جنس ہنر بیچتا ہوں
عین اس وقت جب بیروزگاری سے تنگ آکر یہ فیصلہ کر رہے تھے کہ نمائش میں ایک اسٹال لے کر چاٹ کی دوکان کھولیں اور دہی بڑے بیچ کر کسی طرح پیٹ تو پالیں۔ مرزا صاحب نے آکر ملازمت کا مژدہ سُنایا۔ سوکھے دھانوں پر پانی برسا۔ جی چاہا مرزا کے قدموں پر گرکر مارے شکر گزاری کے جان دے دیں۔ کہاں ملتے ہیں کسی کو ایسے دوست جو سیہ بختی میں بھی ساتھ نہ چھوڑیں اور وقت پر یوں کام آئیں۔ ایک تو ملازمت ڈھونڈھی پھر وہ بھی ایسی ملازمت کیوں ریاست کہیے اس کو۔ سو روپیہ ماہوار تنخواہ، کھانا نواب صاحب کے ساتھ اُن ہی کے دسترخوان پر، رہنے کا مکان۔ سواری میں موٹر۔ خدمت کے لیے نواب صاحب کے بے شمار خدمت گار موجود اور کام صرف یہ کہ نواب صاحب کے کلام پر اصلاح دے دیا کریں۔ گویا استاد شہ۔ جس سے غالب کی بھی یہ تاب، یہ مجال اور یہ طاقت نہ تھی کہ پرخاش کا خیال کرتے۔ دیر تک تو یہ یقین ہی نہیں آیا کہ مرزا جو کچھ کہہ رہے ہیں وہ سچ ہے اور جب یقین آیا اور ان کا شکریہ ادا کرنا چاہا تو وہ ہوا کے گھوڑے پر سوار نظرآئے۔
’’یعنی عجیب منحوس ہو۔‘‘ میں نواب صاحب سے کہہ آیا ہوں کہ ابھی لارہا ہوں تم کو اور تم ہو کہ منہ اٹھائے بیٹھے ہو چغد کی طرح۔ کپڑے پہن کر چلو نا میرے ساتھ پھر ان کے حرم سرا میں جانے کا وقت آجائے گا۔
جلدی جلدی کپڑے بدلے اور ہر چند کہ سوپشت سے آبا کا پیشہ کچھ سپہ گری ہی کی قسم کا تھا مگر آج چوں کہ شاعری ذریعہ عزت بن رہی تھی لہٰذا اپنے کو اپنے نزدیک بڑا استاد السلطان بناکر مرزا کے ساتھ ہولیے۔ راستہ بھر مرزا آداب دربار سمجھاتے رہے اور بار بار یہ اصرار کہ ذرا لیے دیے رہنا اپنے کو گرا پڑا ثابت نہ کرنا۔ کلام کی فرمائش ہوتو ذرا کوئی ٹھاٹھ دار چیز سُنا نا اور پڑھنے کا انداز ایسا ہو کہ جھوم ہی تو جائیں سب۔ ہم ایک ایک بات گرہ میں باندھتے ہوئے آخر نواب صاحب کی کوٹھی کے دروازے پر جاپہنچے۔ یہاں مرزا نے آخری مرتبہ ہم کو سر سے پیر تک دیکھا اور ہر طرح کا اطمینان کرنے کے بعد آخری بات سمجھاتے ہوئے کہا، ’’اگر اتفاق سے نواب صاحب بہادر اپنا کلام سُنانے خود بیٹھ جائیں تو خواہ وہ کتنا ہی مہمل ہو مگر تم داد دینے میں زمین آسمان کے قلابے ملا دینا۔‘‘ اور اس آخری ہدایت کے بعد وہ ہم کو لے کر کوٹھی میں داخل ہوگئے۔
کوٹھی کے سبزہ زار پر اس وقت دربار لگا ہوا تھا، کرسیوں پر حاضرین بیٹھے ہوئے تھے اور صدر میں ایک تخت پر ابوالہول کی نسل کے ایک بزرگ گاؤ تکیہ کا سہارا لیے اپنے شفاف سرپر خدمت گار سے تیل کی مالش کروارہے تھے کہ مرزا صاحب نے پہنچ کر فرشی سلام کرتے ہو ئے کہا، ’’حضور والا دیکھئے، آخر میں لے ہی آیا خنجرؔ صاحب کو، شاگردوں کا ایک جم غفیر تھا اور اصلاح دینے کا سلسلہ جاری تھا مگر حضور کا نام لیاتو بیچارے سب کچھ چھوڑ کر چلے آئے۔‘‘
ہم نے بھی فرشی سلام کیا۔ نواب صاحب نے بمشکل تمام اپنا بوجھ خود اٹھاکر ذرا سا ابھرتے ہوئے فرمایا، ’’تشریف رکھیے۔ آپ کی بڑی تعریف سنی ہے مرزا صاحب سے، تو آپ کس قسم کے شعر بناتے ہیں؟‘‘
ایک دم چکر سا آگیا یا اللہ، ’’یہ شعر بنانا‘‘ کیا ہوتا ہے۔ مگر شکر ہے کہ مرزا صاحب ہماری طرف سے بول رہے تھے، ’’حضور، مانے ہوئے استاد ہیں یہ، ہر قسم کے شعر لاکھوں کی تعداد میں کہہ کر شاگردوں کو بانٹ چکے ہیں اورخود بھی تو تین چار دیوان اپنے ہی ہیں۔‘‘
نواب صاحب نے یکمشت چھ سات پان اپنے تنو ر نما منہ میں ٹھونستے ہوئے فرمایا، ’’بھئی خود ان کو بھی تو بولنے دو، کیا بتایا تھا تم نے لقب آپ کا۔‘‘
مرزا نے کہا، ’’حضور لقب نہیں تخلص۔‘‘
حاضرین دربار میں سے ایک صاحب بولے، ’’وہ بھی ایک قسم کا لقب ہوا نا۔‘‘
ہم نے جلدی سے عرض کیا، ’’اس خاکسار کو خنجر کہتے ہیں۔‘‘
نواب صاحب نے اگلدان میں منہ ڈالتے ہوئے فرمایا، ’’خنجر ٹھیک، مطلب یہ کہ قتل کرتے ہوں گے آپ اپنی چیزیں سُنا سُنا کر لوگوں کو۔ اچھا تو پھر ہوجائے کوئی پھڑکتی ہوئی چیز۔ کیوں بھائی دلاور خان کیا صلاح ہے۔‘‘
دلاور خان نے کہا، ’’کوئی حقانی چیز رہے استاد۔‘‘
نواب صاحب نے کہا، ’’اماں تم تو ہونرے گھامڑ۔ حقانی چیز کا بھلا کون سا موقع ہے، نہ جمعہ نہ جمعرات۔ اُستاد آپ تو کوئی عاشقانہ چیز سنائیں کہ طبیعت لوٹ پوٹ ہوکر رہ جائے۔‘‘
ایک اور صاحب بولے، ’’ہاں، یہ بات کہی ہے سرکار نے۔ تو پھر استاد شروع ہوجائیے۔‘‘
ہم ابھی پس وپیش کرہی رہے تھے کہ مرزاؔ نے قہر آلود نگاہوں سے گھورا اور دانت پیس کر اشارہ کیاکہ سُناؤ اور یہاں عالم ہے کہ کوئی ایسی چیز سمجھ میں نہ آرہی تھی جو اس محفل میں سُنائی جاسکے۔ آخر مرزا نے خود ہی کہا، ’’خنجر صاحب، اپنی وہ غزل سنائیے جس پر مشاعرے میں تمغہ ملا تھا۔‘‘ وہ کیا ہے غزل، ’’گریباں نہ ہوا بیاباں نہ ہوا۔‘‘
تمغہ ومغہ تو خدا نہ کرے کہ ملتا البتہ غزل اس زمین میں ضرور تھی، جان پر کھیل کر یہی غزل شروع کردی۔ اب یہ عالم ہے کہ ہم غزل پڑھ رہے ہیں اور ہر شعر پر نواب صاحب ’’ہے ہے ہے‘‘ کرکے نہایت بدتمیزی سے ہنس رہے ہیں۔ یا کبھی کبھی گھٹنہ پر طبلہ بجانے لگتے ہیں۔ خدا خدا کرکے بمشکل تمام غزل ختم ہوئی۔ نواب صاحب نے داد دیتے ہوئے فرمایا، ’’یار مزہ آگیا۔ کیا مزے کی چیز سُنائی ہے۔ اچھا تو اس پر تمغہ ملا تھا؟‘‘
مرزا نے کہا، ’’ایک تمغہ کیا۔ ان کا تویہ حال ہے کہ جس مشاعرے میں پہنچ گئے بس اپنے سامنے کسی کا چراغ جلنے نہیں دیتے۔‘‘
وہ صاحب جن کا نام دلاور خان تھا جھوم کر بولے، ’’اور آواز بھی اپنی قسم کی بڑی پاٹ دار ہے۔‘‘
نواب صاحب نے کہا، ’’تو بھئی مرزا صاحب، تم وہ بات کرلو نا ان سے۔ بس ذرا یہ سمجھا دیناکہ اپنا ہی گھر سمجھ کر رہیں۔ ایمانداری اصل چیز ہے۔ یہ تو تم جانتے ہی ہو کہ اس ڈیوڑھی پر جو ایک دفعہ ملازم ہوگیا ہے پھر مرکر ہی نکلتا ہے۔‘‘
مرزا صاحب نے کہا، ’’ایسے تو میں بات کرچکا ہوں مگر ان کو لے جاکر پھر فیصلہ کیے لیتا ہوں۔‘‘
نواب صاحب نے کہا، ’’ہاں ساری بات صاف ہوجائے اور ہاں یہ طے کرلیناکہ پھر کسی اور کو شاگردی میں نہیں لے سکتے۔‘‘
مرزا صاحب نے ہم کو اٹھنے کا اشارہ کرتے ہوئے کہا، ’’میں ابھی سب کچھ سمجھائے دیتا ہوں۔‘‘
ہم دونوں اٹھ کر کوٹھی کے ایک علاحدہ کمرے میں پہنچ گئے تو ہم نے اِدھر اُدھر دیکھ کر کہا، ’’مرزا صاحب مجھ کو تو سخت وحشت ہورہی ہے۔ یہاں کس طرح نباہ کر سکوں گا ان لوگوں سے۔‘‘
مرزا صاحب نے کھاجانے کے انداز میں کہا، ’’کیا مطلب؟ کون سی بات ایسی ہوئی جس سے وحشت ہوئی آپ کو۔‘‘
ہم نے حیرت سے کہا، ’’یعنی کمال کرتے ہیں آپ، جہاں تخلص کو لقب کہاجائے۔ جہاں شعر کہنے کو شعر بنانا کہا جائے، جہاں ایک شاعر سے حقانی اورعاشقانہ چیز سننے کی فرمائش ہو، جہاں بدتمیزی سے ہنس ہنس کر شعر سنے جائیں اور سن سن کر گھٹنے پر طبلہ بجایا جائے اور جہاں بجائے کلام کے آواز کے پاٹ دار ہونے کی داد دی جائے وہاں آپ کے نزدیک وحشت بھی نہ ہو کسی کو۔‘‘
مرزا صاحب نے بگڑ کرکہا، ’’بس تو پھر جانے دو، بڑے شاعر بنے پھرتے ہیں، وہی مثل کہ گھر میں نہیں دانے اور اماں چلیں بھنانے، روٹیوں کا سہارا جو نظر آیا تو دماغ میں لگا کیڑا رینگنے، تم تو اسی قابل ہو کہ جوتیاں گھسیٹتے پھرو، مگر کان کھول کر سُن لوکہ اب مجھ سے کبھی اپنی بے روزگاری کا رونا رونے نہ بیٹھنا۔‘‘
ہم نے خوشامد سے مرزا کو سناتے ہوئے کہا، ’’بھئی خفا نہ ہو، تم کو کیا پتہ تمہاری اس ہمدردی کا میرے دل پر کتنا اثر ہوا، مگر میں تو یہ کہہ رہا تھا کہ آخر ان نواب صاحب کے کہیں آس پاس بھی شاعری ہے یا میں اصلاح ہی دوں گا۔ جو شخص تخلص اور لقب تک کی تمیز نہ رکھتا ہو وہ کیوں کر شاعر بن سکتا ہے جس کو شعر سننا نہ آتا ہو وہ شعر کہہ کیوں کر سکے گا۔‘‘
مرزا نے ڈانٹا، ’’پھر وہی۔ میں پوچھتا ہوں تم کو آم کھانے سے مطلب ہے یا پیڑ گننے آئے ہو۔ تمہاری بلا سے وہ شاعر بنیں یا نہ بنیں۔ کمال تو تمہارا یہی ہے کہ تم ان کو اسی مغالطہ میں رکھو کہ وہ شاعر بن گئے ہیں۔ بھائی تم نوکری کرنے آئے ہو، کچھ نہ کچھ تو قیمت دینا ہی پڑتی ہے۔ آخر اب اگر اس نازک مزاجی سے کام لوگے تو کرچکے نوکری تم، میں تو یہ کہتا ہوں کہ عیش کروگے عیش یہاں اور اگر ذرا عقلمندی سے کام لیا تو یہ سب بیوقوف تمہاری مٹھی میں رہیں گے۔‘‘
طبیعت کسی طرح گوارانہ کرتی تھی مگر یہ بھی واقعہ تھا کہ روزگار کی اور کوئی صورت بھی نہ تھی۔ ایک طرف اگر چہ صحبت ناجنس تھی تو دوسری طرف بے فیل ہم جنس جن میں سے ہر ایک قحط زدہ فاقہ مست۔ آخر ہم نے مرزا سے کہہ دیا کہ ’’اچھا بھائی مقدر آزمائیں گے یہاں بھی۔ جاؤ کہہ دو نواب صاحب سے کہ ہم راضی ہیں۔‘‘
مرزا نے پیٹھ ٹھونکتے ہوئے کہا، ’’یہ پس وپیش نہایت احمقانہ تھا۔ ظاہر ہے کہ بیوقوف تو ہوتے ہی ہیں یہ لوگ اورخوش نصیب ہے وہ جس کو بنے بنائے چغد مل جائیں۔ تم کو تو چاہیے کہ نواب صاحب کو ایسا اپنے شیشے میں اُتار و کہ پانچو ں انگلیاں گھی میں ہوں۔ آؤ بس یہ ٹھیک ہے اور میں نے بھی کچھ سمجھ کر ہی یہ صورت پیدا کی ہے۔‘‘
مرزا صاحب نے اُسی وقت نواب صاحب سے جاکر کہہ دیاکہ تمام معاملات طے پاگئے اور خنجر صاحب اب اسی وقت سے آپ کے یہاں رہیں گے۔ یہ سنتے ہی نواب صاحب نے خدمت گار کو مٹھائی اور پھول پان لانے کا حکم دیا کہ شاگردی استادی کی رسم ادا ہوجائے اور ہم سے کہا،
’’استاد، اب کوئی اچھا سا، وہی کیا نام اس کا تلفظ؟‘‘
مرزا صاحب نے بات کاٹ کر کہا، ’’آپ کا مطلب ہے تخلص۔ خنجرؔ صاحب ابھی کہہ رہے تھے کہ نواب صاحب کے لیے تخلص کوثرؔ اچھا رہے گا۔‘‘
نواب صاحب نے چونک کر کہا، ’’یہ کیسے ہو سکتا ہے، ہماری بیگم کی چھوٹی بہن کا نام ہے یہی۔‘‘
ہم نے کہا، ’’دیوان حافظ سے تخلص نکالا جائے آپ کے لیے۔‘‘
نواب صاحب نے تعجب سے پوچھا، ’’کون سے دیوانے حافظ؟ حافظ عبدالغفور تو نہیں۔ وہ تو آج کل باہر ہیں۔‘‘
مرزا صاحب نے کہا، ’’کیوں خنجرؔ صاحب ساقیؔ کیسا رہے گا۔‘‘
نواب صاحب نے اچھل کر کہا، ’’بھئی یہ ٹھیک ہے۔ کیوں استاد، بڑا بانکا تخلص ہے ساقیؔ۔‘‘
ہم نے عرض کیا، ’’بالکل ٹھیک، نہایت اچھا تخلص ہے اور بڑا مبارک ہے۔‘‘
نواب صاحب نے خوش ہوکر کہا، ’’تو اب ہمارا پورا نام ہوا نواب عبدالکریم خاں ساقیؔ، مزہ آگیا یار۔‘‘
اس عرصہ میں ملازم مٹھائی اور پھولوں کے ہار لے کر آگیا۔ نواب صاحب نے اپنے ہاتھ سے ہمارے گلے میں ہار ڈالا اور ہم نے اپنے ہاتھ سے نواب صاحب کو مٹھائی اور قنددیتے ہوئے کہا، ’’خدا آپ کو شیریں کلام بنائے۔‘‘
حاضرین نے ’’آمین‘‘ کا نعرہ کورس میں بلند کیا اور سب نے نواب صاحب کو مبارک باد دی۔ نواب صاحب نے اسی وقت اکاون روپے اور ایک قلمدان ہم کو مرحمت فرماتے ہوئے کہا، ’’لو استاد، یہ استادی کا قلمدان ہے، اب ہم شاگرد اور تم استاد۔ اب لگے ہاتھ مشاعرہ تو کر ڈالو جلدی سے جیسا نواب نکاری کے یہاں ہوا کرتا ہے۔‘‘
اب سمجھ میں آئی اس شاعری کے شوق کی وجہ کہ یہ سب کچھ نواب صاحب نکاری کی چوٹ پر ہو رہا ہے۔ وہ ایک پڑھا لکھا صاحب ذوق رئیس، دن رات اس کے یہاں بھی یہی علمی ادبی چرچے۔ اچھا خاصا شعر وہ کہتاہے، آپ چلے ہیں ا س کی نقل اتارنے۔ مگر اب تو کرنا ہی تھا مشاعرہ۔ اخراجات کی منظوری لی جو نہایت دریا دلی سے دی گئی۔ طرح مقرر کی، دعوت نامے چھپوائے۔ شعرائے کرام سے وعدے لیے اور سب سے بڑی بات یہ کہ اپنے نواب صاحب کے لیے بھر پور غزل کہی۔ مگر خدا جانتا ہے کہ غزل کہنے میں اتنی محنت نہیں پڑتی جتنی محنت نواب صاحب کو پڑھنے کی مشق کرانے میں کی۔ ضد یہ تھی کہ گاکر پڑھوں گا اور عالم یہ کہ ایسے بے سرے سے کبھی سابقہ نہ پڑاتھا۔ بمشکل تمام ایک ہفتہ تک شب وروز محنت کرکے موزونیت، تلفظ اور لے کر طرف سے تو تھوڑا بہت اطمینان ہوگیا مگر آواز تو ظاہر ہے جیسی تھی ویسی ہی رہی۔
اس ایک ہفتہ میں معلوم ہوتا تھا کہ اچھے خاصے بینڈ ماسٹر ہوکر رہ گئے ہیں۔ نواب صاحب غزل پڑھ رہے ہیں اور ہم ان کے سامنے کھڑے ہوئے ہاتھ سے اتار چڑھاؤ سمجھا رہے ہیں۔ خدا خدا کرکے مشاعرے کی رات آئی۔ نواب کی کوٹھی پر جشن کا سماں تھا اور معلوم ہوتاتھا کہ نواب صاحب دولھا بنے بیٹھے ہیں۔ شہر کے تمام اعلیٰ حکام روسا اور شعراء میں سے تمام نامی گرامی شاعر محفل میں موجود۔ لیجئے مشاعرہ شروع ہوگیا اور بڑی کامیابی کے ساتھ اس وقت تک جاری رہا جب تک شمع محفل نواب صاحب کے سامنے نہیں آئی۔ اب جو ہمارے خدا وند نعمت کی باری آئی تو ایک تو جناب کی قطع اس پر سے گھبراہٹ پھر مصیبت بالائے مصیبت یہ کہ طرز بھول گئے جو صاحب پہلے پڑھ رہے تھے اُن ہی کی دھن میں شروع ہوگئے اور وہ بھیانک آواز نکالی کہ لاکھ ضبط سے کام لیا پھر بھی لوگوں کی ہنسی نہ رُکی۔ بمشکل تمام اس طوفان کورکوایا توکسی بدتمیز سخن فہم نے داد دیتے ہوئے کہہ دیا، ’’کیا کہنا ہے خنجرؔ صاحب رنگ چھپائے نہیں چھپتا۔‘‘ لاکھ عقل کے نیلام کنندہ سہی مگر یہ چوٹ سمجھ گئے اور تیور بگڑگئے۔ سونے پر سہاگہ یہ ہوا کہ بحیثیت استاد کے آخر میں جو غزل ہم نے پڑھی تو وہ اتفاق سے خوب چلی چھتیں اڑگئیں۔ دھویں پار ہوگئے۔ نتیجہ اس کایہ ہوا کہ مشاعرہ تو خیر ختم ہوگیامگر شامت آئی ہماری۔ فوراً طلبی ہوئی اور اب جودیکھتے ہیں تو نواب صاحب پھولے اور سوجے بیٹھے ہیں۔ ہم کو دیکھتے ہی بر س پڑے،
’’کیوں صاحب، یہی ہے آپ کی وفاداری کہ آپ نے میرے ساتھ یہ سلوک کیا، آپ کا قصور نہیں ہے یہ خطا ہے میرے نمک کی، میرا مذاق اُڑوایا لوگوں سے کہتے پھرے کہ میں نے غزل لکھ کردی ہے۔‘‘
عرض کی، ’’توبہ، توبہ، بھلا یہ کیوں کر ممکن تھا مجھ سے۔ یہ آپ سے کس نے کہا۔‘‘
نواب صاحب نے آنکھیں نکال کر، ’’کہتا کون؟ میں نے خود سنا کہ لوگ آپ سے پکار پکار کر کہہ رہے تھے کہ رنگ چھپائے نہیں چھپتا۔ اس کا کیا مطلب تھا آخر، پھر یہ کہ اپنی غزل ایسی تگڑی بنائی اور میری ایسی پھسپھسی۔‘‘
عرض کیا، ’’یہ بھی جناب والا کا خیال۔ کسی سخن فہم کے سامنے دونوں غزلیں رکھ دیجیے کہ کون سی غزل اچھی ہے۔ میں نے تو خود غزل کے اچھے شعر آپ کے لیے نکال دیے تھے اور کمزور شعر اپنے لیے رکھ لیے تھے۔‘‘
نواب صاحب نے کہا، ’’یہ سب کہنے کی باتیں ہیں۔ یہی بات ہوتی تو آپ کی غزل کیوں اچھلتی اس قدر اور میری غزل کا کیوں مذاق اڑتا اتنا۔‘‘
اب یہ بات نواب صاحب کو کیوں کر سمجھائی جاسکتی تھی کہ مذاق غزل کا نہیں بلکہ خود آپ کا اڑا ہے۔ آخر عاجز آکر عرض کیا، ’’بہرحال آئندہ سے میں خود مشاعرہ میں غزل نہیں پڑھوں گا۔‘‘
غالباً نواب صاحب یہی چاہتے تھے سمجھاتے ہوئے بولے، ’’اب دیکھئے نا، آپ کو تنخواہ تو اسی بات کی ملتی ہے کہ ہم نے آپ کی شاعری کو گویا خرید لیا ہے آپ نے کسی زردوزی کاکام کرنے والے کو یہ نہ دیکھا ہوگا کہ وہ خود زردوزی کا لباس پہنے۔ آپ نے کسی دھوبی کو نہ دیکھا ہوگا کہ وہ اپنے کپڑوں پر استری کرکے پہنے اور گاہکوں کے کپڑے رہنے دے۔ آپ نے کسی بڑھئی کو نہ دیکھا ہوگا کہ وہ اپنے لیے میز کرسیاں بنائے۔ یہ سب کچھ وہ بناتے ضرور ہیں مگر بیچنے کے لیے۔ اسی طرح آپ بھی کاریگر ہیں۔ آپ بھی شعر بنائیے مگر اپنے لیے نہیں، اب خود اپنا شاعر ہونا بھول جائیے۔‘‘
دلاور خان نے ہاں میں ہاں ملائی، ’’اور نہیں تو کیا۔ میاں تم اپنے بچوں کا خیال کرو، یہ تو سب امیروں رئیسوں کے شوق ہیں، شاعر بنو گے تو کیا کھاؤ گے؟‘‘
اور سب نے بھی قائل کیا اورآخر ہم خاموش ہوگئے۔ نتیجہ یہ کہ اب ہم کو شعر گوئی کی قطعاً اجازت نہیں جو کچھ کہیں وہ نواب صاحب کا۔ خود نہ کسی مشاعرے میں شرکت کی اجازت نہ کسی رسالے میں کلام بھیجنے کا اختیار۔ البتہ کہتے رہتے ہیں دن رات اور خدا کے فضل سے نواب صاحب کا تیسرا دیوان آج کل پریس میں ہے۔ اس دیوان کے ہر مصرعہ کے اعداد نکالنے سے ہماری تاریخ وفات نکلتی ہے۔ ویسے خدا نے واقعی ہمیں جنت نصیب کر رکھی ہے۔
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.