یہ پہلا اتفاق تھا کہ جب مجھے بھینس خریدنے کے لیے ایک منڈی میں جانا پڑا۔ سیاہ رنگ کے اس جانور کے تعلق سے میرا علم بس اتنا ہی ہے کہ اسکی دودھ کی افادیت کے علاوہ چار ٹانگ اور ایک عدد پونچھ ہوتی ہے۔ اور ذرا زیادہ تفصیلات درکار ہوں تو یہ بات بھی وثوق سے کہی جا سکتی ہے کہ سر پر کان کے علاوہ دو سینگ بھی واقع ہیں۔ حالانکہ یہ خدا ہی کو معلوم ہے کہ اس اضافی تخلیق کا اصل میں کیا مقصد ہے؟
قربان جائیے خاندان کے ان بزرگوں کی مردم شناسی پر، کہ جن کی عقل سلیم میں اس کار پر فتن کے لیے میرے جیسے عالم فاضل کا نام قرار پایا۔
بہرحال، بڑوں کا حکم سر ماتھے۔ پہنچے۔ رات کو گھڑی کی دونوں سوئییاں جیسے ہی دائیں سمت آکر ملیں۔ تو گاڑی میں اپنے بڑے بھائیوں کے ساتھ نکلا۔ سخت سردی کی رات تھی۔ شہر کے تقریباً باہری حصہ میں یہ جہان دگر آباد تھا۔ گاڑی کو پارک کرکے پیر باہر نکالا ہی تھا کہ ایک خوبصورت شیپ کے گوبر کے عین بیچ میں اسکو رکھا پایا۔ ’’زنانہ آزادی‘‘ کا خیال بروقت آیا تو غصہ جاتا رہا۔ سامنے ایک بڑا سا میدان۔ میدان کے ایک طرف کسی انڈور اسٹیڈیم کا سا ایک شیڈ۔ اور شیڈ کے نیچے، تا حد نظر بھینس ہی بھینس۔
سیاہ بھینس۔ کم سیاہ بھینس۔ زلف سیاہ والی بھینس۔ براؤن بالوں والی بھینس۔ سنہری پونچھ والی بھینس۔ غرض یہ کہ جتنی بھینس اتنی قسمیں۔ شیڈ میں بڑے بڑے پلر بنے ہوئے تھے۔ اور انہیں سے بندھے ہوئے ان جانوروں کو دیکھ کر برملا آپ پر دنیا کے تمام شوہروں کے لیے دعا کرنا واجب ہو جاتا ہے۔ حالانکہ کچھ ایسے بھی جانور وہاں تھے، کہ جو ان کھونٹوں سے نہیں بندھے تھے لیکن اس حال میں کہ ان کی ناک میں نکیل پڑی ہے۔ اور اس نکیل کی رسی تھامے تاجر کھڑا ہے۔
منڈی میں داخل ہوتے ہی میری شخصیت میں جو سب سے پہلی واضح تبدیلی رونما ہوئی، وہ یہ کہ میں نے اب دو الگ رنگوں کے جوتے پہنے ہوئے تھے۔ ایک گوبر والے۔ ایک بنا گوبر والے۔
جانوروں کو وفد کی شکل میں اس طرح کھونٹے سے باندھا گیا تھا کہ کسی بھی بھینس کی پونچھ اور دوسرے قابل اعتراض مقامات تو دکھتے تھے لیکن چہرہ دکھائی نہیں پڑتا تھا۔ پہلے تو اس بازار عریاں کے بہت سے کھونٹو کا طواف کیا۔ پھر میرے بھائیوں نے ان زنانہ بھینسوں کو پونچھ کے اعتراف چیدہ چیدہ مقامات پر دبا دبا کر دیکھنا شروع کیا۔ جب دو درجن زنانہ بھینسوں کے ساتھ یہی واقعہ پیش آیا تو میں نے اس فحش حرکت کا جواز جاننا چاہا تو معلوم ہوا کہ صحیح بھینس کو دیکھنے کا یہی طریقہ بزرگوں سے ثابت ہے۔
ابھی یہ سلسلہ چل ہی رہا تھا کہ ایک منہ زور بھینسا رسی تڑا کر بھاگ نکلا۔ مجھے گمان تھا کہ اس سے وہاں بھگدڑ مچ سکتی ہے۔ لیکن پاس کھڑے ہوئے لوگوں نے ادھر دیکھنے کی زحمت تک نہ کی۔ البتہ تاجر کا ایک نوکر اسکے پیچھے بھاگا۔ بھینسے کو خود کی طرف آتا دیکھ میں بھی بھاگا۔ اور اس طرح بھاگا کہ بڑے بڑے بھاگنے والوں کو رشک آ جائے۔ جب دور جاکر رکا تو دیکھا کہ پیچھے کوئی نہ تھا۔ اس حلقۂ یاراں سے بہت دور نکل آیا تھا۔ اس واقعہ کے بعد جو ایک اور تبدیلی دکھائی دی، وہ یہ کہ گوبر والے جوتے کی طرف سے پتلون کے ایک بڑے حصہ نے بھی وہی رنگ اختیار کر لیا تھا۔ مشکل سے واپس بھائیوں کے پاس پہنچا۔ جانوروں کے اس ہجوم میں کسی آدمی کو ڈھونڈ لینے سے بڑا مردم شناس بھلا کون ہو سکتا ہے؟
یہ تو بھینسوں کا معاملہ رہا۔ اب ذرا تاجروں کا حال سنیے۔ وہاں کئی ورائٹی کے جانوروں کے علاوہ، تاجروں کی بھی کئی قسمیں تھیں۔ اول تو وہ تاجر، جو ملک کے مختلف شہروں سے سفر کرکے ابھی پہنچے تھے۔ انکے جانور گاڑیوں سے اتارے جا رہے تھے۔ وہ بات بے بات کارندوں کی حوصلہ افزائی کے لیے انہیں خوب مغلظات سے نوازتے تھے۔ اور مغلظات بھی ایسے کہ انکے معانی کسی بیحد مقامی لغت میں ہی شاید مل پائیں۔
دوسرے وہ تاجر تھے جو خرید وفروخت کے گر جانتے تھے۔ وہ آتے۔ بھینس کی پیٹھ اور کولھوں کو ذرا دبا کر دیکھتے۔ اسکی پونچھ اٹھاتے۔ اسکو چلوا کر دیکھتے۔ منہ میں ہاتھ ڈال کر دانتوں پر انگلی پھیرتے۔ اور آخر میں پیٹھ پر ایک تھپکی مار کر سودے کی بات کرتے۔ تاجروں کے آپس میں بات کرنے کا ایک مخصوص انداز تھا۔ وہ تیز آواز میں بات نہیں کرتے تھے۔ بلکہ ایک دوسرے کے کان میں بولتے تھے۔ بھیڑ کے بیچ بھی وہ کان میں بات کرتے تھے اور تب بھی، جب آس پاس ان دونوں کے علاوہ کوئی تیسرا نہ ہو۔ حالانکہ مجھے حیرانی اس پر تھی کہ جب پورا بازار ایک دوسرے کے کان میں باتیں کر رہا تھا تو پھر یہ عجیب شور کہاں سے آتا تھا۔ یوں تو آپ برادران قریش کی زبان سے خوب واقف ہو ں گے مگر اطلاعاً عرض ہے آوازیں مختلف فریکوینسی اور زاو یوں سے آتی تھی۔
’’ایں رے۔۔۔ لیو۔۔۔ (گالی۔۔۔) گری۔۔۔ اٹھا اٹھا! کھینچ لے کھینچ لے۔۔۔ (گالی) بے لیئو استاد! تو بچہ دیکھ بھّیے! (گالی!)‘‘
غرض یہ کہ ہندی زبان میں جو لطف تمام طرح کے ’’النکار‘‘ لگانے سے پیدا ہوتا ہے، انکی زبان میں بھی ویسی ہی لذت ان ’’انکاروں‘‘ کی آمیزش سے ہو رہی تھی۔
میں نے پیچھے سے قریب جاکر دو کن گفتیوں کی بات سننی چاہی تو معلوم یہ چلا کہ وہ لوگ کچھ اس قسم کی زبان بولتے تھے کہ جس کا تعلق اس خطۂ زمین سے تو بالکل نہ تھا۔ جو دو الفاظ میں نے سنے، وہ تھے، ’’خمس اور آسر‘‘ اور میری ناقص رائے میں یہ الفاظ حساب کے لیے استعمال کئے جا رہے تھے۔ دل چاہا کہ ان سے دریافت کروں کہ ’’محترم، اگر پردہ رکھنا ہی مقصود ہے تو کان میں گفتگو کرنے کی بھلا کیا ضرورت ہے؟ آپکی زبان تو ہمیں ویسے بھی سمجھ نہیں آتی۔‘‘
تاجروں کی تیسری جماعت وہ تھی کہ جن پر اقبال کا وہ مصرع صادق آتا تھا،
’’دور ہنگامۂ گلزار سے یکسو بیٹھے‘‘
ایسے ہنگامہ خیز ماحول میں بھی بھینسوں کے بیچو بیچ الگ الگ جگہ درجنوں چارپائیاں تھیں۔ اور وہ اس جنگی حالات میں بھی بے خبر سوئے ہوئے تھے۔ حالانکہ یہ بات سوچنے سے تعلق رکھتی ہے کہ اس حالت میں اتنی بے فکری سے کیسے سویا جا سکتا ہے، جبکہ ہر وقت چارپائی کے عین اوپر (یا شاید منہ پر) گوبر کی عنایت کا پورا امکان ہو؟ پچھلی رات بارش ہوئی تھی، اسلئے کیچڑ میں جوتے دھنسے جا رہے تھے۔ کہیں کہیں چائے کے ٹھیلے بھی کھڑے تھے۔ لیکن کئی بار سوچ کر رہ گیا۔ چائے کو گلے سے اتارنے کی سوچ کر ہی گھبراہٹ ہو رہی تھی۔
اب ذرا ذرا فروخت کا معاملہ تو ملاحظہ ہو کہ جب گھنٹوں گھومنے کے بعد بھی کوئی جانور پسند نہ آیا تو پھر ایک بڑے میاں کی مدد لی گئی۔ چاچا وہیں ایک الاؤ کے پاس بیٹھے تھے۔ آئے۔ سانولی رنگت۔ چہرے پر گھنی سفید داڑھی۔ بھاری سی جیکٹ، اس پر ایک بڑی سی اونی شال۔ پیروں میں جوتے، جنکو وثوق نہیں کہا جا سکتا کہ وہ کپڑے کے تھے یا چمڑے کے۔ فی الحال تو وہ گوبر کے تھے۔
طے ہوا کہ وہ کچھ اچھے جانوروں کی نشاندہی کرکے اسکا سودا کروانے میں ہماری مدد کرینگے۔ اور اسکے عوض انکو محنتانہ دیا جائیگا۔ چاچا بڑے کام کے نکلے۔ انہوں نے کھٹا کھٹ ہماری پسند کے جانور دکھانا شروع کیا۔ ایک پسند آیا۔ چاچا نے تاجر سے بات کی۔ وہاں جانوروں کے تاجر کو ’’بیوپاری‘‘ کہا جاتا ہے۔ چاچا اسے مناسب دام کے لیے منا رہے تھے۔ بیوپاری نہ مانا۔ بڑی سی پگڑ باندھے۔ ڈھیلا سا کرتا، چوڑا پاجامہ، پیروں میں گوبر والے سپورٹس شوز، بھاری سی جیکٹ اور کمبل اوڑھے۔ اسکی آنکھیں باہر کو نکلی ہوئی اور بالکل سرخ تھیں۔ چاچا اسکے بازو میں جاکر کھڑے ہوئے۔ کان میں کچھ کہا۔ بیوپاری نے نہ میں گردن ہلائی۔ مجھے سننے کا اشتیاق ہوا تو انکے بالکل پیچھے کان لگا کر کھڑا ہو گیا۔ تو پھر انہوں نے مجھے بھی گفتگو میں شامل کرنے کی غرض سے مجھے سناتے ہوئے بات کرنی شروع کی۔
’’دیکھ، یہ سئی دام لگا را ہوں، مان جا۔ بول، کی تو دلواؤں؟‘‘ چاچا نے کہا۔
“نا! چچا، اِتّے میں نا پٹے گی بات۔ نہ!‘‘ بیوپاری پیچھے ہٹتے ہوئے بولا۔
’’بیٹے، چھنٹو کے باجے مت بجاوے۔‘‘ چاچا نے الگ روٹ سے سمجھانے کی کوشش کی۔
’’چچا تو سمج نا رائے، وہ ہاپجی سوکت کے لونڈے کو بی نا دی اِتےّ میں تو۔‘‘ بیوپاری نے دلیل پیش کی۔ لیکن چاچا جی پکے تھے۔ بولے، ’’بے مان جا سسریل کے۔ ہزار روپے اور رکھ لیو۔ بول دے تو بتا، ونا جاؤں؟‘‘
میں آنکھیں پھاڑے ان لوگوں کو بات کرتے دیکھتا رہا۔ چاچا کا ایک دلچسپ انداز یہ تھا کہ وہ بات بات پر بیوپاری کی ٹھوڑی کے نیچے انگلیاں پھیرتے۔ بیوپاری دیر تک منع کرتا رہا۔ لیکن چاچا بھی ضد کے پکے تھے۔ اپنے لگائے ہوئے دام پر ہی بات پکی کی۔
صبح ہوتی جا رہی تھی۔ دو جانور خرید چکے تھے۔ جب ان جانوروں کو گاڑی میں چڑھوا کر ہم اپنی کار میں آکر بیٹھنے لگے۔ تو سورج کی چمکدار روشنی میں میں نے ایک نظر اپنے پیروں پر ڈالی اور اطمینان کی سانس لی۔ گھٹنوں تک پتلون اور بچا ہوا جوتا بھی اب اپنے ہمسائے کا رنگ اختیار کر چکا تھا۔
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.