کچھ نہ سمجھے خدا کرے کوئی
بعض لوگوں کو خواہ مخواہ بھی پتھر لڑھکانے کی عادت ہوتی ہے اور عام گفتگو میں بھی وہ لٹریچر بگھارنے کے شوق میں کتابی زبان بولنا شروع کر دیتے ہیں اور اتنے بڑے بڑے الفاظ بولتے ہیں کہ سننے والا دل ہی دل میں ہجے اور معنی یاد کرتا رہ جاتاہے مثلاً اسی قسم کے ایک کرم فرما غریب خانہ پر آکر مہمان ہوگئے تھے۔ جانا تھا اُن کو بھارت کے سفر پر مگر قیام فرما اس لیے تھے کہ ویزا بننے میں دیر ہورہی تھی، لہٰذا جب بھی ویزا آفس سے واپس آتے تھے اور ان سے پوچھا جاتا تھا کہ ’’کہئے جناب آج کیا ہوا؟‘‘
وہ اس سیدھی سی بات کا جواب یہی دیتے تھے کہ ’’صاحب تحیّر ہوگیا۔ حسب معمول تعجیل کے بجائے تعویق سے کام لے رہے ہیں ارباب حل و عقد۔‘‘
دوسرے دن پھر پوچھا گیا کہ ’’آج کی خبر سنائیے بندہ نواز۔‘‘
وہ پھر یہی جواب دیتے کہ ’’آج بھی تحیر ہو گیا۔ بدستور تعجیل کے بجائے تعویق۔‘‘
آخر ایک دن وہ نہایت شگفتہ سے تشریف لائے اور جب اُن سے پوچھا گیا تو ہنس کر بولے، ’’آج تو بفضلہ کامراں واپس آیا ہوں۔‘‘
یہ سُن کر ایک صاحب نے کہا، ’’پھر تو معانقہ ہوگا آج۔‘‘
اب مصیبت یہ کہ معانقہ وہ نہ جانتے تھے، لہٰذا کچھ سنّاٹے میں آکر رہ گئے کہ اللہ جانے یہ کس بات کی فرمائش ہوئی ہے۔ آخر بڑے پس و پیش کے بعد بولے، ’’جیسی آپ کی مرضی۔‘‘
اسی قسم کا ایک حادثہ بھی پنڈت جواہر لال نہرو پر گذرا ہے کہ وہ ایک قصباتی کانگریس کمیٹی کے جلسہ میں شرکت کے لئے گئے تو کانگریس کمیٹی کے صدر نے ان کا سواگت کرتے ہوئے کہا کہ ’’اب میں جواہر جی سے پرارتھنا کرتا ہوں کہ وہ اپنا بھاشڑ دیں۔ ’’کہ ہم سب لابھنجت ہوں۔‘‘
پنڈت جی چکرا کر رہ گئے کہ وہ ’’لابھنجت‘‘ کرنا جانتے ہی نہیں تو کسی کو آخر کس طرح ’’لابھنجت‘‘ کردیں۔ دیر تک بغلیں جھانکنے کے بعد آخر ان کو کانگریس کمیٹی کے ان ہی صدر صاحب سے پوچھنا پڑا کہ ’’آپ آخر کیا چاہتے ہیں کہ میں آپ کے ساتھ کیا کروں؟‘‘ اُن صاحب نے پنڈت جی کو سمجھایا کہ میرا مطلب یہ ہے کہ آپ ہم سب کو لابھنجت ہونے کا موقع دیں۔ پنڈت جی نے یقین دلایا کہ اگر میرے امکان میں ہوا اور کوئی قانونی رکاوٹ نہ ہوئی تو میں موقع ضرور دوں گا مگر مجھے بتاتو دیجئے کہ آپ میرے ذریعہ لابھنجت کیونکر ہوسکتے ہیں، یہ لابھنجت آخر ہے کیا؟ یہ سُن کر ان صاحب نے کہا ’’لابھنجت ہوں‘‘ سے میرا مطلب یہ تھا کہ ’’فائدہ اٹھائیں۔‘‘ پنڈت جی تعجب سے اُن کا منھ دیکھ کر ہنسے اور کہا، ’’اتنی سی بات کے لیے آپ نے خواہ مخواہ پریشان کردیا تھا۔ میں سوچ رہاتھا کہ نہ جانے مجھ سے کیا کرنے کو کہا جارہا ہے۔‘‘
خیر پنڈت جواہر لال نہرو پر تو اس قسم کے حادثات اکثرگذراہی کرتے کرتے ہیں کہ مثلاً ان کی خدمت میں کسی جماعت نے کوئی ایڈریس پیش کیا اور اس میں نہ جانے کیا کیا کہاگیا جو پنڈت جی کے قطعا پلے نہ پڑسکا۔ اب آپ اس کا جواب دینے کھڑے ہوئے تو زیادہ سے زیادہ یہی کہہ سکے کہ آپ نے میرے متعلق جو کچھ کہا ہے میں اس قابل تو نہیں ہوں مگر آپ کے نظر حسن کا شکر گذار ہوں۔ آپ نے اس ایڈریس میں جو مطالبات پیش کئے ہیں ان پر میں سمجھنے کے بعد غور کروں گا۔ اور اسی قسم کی گول مول جوابی تقریر کرکے وہ اس قسم کے امتحانوں سے گذر جاتے ہیں مگر پریشانی اس وقت ہوتی ہے جب وہ خود تقریر میں رہ رہ کر اردو کے الفاظ بولتے ہیں اور پھر ان کی ہندی بنانا پڑتی ہے، مثلاً ایک مرتبہ ان کی ایک تقریر ریلے ہورہی تھی اور وہ مسلسل ہکلا رہے تھے۔ دراصل وہ ہکلاتے نہیں ہیں مگر ہندی الفاظ یاد کرکے بولنے کے لئے ان کو ہکلانا ہی پڑتا ہے کہنے لگے کہ،
’’میرے والد، والد نہیں بلکہ پتا جی۔ میرا مطلب ہے کہ میرے پتا جی جو میرے والد تھے جب کبھی تقریر کرتے تھے۔ میرا مطلب ہے بھاشڑ دیتے تھے اس کو عوام، عوام تو میں غلط کہہ گیا، میں کہنا چاہتا تھا جنتا اس لیے پسند کرتی تھی کہ اس میں ملک کی خدمت یعنی گویا۔ میں کہنا چاہتا تھا دیس کی سیوا کی باتیں ہوتی تھیں۔‘‘
اور اسی طرح وہ تقریر کے بجائے ترجمہ کرتے رہے اور جو کچھ کہنا چاہتے تھے اس میں سے بہت سی باتیں اس لیے دل کی دل ہی میں رہ گئیں کہ بروقت ان کی ہندی نہ بن سکی۔ اسی طرح جب اُن سے شدھ ہندی میں بات کی جاتی ہے تو اکثر ’’نہیں‘‘ کی جگہ’’ہاں‘‘ اور ہا ں کی جگہ’’نہیں‘‘ کہہ جاتے ہیں
وہ زمیں کی پوچھتے ہیں آسماں کہتا ہوں میں
جب سمجھ میں کچھ نہیں آتا تو ہاں کہتا ہوں میں
بے محل نہ ہوگا اگر مولانا کا ذکر کردیا جائے جو ایک مرتبہ اپنے ایک عقیدتمند مرید کے گھر دعوت میں گئے۔ مرید اُن کو دیکھ کر مارے عقیدت کے دوڑا ان کے قدم چھوئے۔ مولانا نے اس کو روکا اور بڑی شفقت سے سمجھایا کہ قدم بوسی غیر اسلامی طریقہ ہے۔ البتہ دست بوسی کر سکتے ہو۔ اورجب مرید کی سمجھ میں نہ آیا تو آپ نے بتایا کہ’’دست‘‘ ہاتھ کو کہتے ہیں۔ ’’دست بوسی‘‘ یعنی ہاتھ چومنا۔ مرید نے ہاتھ چومنے کے علاوہ گرہ میں یہ بات باندھ لی کہ ہاتھ کو دست کہتے ہیں تھوڑی دیر کے بعد مولانا نے فرمایا، ’’آبِ خنک منگاؤ۔ مرید منہ اٹھائے کھڑا رہا کہ اللہ جانے حضور کون سی روحانی چیز مانگ رہے ہیں۔ مولانا کو پھر سمجھانا پڑا کہ’’آب یعنی پانی۔ خنک یعنی ٹھنڈا۔ میں ٹھنڈا پانی مانگ رہا ہوں۔‘‘ مرید دوڑا پانی لانے کے لئے اور یاد کرتا گیا کہ پانی کو آب کہتے ہیں اور ٹھنڈے کوخُنک تھوڑی دیر کے بعد اس نے دستر خوان چن دیا اور لوٹا لے کر کھڑا ہوگیا کہ ہاتھ دھلائے مگر یہی دقت تھا پڑھے ہوئے سبق کو دوہرانے کا، لہٰذا اس نے عرض کیا کہ ’’حضور آب دست لے لیں۔‘‘ ظاہر ہے کہ مولانا کو پھر سمجھانا پڑا ہوگا کہ ’’آب دست ایک اور ہی چیز ہوتی ہے۔‘‘ مگر سب سے زیادہ مولانا اس وقت پریشان ہوئے جب کھانا کھانے کے بعد آپ نے ارشاد فرمایا، ’’اب ذرا قیلولہ کا انتظام کردو۔‘‘ مرید سخت پریشان ہوا کہ اب یہ انتظام کس طرح کرے۔ آخر اس کی سمجھ میں آگیا اور وہ سلفچی اور لوٹا لے کر حاضر ہوگیا کہ اسی سلفچی میں قیلولہ کرلیجئے۔
قابلبیت بگھارنے میں کوئی مضائقہ نہیں بشرطیکہ وہ کسی جاننے والے سے بگھاری جائے، مگر مصیبت یہ ہے کہ عام طور پر لوگ ان ہی کو مرعوب کرنا چاہتے ہیں جو بات سن کر مفہوم ٹاپتے رہ جائیں اور بغلیں جھانکنے کے علاوہ جن کے پاس کوئی چارہ نہ ہو اور خدا نہ کرے کہ کسی جاہل کے ذہن میں ایک آدھ موٹا سا لفظ اٹکارہ جائے تو اس کا مصرف ایسا نکالتا ہے کہ آپ چکرا کر رہ جائیں مثلاً ایک دن ایک صاحب اپنی بیوی کو ڈانٹ رہے تھے کہ ’’پان میں اتنی تماخو جھونک دی کہ پان کھاتے ہی دوران گفتگو شروع ہوگیا۔ بیوی تو اپنے شوہر نامدار کی قابلیت سے سہم کر رہ گئی ہوںگی مگر آپ کر لیجئے ان کا جو کچھ کر سکتے ہوں کہ دوران سرکو دوران گفتگو کہہ رہے تھے۔‘‘
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.