لطیفہ کا جنون بھی کیا جنون ہوتا ہے صاحب۔ معاف کیجئے گا، لطیفہ کا نہیں، لطیفہ گوئی کا۔ جنونِ لطیفہ کے مریض کی پہچان یہ ہے کہ وہ خود کوئی لطیفہ سننا پسند نہیں کرتا۔ بفرض محال اگر اس نے ایک لطیفہ جبراً قہراً سن بھی لیا تو اس کے بدلے بلا مبالغہ آپ کو ستر لطیفے سنائے گا۔ اکثر کا جنون تو اس حد تک بڑھ جاتا ہے کہ وہ دوسرے کے منہ سے لطیفے چھین لیتے ہیں اور بڑی تیز رفتاری کے ساتھ اگلنے لگتے ہیں، فرض کیجئے آپ نے کسی محفل میں لطیفہ سنانے سے پہلے ازراہ اخلاق پوچھا، ’’آپ لوگوں نے وہ لطیفہ سنا ہے؟‘‘
’’کون سا؟‘‘
’’وہ ریچھ اور کمبل والا۔‘‘
’’ارے ہاں، وہ لطیفہ بھی خوب ہے۔‘‘
یہ کہہ کر جنونِ لطیفہ میں گرفتار صاحب فوراً وہ لطیفہ پورے کا پورا سنا دیں گے اور آپ ’واہ‘ کی جگہ ’آہ‘ کر کے رہ جائیں گے۔
ایک محفل میں ایک صاحب ایک لطیفہ سنارہے تھے، ’’ایک بار تین امریکن ایک ہوٹل کی سب سے نچلی منزل میں کھانا کھانے کے بعد پندرہویں فلور پر اپنے کمرے میں جانے لگے۔ اتفاق سے لفٹ خراب تھی، لہٰذا وہ زینہ طے کر کے جارہے تھے۔ان میں سے ایک امریکن ایک زینہ طے کرتا اور ہنسنے لگتا۔ کئی بار کئی امریکنوں نے پوچھا کہ کیا بات ہے، لیکن ہر بار وہ ہنستے ہوئے کہتا، ’’اوپر چل کر بتاؤں گا تب مزا آئے گا۔‘‘
’’آگے میں بتاتا ہوں‘‘، ایک صاحب تڑپ کر بولے اور شروع ہوگئے سو الفاظ فی سیکنڈ کے حساب سے۔
’’جب وہ پندرہویں فلور پر ڈھائی تین سو زینے طے کر کے تقریباً غشی کی حالت میں نڈھال پہنچے، تو تیسرا امریکن پیٹ پکڑ کر ہنستے ہوئے بولا، ’’چابی تو ہم نیچے کھانے کی میز پر ہی بھول آئے۔‘‘
ایک صاحب نے جو فنِ لطیفہ گوئی پر عبوررکھتے ہیں۔ ایک بار بتایا، ’’صاحب، اب تو عالم یہ ہے کہ لوگ ہمارا ہی لطیفہ یہ کہہ کر کہ ’جناب آپ کا وہ لطیفہ خوب تھا‘، من وعن سنا دیتے ہیں۔ پھر داد طلب نظروں سے دیکھتے ہوئے میرے ہنسنے کی امید رکھتے ہیں، لیکن وہ یہ نہیں جانتے کہ میں اپنے ہی لطیفے پر داد دوں ہنسوں یا روؤں۔‘‘
بدقسمتی سے اگر کوئی افسر لطیفہ گوئی کا بیمار ہوا تو سمجھ لیجئے۔ کہ بے چارے ماتحتوں کی مصیبت آگئی، کیونکہ صاحب کے روکھے پھیکے، گھسے پٹے لطیفوں (جس پر ہنسنا تو ہنسنا،رونا بھی نہ آسکے) کو سن کر ان بےچاروں کو اپنی نوکری برقرار رکھنے کے لئے دیوارِ قہقہہ بننا پڑتا ہے، ایک دفتر کے حاکمِ اعلیٰ بھی اس مرض میں مبتلا تھے اور اکثر اپنے ماتحتوں کو بور کیا کرتے تھے۔ ایک دن اسی طرح لطیفہ گوئی ہو رہی تھی اور افسر صاحب کے بلندوبانگ قہقہوں کے ساتھ ان کے اسسٹنٹ صاحبان بھی قہقہے میں قہقہہ ملا رہے تھے لیکن ایک صاحب غیر معمولی طور پر بالکل خاموش اور بے توجہ بیٹھے رہے۔ کسی نے پوچھا، ’’آپ کیوں خاموش ہیں؟‘‘ وہ صاحب برجستہ بول پڑے، ’’میں کیوں ہنسوں، میں تو کل سے ریٹائر ہو رہا ہوں۔‘‘
بور کرنے کی نہ کیجئے، وہ اناڑی لطیفہ گو حضرات بھی کچھ کم بور نہیں کرتے، جو کوئی بہت ہی پرانا لطیفہ اپنی بیتی کے طور پر آپ کو سناتے ہیں مثلاً ایک بڑے ہی مسکین شکل والے صاحب مسمساسا سوکھا چہرہ بنا کر کہتے ہیں۔
’’جناب کل ایک دلچسپ واقعہ ہوگیا۔ میں اپنی ٹوٹی گھڑی لے کر گھڑی ساز کے یہاں گیا، وہ اس میں ایک مرے ہوئے مچھر کو دیکھ کر بے ساختہ بول پڑا، ’’ارے اس کا ڈرائیور تو مرگیا ہے، یہ چلے کیسے؟‘‘ اب آپ کے ساتھ بدقسمتی یہ ہوگی، کہ آپ ان کو یہ کہہ کر بور بھی نہیں کرسکتے، کہ یہ لطیفہ بچپن سے آج تک صدہا بار سن چکے ہیں کیونکہ وہ صاحب آپ کے بزرگ ہیں۔
لیکن ان باتوں سے آپ یہ نہ سمجھ لیجئے گا، کہ صرف لطیفہ سنانے والے ہی آپ کو بور کرتے ہیں، میرا تجربہ تو یہ ہے کہ بعض اوقات سننے والے کچھ زیادہ ہی بور کرتے ہیں، آپ نے یہ تو سنا ہوگا، کہ ایک بے وقوف ایک لطیفہ سن کر تین بار ہنستا ہے ایک بار تمام لوگوں کے ساتھ، دوسری بار اسے سمجھ کر اور تیسری بار اپنی بیوقوفی کو یاد کر کے (اچھا، آپ بلا شرمائے بتائیے کہ ایک لطیفے پر آپ کتنی بار ہنستے ہیں) اس کی تو یہ خوش قسمتی ہے کہ ایک ہی لطیفہ پر وہ تین بار ہنس لیتا ہے، لیکن اپنا یہ عالم ہے کہ کسی بیوقوف کو لطیفہ سنا کر تین ہی بار نہیں، بلکہ زندگی بھر رونے کو جی چاہتا ہے، اگر آپ لطیفہ گوہیں، تو آپ کو معلوم ہوگا کہ رونا کب آتا ہے اور ہنسنا کب۔
ایک دفعہ کا ذکر ہے کہ میں نے چند بزرگوں کے سامنے ایک لطیفہ سنانا شروع کیا، لطیفہ تھا، ’’ایک بار اسکاٹ ایک بس میں ایک بہت بڑا تھیلہ لے کر سوار ہوا، کنڈکٹر نے اس تھیلے کا بھی ٹکٹ خریدنے کو کہا۔ وہ صاحب پہلے تو کنڈکٹر سے جھگڑتے رہے، پھر بڑی مشکل سےنصف ٹکٹ خریدنے پر راضی ہوئے لیکن جب کنڈکٹر کسی طرح راضی نہ ہوا تو انہوں نے تھیلا کھول دیا اور بولے، ’’بیگم باہر نکل آؤ۔ اگر پورا ٹکٹ ہی خریدنا پڑے، تو پھر تھیلے میں بندرہنے کی کیا ضرورت ہے۔‘‘
لطیفہ سنانے کے بعد کمرہ قہقہوں یا ہنسی کی آواز سے نہیں، بلکہ اعتراضات کی گولہ باری سے گونج اٹھا۔
’’یہ لطیفہ سرے سے غلط ہے، کیونکہ کسی انسان کو تھیلے میں بند کر کے اتنی دیر تک نہیں رکھا جاسکتا، اس کا دم گھٹ جائے گا۔‘‘
’’ایک دوڈھائی من کی عورت کو کندھے پر اٹھائے رکھنا صرف مشکل نہیں بلکہ ناممکن ہے۔‘‘
’’اکثر دیکھا گیا ہے کہ لوگ بکس یا بستر وغیرہ لےکر بس میں سفر کرتے ہیں،اس لئے کنڈکٹر کا بحث کرنا ہی فضول تھا۔‘‘ وغیرہ وغیرہ۔
بزرگوں کی ایک خاص قسم وہ ہوتی ہے جو لطیفہ سن لینے کے بعد ہنسنے یا محض مسکرادینے کی بجائے سنجیدگی سے پوچھتے ہیں، ’’پھر کیا ہوا؟‘‘ یا ’’اف، اس کو ایسا نہ کرنا چاہئے تھا۔‘‘ یا یہ کہ ’’غلطی اسی کی تھی۔‘‘
ایک بار ایسے ہی ایک خطرناک بزرگ کی موجودگی میں، میں ایک لطیفہ سنا رہی تھی، ’’ایک کسان کی بھینس بیمار ہوگئی، وہ دوسرے کسان کے پاس گیا اور پوچھا ’’پارسال تمہاری بھینس بیمار ہوئی تھی، تو تم نے اس کو کیا دوا دی تھی؟‘‘
دوسرے کسان نے جواب دیا، ’’میں نے اپنی بھینس کو بھلا وہ کوٹ کر کھلا دیا تھا۔‘‘
پہلا کسان گھر گیا اور اپنی بھینس کو بھلا وہ کوٹ کر کھلا دیا۔ بھلا وہ کھاتے ہی اس کی بھینس تڑپنے لگی اور تڑپ تڑپ کر مر گئی۔ اس پر اس کسان کو بہت تاؤ آیا، وہ اسی وقت دوسرے کسان کے پاس گیا اور بگڑ کر بولا، ’’تم نے اچھی دوابتائی، میری بھینس بھلا وہ کھاتے ہی مرگئی۔‘‘
’’مرتو میری بھی گئی تھی‘‘، دوسرا کسان بولا۔
’’پھر تم نے مجھے بتایا کیوں نہیں‘‘، پہلے نے شکایت کی۔
’’تم نے پوچھا کب تھا؟ پوچھتے تو بتا دیتا‘‘، دوسرا معصومیت سے بولا۔ لطیفہ نہایت غور سے سننے کے بعد ٹھنڈی آہ بھرتے ہوئے ان بزرگ نے فرمایا، ’’افسوس! کسان کی بے وقوفی سے ایک بے زبان کی جان گئی۔‘‘
ایک دفعہ کا ذکر ہے کہ خواتین کے ایک مجمع میں مجھے ایک لطیفہ سنانے کا موقع ملا، ہال میں خواتین کی پرشورباتوں کی آواز سے کان پڑی آواز نہیں سنائی دے رہی تھی گلے لاؤڈاسپیکر بنے ہوئے اور ہر معززخاتون اپنی آواز کو دوسری خاتون کی آواز پر حاوی کرنے کے لئے پوری زور آزمائی کر رہی تھی، ایسے میں میری رگِ لطیفہ پھڑکی، اور اپنی بغل میں بیٹھی اپنی عزیز دوست یاسمین کو لطیفہ سنانے لگی۔ سن کر وہ زور سے ہنس پڑیں ان کی بغل میں بیٹھی ہوئی ایک فیشن ایبل خاتون شمیم بیگم نے پوچھا، ’’کیوں، کیا ہوا، کاہے کی ہنسی ہو رہی ہے؟‘‘
یاسمین بولیں، ’’انہوں نے ایک لطیفہ سنایا تھا۔‘‘
’’اچھا، مجھے بھی تو سنائیے۔‘‘
’’سنئے‘‘
’’ایک بار ایک محفل میں ایک بائی جی۔۔۔‘‘
’’کس بائی کا ذکر ہورہا ہے، میں بھی تو سنوں‘‘، دوسری طرف سے آواز آئی۔
’’جی! یہ ایک لطیفہ ہے۔‘‘
’’اچھا! اچھا! ہمیں بھی تو سنائیے۔‘‘
’’جی ہاں! تومیں کہہ رہی تھی۔۔۔ ایک بارایک محفل میں ایک بائی جی ڈھیر سازیور پہنے۔۔۔‘‘
’’ارے، یہ کہیں نظیربائی کا ذکر تو نہیں، جن کے زیورات ایک شادی سے واپسی میں لوٹ لئے گئے‘‘، ایک کونے سے زور دار سی آواز آئی۔
’’جی نہیں، یہ ایک بائی جی کا لطیفہ ہے۔۔۔‘‘
’’اوہ!اچھا تو پھر کیا ہوا؟‘‘
’’ہاں تو وہ گارہی تھیں۔۔۔ میں بن میں اکیلی پھرتی تھی۔‘‘
’’بہت خوب! آگے کیا قصہ ہوا؟‘‘
’’پھر یہ ہوا کہ ایک پشاوری خان دہاڑیں مار مار کر رونے لگا‘‘، میں جھلا کر بولی۔
’’ارے یہ کیوں؟ چچ چچ۔۔۔ اس پر کیا بپتا پڑی؟‘‘
’چچ چچ‘ کی آوازیں دو تین طرف سے ابھریں، اور اس ہائے وائے کے ماحول میں لطیفے کے خاتمے سے پہلے ہی پوسٹ مارٹم ہوگیا۔
ایک بار ایک محفل میں ایک صاحب ایک لطیفہ سنارہے تھے، ’’ایک دولت مند کی بیوی نے اپنے شوہر کے مرجانے کے فوراً بعد اپنے مالی کو پلنگ پر لٹا کر اس پر چادر ڈال دی۔ پھر اپنے وکیل کو بلوا کر اس کی وصیت لکھوانے لگیں ۔ مالی نے کراہتے ہوئے دھیمی آواز سے کہا، ’’میں اپنی جائداد کانصف حصہ اپنی پیاری بیوی کو دیتا ہوں۔‘‘
پھر وکیل نے پوچھا، ’’اور باقی نصف؟‘‘
’’وہ اپنے وفادار مالی کو۔‘‘
’’عجیب، عجیب۔‘‘
ایک فلک شگاف آواز کمرے میں گونج اٹھی، ’’ایسا کبھی نہیں ہوسکتا۔ آپ نسائیت کی بھر پور توہین کررہے ہیں۔ ایک عورت کبھی ایسی گری ہوئی حرکت نہیں کرسکتی۔‘‘
پوری محفل اس لطیفہ کی بجائے اس آواز کی طرف متوجہ ہوگئی، جو ایک بھاری بھرکم خاتون کی زبان سے نکل رہی تھی۔ ساری خواتین اور چند بزرگ صاحبان ان بھاری بھرکم خاتون کے ہمنوا بن گئے۔ آج کل کے نوجوانوں کی خوب مذمت کی گئی غرضیکہ اس محفل کی دوپارٹیاں ہوگئیں۔ ایک پارٹی عورت کی وفاداری کی حمایت میں، اور دوسری پارٹی بے وفائی کی حمایت میں۔
مجھے تو اب یہ ڈرلگ رہا ہے، کہ قارئین کہیں اس خاکسار کو بھی جنونِ لطیفہ کا بیمار نہ سمجھ بیٹھیں، کیونکہ باتوں ہی باتوں میں میں نے بھی بہت سے لطیفے سنادیئے آپ کہیں یہ نہ کہہ بیٹھیں، کہ لطیفے سنانے کی اچھی ترکیب نکالی، ٹھیک اسی لطیفے کی طرح۔۔۔ ایک صاحب کے بچے حساب پڑھنے سے بہت بھاگتے تھے۔ انہوں نے کئی ٹیوٹر رکھے، لیکن حساب پڑھانے میں کوئی بھی کامیاب نہ ہوسکا۔ آخر ایک ماہرِ نفسیات نے دعویٰ کیا کہ وہ انھیں پڑھادیں گے۔
دونوں لڑکے باغ میں کھیل رہے تھے، کہ یہ صاحب پہنچے۔ بچوں کے دل سے خوف دور کرنے کے لئے وہ ادھر ادھر کی باتیں کرنے لگے۔
پھر انہوں نے پوچھا، ’’اچھا بچو!تم کتنے بھائی بہن ہو؟‘‘ ایک نے بتایا ’’سات۔‘‘ پھر انہوں نے پوچھا، ’’کتنی بہنیں ہیں؟‘‘ وہ بولا ’’تین۔‘‘
’’اور کتنے بھائی ہیں؟‘‘ اس نے جواب دیا ’’چار۔‘‘
دوسرا لڑکا جو خاموشی سے یہ سوال جواب سن رہا تھا، چپکے سے پہلے لڑکے کے کان میں بولا، ’’ارے بھاگو، یہ تو باتوں ہی باتوں میں ہمیں حساب پڑھارہا ہے۔‘‘
لہٰذا پیشتر اس کے کہ آپ بھاگیں، مجھے رخصت ہوجانا چاہئے۔
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.