGHING CAVALIER کہلاتے تھے۔ صورت بھی ہال کی اسی نام کی شہرہ آفاق پینٹنگ سے ملتی تھی۔ اینڈرسن کے ہم پیالہ تھے۔ ہم پر شفقت فرماتے تھے۔ باتو ں میں وہ رس اور رچاؤ جو علم مجلسی، چھکی چھکائی جنسی آسودگی، میٹھے سبھاؤ اور پندرہ ہزار ایکڑ اراضی سے پیدا ہوتا ہے۔ شہر سے باہر ان کا بہت بڑا باغ تھا جس میں بوگن ولیا کی سو سے زیادہ قسمیں تھیں۔
ویسے بڑے با اصول، انسان دوست اور جفاکش آدمی تھے۔ نانِ حلال اور آبِ حرام پر گزارہ تھا۔ بڑے لطف و مرحمت سے پیش آئے۔ جاپان سے منگائے ہوئے گلابوں کے تختوں کی سیر کروائی۔ وہ قطعہ بھی دکھایا جس پر انہوں نے سیاہ چاول کاشت کیے تھے۔ ہم نے پوچھا، یہ کوئی افریقی ورائٹی ہے؟ بولے، نہیں۔ جنوبی امریکہ گیا تھا تو دو چار مٹھی بیج اوورکوٹ میں چھپا کرلے آیا۔ لندن سے HYDRANGEA پھول کے بلب بھی اسی طرح اسمگل کیے تھے۔ مشی گن میں بھی جنگلی چاول ہوتا ہے، مگر وہ بات کہاں۔ اس سال بیس سیر چاول نکلے۔ سات ہزار لاگت آئی۔ جاتے وقت ۱/۲ پونڈ سوغات لے جانا نہ بھولنا۔ ہم نے پوچھا، انہیں کھاتے کیسے ہیں؟ فرمایا، سیاہ چاول تو مغرور گردن والی میلرڈ (مرغابی) اور گلابی رم کے ساتھ مزہ دیتے ہیں۔ دسمبر میں یاد دلانا۔ ان کا بھی بندوبست کردوں گا۔ اسکندر مرزا بڑے شوق سے کھاتا ہے۔
عرض کیا، حاجت روائی ہی مقصود ہے تو اب کی مہاوٹ حضور صرف مغرور گردن والی کا بندوبست فرمادیں۔ اور نسخہ کے بقیہ مقویات کسی اور حقدار کو پہنچا دیں۔ کہنے لگے، پہنچانے کی بھی ایک ہی کہی۔ تمہارا خیال ہے کہ چوہے دان خود چل کر چوہے کے پاس جاتا ہے؟ ہاں! تحلیل غذا کے لیے تمہیں آدھ گھنٹے ڈارو تھی (ان کی سکریٹری) کے ساتھ ڈانس کروادوں گا۔ اَگے تیرے بھاگ لچھئے۔ اسی کی RECIPE سے ایک نئی ڈش بھی کھلاؤں گا جو فرانس میں انگور کی بیل کی سوکھی ڈنڈیوں کی نشیلی آنچ پر پکائی جاتی ہے۔ اس پر شیری کا چھینٹا دیتے ہیں۔
بعد ازاں اپنی زمیں دوز بار میں لے گئے۔ چار پانچ بٹن دبائے تو رنگ برنگی روشنیوں سے ان کے چہرے پر وہ دلآویز نرمی اور شادابی نظر آنے لگی جو دھیمے پیسٹل رنگوں میں ہوتی ہے۔ ایک کونے میں نیگرو عورت کا لائف سائز برہنہ مجسمہ رکھا تھا۔ اس کے ایک ہاتھ میں شب تاب تسبیح تھی اور دوسرے میں انسانی کھوپڑی کا پیالہ۔ عورت کا جوڑا اٹھا کر دوپیگ ڈال دیں تو دوسری طرف غذائی غدودوں سے وہسکی رسنے لگتی۔ ایک ممتا بھری نپل پر لپ اسٹک کا تازہ نشان اور دوسری سے سگار کی مہک آرہی تھی۔ گلے میں ایک بب بندھا تھا جس پر مردانگی و شجاعت کے دیوتا ہرکولیز کی تصویر کڑھی تھی۔ بائیں جانب طاقچے میں گوتھک طرز کی ایک خانقاہ بنی ہوئی تھی اور اس کے ادھ کھلے دروازے پر سیمول جانسن کے یہ اشعار آبدار کندہ تھے جنہیں ہم شراب نوشی کی تبلیغ کے لیے نہیں، بلکہ محض اس غرض سے نقل کر رہے ہیں کہ یہ اس داستان کے مرکزی کردار اینڈرسن کا فلسفہ حیات تھا جس کی وہ تلقین کرتے رہتے تھے۔ یہ تھا وہ یونانی فلسفہ جو اسکاٹ لینڈ کی شراب کی بھٹیوں سے گزر کر ہم تک پہنچا تھا،
Hermit hoar, in solemn cell,
Wearing out life’s evening gray;
Smite thy bosom, Sage, and tell
What is bliss, and which the way?
Thus I spoke; and speaking sigh’d;
Scarce repress’d the starting tear,
When the hoary sage reply’d,
Come, my lad, and drink some beer.
(اے ضعیف العمر راہب! تو اس تنگ و تاریک حجرے میں اپنی زندگی کی ملگجی شام کاٹ رہا ہے۔ بابا! تو کہ دانائے راز ہے، اپنے سینہ پر ہاتھ رکھ کے بتا کہ حقیقی مسرت کیا ہے اور اس کا راستہ کون سا ہے؟‘‘ میں نے یہ کہا اور آہیں بھر بھر کے کہا۔ میں اپنے امنڈتے ہوئے آنسوؤں کو روک ہی رہا تھا کہ وہ بڈھا پھونس راہب بولا، ’’بیٹا! میرے ساتھ آؤ اور تھوڑی سی بیئر پیو۔‘‘ )
انہوں نے اپنا ’’ڈیپ فریز‘‘ بھی دکھایا، جس میں انواع و اقسام کی شرابیں نہ جانے کب سے برف میں لگی منتظر تھیں کہ کوئی تشنہ کام ان سے جگر کی آگ بجھائے۔ خدا جھوٹ نہ بلوائے، ڈیپ فریز کی لمبائی چوڑائی ہمارے کمرے کے برابر ہوگی جو گرمیوں میں ایسا تنور ہو جاتا تھا کہ کبھی کبھی ہم کچی صراحی سے گال لگا کر آنکھیں بند کر لیتے یہاں تک کہ وہ جل اٹھتی۔ کہنے لگے کہ میں ان نو دولتیوں کی طرح نہیں ہوں جو ہر تیسرے مہینے یورپ جاتے ہیں اور سارا زرمبادلہ اور بچی کھچی جوانی نئی کاروں اور سیکنڈ ہینڈ کال گرلز پر خرچ کردیتے ہیں۔ میں تو ہر ملک کی نایاب WINE کے سوا، کوئی چیز لانا لحم الخنزیر کے برابر سمجھتا ہوں۔ یہ ڈیپ فریز لانے کا گنہ گار ضرور ہوں۔ سو وہ بھی انہی کو قرینے سے رکھنے کے لیے۔
ہم سا کہیں جسے
ایسی خوب صورت، سبک سبک بوتلیں، بلوری صراحیاں، رنگارنگ کنٹر، شیشے اور بویام ہم نے اپنی زندگی میں نہیں دیکھے تھے۔ تین چار سو سے کم نہ ہوں گے۔ ہماری نگاہوں کو ان پر آوارہ ہوتے دیکھ کر کہنے لگے کہ ان میں سے چار پانچ پسند کر لو۔ خالی ہوتے ہی گھر بجھوا دوں گا۔ ایک میں منی پلانٹ لگا کر نیک شگون کے لیے برآمدے میں لٹکا دینا۔ دوسری کا ٹیبل لیمپ بنواکر، اسی کی مدھر روشنی میں معاشیات کی کتابیں پڑھتے رہنا۔ ہم نے کہا پیر و مرشد! ایک بات سمجھ میں نہیں آئی۔ نشہ نشہ ہوتا ہے۔ دیس دیس کے لیبل سے کیا فرق پڑتا ہے؟ قہقہے کے بعد ارشاد ہوا، برخوردار! گھونسے، چٹکی، چھری، گنڈاسے اور بندوق کی چوٹ ایک جیسی نہیں ہوا کرتی۔ ہر ملک کے پھول، ہر دیس کی ناری کی بوباس جدا ہوتی ہے۔ وہسکی بہت حساس، بڑی تنک مزاج ہوتی ہے۔
سندھ کلب میں کبھی کسی نمازی بیرے کا ہاتھ لگ جائے تو بخدا سارا پیگ غارت ہو جاتا ہے! نشہ بڑی نازک شے ہے۔ یہ نازک سا فرق تمہاری سمجھ میں آگیا ہوتا تو آج تمہارے شانے شمپین باٹل کی طرح ڈھلکے ہوئے نہ ہوتے۔ پھر اس نازک سے فرق کو ذہن نشین کرانے کے لیے انہوں نے ہمیں شمپین کی بوتل نکال کر دکھائی۔ ہمیں اس بچاری پر بڑا ترس آیا۔
شراب، پھولوں اور کتوں کا کولمبس
پوچھا، ’’اس کنٹر میں کیا ہے؟‘‘ بولے، ’’روسی وودکا۔ ایک گھونٹ لیتے ہی آدمی پیچھے مڑکر دیکھتا ہے کہ کس نے گھونسا مارا۔ ایک ہی چلو میں الو!‘‘ پوچھا، ’’اور اس عطردان میں کیا بھرا ہے؟‘‘ فرمایا ’’پگھلا ہوا زمرد۔ فرانس کی سبز کا نیاک۔ ڈنر کے بعد کی چیز ہے۔ اس کے برابر آبِ حیات رکھا ہے۔۔۔ چیکوسولو واکیہ کی سونف کی وائن۔‘‘ دریافت کیا، ’’اور اس بلوریں مگدر میں؟‘‘ بولے، ’’ یہ ایک افریقی وائن ہے۔ مردوں کا ڈرنک سچ پوچھو تو بس یہی ہے۔ ایک چسکی لیتے ہی محسوس ہوتا ہے کہ، بقول شخصے، گلے سے مشعل بردار مظاہرین کا جلوس گزر رہا ہے۔‘‘ سوال کیا، ’’اور یہ بیل کو سانی کھلانے کی ناند میں کیا پڑا چھلک رہا ہے؟ اوراس میں ڈونگا کیوں ڈال رکھا ہے؟‘‘ ارشاد فرمایا، ’’اوہ! یہ ’پنچ‘ ہے۔ ایک دوست کے ہاں ہاؤس وار منگ پارٹی ہے۔ اسے بھیجنی ہے۔ اسی طرح ناند میں بھر کر لان پررکھ دی جاتی ہے۔‘‘ عرض کیا یہ تو غالب کے زمانے میں بھی ہوتا تھا،
صحن چمن میں رکھ دیں مے مشکبو کی ناند
جو آئے جام بھر کے ئپے اور ہو کے مست
سبزے کو روندتا پھرے پھولوں کو جائے پھاند
فرمایا، ’’چار مصرعوں کی رباعی کو تو ہندی میں چوپائی کہتے ہیں۔ آپ نے تو صحن چمن میں تپائی رکھ دی۔ میرے والد کی عادت تھی کہ کبھی کوئی بری خبر سنتے، یا کھڑی فصل کو پالا مار جاتا، یا خاندان میں غمی ہو جاتی تو شعر پڑھا کرتے تھے۔ آپ تو خوش ہوتے ہیں تب بھی شعر پڑھتے ہیں!‘‘ پھر پوچھا، ’’اور یہ کیا بلا ہے جو رنگت اور بوسے مست خچر کا قارورہ معلوم ہوتا ہے؟‘‘ کہنے لگے، ’’لا حول و لا قوۃ! یہ تو دنیا کی بہترین بیئر، میونخ بیئر ہے۔ نازی انقلاب کی بنیاد بیئر خانوں ہی میں رکھی گئی تھی۔‘‘
اردو زبان کی تہی دامنی کاگلہ کرتےہوئے فرمایا کہ ’’ہمارے ہاں ہرتیز پانی کے لیے صرف ایک گالی ہے۔۔۔ شراب! اسی طرح کتے کی اردو میں لے دے کے دو قسمیں ہیں۔ دوسری کو برادر خورد کہتے ہیں۔ اور آپ کو حیرت ہوگی، فارسی میں تو گلاب تک کے لیے کوئی علیحدہ لفظ نہیں۔ دیکھا جائے تو انگریز نے ہمیں۔۔۔ پورے بر صغیر کو۔۔۔ کتوں، پھولوں اور شراب کی مختلف اقسام اور نفاستوں سے روشناس کیا۔‘‘
ہم نے گرہ لگائی، ’’ورنہ یہاں کیا دھرا تھا۔
کہیں تھا مویشی چرانے پہ جھگڑا
کہیں پانی پینے پلانے پہ جھگڑا‘‘
فرمایا، ’’آپ غلط پڑھ رہے ہیں۔ مویشی چَرانے پہ عرب میں جھگڑا ہوتا تھا۔ اپنے ہاں چُرانے پہ ہوتا ہے۔‘‘
کاک ٹیل گائیڈ
لیجیے، دوڈھائی گھنٹے کے سوال و جواب سے مکمل ’’رہنمائے کاک ٹیل پارٹی‘‘ پہلے پیگ سے صبح کے HANG-OVER (خمار) تک۔۔۔ تالیف ہوگئی۔ خلاصۂ خرافات و خمریات نوآموزوں کی عاقبت سنوارنے کے لیے حاضر ہے،
۱۔ پہلا اصول تو انہوں نے یہ بتایا کہ جب تک کوئی مشترک شناسا تعارف نہ کرائے، کسی سے بات نہ کرو۔ انگریز تو جب تک باقاعدہ انٹروڈکشن نہ ہو، کسی کی گالی کا بھی جواب نہیں دیتا۔
۲۔ ایک ہی جگہ اتنی زیادہ دیر جم کر کھڑے نہ ہو کہ جملہ پورا ہوجائے۔ سرکولیٹ (گردش) کرتے رہو۔
۳۔ جو تم سے رتبہ میں چھوٹا یا بے فیض ہو، یا آگے چل کر کام نہ آسکے، اس کی صحبت سے گریز کرو۔ لیکن جو تمہارا نوٹس نہ لے، تم بھی اس کا نوٹس نہ لو۔
۴۔ سنجیدہ گفتگو سے پرہیز کرو۔ ورنہ لوگ سمجھیں گے کہ تم ابھی سے TIPSY (بہکے بہکے) ہو گئے ہو۔
۵۔ اگر ٹماٹر کی گادیا نمبوپانی پر توکل کرتے ہو تو کسی سے یہ ہرگز نہ کہو کہ شرعی ممانعت کے سبب نہیں پی رہے ہو، یا PRACTISING MUSLIM ہو۔ خونی پیچش کا بہانہ بنا دو۔
۶۔ اگر مذکورہ بالا الا بلا یعنی سافٹ ڈرنک پی رہے ہو، تب بھی لیڈیز سے بہکی بہکی باتیں کرو۔ کاک ٹیل کا سب سے بڑا فائدہ یہ ہے کہ مردوں کو بدتمیزی کرنے کا ایک معقول بہانہ مل جاتا ہے۔ عورت اگر خوب صورت ہے تو فلرٹیشن اس کا حق ہے۔ اور اگر بدصورت ہے تو اس کے ساتھ حتی الایمان فلرٹ کرنا آدمی کا اخلاقی فرض ہو جاتا ہے۔ تم بہت کم سخن، کم آمیز ہو۔ بند بند سے رہتے ہو۔ میں نے آدم جی کی پارٹی میں دیکھا کہ خواتین سے تعارف کے وقت تم اپنی نظر، نیت اور نیک ٹائی ہی درست کرتے رہ گئے۔ کیا زنانے میں پنپنے کی یہی باتیں ہیں؟ بچہ! ایسے سمے تو پلک چھپکانا بھی روپ کا اپمان ہے۔
۷۔ کاک ٹیل پارٹی میں ہر ایک سے اعتماد کے ساتھ، جم کے بات کرو۔ دوسرے کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کے بلکہ نکال کے۔ وہسکی کے ہر گھونٹ کے بعد اپنی بات کا وزن بڑھتا ہوا صاف محسوس ہوتا ہے۔ عرض کیا، پیر و مرشد! یہ کیفیت تو ’لبریم‘ کی گولی سے بھی پیدا کی جا سکتی ہے۔ فرمایا، بڑا فرق ہے۔ استاد ذوق نے کیا خوب کہا ہے۔ آب رز سے لکھنے کے لائق ہے۔
پیر مغاں کے پاس وہ دارو ہے جس سے ذوق
نامرد مرد، مرد جواں مرد، ہوگیا
لبریم کے بعد بلی کو چوہوں کی حاجت نہیں رہتی۔ پھر اسے خواب میں چھیچھڑے نظر نہیں آتے، بلے نظر آتے ہیں۔ لیکن شراب پی کر چوہے کی مونچھیں اتنی اکڑ جاتی ہیں کہ اپنے بل میں داخل نہیں ہوسکتا۔ پھر وہ بلی کی تلاش میں نکل کھڑا ہوتا ہے کہ کدھر گئی وہ مردار؟
۸۔ جب ہر بات FUNNY اور ہر چہرہ حسین دکھائی دینے لگے تو فوراً کوئی ترش چیز کھالو۔ یہ دستیاب نہ ہو تو اپنی بیوی کی تصویر بٹوے میں سے نکال کر ایک نظر دیکھ لو۔
۹۔ ڈھیلے کالر کی قمیص پہن کر جاؤ۔ نشہ میں کوئی گر پڑے تو بھول کر بھی اس کی نیند میں مخل نہ ہو۔ انگلینڈ میں اس صدی کے اوائل میں، جسے ایڈورڈین دور کہا جاتا ہے، اونچے کلبوں میں چھوٹے چھوٹے چھوکرے صرف اس کام پر تعینات ہوتے تھے کہ جیسے ہی کوئی معزز ممبر کرسی سے لڑھک کر گرے، وہ میز کے نیچے گھس کر کالر ڈھیلا کردیں تاکہ دم گھٹنے سے کلب میں موت واقع نہ ہو۔
۱۰۔ واپسی میں اپنا سارا وزن کار کے بریک پر ڈالے رکھو۔ بجلی کے کھمبے سے کار روکنے سے گریز کرو۔ کھمبے گرجائیں تو کتوں کو بہت تکلیف ہوتی ہے۔
۱۱۔ نشہ گہرا ہوجائے تو طبیعت سچ بولنے پر بے تحاشا مائل ہوتی ہے۔ لہٰذا گھر پہنچ کر بیوی سے بات چیت کرنے سے پرہیز کرو۔
۱۲۔ صبح آنکھ کھلتے ہی محسوس ہونے لگے کہ معاشرے میں اندھیر مچا ہوا ہے اور حکومت اپنی پالیسی سے قوم کو تباہی کے غارمیں دھکیل رہی ہے تو ایک اسپرین کھالو۔ دس منٹ کے اندر اندر حکومت کی پالیسی میں افاقہ محسوس ہوگا۔
روٹھی دھرتی
انہوں نے موسم کی ترکاریاں اور پھل ہمارے ساتھ کیے۔ اور جیپ میں بٹھا کر اپنے باغ اور فارم کی سیر کرائی۔ کہنے لگے، دس گھنٹے روزانہ کام کرتا ہوں۔ میرا باپ زمیندار تھا۔ مجھے بھی کھیتی باڑی سے لگاؤ ہے۔ اکثر ہوتا ہے کہ پارٹی سے رات کو ڈھائی تین بجے لوٹتا ہوں۔ مگر صبح ساڑھے چار بجے اپنے وقت پر اٹھ جاتا ہوں۔ گنہ گار ہوں۔ (وہ آبدیدہ ہوگئے۔) فجر کے بعد دو گھنٹے کھیتوں میں ضرور گزارتا ہوں۔ عجیب کیفیت ہوتی ہے۔ پوپھٹنے سے پہلے ہر تیسرے منٹ مطلع اور منظر کا موڈ آنکھوں کے سامنے بدلتا نظر آتا ہے۔ اجالے کی ہر لہر کے ساتھ چڑیوں کی چہکار کی لے بھی بدلتی جاتی ہے۔ پھر ایک ایک پھول سے باتیں ہوتی ہیں۔ سب سے اپنی یاری ہے۔
میں نے اپنی زندگی میں کوئی کوئی پھول ڈالی سے نہیں توڑا۔ گیہوں کی سنہری بالیں، دیکھتے ہی جھومنے لگتی ہیں۔ کبھی کوئی بوٹا اداس، ماندہ دکھائی دے تو دن بھر خلش سی رہتی ہے۔ زندگی کو سمجھنا چاہو تو کوئی درخت، کوئی پودا، کوئی پھول۔۔۔ ایک ہی سہی۔۔۔ کیکٹس ہی کیوں نہ ہو۔۔۔ لگاکر دیکھو تو سہی۔ زمین کسان سے، اپنے چاہنے والے سے، بار بار بے وفائی کرتی ہے۔ وہ پھر اس پہ اعتبار کرتا ہے۔ دھوکے پہ دھوکا کھاتا ہے۔ پھر بھی پیار کیے چلا جاتا ہے۔ اور جب وہ پیار کے لائق نہیں رہتا تو گاؤں چھوڑ دیتا ہے۔ شہر آکر اپنا تھکا ہارا پنجر کسی مل کے سپرد کر دیتا ہے۔ شہر میں پھر اسے جیتے جی زمین اپنی صورت نہیں دکھاتی۔ دری، چٹائی، سنگ مرمر، سیمنٹ، ٹائلز کے فرش اور تارکول تلے اپنا منھ چھپائے رہتی ہے۔
باٹل سے دبنے والے اےآسماں نہیں ہم
ایک دوست نے اپنی موٹر سائیکل پر لفٹ دی جس کا ’سائی لین سر‘ پھٹا ہوا تھا۔ اس کے ۱۰۱ دھماکوں سے اپنی سلامی آپ دیتے اور لیتے ہوئے، ہم پارٹی میں پہنچے تو آٹھ بج رہے تھے۔ اس وقت کاک ٹیل پارٹی اپنے شباب پر تھی۔ بلکہ کہنا چاہیے کہ اس کے نصف حصے میں تو شباب بھی شباب پر تھا۔ کسی نے ٹھیک ہی کہا ہے کہ رنگ پہ آنے کے بعد کاک ٹیل میں اتنی تاخیر سے شریک ہونا ایسا ہی ہے جیسے تیز چلتے ہوئے MERRY-GO-ROUND (پھر کی کی طرح گھومنے والا جھولا) میں بیٹھنے کی کوشش کرنا۔ لان پر بڑے جگ جگے تھے۔ درختوں اور جھاڑیوں میں اودے اودے، نیلے نیلے، پیلے پیلے قمقمے انہی رنگوں کے پیرہنوں کو آنکھ مار رہے تھے۔ ایسا لگتا تھا کہ بیشتر مہمان نہ صرف آچکے ہیں بلکہ بعضے تو اس قابل بھی نہیں رہے کہ واپس جا سکیں۔ بات بے بات ہنسی کہ ان ہوئے کو پیار آئے۔ آنکھیں گلابی، پنڈے گرم، چہرے گلنار۔ دہکا ہوا ہے آتش گل سے چمن تمام۔
لان کے پرلے کنارے پر بیرے، مغل بادشاہوں کی یونیفارم، مع راجپوتی پگڑی پہنے ڈرنکس بنا رہے تھے۔ کبھی کبھی کوئی بیرا نظر بچاکر چیکو سلوواکیہ کے بنے ہوئے گلاسوں کو منہ کی بھاپ سے نم کر کے پیمانہ تابدار کو اور بھی تابدار کر دیتا تھا۔ کافی مہمان ایسے تھے جو کسی کاک ٹیل سے آ رہے تھے یا کسی اور کاک ٹیل میں جانے والے تھے۔ ہم اصول نمبر ۳ پر سختی سے کاربند تھے کہ جو شخص اپنے سے کم مرتبہ نظر آئے یا آگے چل کر کام نہ آسکے، اس کا نوٹس نہ لو۔ کچھ دیر بعد یکایک منکشف ہوا کہ یہاں تو معاملہ ہی کچھ اور ہے۔ کوئی ہمارا نوٹس نہیں لے رہا ہے۔ چاروں طرف نظر دوڑائی، ہمیں کوئی اپنے سے کم حیثیت نظر نہ آیا۔ سن ہوگئے۔ اب جو غور سے دیکھا تو معلوم ہوا کہ بڑے بڑے لوگ ہمیں ’’اگنور‘‘ کرنے کی انتھک کوشش کر رہے ہیں۔ کنارہ کش ہوتے ہوتے ہم نے خود کو ایک کونے میں چینی نارنگی کی جھاڑی کے پاس استادہ کرلیا۔ اور نمکین بادام اور خلال کے تنکوں میں اٹکی ہوئی مرغی کی کلیجی سے شغل کرنے لگے۔
ترک مے
اس سے پہلے ہم کسی کاک ٹیل ٹیں شریک نہیں ہوئے تھے۔ سنا ہی سنا تھا۔ چنانچہ بے حد سراسیمہ و ششدر۔ ایکINHIBITION ہو تو بیان کریں۔ ہمارے ساتھ کے اکثر لوگ کبھی کے گھس گھساکر ندی کی چکنی بٹیا (ندی کا چکنا گھسا گھسایا پتھر) ہوگئے تھے۔ لیکن ہم ہنوز اس درجہ دقیانوسی اور ناتراشیدہ تھے کہ ڈرنکس کا ترجمہ شراب اور غم غلط کرنے والوں کو شرابی کہتے تھے۔ انہی ایام حیرت کی بات ہے، ہم نے مرزا سے کہا کہ شراب اسلام میں حرام ہے۔ پھر کیا وجہ کہ جتنا ذکر، جتنے قصیدے شراب کے اردو اور فارسی شاعری میں ہیں، اتنےدنیا کی تمام زبانوں کو ملاکر نہیں نکلیں گے۔ فرمایا، ’’چودہ سو سال سے طاقِ عصیاں پہ رکھے رکھے، اس کا نشہ صدی بہ صدی تیز تر ہوتا چلا گیا۔‘‘
بعد ازاں تشریح فرمائی کہ مغل بادشاہوں نے کبھی اس گناہ کو تعزیری جرم قرار نہیں دیا۔ اگر ایسا کرتے تو بیشتر تاجداروں کی زندگی زنداں میں ہی کٹتی۔ تخت پر کون بیٹھا؟ فیض کے اسباب۔۔۔ پل، چاہ، مسجد اور بھینسوں کے غسل خانے یعنی تالاب کون بنواتا؟ لیکن مستثنیات کہاں نہیں۔ جناب محمد باقر شمس، مصنف تاریخ لکھنؤ، مرزا یحیٰ آصف الدولہ وزیر الممالک رستم جنگ کے پاس شریعت اور دینداری کی تعریف کرتے ہوئے رقم طراز ہیں، ’’دیندار بھی بہت تھے۔ پہلے شراب پیتے تھے۔ غفران مآب کے موعظے سے متاثر ہو کر توبہ کی اور بھنگ پینا شروع کی۔ انہوں نے بھنگ کی حرمت بھی بیان کی اور اس کو بھی ترک کرکے افیون پر اکتفا کرلی۔‘‘ ہم تاریخ داں تو نہیں، لیکن ہماری چھٹی حس کہتی ہے کہ مرزا یحیٰ آصف الدولہ نے اس مرحلہ پر غفران مآب کی صحبت کو بھی ترک کردیا ہوگا۔
للی پت کے دیو
سوا آٹھ بجے ہمارے پیر مغاں ہنستے کھلکھلاتے وارد ہوئے اور ہماری جان میں جان آئی۔ انہوں نے خواتین و حضرات سے ہمارا تعارف کرانا شروع کیا۔ اور ہم نے ’’سرکولیٹ‘‘ کرنے کی کوشش کی۔ لیکن ہر مرتبہ کھوٹے سکے کی طرح واپس کردیے گئے۔ ایک صاحب نے تو ہم سے صرف دو انگلیوں سے مصافحہ کیا۔ سو سوا سو مردانِ خوش اوقات کی اس محفل میں ہمیں ایک بھی ایسا نظر نہ آیا جس کی آمدنی ہم سے کم ہو۔ جدھر نگاہ اٹھائی، جہاں گئے، وہی ایک منظر۔۔۔ مایا کو مایا اور روپ کو رویپہ ملے کر کر لمبے ہاتھ۔ اس لنکا میں سبھی باون گزے تھے۔ اور یہاں یہ حال کہ فضیلت، نہ عزت نہ فرماں روائی۔ ہر دیو سے ہاتھ ملانے کے بعد ہم نے اپنا قد ایک انچ کم ہوتا محسوس کیا۔ ساڑھے آٹھ بجے تک ہم لان پر رینگنے لگے۔
ہم نے مرشد سے جا کر پوچھا، حضرت! آپ نے تو ہدایت فرمائی تھی کہ خلوئے معدہ وہسکی نہیں پینی چاہیے۔ آپ نے دوپیگ ہماری آنکھوں کے سامنے نوش فرمائے اور مرغ کی کلیجی کو ہاتھ تک نہیں لگایا۔ فرمایا تمہاری نظر ٹھیک کام کر رہی ہے۔ ہاتھ نہ لگانے کی وجہ یہ کہ انگریزوں کے بیرے مرغی ذبح کرتے وقت ٹھیک سے کلمہ نہیں پڑھتے۔ ایسا گوشت مکروہ ہوتا ہے۔ ممانعت آئی ہے۔
یکے بعد دیگرے ٹماٹو جوس کے چار گلاسوں کے بعد ہماری زندگی کا واحد نصب العین یہ رہ گیا کہ، بلامنت بیرے، ٹائلٹ کا نزدیک ترین راستہ دریافت کرلیں۔ (کاک ٹیل میں بیروں، بوڑھوں اور اپنی بیوی سے بات کرنے سے ہمیں سختی سے منع کردیا گیا تھا۔) اتنے میں ایک قنات کے پیچھے سے ایک بوڑھے انگریز کو ایک ہاتھ سے اپنا سر اور دوسرے سے پتلون تھامے آتے دیکھا تو جن تاریک راہوں سے وہ نکلا تھا، اسی طرف ہم ایسے ہولے ہولے قدموں سےروانہ ہوئے کہ پیٹ کا پانی نہ ہلنے پائے۔ جان نکلی جا رہی تھی۔ خیر اس کا تو غم نہیں۔ خدشہ تھا جان نکلنے سے پہلے کچھ اور نہ نکل جائے۔ پچاس ساٹھ محتاط قدموں کے بعد، گویا کوئی مینا خانہ بارِدوش ہے، ہم نے اپنی منزل مقصود کو جا لیا۔ باوردی بیروں کی قطار ہاتھ میں چھوٹے چھوٹے رنگین تولیے لیے کھڑی تھی۔ ایک نستعلیق سے باریش بیرے نے بڑھ کر پوچھا، ’’حضور قے فرمائیں گے یا چھوٹا حاجت؟‘‘
نیوٹن جونیئر
راستے میں میکفرن مل گیا۔ کہنے لگا کیا بات ہے؟ ابھی ابھی کچھوے کی طرح گئے اور لائیڈز بینک کے گھوڑے (لائیڈز بینک کا نشان) کی طرح کدکڑے لگاتے واپس آئے! تم اتنی دیر تک بجلی کے کھمبے کی طرح تن تنہا کھڑے رہے۔ زندگی بہت مختصر ہے۔ آؤ! تمہیں ایک امریکن شعلہ بدن سے ملواؤں۔ ڈپلومیٹک کور کی پارٹیوں کی جان ہے۔ پاک امریکی دوستی کی حامی ریاست ہائے متحدہ امریکہ کی خیرسگالی کا مظاہرہ گھر پر ڈھیلی گرہ کا لاچا باندھ کر کرتی ہے۔ ذرا دیر باتیں سنوگے تو گرویدہ ہو جاؤگے۔ کس طرح کی لذت ہے تو چکھ دیکھ مرے یار!
میکفرن بڑی خوبیوں کا آدمی تھا۔ سب سے بڑی خوبی تو یہ کہ اس بھری محفل میں وہ تنہا یوروپین تھا جس سے ہماری شناسائی ہی نہیں، بے تکلفی بھی تھی۔ دوسری خوبی یہ کہ وہ کسی کو اداس نہیں دیکھ سکتا تھا۔ ہنس مکھ، بذلہ سنج، حاضر جواب۔ ان دنوں اس نے نیوٹن کی کشش ثقل کی تھیوری میں ایک انقلاب آفریں ترمیم کی تھی۔ معاشیات اور کم لباسی پر ان کے فرمودات محفل کو گھنٹوں گرم رکھنے کے لیے کافی تھے۔ ان کی تھیوری یہ تھی کہ ۱۹۵۲ء کے بعد سے زمین کی کشش ہر چیز کو نیچے کھینچتی ہے، سوائے قیمتوں، پاکستانی بیوروکریٹ کے سر اور ماڈرن BRA کے مشمولات کے جوفی زمانہ صرف آسمان کی کشش کے تابع ہیں۔ اس فلکیاتی دریافت کی بناپر یہ کلب میں نیوٹن جونیئر کہلاتے تھے۔ ہمیں اداس اور بے آسرا جان کر عزیز رکھتے اور اکثر اپنی چلبلی گفتگو سے ہماری سوئی ہوئی بلکہ خراٹے لیتی ہوئی امنگوں کو بیدار کرتے۔ اس وقت ہمیں للچانے لگے کہ اسے ایک نظر دیکھوگے تو دل ہی نہیں، تمہاری گھڑی کی دھڑکن بھی تیز ہو جائے گی۔
تجھ سے بھی دل فریب ہیں غم روزگار کے
نیوٹن جونیئر نے اس لذت چشیدہ کے بارے میں جو معلومات اپنا منہ ہمارے کان سے لگا کر فراہم کیں، ہم نے اس لذیذہ کو ان سے کچھ زیادہ ہی پایا۔ مردوں میں سَتر بے مہار پھر رہی تھی۔ میکفرن نے یہ مژدہ بھی سنایا کہ شاید طلاق ہو جائے۔ موٹی اسامی کی گھات میں ہے۔ جلتے ہوئے مکان کو کرائے پر اٹھانا چاہتی ہے۔ وہ اس وقت ایک تنکے میں پرویا ہوا کھٹا زیتون کھا رہی تھی۔ ہاتھ ملایا تو محسوس ہوا گویا اسے ۱۰۵ ڈگری بخار ہے۔ باتوں میں بھی سرسامی کیفیت۔ سمندری نیلے رنگ کے چست لباس پر سے نگاہیں اور چست تر فقرے پھسل رہے تھے۔ واشگافV نیک لائن نے سمندر جھاگ گھاٹی میں ایسی آدمی دباؤ ڈبکی لگائی تھی کہ، ہو تیرنے والا شرمندہ اور ڈوبنے والا ناز کرے۔ پیٹھ بھی انگریزی کے U کی طرح تاحد ادب کھلی ہوئی۔ لیکن ہمارے لیے ان سب سے زیادہ یہ دلکشی کہ اس کا شوہر ایک امریکن کمپنی کا منیجر تھا اور اس کے اکاؤنٹ سے ہمارے دن پھرسکتے تھے۔ دگنا تگنا سالانہ انکریمنٹ مل سکتا تھا جس سے ہم نئی عینک بنوا سکتے تھے۔ قالین خرید سکتے تھے۔
یہ وہ جامہ ہے کہ جس کا نہیں الٹا سیدھا
یوروپین بیبیوں کے بارے میں ہمارا مشاہدہ ہے کہ کچھ بھی پہن لیں، بھلی لگتی ہیں۔ کچھ بھی نہ پہنیں تو پکچر ہٹ ہو جاتی ہے۔ مگر سارا الزام جدید یوروپین فیشن پر رکھنا صریحاً ناانصافی ہوگی۔ یونہی ہوتا آیا ہے۔ سو سال پہلے اسی طور نظیر اکبرآبادی اس زمانے کی کتربیونت اور اپنے دو طرفہ رد عمل کا اظہار فرما گئے ہیں،
آگا بھی کھل رہا ہے، پیچھا بھی کھل رہا ہے
یاں یوں بھی واہ وا ہے اور ووں بھی واہ وا ہے
اسی سے ملتا جلتا نقشہ نواب درگاہ علی خاں نے دلی کی نامی گرامی طوائف امر بیگم کا اپنی فارسی تواریخ میں کھینچا ہے جس کا اردو ترجمہ ’’نادرشاہی قتل عام کی دہلی‘‘ حضرت خواجہ حسن نظامی نے کیا ہے۔ فرماتے ہیں، ’’اس کا کمال یہ ہے کہ یہ حسین اور طوائف ہونے کے ساتھ ساتھ اکثر ننگی رہتی ہے اور مجلسوں میں بالکل برہنہ آتی ہے۔ اور وہ اس طرح کہ جسم کے اسفل حصہ کو بالکل عریاں کرکے اس پر پاجامے کی نقاشی کرواتی ہے۔ کمخواب کے تھان کی طرح اور بوٹے دار پائجامے کی مانند اس کے زیریں جسم پر پائجامے کی تصویر بنی ہوتی ہے جو بالکل پائجامہ معلوم ہوتی ہے۔
جب امر بیگم امیروں کی مجلسوں میں عریاں پائجامہ پہنے ہوئے آتی ہے تو کوئی نہیں کہہ سکتا کہ یہ ننگی ہے۔ اس راز کو اس کے مخصوص آشنا ہی جانتے ہیں۔ امر بیگم بہت محبوب خلائق ہے۔‘‘ خیر امر بیگم کے محبوب خلائق ہونے کی وجہ تو ظاہر ہے، مگر اگلے وقتوں کے بزرگوں کی شان ہی کچھ اور تھی۔ ہر بات میں ثواب کا پہلو نکال لیتے تھے۔ چنانچہ سلیس و لذیذ اردو میں ترجمہ کے بعد حضرت خواجہ حسن نظامی نے کہ دلی کے روڑے اور شیدائی تھے صرف یہ حاشیہ لگایا ہے کہ ’’اس سے دہلی کی مصوری کا کمال ظاہر ہوتا ہے!‘‘ ہائے ہائے! نہ ہوئی امر بیگم۔ سن لیتی تو پاجامہ پیٹ کے رہ جاتی۔
ڈرافٹ بیئر سے اوور ڈرافٹ تک
دیکھیے بات کاک ٹیل سے خواجہ حسن نظامی تک پہنچ گئی۔ کسی پری وش یا گداز ڈپازٹ کا ذکر آجائے تو ہمارا خامۂ ہذیاں تحریر ایس طرح مائل بہ گمراہی ہوتا ہے۔ تعارف کے بعد وہ بی بی کہنے لگی، ’’تمہارا ہاتھ خالی کیوں ہے؟ میں تو بلیک لیبل پیتی ہوں۔ وہسکی دس سال سے کم کی ہو تو میں دوسرے دن چڑچڑی ہو جاتی ہوں۔ یہ بات نہیں کہ میں ڈرنکس کے بغیر زندہ نہیں رہ سکتی۔ میں تو بائی گاڈ اپنی ناک کی خاطر پیتی ہوں۔ سوفی صد پروف وہسکی سے سارے SINUSES کھل جاتے ہیں۔ تم بھی ناک میں بول رہے ہو۔ ایک چسکی میرے گلاس میں سے لگا کر دیکھو۔ خود کو سچ مچ کا مرد محسوس کرنے لگوگے۔ میرا میاں تو وہائٹ ہارس پیتا ہے۔ اور ہاں! تمہارے ہاں مرد دو گھوڑا بو سکی کیوں پہنتے ہیں؟ SO EFFEMINATE! میرے میاں پر گہری نیلی اداسی کا دورہ پڑتا ہے تو چینی کھانا کھاتا ہے اور چھ مہینے برف میں لگی ہوئی ڈرافٹ بیئر کے مگ پہ مگ چڑھاتا ہے۔ اور باتھ روم کے چکر پہ چکر کاٹتا ہے۔ ہاہا! مگر تم اتنے فکرمند کیوں نظر آرہے ہو؟ زندگی مختصر ہے۔‘‘
ہوا در اصل یہ کہ ڈرافٹ بیئر پر ہمیں یکلخت اوور ڈرافٹ یاد آگیا۔ موقع غنیمت جان کر ہم نے روایتی پچر کا پتلا سرا ٹھونک ہی دیا، ’’آپ کے شوہر کی کمپنی کا اکاؤنٹ کہاں ہے؟‘‘
’’بینک میں۔ آف کورس!‘‘
کس لیے آئے تھے ہم، کیا کر چلے
پھر چڑھی ہوئی آنکھیں اور چڑھا کر بولی، ’’ہاں! خوب یاد آیا۔ تم تو بینکر ہو، نا؟ تمہارے ADENOIDS بڑھے ہوئے معلوم ہوتے ہیں۔ منھ کھول کر بات سنتے ہو۔ تو سنو، میں نے رمی میں ایک لاکھ پینسٹھ ہزار روپے جیتے ہیں۔ میرا میاں دورے پر جاتا ہے تو ایک جائنٹ سیکرٹری اور دو سیٹھ میرے ساتھ رمی کھیلنے آجاتے ہیں۔ شاید انہیں میرے میاں کی کمپنی کی ایجنسیاں چاہئیں۔ جم، میرا میاں، مارچ میں بیروت گیا تو V.D لگا لایا۔ ہفتوں چھدرا چھدرا چلتا رہا۔ جیسے تمہارے ہاں قیدی بیڑی پہن کر ZIG-ZAG کرتے ہیں۔ مجھ سے چھپایا۔ وہ تو ڈاکٹر بٹرفیلڈ نے مجھے بتادیا۔ مگر اس بدذات کا خیال ہے کہ جم کو یہ انفکشن مجھی سے لگا۔ ہاہاہا! ابدی مثلث! متعدی مثلث! اچھا تمہارے تو اسٹیٹ بینک کے بدذاتوں سے مراسم ہوں گے۔ میرے یہ ایک لاکھ پینسٹھ ہزار شکاگو بجھوا دو۔ پلیز! کہہ دینا کہ میری سیونگ ہے۔ صبح دس سے پہلے گھر فون مت کرنا۔ جم دس بجے دفتر جاتا ہے۔‘‘
ہم ’’سرکولیٹ‘‘ ہونے کی غرض سے با دل نخواستہ اس سے جدا ہونے لگے تو پھر نظر سے بھالا مار گرایا۔ جسم کے درمیانی حصہ کو جھولا جھلاتے ہوئے کہنے لگی مجھے تو چکر آرہا ہے۔ ذرا جم کو تلاش کرکے گھر چلنے کو کہو۔ ہم نے پوچھا بی بی! ہم اس مرد خدا کو کیوں کر پہچانیں گے؟ ہمارا ہاتھ اپنے ہاتھ میں لے کر بولی، آج اس نے سلک کا انڈرویئر پہن رکھا ہے۔ ہلکے نیلے رنگ کا ہے۔ کل دس بجے مجھے فون کرنا مت بھولنا۔ نمبر اس وقت یاد نہیں آرہا۔ صبح مجھے فون کر کے پوچھ لینا۔
ہمارے باس کا نزول اجلال
اس وقت تک محفل کا نقشہ دگرگوں ہو چکا تھا۔ کسی کو کسی پر ہنسنے کا ہوش نہ تھا۔ مردوں کی حرکات و سکنات میں فرق آ چکا تھا۔ بلکہ یہ کہنا زیادہ صحیح ہوگا کہ حرکات ختم ہو چکی تھیں، صرف سکنات رہ گئے تھے۔ بقول شاعر شیوہ بیاں،
جو کھڑا تھا، کھڑا رہا وہ وہیں
جو پڑا تھا، پڑا رہا وہ وہیں
اس مرحلہ پر مسٹر اینڈرسن جھومتے جھامتے داخل ہوئے۔ ڈرائیور نے سہارا دے کر اسے شامیانے کی نشیلی سرحد پر لاکر چھوڑ دیا۔ ہم نے آگے بڑھ کر اس سے کراچی کے موسم کے بارے میں تبادلہ خیال کرنا چاہا تو اندازہ ہوا کہ ہمیں پہچاننے میں اسے یہاں تکلف و تامل ہے۔ چنانچہ ہم نے بھی اس کا نوٹس لینا چھوڑ دیا۔ تھوڑی دیر بعد اس نے چھنگلیا سے بلانے کا اشارہ کیا۔ ہم دوڑے دوڑے گئے تو کہنے لگا کہ میں تو بیرے کو بلا رہا تھا۔ میرے گلاس میں سوڈا زیادہ ہے۔ مگر یہ کیا بات ہے؟ تمہارا گلاس اندر سے بڑا، باہر سے چھوٹا ہے! اچھا! تم آہی گئے ہو تو بتاتے جاؤ، کچھ CONTACTS بنے؟ کچھ یوروپین ڈپازٹ ہاتھ لگے؟ ہم نے مختصراً اسے مطلع کیا کہ اب تک جتنے یوروپین حضرات کو ہم نے ’کنٹکٹ‘ کیا، انہوں نے الٹا اوور ڈرافٹ مانگا، جس کی مجموعی رقم اس گلاس تک ستر لاکھ ہو چکی ہے۔ برا سا منھ بناتے ہوئے بولا، تم جہاں سے آئے تھے، وہیں واپس جا سکتے ہو۔
اسی نوع کے چار پانچ مزید خسارہ خیز ’’کن ٹیکٹس‘‘ قائم کرکے، ہم چینی نارنگی کی جھاڑی کے پاس، اپنے بارہ سنہری اصولوں کی چھتری تلے کھڑے ہوگئے۔ ذرا دیر بعد دیکھا کہ اینڈرسن ہماری طرف لڑھکتا لڑھکاتا آ رہا ہے۔ ہم نے بھی اسے آخری نقطہ اتصال تک لڑھکنے دیا۔ پیشوائی کو ایک قدم بھی آگے نہ بڑھے۔ قریب آکر کہنے لگا کہ تم برٹش ہائی کمشنر سے بھی ملے؟ اور یہ تم سیپرے کی طرح گھلپڑے پھلا پھلا کر کیا پی رہے ہو؟ زمزم واٹر؟ تمہاری ٹائی میرے موزوں سے میچ کرتی ہے۔ یہ کہہ کر اپنی ظرافت سےآپ ہی محظوظ ہوا اور مارے ہنسی کے منھ بھر کے وہسکی کی کلی کردی جو آدھی فرش پر ضائع ہوئی، آدھی ہمارے گلاس میں محفوظ ہوگئی۔
سوال دیگر، جواب دیگر
مہکتی بہکتی لیڈیز اب شراب اور ’’شولری‘‘ (CHIVALRY) سے لبریز مردوں سے دامن کشاں، اپنا ایک علیحدہ جھرمٹ بنا چکی تھیں۔ یہ جھرمٹ قریب سے فرنچ خوشبوؤں کا بگولہ اور دور سے صبح کا ستارہ نظر آتا تھا، جس کی کٹیلی نوکیں مردانہ دائروں میں تاحد آرزو پیوست تھیں۔ جب وہ، بقول پروفیسر قاضی عبد القدوس، ’’گگل گگل‘‘ ہنستیں تو ہر مراد اپنی اپنی گھنٹی کی آواز پہچاننے کے لیے کنوتیاں اٹھاتا۔ ان خواتین کا طرزِ تخاطب و تکلم دیکھ کر ہم اس نتیجے پر پہنچے کہ جہاں سات آٹھ عورتیں جمع ہوں تو سب بیک وقت بولتی ہیں اور اس سے زیادہ اچنبھے کی بات یہ کہ بولتے میں سب کچھ سن بھی لیتی ہیں۔ گویا ایک عورت نان اسٹاپ ٹرانسمٹ بھی کرتی ہے اور اس عمل کے دوران سات آٹھ WAVELENGTHS پرکان ٹیون کرکے اوروں کی سن بھی لیتی ہے۔ لیکن مردوں ی بات اور ہے۔ سات آٹھ مرد یکجا ہوں تو آپ دیکھیں گے کہ ان میں سے صرف ایک بولتا ہے۔ باقی ماندہ نہیں بولتے۔ اور نہ سنتے۔
بے محل سہی، مگر مرزا کا قول یاد آتا ہے کہ تاش کے جتنے بھی کھیل ہیں وہ مردوں نے ایک دوسرے کو چپ رکھنے کے لیے ایجاد کیے ہیں۔
ہمارے وہ پڑھنے والے جو کبھی اس آتشیں بپتسمہ سے نہیں گزرے، ان کی اطلاع و عبرت کے لیے عرض ہے کہ اگر سوڈیڑھ سو باتونی بہروں کو ایک جگہ جمع کردیا جائے تو ان کے درمیان جو گفتگو ہوگی، وہ من و عن وہی ہوگی جو کاک ٹیل پارٹی میں سننے میں آتی ہے۔ ہر ایک اپنی ہانکے چلا جارہا ہے۔ سوال کچھ، جواب کچھ، مگر دونوں مطمئن۔ اور چاہیے بھی کیا؟ اب ہم خواتین کے چیدہ چیدہ مکالمے نقل کرتے ہیں جو وقتاً فوقتاً کاک ٹیل پارٹیوں میں ہمارے کان میں پڑے۔ ان میں ربط یا کسی اور شے کی کمی محسوس ہو تو اس عاجز ناقل کو معاف فرمائیں۔ (ایسے میں مردوں کے مکالمے چونکہ آہ! واہ! وہسکی اور سسکی سے آگے نہیں بڑھ پاتے، اس لیے مجبوراً زنانہ مکالموں پر اکتفا کرنا پڑا۔ )
’’مجھے روسی زہر لگتے ہیں۔ میرا میاں جب روسی ’وودکا‘ پیتا ہے تو ساری کراکری توڑ دیتا ہے۔ پھر مجھے ’میٹرنٹی ڈریس‘ پہننا پڑتا ہے۔ ہو ہو ہو!‘‘
’’کیا پیارا TAN ہے تمہارا! کیا ہاکس بے گئی تھیں؟‘‘
’’ایلس کے میاں کی سکریٹری ہر سال اپنڈکس کا آپریشن کرواتی ہے!‘‘
’’تم نے ڈاکٹر سم کا کس کی نئی یونانی لاڈلی کو دیکھا ہے؟‘‘
’’سیخ کباب کے سوا، مجھے لوکل کلچر کی اور کوئی چیز پسند نہیں آئی۔‘‘
’’تم نے کبھی ریچھ اور کتے کی لڑائی دیکھی ہے؟ ہمارے گولڈن ریٹریور کے ایک زمیندار نے چار ہزار لگائے ہیں۔ کیسے بے رحم ہیں! مئی میں ہمارا پاکستان سے تبادلہ ہوگا تو ڈاکٹر فیروز سے کتے کو زہر کا انجکشن لگوا دوں گی۔ اس کا باپ بہت FASTIDIOUS ہے۔ چلم میں اونٹ کی سڈول ہم وزن مینگنیاں ڈال کر حقہ پیتا ہے۔‘‘
“TWO CUBES OR THREE CUBES? HA! HA! ”
’’تم اس ایوننگ ڈریس میں بڑی پیاری لگ رہی ہو۔ پیرس سے خریدا؟ میں نے پچھلے سال فینسی ڈریس بال میں بھاری بنارسی ساری پہن کر رقص کیا۔ مجھے کیا معلوم تھا کہ اتنی دبیز تہ در تہ ساری کے نیچے بھی کچھ پہنا جاتا ہے۔ ایک فاسٹ نمبر میں اس کا بارڈر مسٹر احمد کے جوتے کے نیچے آگیا۔ جیسے ہی میں جھوم کر تیزی سے پلٹی تو ایک ہی جھٹکے میں ساری کھل کر فلور پر آرہی۔ جلیبی سی بن گئی۔ تم نےکبھی کھائی ہے؟ سڑے ہوئے مکھن اور چینی کے قوام کے آٹے کے نارنجی کیپسول میں بند کر دیتے ہیں؟ میں شرم سے پانی پانی ہوگئی، اس لیے کہ میں نے کاٹن (سوتی) کا انڈرویئر پہن رکھا تھا۔ اوہ! ایسٹ از ایسٹ! عجیب بات ہے جب بھی میں کسی پاکستانی سہیلی سے چپاتی بنانے کی RECIPE مانگتی ہوں تو وہ ٹھٹھے مارتی ہے!‘‘
’’ہائے! سارے بال بکھرے جا رہے ہیں۔ آج ہی سیٹ کرائے تھے۔ کراچی میں اتنے زور کی پچھمی ہوا چلتی ہے کہ کسی کبڑے کو پچھم کی طرف پیٹھ کر کے کھڑا کر دو تو ایک ہی دن میں ساری کوب نکل جائے۔‘‘
’’تم نے سنا؟ جب سے وہ جاپانی مساج کرنے والی آئی ہے، کراچی کے سبھی کروڑپتی گٹھیا میں مبتلا ہوگئے ہیں۔ بیرا! وہسکی آن دی روکس، پلیز!‘‘
“BLOODY MARY FOR ME.”
(ٹماٹو جوس اور وودکا کو ملانے سے بنتی ہے۔ )
“CAMPARI”
’’تم نے نئے جرمن اتاشی کی بیوی دیکھی؟ دودھیا بھٹے جیسے بال۔ ٹماٹر جیسے گال۔ ٹانگیں جیسے کنگ سائز دوشاخہ مولی۔ بالکل دیہاتن لگتی ہے۔ بدن سے بیل کی بو آتی ہے۔‘‘
’’اور اس کامیاں تو بالکل ہی جنگلی ہے۔‘‘
’’ہائے! مرد کی بہترین قسم یہی تو ہوتی ہے، پگلی!‘‘
’’جینی کو بریسٹ کینسر ہوگیا۔ پیتھی ڈین کی عادی ہوگئی ہے۔‘‘
’’سنا ہے تمہاری کزن کی تصویر VOGUE میں چھپی ہے؟‘‘
’’کیا بجاہے؟ مجھے این کے ڈنر میں جانا ہے۔‘‘
’’صدیقی چارمنگ ہے۔ مگر بہت BOOKISH۔ ایک دفعہ ناچتے ناچتے نشہ میں اپنے ہونٹ میرے VACCINATION MARK پہ رکھ کے کہنے لگا، ہنی! تمہاری رانیں کیلے کے تنے جیسی ہیں! اسی نے بتایا کہ یہ تشبیہ کا لید اس نام کے کسی شاعر نے استعمال کی ہے۔ میں صبح اٹھتے ہی کیلے کا تنا دیکھنے گاندھی گارڈن گئی۔ HOW SWEET OF KALIDAS!‘‘
’’اوہ ڈیئر! اوہ ڈیئر! اوہ ڈیئر!‘‘
’’مجھے نتھیا گلی سے کرسمس منگوا دو نا۔ ورنہ پھولدار جھاڑو کا کرسمس ٹری بنانا پڑے گا۔‘‘
’’نوتھینکس! بہت ہوگئی۔ بائی بائی وینیسیا!‘‘
’’تمہیں مونچھیں پسند ہیں؟‘‘
’’مرد کی یا عورت کی؟‘‘
’’مونچھ اور سگار کے بغیر پیار کیسا ادھورا ادھورا، پھیکا شیر خوار لگتا ہے!‘‘
’’مردوں کو ہوانا سگار کی بو بہت بھاتی ہے۔ اسے بناتے وقت لڑکیاں ران پررکھ کر ROLL کرتی ہیں۔‘‘
’’میں نے چٹا گانگ سے بدھسٹ خانساماں بلوایا ہے۔‘‘
’’خان ڈرنک ہولڈ نہیں کرسکتا۔ اسے تو آئی ڈراپر سے اپنے منھ میں چوانی چاہیے۔‘‘
’’نپولین برانڈی۔‘‘
’’آم اور مہندی کی بدبو ۴۸ گھنٹے تک نہیں جاتی۔ نہ جانے یہ لوگ کیسے برداشت کرلیتے ہیں۔‘‘
’’فرانس میں آج کل لمبے اسکرٹ اور مڈل ایجڈ مرد فیشن میں ہیں۔‘‘
’’میرا لکی اسٹون زمرد ہے۔ جب میری طلاق ہوئی ہے تو میں نے اسی کی انگوٹھی پہن رکھی تھی۔‘‘
’’تم سنڈے کو چرچ نہیں آتیں؟‘‘
’’پانی نہیں، سوڈا۔‘‘
ترے کوچے سے ہم نکلے
ساڑھے نو بجنے میں دو تین منٹ باقی ہوں گے کہ ایکا ایکی بھگدڑ مچ گئی۔ وہی نستعلیق باریش بیرا ہانپتا کانپتا ہمارے پاس آیا اور کہنے لگا کہ اپنے باس کو سنبھالیے۔ اس نے آپ ہی کے بینک کے ڈائرکٹر سیٹھ۔۔۔ کے سر سے ترکی ٹوپی اتار کر اس میں الٹی کر دی۔ اور اب ڈرنکس کی میز کے نیچے گھس کر مرغے کی بولی بول رہا ہے۔ سب میمیں بھاگ گئی ہیں۔ ایک تو اپنا پرس اور ہسبینڈ بھی چھوڑ گئی۔ جلدی چلیے۔ اس کا نیا ڈرائیور عشا پڑھنے گیا ہوا ہے۔ آپ چارج لیجیے۔ مسٹر اینڈرسن بن بلائے ہرکاک ٹیل میں پہنچ جاتا ہے۔ آج بھی گیٹ کریش کیا ہے۔
’’ڈبل وہسکی، پلیز!‘‘
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.