کیا کوئی وحشی اور آ پہنچا، یا کوئی قیدی چھوٹ گیا؟
سدا سہاگن راگنی
رات کے دس بجا چاہتے تھے۔ بینک میں دس بارہ شب زندہ دار رہ گئے ہوں گے۔ بسیں چلنی بند ہوگئی تھیں اور اندر باہر سناٹا تھا۔ بھوک بھی تھوڑی دیر ایڑیاں رگڑ رگڑ کر مری نہیں تو ایسی گہری نیند ضرور سوگئی تھی جو سسکیاں لے لے کر رونے کے بعد بچوں کو آجاتی ہے۔ اچانک عجیب و غریب آوازیں آنے لگیں۔ جیسے چیل، مینڈک اور بوڑھی میم مل کر قوالی گا رہے ہوں۔ ہم نے ہال میں آکر دیکھا تو معلوم ہوا کہ یہ تمام آوازیں ایک نو گرفتار، آزاد منش (سابق) سیکنڈ لفٹین این۔ ایم۔ ایم۔ ایم۔ این۔ پی۔ کنجو کے گلے میں رڑک رہی ہیں۔ انہیں بینک میں وارد ہوئے کویئ ایک مہینہ ہوا ہوگا اور اس وقت وہ ملیالم زبان کا ایک رومنٹک لوک گیت گا رہے تھے جس کے بارے میں ان کا دعویٰ تھا کہ دریائے کاویری کے دوسرے کنارے پر کھڑے ہوکر ایک دراوڑی دوشیزہ نے انہیں سکھایا تھا۔
یہ دعویٰ درست ہی ہوگا، اس لیے کہ اگر وہ واقعی دریائے کاویری کے اس پار کھڑی تھی تو اس کی دوشیزگی پر شبہ نہیں کیا جاسکتا۔ انہی کی زبانی اس کا خار اشگاف ترجمہ سن کر ہمارے تو پسینے چھوٹنے لگے۔ اس کے شرنگار رس کے سامنے اردو کی ساری عشقیہ شاعری بالکل نرسری رہائم اور گڈے گڑیا کا کھیل معلوم ہونے لگی۔ حق نواز چیمہ، اکاؤنٹنٹ، اسٹرانگ روم (محافظ خانہ) کی بالشت بھر لمبی چابیاں چھنکا کر سنگت کر رہے تھے۔ ہر ملیالم بول کے بعد این۔ ایم۔ ایم۔ این۔ پی۔ کنجو کچھ دیر منہ سے مردنگ بجاتے۔ اور جب وہ گانا موقوف کرکے اور ٹھاٹ بدل کرمنہ سے طلبے کی سی آوازیں نکالتے لگتے تو چاچافضل دین چوکیدار آٹا گوندھنے کے تسلے پر تھاپ لگا کے اعلان چنگ کرتا اور پنجابی ٹپہ کا ٹکڑا ’’بارہیں برسیں کھٹن گیا تے کھٹ کے لہیاندا جھاداں‘‘ (تو بارہ برس کمانے کو گیا اور کما کے لایا جھانواں!) لگا کے اہل ورد کو لوٹ لیتا۔
پاکستان تازہ تازہ نقشہ پر ابھرا تھا اور خط تقسیم کی روشنائی ابھی اچھی طرح خشک نہیں ہوئی تھی۔ بینک میں لکھتے سب انگریزی میں تھے۔ گفتگو اردو میں۔ لیکن گالی ہر شخص اپنی مادری زبان میں ہی دیتا تھا:زبان غیر سے کیسا شرح آرزو کرتے۔ انگریزی کی گالی بالکل پھیکی، بے باس اور کھٹل ہوتی ہے۔ یہ گالی آدمی اپنے آپ کو بھی دے سکتا ہے۔ اردو کی مروجہ گالی، جس کی طرف غالب نے ایک خط میں اشارہ کیا ہے، مسن اور بوڑھے آدمی کو نہیں دی جا سکتی۔ کاٹ اور زورِ بدکلامی کے لحاظ سے البتہ مارواڑی گالی کا جواب نہیں۔ لیکن یہ اتنی گندی اور گنجلک ہوتی ہے کہ اس کے صحیح مخاطب و مستحق صرف مارواڑی ہو سکتے ہیں جن کی تعداد، بشمول راقم الحروف، پاکستان میں اتنی کم ہے کہ جی کی بھڑاس نہیں نکل سکتی۔
اسی طرح اس زمانے میں بے سرا گانا بھی ہرشخص اپنی ہی زبان میں گاتا تھا اور کسی کو اس سے یہ گلہ نہیں ہوتا تھا کہ ہماری مادری زبان میں مردم آزاری کیوں نہیں کرتا۔ ایک رات واحد بخش کھوسونے شاہ عبد الطیف بھٹائی کا عارفانہ کلام بھیرویں میں سناکر دلوں کو ایسا گرمایا کہ اسی وقت یہ طے پایا کہ بول کسی بھی زبان کے ہوں، جملہ آلاتِ موسیقی۔۔۔ لحمی وغیر لحمی۔۔۔ مستقل بھیرویں ہی بجایا کریں گے۔ یوں بھی بھیرویں اور خوشامد سدا سہاگن راگنیاں ہیں۔ ہر وقت، ہرمحفل اور موسم میں مزا دیتی ہیں۔ سننے والے کا جی نہیں بھرتا۔ پکے راگ راگنیوں میں ہمیں بھی صرف بھیرویں پسند ہے۔ اس لیے کہ محفل موسیقی کے آداب ِبرخاست کے مطابق اس کے بعد کوئی اور راگ نہیں گایا جا سکتا۔ چنانچہ مارے باندھے ہمیں کسی محفل میں جانا پڑے تو چھوٹتے ہی اس کی فرمائش کر دیتے ہیں۔
واحد بخش کھوسوہربول کے بعد فقط ’’الا‘‘ سے کماؤ پوت کی مشکیں کس کے دادیٔ مہران میں لے آتے۔ ملی جلی قوالی کے تیور کچھ ایسے ہوتے تھے،
نصیر احمد خاں،
گناہ کا اپنے متعرف ہوں، یہ التجا ہے کہ پاکبازو
کرو مجھے سنگار لیکن گناہ کی داستاں تو سن لو!
چاچا فضل دین،
بارہیں برسیں کھٹن گیاتے کھٹ کے لہیاندا جھاواں، اَلا!
حق نواز چیمہ،
موسیٰ سے ضرور آج کوئی بات ہوئی ہے
جانے میں قدم اور تھے آنے میں قدم اور
کورس،
بارہیں برسیں کھٹن گیاتے کھٹ کے لہیاندا گنٹھیا، اَلا!
(توبارہ برس کمانے کو گیا اور کما کے لایا گھٹیا، اَلا!)
عبد الرحمن قالب،
یہ داغ داغ اجالا، یہ شب گزیدہ سحر
وہ انتظار تھا جس کا یہ وہ سحر تو نہیں
کورس،
بارہیں برسیں کھٹن گیا تے کھٹ کے لہیاندا بٹیرا، اَلا!
(تو بارہ برس کمانے کو گیا اور کما کے لایا بٹیر، اَلا!)
سامعین میں سے اگر دیوار اور میز کرسیوں کو نکال دیا جائے تو جانداروں میں لے دے کے صرف ہم تھے جو اس بے زبان زمرے میں آسکتے تھے۔ سبھی حاضرین آرکسٹرا کے سرگرم رکن تھے کہ اسی میں عافیت تھی۔ دوسروں کی آواز کے عذاب سے بچنے کے لیے ہرشحص اپنا ذاتی شور سنتا اور کانوں میں انگلیاں دے کر گاتا تھا۔ کچھ دن ہماری موجودگی بارِ خاطر ہوئی۔ منھ سے تو کسی نے کچھ نہ کہا، لیکن بیزار نگاہیں پکارتی رہیں:چلے بھی جاؤ کہ گلشن کا کاروبار چلے۔
ایک دن دبے لفظوں میں ہم سے شکایت بھی کی کہ آپ کے اس طرح کام کرنےسے ہمارے شور شرابے میں خلل واقع ہوتا ہے۔ ہم کٹے کٹے سے رہنے لگے تو بولے آپ کیوں دل چھوٹا کرتے ہیں؟ اور انہوں نے ہمیں منہ سے سیٹی بجانے اور اس پر میرا بائی کے دوہے پیش کرنے کا پروانہ رامش گری دے دیا، بشرطیکہ وہ پنجابی پٹے کی دھن میں ہوں تاکہ تسلے والے بھائی کو تکلیف نہ ہو اور وہ حسب معمول اپنے جھانویں سے دلوں کا میل دور کرتا رہے۔ چاچا فضل دین کبھی خود ہی بے سرا ہوجاتا تو تسلا پھینک کر کہتا کہ ٹپہ کا سماں تو اس وقت بندھتا ہے جب دور سے ہربول کے ساتھ ڈاچیوں اور گائے بکریوں کے گلے میں پڑی ہوئی حمیلوں کی گھنٹیوں کی آواز آتی رہے۔
فضل دین چاچا کو وہ لوگ بھی چاچا کہتے تھے جو خود تایا کہلانے کے لائق تھے۔ ہمیں یاد ہے کہ پہلی ملاقات ہوئی اور ہم نے نام پوچھا تو اس نے سارا آموختہ سنا دیا تھا، ’’موضع تھوئیاں، دربار بابا حضرت شاہ کلی، علاقہ تھانہ علی پور چٹھہ، ضلع گوجرانوالہ، نزد لاہور، معرفت اللہ دتہ سائیکل پنکچر مستری پہنچ کر چودھری فضل دین پنشن یافتہ لانس نائک کو ملے۔‘‘
بندۂ مزدور کے/کی اوقات
بینکوں میں ان دنوں صبح ساڑھے آٹھ بجے سے رات کے دس گیارہ بجے تک لگاتار کام ہوتا تھا، جب کہ گورنمنٹ دفاتر کے اوقات بے کاری نو سے ساڑھے چار تک تھے۔ اول تو رات گئے تک کام کرنے کی کوئی شکایت نہیں کرتا تھا اور اگر کوئی سرپھرا آواز اٹھاتا تو اس کا تبادلہ بارش میں چٹگانگ، گرمی میں سکھر اور سردی ہو تو کوئٹہ کردیا جاتا تھا جو اس زمانے میں شورہ پشت بینکروں کے لیے کالے پانی کی حیثیت رکھتے تھے لیکن جو گردن زدنی ہوتے، ان کو ’’لائن حاضر‘‘ کردیا جاتا تھا۔ یہاں ان کے طرہ پرپیچ و خم کے سارے پیچ و خم ایک ایک کرکے نکالے جاتے۔ ہمیں یاد نہیں کہ دو ڈھائی سال تک ہم نے اور ہمارے ساتھیوں نے کبھی چودہ گھنٹے سے کم کام کیا ہو۔ دن اور رات کا فرق مٹ چکا تھا۔ اور اگر تھا تو، حضرت امیر مینائی کے الفاظ میں، صرف تذکیر و تانیث کی الٹ پھیر تک،
دن مرا روتا ہے میری رات کو
رات روتی ہے مری دن کے لیے
دوپہر کو کم ہی لوگ کھانا کھاتے تھے۔ گھر گھر سے سائیکل پر کھانے کے ڈبے بٹور کر لانے والوں نے اپنی سروس اور باری باری ہر ایک ڈبے سے بوٹیاں غائب کرنے کا دھندا شروع نہیں کیا تھا۔ عملے کے بیشتر افراد، منجملہ راقم آثم، ایرانی ہوٹلوں کی طرف چہل قدمی کرکے بے کھائے پئے واپس آ جاتے۔ جہاں تک ہماری عادات کا تعلق ہے، ہوا خوری کا یہ سلسلہ ۱۹۵۴ء تک جاری رہا۔ کوئی کسی سے نہیں پوچھتا تھا کہ آج بھی تم نے کھانا کھایا یا نہیں۔ آٹھ نو بجے رات تک پیٹ کا الاؤ بھڑک اٹھتا۔ اسی کو دبانے، بہلانےکے لیے در اصل یہ گمت ہوتی تھی۔ سبھی بھوک کو نکوٹین یا پان سے بہلاتے رہتے تھے۔ البتہ چاچا فضل دین چوکیدار ووڈ اسٹریٹ کے فٹ پاتھ پر دو اینٹیں رکھ کر آٹھ بجے مکئی کی ایک روٹی ڈال لیتا تھا۔ لیکن جب تک دفتر میں ایک آدمی بھی خالی پیٹ بیٹھا کام کر رہا ہوتا، چاچا فضل دین لقمہ توڑنا حرام سمجھتا تھا۔ گیارہ بجے سے پہلے اسے شاذ ہی روٹی نصیب ہوتی تھی۔ کبھی کبھی وہ سب کو اپنے ہاتھ سے ملیر کے بھٹے بھون کر کھلاتا اور اپنے گاؤں کے بھٹوں کو یاد کرکے آبدیدہ ہو جاتا۔
کچھ دن بعد ایسا بجوگ پڑا کہ سگرٹ پینے کی بھی استطاعت نہ رہی۔ استطاعت سے ہماری مراد ساٹھ ستر ہے کہ یہی ہمارا اوسط تھا۔ بری بات اور بری عادت کا صحیح لطف و لذت دراصل کثرت و زیادتی (EXCESS) میں ہی آتا ہے۔ صاحبو! اعتدال پر اتنا ہی اصرار ہے تو نیکی میں کرو۔ کون روکتا ہے؟ از بسکہ اعتدال کو طبیعت نے کبھی قبول نہ کیا، ہم نے سگرٹ کم کرنے کے بجائے بالکل چھوڑ دیے۔ اور جوشاندے سے کشیدکی ہوئی ملباری چائے کے قدح کے قدح چڑھا کر بھوک اور نیند کو بھگاتے رہے۔ چائے در اصل ایجاد بھی اسی کار خیر کے لیے ہوتی تھی۔ نشاط سے کس روسیاہ کو غرض تھی۔
کہتے ہیں کہ چھٹی صدی میں ایک تپسوی بودھی دھرم جنوبی چین گیا اور وہاں ایک دیوار پر نگاہ جماکر ’’دھیان‘‘ کرنے لگا۔ ایک روز دھیان کے سمے آنکھیں آپی آپ نیند سے مند گئیں اور ساری تپسیا کھنڈت ہوگئی۔ کرودھ میں آکر اس دھیانی نے وہیں اپنے پپوٹے کاٹ کے پھینک دیے تاکہ آنکھیں کبھی بند ہی نہ ہوسکیں۔ زمین پر جس جگہ وہ پپوٹے اور خون کے قطرے گرے، وہاں نئی کونپلیں پھوٹ نکلیں جنھیں اس سے پہلے کسی نے نہیں دیکھا تھا۔ ان کانام چائے پڑا۔ اسی کی یاد میں زَین مت والے آج بھی دھیان اور اپاسنا سے پہلے چائے کا گھونٹ ضرور لیتے ہیں۔ سوہم بھی اس گھڑی اسی امرت کے گھونٹ لے لے کر اس رات کی باتیں سنا رہے ہیں۔
ہم نے اہل زبان سے کیوں شادی کی
میر محفل کا پورا نام (سابق) سیکنڈ لفیٹن نواب محمد عمر مجاہد نحاس پاشا کنجو تھا۔ بینک میں تازہ وارد تھے۔ خود کو کرناٹک کا نواب بتاتے تھے۔ تیور اور طنطنہ سے نواب ہی لگتے تھے، مگر ایسا معلوم ہوتا تھا کہ اپنی قلمرد کے نام سے پہلے انہوں نے ’’کر‘‘ کا اضافہ کرلیا ہے۔ حیدرآبادی اردو میٹھے مدراسی لہجے میں بڑے فراٹے سے بولتے تھے۔ ق کا تلفظ خ کرتے تھے۔ کمسن حسینہ کو قمری اور قمری کو خمری کہتے تھے۔ اکثر خان سیف الملوک خان کا مذاق اڑاتے کہ وہ خوبانی کو خربانی کہتا ہے اور حق نواز چیمہ قربانی کو کربانی! خود قربانی کو خربانی کہتے تھے! اپنےنام کا تلفظ ین۔ یو۔ یم۔ یم۔ ین۔ پی۔ کنجو فرماتے تھے۔ ایک دن ہم نے چھیڑا، سرکار نے سارا کرناٹک چھوڑ کر یوپی کی خاتون سے کیوں شادی رچائی؟
’’کھٹا سالن، املی چانول اور بگھارے بیگن کھاتے کھاتے دانت امل گئے تھے۔ اتفاخ سے ملاخات ہوگئی۔ سلیخہ مند خاندانی خمری، لکھنوی خلیہ خورمہ پکانے میں طاخ، خبول صورت، امورخانہ داری کے خاعدے اور خانون سے واخف۔۔۔ اور کیا چاہیے؟‘‘ وہ خوخیائے۔
’’تو گویا یہ آپ کے کچھ، کڑا، کیش، کنگھی، کرپان ہوئے۔‘‘ ہم نے کہا۔
’’مگر آپ بھی تو مارواڑی رانگڑ ہیں۔ آپ نے اہل زبان سے کیوں عخد نکاح کیا؟‘‘
’’ہم نے تو یہ گستاخی محض اردو زبان سے اپنی جھجک نکالنے کے لیے کی تھی۔‘‘
’’ایہہ گل ہوئی جواناں والی!‘‘ (یہ بات ہوئی مردوں والی!) چاچا فضل دین نے ہماری لسانی منصوبہ بندی کی داد دی۔
(کر) ناٹک کا نواب،
بینک میں کنجو شہزادہ گلفام کہلاتے تھے۔ اکہرا بدن، صندلی رنگ اور باتوں میں بھی اسی کی خوشبو۔ تیکھے نقوش۔ تتیے جیسی کمر۔ ناک اتنی لمبی اور نکیلی کہ اسے منگنی کی انگوٹھی پہنائی جا سکتی تھی۔ کان پر منت کی بالی کار جھا ہوا سوراخ۔ مرادی ہوں گے۔ اچھے لباس کے شوقین تھے۔ مشہور تھا کہ سوتے میں بھی کروٹ لینے سے پہلے اپنی مانگ اور پاجامے کی کریز درست کرلیتے ہیں۔ ان کی خوش پوشی، جامہ زیبی اور بربادی میں نسوانی توجہات کو بڑا دخل تھا۔ مئی جون میں بھی گلے میں ’’پولکا‘‘ بُند کیوں کا سلک اسکارف باندھتے تھے۔ ایک دفعہ ہم نے ٹوکا کہ آپ کی ایک تہائی تنخواہ بزاز اور دوتہائی درزی کی نذر ہوجاتی ہے۔ پچھلے مہینے آپ نے اپنے خانگی بجٹ کے دوسرے پلڑے میں ہماری حقیر تنخواہ کا پاسنگ ڈالا، تب کہیں ڈنڈی برابر ہوئی۔ ارشاد فرمایا، میلے، پرانے دھرانے کپڑے پہننے کا حق صرف کروڑپتی سیٹھوں کو پہنچتا ہے۔ نوکری پیشہ آدمی کے تو، اللہ رکھے، یہی اللے تللے رہیں گے۔
مدراسی زبان میں کہاوت ہے، ہیجڑے نے ساری کمائی، مونچھ منڈائی میں گنوائی۔ ہمارے قبیلہ کا عقیدہ ہے کہ جو روپیہ چھوڑ کر مرے اس کے نطفہ میں فرق ہے۔ میرے والد نے نہ جانے کیسے آٹھ ہزار روپے جمع کرلیے تھے جن سے ایک کوآپریٹیو بینک میں اکاونٹ کھلوا لیا۔ وہ تو ان کے مرنے سے ایک ہفتے پہلے بینک فیل ہوگیا ورنہ سارا شجرہ خاک میں مل جاتا۔ مولا نے بڑا فضل کیا۔
ہرشخص کی اپنی مخصوص چال اور آواز ہوتی ہے۔ یہ قدرت کا معجزہ ہے کہ بعینہ ایسی چال اور آواز دنیا میں نہ کسی کی ہوئی، نہ ہوگی۔ لیکن جیسی عجیب و غریب چال ان حضرت کی تھی، ہم نے اس سے ملتی جلتی بھی نہیں دیکھی۔ تقریباً حالتِ رکوع میں چلتے پھرتے تھے، مگر ہاتھوں کی پوزیشن ایسی ہوتی تھی گویا آندھی میں سائیکل کا ہینڈل مضبوطی سے پکڑے چڑھائی چڑھ رہے ہوں۔ بہت دن بعد معلوم ہوا کہ ہارمونیم کے رسیا ہیں۔ اور ہمہ وقت اسے گود میں اٹھائے اٹھائے پھرنے سے اسی پوز میں اکڑ کر رہ گئے ہیں۔ ہارمونیم اٹھائے ہوئے نہ ہوں تو توازن قائم رکھنا دشوار ہو جاتا۔ قدم قدم پر ڈگمگاتے، لڑکھڑاتے۔ کبھی الار ہو جاتے۔ اکثر فرماتے کہ پورے صوبہ مدراس اور کرناٹک میں ہارمونیم پر مجھ سے زیادہ تیز کوئی ٹائپ نہیں کرسکتا۔ ہارمونیم اتنی برق رفتاری سے بجاتے کہ انگلیاں نظر نہیں آتی تھیں۔ دھن بھی کہیں نظر نہیں آتی تھی۔ فی منٹ ڈیڑھ سو الفاظ کا خون کر لیتے تھے۔
قرض لینے میں انہوں نے کبھی بخل سے کام نہیں لیا۔ کہتے تھے کہ ادھار سے اخوت و مساوات بڑھتی ہے۔ اس زمانے میں سب کا حال پتلا تھا۔ کون ہے جو نہیں ہے حاجت مند۔ جس کو دیکھو، پاؤں چادر سے گھٹنوں تک باہر نکلے ہوئے ہیں۔ ایسوں سے قرض لینا، لے کر نہ دینا اور پھر لینا۔۔۔ یہ انہی کا جگرا تھا۔ کسی کا ہاتھ تنگ ہوتا تو یارلوگ الٹا اسی سے قرض مانگنے لگتے۔۔۔ اس ڈر سے کہ کہیں پہلے وہ نہ مانگ بیٹھے۔ اور جب کوئی واقعی قرض مانگتا تو لوگ اپنی اپنی مشکلات کا ذکر اس انداز سے کرتے کہ مانگنے والا بھی آبدیدہ ہوجاتا۔ ہمدردی و دل سوزی کا اس سے زیادہ مؤثر طریقہ ہنوز ایجاد نہیں ہوا۔
برصغیر کے بعض پسماندہ علاقوں میں اب تک یہ دستور چلا آتا ہے کہ برادری کی بڑی بوڑھیاں کسی کے ہاں غمی میں شریک ہوتی ہیں تو لمبا سا گھونگھٹ کاڑھ کے بیٹھ جاتی ہیں، اور اپنے اپنے پیاروں کے نام لے کر بین کرتی، دھاڑتی ہیں۔ سب اپنے اپنے مردوں اور مردوں کی خوبیاں بکھان کرکے خشک آنسوؤں سے روتی ہیں۔ اگر کوئی ناواقف حال پہنچ جائے تو وہ ایک گھنٹے بین سن کر بھی یہ فیصلہ نہیں کر سکتا کہ اس مجلس آہ و بکا میں دو ڈھائ سو مردوں میں سے آج کا مرحوم خصوصی کون ہے! ان دنوں بینک میں بھی یہی رسم و راہ دلسوزی و دستگیری تھی۔ اپنی اپنی عند لیب سے مل کے کچھ دیر آہ و زاریاں کرنےکے بعد سب اپنی ضرورتوں اور آرزوؤں کو اجتماعی قبرستان میں دفنا دیتے۔ مگر اس طرح کہ دوسرے دن چھنگلیا سے کھود کر نکالی جا سکیں۔
کنجو قرض مانگنے سے پہلے اپنی متروکہ چاہی ’’زمینات‘‘ کا ذکر ضرور کرتے اور رقبہ کو دہراتے، تہراتے اور چوراہتے رہتے۔ ہردفعہ، پندرہ بیس ہزار ایکڑ کا اضافہ ہی نہیں، بلکہ اپنے غلہ خیز بیان سے زمین کی فی ایکڑ پیداوار کو بھی دوچند، سہ چند کردیتے۔ کرناٹک کے سنگلاخ علاقوں میں گھاس کا تنکا بھی نظر نہیں آتا، وہاں نہ صرف گنے کے جنگل کے جنگل کھڑے کردیتے، بلکہ ان میں جنگلی ہاتھیوں اور ’’خمریوں‘‘ کے ریوڑ بھی گھسا دیتے۔ جس دن ہم سے ہماری ساری تنخواہ بارہ گھنٹے کے لئے قرض لی ہے، اس وقت ان ’’زمینات‘‘ کا رقبہ پھیل کر اتنا ہوگیا تھا کہ سموچا صوبۂ سندھ اس میں سماجائے اور پھر بھی اتنی گنجائش رہ جائے کہ پنجاب کے پانچ چھ اضلاع، محکمہ انہارو پٹواریان بدزبان سمیت، اس میں کھپ جائیں۔
اگلے اتوار کو پاک بوہیمین کافی ہاؤس میں مرزا نے پوچھا،’’صاحب! آپ نے کرناٹک کی جدی جائداد کا کلیم کیوں نہیں داخل کیا؟‘‘ جھنجھلا کر بولے،’’مجھے کیا باؤلے چوہے (حیدرآباد دکن میں کسی زمانے میں طاعون کی وبا آئی تھی۔ محلے کے محلے صاف کرگئی۔ اسی زمانے میں محاورے میں کتے کی جگہ چوہا دَر آیا۔) نے کاٹا ہے؟ میں کلیم میں قلعے کے بدلے کوارٹر نہیں لینا چاہتا۔ ریاستیں بھی کہیں راشن کارڈ پر الاٹ ہوئی ہیں! افسوس، آپ کو کبھی رئیسوں سے واسطہ نہیں رہا۔ پوتڑوں کے رئیسوں کی خوبو سو سال تک نہیں جاتی۔‘‘
’’اگر لفظ ’خو‘ نکال دیں تو مجھے آپ کادعویٰ حرف بحرف تسلیم ہے۔‘‘ مرزا نے اتمام حجت کیا۔
انڈین آرمی سے ڈسچارج ہوئے سات آٹھ سال ہونے کو آئے تھے لیکن سرفروشی و سرکوبی کی آگ اپنے ۳۶ انچ سینے میں دبی رکھتے تھے۔ میان سے نکلی پڑے ہے مری تلوار ہنوز۔ ایک دن کہنے لگے کہ جب میں کنارا بینک لمیٹڈ میں چیف کیشیر تھا تو تین ڈاکے پڑے۔
’’ڈاکے؟‘‘ ہم نے حیرت سے پوچھا۔
’’جی ہاں! بینک پر ڈاکے نہیں تو کیا اولے پڑتے؟‘‘
اپنی حاضر جوابی سے ہمارا دریدہ دہن بند کرکے انہوں نے بڑی تفصیل سے پہلے ڈاکے میں اپنی حاضر دماغی کا قصہ سنایا جس کا خلاصہ یہ تھا کہ جیسے ہی ڈاکو نے اپنا ۳۸ بور کا پستول نکالا، انہوں نے بڑی دلیری سے ایک ایک ہزار روپے کے نوٹوں کی گڈی اس کی کنپٹی پر رکھ کر پستول لوٹ لیا۔
اندر کا اکھاڑا
۱۹۴۰ء میں فوج میں بھرتی ہونے سے پہلے کوچین (کیرالہ) ہو آئے تھے کہ زندگی کا بھروسا نہیں۔ مرنے کے بعد گناہ کا موقع تو جنت میں بھی نہیں ملنے کا۔ بینک میں روز شام کو اندر سبھا سجاتے اور ارناکلم کی ناریوں کی چھب دکھلاتے۔ بے کہے بچے کی گیند کی طرح ٹپا کھاتی ہوئی دراوڑی کاٹھی، کافی جیسی مہکتی ہوئی رنگت، ابھرے ابھرے جامنی ہونٹ، جلد جیسے کنواری تھاپ تلے کسی ہوئی ڈھولک۔ سنگ اسود کی چٹانیں آدمی کے روپ میں۔ کہتے تھے کہ وہاں کوئی گرہستن، شریف زادی اپنے سینوں اور پیٹ کو نہیں ڈھانکتی۔ اندھیرے اجالے کوئی عورت چولی پہنے ہوئے نظر آجائے تو اس کا مطلب یہ ہے کہ بکاؤمال ہے اور دعوتِ شب باشی دے رہی ہے۔ بھلے گھرانوں میں وہ انگ جو روپ کی راجدھانی ہیں کپڑے کی صنعت کے مرہون منت نہیں ہوتے۔ ہرچند وہ کوچین میں تین رات سے زیادہ نہیں ٹھیرے، لیکن اس میں ہی جو کچھ ان کی چشم تماشا نے دیکھا وہ ہمارے لب پر نہیں آسکتا۔ روز ایک انگ کے مضمون کو سوڈھنگ سے باندھتے۔ عجلت میں ہوں تو اچھے مال کی مشکیں باندھ کر الگ رکھ دیتے۔ ہر شام ایک نئی ’’خمری‘‘ کا سراپا کھینچتے اور ہماری آتش شوق کو پٹرول سے بجھانے کی کوشش کرتے۔
مدراس چھوڑے مدت ہوچکی تھی، لیکن اس کی برائی کسی طور گوارا نہ تھی۔ ایک دن مدراسی کافی، لنگی، پاپڑ، سر رادھا کرشنن اور اچار کی تعریف کرتے کرتے ان کے منھ سے نکل گیا کہ بمبئی والے گنواروں کی طرح چیخ چیخ کر بولتے ہیں اور بمبئی کے علاوہ ہر شہر۔۔۔ لندن، نیویارک اور پیرس کو بھی۔۔۔ ’باہر گاؤں‘ کہتے ہیں۔ اس کا جواب، بمبئی کے نمائندے، سکنہ کراچی، عبد الرحمن حاجی قاسم ستلی والا نے یہ دیا کہ مدراس میں یونیورسٹی کا وائس چانسلر بھی تہمد باندھے سڑک پر ننگے پیر گھومتا ہے، اور عورتیں ساری کے نیچے پیٹی کوٹ نہیں پہنتیں۔ اس پر دونوں میں خوب دھرپٹک ہوئی۔ ایک دوسرے کو اس بے دردی سے اٹھا اٹھا کر پھینکنے لگے جیسے قلی مال گاڑی میں سے وہ پیٹیاں پھینکتے ہیں جن پر FRAGILE لکھا ہوتا ہے۔
جب دونوں میں پھینکنے اور پھنکوانے کی سکت نہ رہی تو ایک دوسرے سے گتھم گتھا ہوکر فرش پر پڑ رہے۔ دونوں صوبے کسی طرح علیحدہ ہونے کا نام نہیں لیتے تھے۔ بالآخر ہم نے یہ کہہ کر بیچ بچاؤ کرایا کہ صاحبو! ہمیں دیکھو۔ ہمارے وطن مالوف و متروک راجستھان میں یہ تمام قابل ضبطی چیزیں پائی جاتی ہیں۔ مگر ہم نے تو کسی ’باہر گاؤں والے‘ کا سر نہیں پھوڑا۔ ہری مرچ کے اچار اور کچی راجستھانی چنری سے گال لال گلال، گلے سے ایک بالشت نیچی چولی جس کی گھائی میں پھسلنے کے لیے نگاہ بھر کا راستہ، سنگھاڑا سے ٹخنے سے ایک ہاتھ اونچا لہنگا اور پھر رات ڈھلے ’کچھ جگمگ جگمگ ہووت ہے۔ کوئی اوڑھے چنریا سووت ہے۔‘ ہم نے تو ان تبرکات پر کبھی ہاتھا پائی نہیں کی۔‘‘
فرمایا، ’’اصل لڑائی تو ہاتھ پیر کی ہوتی ہے۔ یہ رذیلوں کی طرح زبان چلاتا ہے۔‘‘
ظاہراً لاابالی پن اور ہو حق کے باوجود اپنی تندرستی کا بہت خیال رکھتے تھے۔ الٹی سیدھی یوگا ورزشیں کرتے۔ سورج نکلنے سے پہلے، کنول آسن میں دم سادھے، اپنی ناف پر نگاہ جمائے کائنات پر غور و فکر فرماتے۔ اکثر نصیحت کرتے کہ بے ضرورت سانس نہ لو۔ سانس بچاؤ۔ کل کام آئے گا۔ جتنے سانس کم لوگے، اتنے ہی عدد سانسوں سے عمر بڑھ جائے گی۔ ان کے اس عمل سے دفتر میں آکسیجن کی کافی بچت ہوتی تھی۔ نہارمنہ دوگلاس نمک کا پانی پی کر قے کرتے۔ پھر نتھنے میں سوت کی ڈوری کا فتیلہ چڑھاتے، یہاں تک کہ اس کا سرا حلق سے برآمد ہوجاتا۔ پھر اسے ہولے ہولے کھینچ کر نکال لیتے۔ اس عمل کو دہراکر دونوں نالیں صاف کرتے۔ یہ انہیں سے معلوم ہوا کہ اس سے دماغ روشن اور روح بالیدہ ہوتی ہے۔ ورنہ ہم تو اب تک اسی مغالطے میں تھے کہ ناک صاف کرنے سے صرف ناک ہی صاف ہوتی ہے۔ اکثر ہمیں تلقین کرتے کہ کامیابی کے لیے صحت، محنت، دیانت، اور ذہانت ازبس ضروری ہیں۔ اور اس کے ثبوت میں اپنی ذات کو پیش کرتے۔
چہ دلاور است دُزدے کہ بکف سراغ دارد
ان کی ذات سے چھوٹے بڑے جتنے بھی اسکنڈل منسوب تھے، ان سب کے خالق وراوی، مفتری و متہم وہ خود ہی بتائے جاتے تھے۔ اپنے بارےمیں کی گئی بے بنیاد قیاس آرائیوں کی وہ ہمیشہ تصدیق کر دیتے تھے۔ اپنی شان میں تمام گستاخیوں اور شرارتوں کا سر چشمہ در اصل وہ خود تھے۔ ایک عمر ایسی بھی آتی ہے کہ آدمی کو تہمت سے بھی یک گونہ خوشی حاصل ہوتی ہے کہ چلو اس لائق سمجھا تو! بے شمار تہمتیں اپنے اوپر لگالی تھیں جن کی تعداد جوش صاحب کی خودنوشت ’’شہوانح عمری‘‘ کے ۱۸معاشقوں سے کہیں زیادہ ہوگی۔ جوش صاحب نے تو ۱۸پر پہنچ کر غالباً اس لیے ’’ڈکلیر‘‘ کر دیا کہ محمود غزنوی کے حملوں کی کل تعداد ۱۷تھی۔ اتنا فرق ضرور ہے کہ جوش صاحب سومنات میں بغیر گرز کے داخل ہوئے۔
مشہور تھا کہ غزالوں کے تعاقب میں وہ ختن سے بھی آگے نکل چکے ہیں۔ ’پے ڈے‘ پر سرخ روشنیوں والے کوچے میں اپنا دل ’پشوری‘ کر لیتے ہیں۔ حالانکہ کراچی کے ’’بازار حسن‘‘ میں جتنی بدصورتی فی مکعب انچ کوٹ کوٹ کر بھری ہے، اس کی مثال دنیا میں شاید ہی ملے۔ سوائے کراچی ٹی۔ وی کے۔ لیکن موصوف اس باب خاص میں رنگ، نسل، مذہب، زبان، جثہ و جسامت کی تفریق سے بھی بالاتر تھے۔ تیغ تو تیغ ہے ہم توپ سے لڑ جاتے تھے! بلکہ اس میدان کے مرد کہن سال چچا ابتسام بیگ کی صوبائی عصبیت کی کھلم کھلا مذمت کرتے کہ ’’بڈھا ہوگیا پر ’ٹھرک‘ نہیں نکلی۔ چلو معاف کیا۔ مگر رندی کے آداب سے بھی آشنا نہیں۔ اس کوچے میں سارے فرق مٹ جاتے ہیں۔ آوارگی میں بھی صوبائی تعصب برتتا ہے۔ اپنے آبائی صوبے کی طوائف کے سوا کسی اور کی بے حرمتی نہیں کرتا۔ حالانکہ وہ بالکل کھنڈر ہو چکی ہے۔ جس میں اب صرف چمگادڑیں الٹے پیر کرکے لٹک سکتی ہیں۔ ایک دن میں نے بہیترا للچایا کہ ہیرا منڈی سے کچھ ادھ کچرا، کچھ ادھ کترا مال آیا ہے۔ اپن کے ساتھ جاپانی روڈ چلو۔ پر بیگ چچا نہیں مانا۔ کہنے لگا نہیں۔ میں تو اسی کے پاس جاؤں گا۔ اس نےمیرے اچھے دن دیکھے ہیں!‘‘
خواص چھوارا نکاح
سنا ہے عورت زندگی میں صرف ایک بار محبت کرتی ہے۔ اس کا مطلب غالباً یہ ہے کہ عورت ایک ہی مرد سے زندگی میں ایک دفعہ سے زیادہ محبت نہیں کرتی۔ اسے ہمارا سوئے زن (دوسرا املا بھی درست ہے) ہی سمجھئے، ورنہ ہم تو مردوں کے بارے میں بھی کوئی بات وثوق سے نہیں کہہ سکتے۔ اس لیے کہ جو دن دل کو بے مہار چھوڑنے کے تھے، اس زمانے میں قریبی اور دور کے بزرگوں نے دعاؤں اور پند و نصائح سے ہماری جنسی ناکہ بندی کر رکھی تھی۔ تاہم ہمارا خیال ہے کہ مرد بھی عشق عاشقی صرف ایک ہی مرتبہ کرتا ہے۔ دوسری مرتبہ عیاشی اور اس کے بعد نری بدمعاشی۔ بقول پروفیسر قاضی عبد القدوس، ایم۔ اے، انسان خطا و نسوان کا پتلا ہے۔ لیکن نحاس پاشا کنجو کے ہر معاشقہ میں وارفتگی و جنون کا یہ عالم گویا یہ پہلی اور آخری وارداتِ قلبی ہے، اس کے بعد خود کشی کرلیں گے، اور اگر اس میں کامیاب نہ ہو پائے تو نکاح کرلیں گے۔ چنانچہ تمام عمر خودکشی اور نکاح کی سرحدوں پر اندھا بھینسا کھیلتے رہے۔ ایک دن ڈینگ مارنے لگے کہ یہ میرا تیسرا نکاح ہے۔ عرض کیا ہمیں تو ایک بیوی بھی زائد از ضرورت معلوم ہوتی ہے۔ لیکن شرع میں چونکہ ایک سے کم، یعنی بٹہ یا ’’ٹوٹے‘‘ کی اجازت نہیں، اس لیے ازدیادِ نعمت کے شکران و بھگتان کے سوا چارہ نہیں۔
قہقہے کے بعد فرمایا، دیہات میں اونٹ کو کوئی بھی مرض لاحق ہو۔۔۔ دست، قبض، بخار، گھٹیا، اپھارا، رتوندی۔۔۔ ہر مرض کی دوا ایک ہی ہے، لوہے کی دہکتی سلاخ سے داغ دیا جاتا ہے۔ جاڑے میں مست ہوجائے تو داغ دیتے ہیں۔ مست نہ ہو، تب بھی داغ دیتے ہیں کہ سست کیوں ہے۔ اسی طرح اپنے ہاں ہر مرض کا علاج، ہر فکر کا نکاس، نکاح ہے۔ ایک سے افاقہ نہ ہو، قرار نہ آئے تو دوبارہ، سہ بارہ داغتے ہیں۔
نہ مرا عشق فرشتوں جیسا
کچھ دن سے سننے میں آرہا تھا کہ طبیعت پھر بہار پر ہے۔ ایک بیاہی تیاہی پڑوسن کے گلوں میں رنگ بھر رہے ہیں۔ دن بھر لوہار کی دھونکنی کی طرح آہیں بھرتے اور ڈوب کر عاشقانہ اشعار پڑھتے۔ پڑھتے وقت سکتہ شعر میں پڑتا تھا اور بعد میں خودپر۔ تسخیرزن کے لیے ایک سنیاسی بابا کا دیا ہوا کاجل لگانے لگے تھے۔ ایک دن ہم نے ٹوکا کہ آپ کی مطلوبہ تو شادی شدہ ہے۔ بولے جبھی تو کاجل لگانا پڑ رہا ہے۔ ورنہ سرمہ ہی کافی تھا۔
ان کے میعادی عشق کی مدت ایک گھنٹے سے ایک سال تک ہوسکتی تھی۔ لیکن اس ایک گھنٹے میں، جس میں ۳۶۰۰ لذیذ سیکنڈ ہوتے ہیں، وہ بھوت پریت کی طرح چمٹ جاتے تھے۔ بیان کرتے تھے کہ کوہِ نیلگری کے دامن میں ایک پہاڑی ’’خمری‘‘ نے ان سے دغا کی تو انہوں نے وہیں کلہاڑی سے ناک کاٹ لی۔ اس پر چاچا فضل دین چوکیدار نے ٹوکا کہ بھلا کلہاڑی سے ناک کیسے کاٹی جاسکتی ہے۔ ٹانگ البتہ کاٹ سکتے ہیں۔ بولے تو پھر ٹانگ ہی کاٹی ہوگی۔ کچھ کاٹا ضرور تھا۔
حسینوں کی بھاری اکثریت ہو اور کنجو صرف ایک کی اقلیت میں ہوں تو ہمت نہیں ہارتے تھے۔ قصاب کہیں گو سفندوں کی کثرت سے گھبراتا ہے؟ یا بقول پروفیسر قاضی عبد القدوس، ہاتھی کے سامنے جتنی دفعہ کیلا پھینکو سونڈ سے اچک لیتا ہے۔ ان دنوں کراچی میں پاوندے آئے ہوئے تھے۔ ان کے گھر سے دو فرلانگ دور انہوں نے اپنی پیوند لگی چھولداریاں گاڑ رکھی تھیں۔ ایک پاوندے کی بیوی پر جان و مال سے فریفتہ ہوگئے۔ کہتے تھے جب وہ چٹکیلی دھوپ میں ایلومینیم کی الٹی پتیلی سرپہ اوڑھ کے پانی بھرنے نکلتی ہے تو بالکل ملکہ معلوم ہوتی ہے۔ پشمینہ کے خیمہ میں رہتی ہے۔
ایک دن بیٹھے بیٹھے کچھ خیال آیا تو اپنی کرسی پر سے گدی نکال کر ہماری طرف پھینک دی کہ جب وہ پیال کے بچھونے پر سوتی ہےتو میں اس گدی پر کس طرح بیٹھ سکتا ہوں۔ وہ منھ اندھیرے فرنچ جالی کا گٹھر سر پر رکھ کر اکیلی بیچنے نکل جاتی۔ شوہر دن بھر رائفل گلے میں لٹکائے بکری اورمرغیوں کی رکھوالی کرتا۔ سرخ پشواز میں خنجر اڑسے رکھتی تھی۔ تیسرے چوتھے، نحاس پاشا کنجو اس سے ایک آدھ گز کپڑا خرید لیتے، جس کا لنگوٹ بھی نہیں بن سکتا تھا۔ اس لیے کہ جہاں تک ہماری عقل کام کرتی ہے، جال کا لنگوٹ صرف مچھروں سے کشتی لڑنے کے لیے کسا جاسکتا ہے۔ دن بھر جالی پر ہاتھ پھیرتے اور سونگھتے رہتے۔ اے گل بتو خورسندم تو بوئے کسے داری۔
وہ ان میں سے تھے جو کیکٹس پر لرزتے ہوئے قطرۂ شبنم پر اپنی زبان رکھ دیتے ہیں۔ صوفیائے کرام نے نفس کی تین قسمیں بتائی ہیں، نفسِ امارہ۔۔۔ وہ نفس جو لذات جسمانی میں کھویا گیا۔ نفس لوامہ۔۔۔ وہ کہ جس کی لذتوں پہ زوال آیا اور اپنے آپ کو ملامت کرتا رہتا ہے۔ نفس مطمئنہ۔۔۔ وہ نفس جو اپنے آپ سے شرمسار نہیں، مطمئن ہے۔ ہمارا خیال ہے کہ لمس کی بھی یہی قسمیں ہوتی ہیں۔ کیسا نووا، خیام، فالسٹاف، سولی پر آخری سانس تک انا الحق انا الحق کہتا ہوا لب منصور، دردِزہ میں جان سے گزرجانے والی ماں، قلوپطرہ اور کنجو۔۔۔ لمس مطمئنہ کے مالک ہیں۔ جب کہ گوتم بدھ، اوتھیلو، زلیخا، اور ’’گلیوں میں میری نعش کو کھینچے پھروکہ میں‘‘ والا جاں دادۂ ہوائے سررہ گزار غالب۔۔۔ نفس لوامہ کے قتیل ہیں۔ اور یہ سب کچھ اس لیے کہ وہ ٹھوس حقیقت جو ماورائے روح ہے۔۔۔ یعنی جسم۔۔۔ اسے صدیوں سے اپنا حق نہیں ملا ہے۔ اسی لیے انسان بیکل ہے۔ دکھی ہے۔
شہزادہ گلفام لندن اور اندلس میں
جنگ کے خاتمے پر نہ جانے کس کھاتے میں دو مہینے لندن بھی گزار آئے تھے۔ دس پونڈ کا ایک چیک بھنانے کی تقریب میں ویسٹ منسٹر بینک کا پانچ منٹ تک بہ نظر غائر معائنہ فرمایا۔ ان مشاہدات سے دو دو گھنٹے ہمیں مستفید فرماتے رہتے۔ ہر سنیچر کی شام کو ایک نائٹ کلب کے رقص کی ایسی تصویر کھینچتے کہ قیس تو قیس لیلی بھی تصویر کے پردے سے عریاں نکلتی۔ ایک دفعہ دورانِ رقص ہمیں طنزاً مسکراتے ہوئے دیکھ کر فرمایا کہ آپ کیا جانیں؟ ایک ہی جلوے میں آپ جیسوں کی تو نکسیر پھوٹ جائے۔ عینک کے شیشے تڑخ جائیں۔ اسٹرپ ٹیزڈانسر کو اس طرح نچواتے کہ وہ بے حجابانہ ان کی آنکھوں کے سامنے کتاب حسن کو ورق ورق الٹتی رہتی، یہاں تک کہ ان کا اپنا شیرازہ بکھر جاتا۔ ایک دن ہم نے اسی استعارے کا سہارا لے کر مرزا عبد الودود بیگ کو خال بہ خال، موبہ مور پورٹ پیش کی اور عرض کیا کہ حضرت کنجو نے کتاب حسن کا مطالعہ بالا استعجاب نہیں، بالاستعیاب کیا ہے۔ فرمایا، جناب کی رپٹ سے تو ظاہر ہوتا ہے کہ حسن کے نہیں، صرف عربی زبان کے مزے لوٹ کے آگئے۔
عربی کا چٹخارا اپنی جگہ، لیکن کنجو تو ہسپانوی اور فرنچ زبان کے قتیل تھے، اس لیے کہ واپسی میں میڈرڈ اور پیرس میں ٹھیکی لی تھی۔ ایفل ٹاور کی آخری منزل پر انہوں نے حسیناؤں کی موجودگی میں کانوں میں انگلیاں دے کر اذان دی جو ثانی الذکر نے کانوں میں انگلیاں دے کر سنی۔ کلک کلک کلک فوٹو پہ فوٹو کھینچے گئے۔ فرماتے تھے،’’اسپینش بہت ہی آسان زبان ہے۔ میڈرڈ میں میں نے چار سال کے بچوں تک کو اسپینش بولتے دیکھا۔‘‘ ہماری تشفی کے لیے انہوں نے اسپینش بول کر دکھائی۔ لگتا تھا سچ مچ تین برس کا بچہ بول رہا ہے۔
فرماتے تھے کہ اسپین کی عورت سب سے زیادہ واجب التعظیم اس مرد کو گردانتی ہے جو سانڈ کو زیر کر لے۔ میڈرڈ میں ایک اندلسی حسینہ کو گورے گورے ہاتھوں سے بڑاگوشت بیچتے دیکھا تو دل خون ہوکے رہ گیا۔ حسن کو وہ حلال کی روزی کماتے دیکھ ہی نہیں سکتے تھے۔ اکثر اس بیل کو رشک وحسد کی نگاہ سے دیکھتے جس کا گوشت وہ اپنےنازک ہاتھوں سے بیچ رہی تھی۔ اس کا بس چلتا تو حافظ کی طرح خال کے عوض سمرقند و بخارا نہ سہی، کم از کم کراچی میونسپل کارپوریشن کا نظم و نسق اس اندلسی قصائنی کے سپرد ضرور کردیتے۔ اور یہ کوئی نئی بات نہ ہوتی۔ آخر واجد علی شاہ نے بھی تو بہشتن اور مہترانی کو نواب آب رساں بیگم اور نواب مصفا بیگم کے خطاب سے نوازا تھا اور دونوں کو داخل حرم کرکے اپنی اور مؤرخین کی دائمی دل بستگی کا سامان فراہم کیا۔
پہلا ایشیائی
اگر مبالغہ اور جھوٹ بولنا، قابل دست اندازی پولیس جرم ہوتے تو ان کے ہاتھ میں مستقلاً ہتھکڑی پڑی ہوتی۔ اور ہم نقل مجرمانہ میں ساری زندگی حوالات کے جنگلے کے پیچھے منہ پہ رومال ڈالے گزارتے۔ تیسرے چوتھے محفل جمتی۔ وہی ہمہے وہی ہا و ہو۔ ایک دن ترنگ آئی تو کہنے لگے کہ میں پہلا ایشیائی تھا جس نے ۱۹۴۴ء میں رودبارِ انگلستان ’’کراس‘‘ کرنے کی جسارت کی۔ ورنہ اس زمانے میں تو کالوں کو سوئمنگ پول میں بھی پیر بھگونے کی اجازت نہیں تھی۔ جس وقت انہوں نے کسرتی بدن پہ گریس لگاکے انگلش چینل میں چھلانگ لگائی تو سیکڑوں فرنگی ’’خمریاں‘‘ انہیں سپرد آب کرنے آئی تھیں۔ اور آئی تھیں بیاہیوں سے زیادہ کنواریاں‘۔ ایک ڈچز (DUCHESS) تو گلدستہ بھی لائی تھی اور پھونک مار مار کر خوشبو کا رخ ان کی طرف کر رہی تھی۔ ’’اس لیے کہ میں پہلا ایشیائی تھا۔۔۔‘‘
وہ ڈوور کے ساحل پر پھولدار لنگوٹ باندھے دیر تک اپنےدامن صبر کو فرنگی زلیخاؤں سے کھنچواتے، پھڑواتے رہے۔ اس دن سردی سے سارا سمندر جم کر نیلا تھوتھا ہوگیا تھا۔ موج جہاں تک اٹھی تھی وہیں سے وہیں منجمد ہوکر رہ گئی۔ ایک موج کے بلور میں لالچی بگلا مچھلی کی دم چونچ میں دبائے صاف نظر آرہا تھا۔ جیسے ہی انہوں نے یا علی! کہہ کے چھلانگ لگائی، برف کی چادر میں ان کی پوری آؤٹ لائن ترش گئی، جس میں ان کے ڈنڑ اور رانوں کی مچھلیوں کے ابھار صاف نظر آتے تھے۔ ’خمریاں‘ حیرت سے گھور رہی تھیں۔ ’’اس لیے کہ میں پہلا ایشیائی تھا۔۔۔‘‘
وہ پھولدار لنگوٹ باندھے سرگرم تجلی تھے کہ ہماری ہنسی نکل گئی۔ انہوں نےخود کو سنبھالا۔ آخر کو گھاگ تھے۔ کہنے لگے، بات ختم ہونے سے پہلے ہی، ہی ہی ہی ہی! ٹھی ٹھی کرنا کیا معنی؟ میں کہہ یہ رہا تھا کہ میں پہلا ایشیائی تھا جو انگلش چینل میں چھلانگ لگاتے ہی بے ہوش ہوگیا۔
دوسری عالمگیر جنگ کاہیرو
مہینے میں ایک دو بار ایسا بھی ہوتا کہ رات کے گیارہ بج جاتے اور اکاؤنٹ کسی طرح ’بیلنس‘ ہونے کا نام نہ لیتا۔ حساب کو ہر برانڈ کے سگرٹ کی دھونی اور چائے کے تریڑے دیے جاتے، لیکن ۲ اور ۲ کسی طرح ۴ نہ ہو پاتے۔ فرق کبھی ایک لاکھ کا نکلتا اور کبھی سکڑ کر تین پائی رہ جاتا جو اس پیشے میں ایک لاکھ سے زیادہ جان لیوا اور جوکھم کا ہوتا ہے۔ یہ فرق بارش میں بھیگی ہوئی چارپائی کی کان کی طرح ہوتا ہے۔ ایک پائے پربیٹھو تو دوسرا اٹھ کھڑا ہوتا ہے۔ سارے محلے کے لونڈوں لاڑیوں کو کدوانا پڑتا ہے۔ ایک رات نحاس پاشا کنجو نے ترس کھا کر چپکے سے اپنی جیب خاص سے ایک پیسہ ڈال کر حساب بیلنس کردیا۔ اس رات تو سب خوش خوش گھر چلے گئے، لیکن دوسرے دن اصل غلطی مل گئی۔ تین ہفتے تک اس پیسے کی وجہ سے سارے بینک کا اکاؤنٹ بیلنس نہ ہو سکا۔ یہ پیسہ مقتول کی پھولی ہوئی لاش کی طرح سطح حساب پر تیرتا رہا۔ اور ہماری راتیں کالی ہوتی رہیں۔ جب ایسی بھاری رات آتی تو کبھی کبھی ایک ڈیڑھ بجے پٹاخے چلنے کی آوازیں آتیں۔
ہوتا یہ تھا کہ نحاس پاشا کنجو جب عاجز آجاتے تو ہزار ہزار صفحوں کے لیجر اتنے زور سے بند کرتے اور پٹختے کہ پٹاخے چھوٹنے لگتے۔ یہ اعلان ہوتا تھا اس بات کا کہ حساب کتاب جائے بھاڑ میں اب دوسری عالمگیر جنگ سےمتعلق آپ بیتی کا ٹریلر دکھایا جائے گا۔ سب اپنے اپنے بلوں سے نکل کر ان کے گرد جمع ہو جاتے۔ اور وہ اپنے شاہنامہ کے چیدہ چیدہ حصے سناتے جن سے ثابت ہوتا تھا کہ جرمنی کی شکست میں انہوں نے تھری ناٹ تھری رائفل سے ایک ہی گولی ماری کہ لُفٹ وافے جہاز کے دونوں پر جھڑ گئے اور وہ پھڑپھڑاتا ہوا پوٹے کے بل کنویں میں آن گرا۔
طبرق میں جنرل رومیل نے ان سے ٹکرلی۔ حق و باطل کا معرکہ تھا۔ طاغوتی طاقتیں ایک طرف، خدائی لشکر دوسری طرف۔ انہوں نے میدانِ جنگ میں خدا کی حمایت میں ایک تقریر کی جس کے بعد بڑا خون خرابا ہوا۔ ’’گھمسان کا رن پڑا۔ ایسا کنفیوژن تھا کہ پتہ نہیں چلتا تھا کہ گولی خود کو لگی ہے یا ساتھی کو۔ جدھر نظراں اٹھا کر دیکھو بندوخاں تو پاں ٹھائیں ٹھائیں چل رہی ہیں۔ امواتاں، وفاتاں ہو رہی ہیں۔ زندگی میں پہلا موخعہ تھا کہ یک گھنٹے تک عورتاں کا خیال نہیں آیا۔ الاماں! موت کا فرشتہ سر پہ چکراں پہ چکراں لگا رہا ہے۔ اسپاں و ٹینکاں یک دوسرے کو ٹکراں پہ ٹکراں مار رہے ہیں۔۔۔‘‘
’’اسپ؟ گھوڑے؟‘‘ ہم نے حیرت سے پوچھا۔
’’اور کیا ہاتھی ٹکراں مارتے؟ فیلاں کا استعمال تو پورس کی وفات کے بعد ہی متروک ہوگیا تھا۔ ہاں تو میں یہ کہہ رہا تھا کہ چاروں اطراف، اتواپ گولہ باری کر رہی تھیں۔ تین عدد گولہ جات میرے ڈنٹر پہ لگے۔‘‘ انہوں نے بائیں آستین الٹ کر تین نہایت واضح نشان حاضرین کو دکھائے۔ ایسے ہی تین نہایت واضح نشان ہمارے بائیں بازو پر بھی ہیں۔ آپ کے بازو پر بھی ہوں گے۔ مگر، ایں شہادت بزورِبازو نیست۔ ہم نے پوچھا،’’تینوں گولے ایک ساتھ لگے؟‘‘ تلملا اٹھے۔ کہنے لگے، ’’جی نہیں خبلہ! کیو بنا کر باری باری دخول فرمایا تھا۔‘‘ سب نے ہمارے احمقانہ سوال پر زور کا قہقہہ لگایا۔
ہماری اور ان کی پیشی
ٹیلیفون سے دس منٹ کی جدائی بھی گوارا نہ تھی۔ کتنے بھی مصروف ہوں۔۔۔ ہمارا مطلب ہے گپ میں مصروف ہوں۔۔۔ فون ضرور کر لیتے تھے، خواہ 07 (معلومات) سے یہی پوچھنا ہو کہ یہ ٹیلی فون ’’ڈیڈ‘‘ تو نہیں ہے۔ ڈائل گھماتے گھماتے ان کی فون کی انگلی میں ٹھیک پڑ گئی تھی۔ کہیں بھی سوراخ نظر آجائے، اسے گھمانے کی کوشش ضرور کرتے تھے۔ دن بھر گاہکوں سے یا آپس میں گپ کرتے رہتے۔ شام کو چھ سات بجے قمیص کے کف پر اسکاچ ٹیپ سے بلاٹنگ پیپر چپکا کر بیٹھ جاتے۔ ’’واؤچرز‘‘ اور ’’لیجر‘‘ پر تیزی سے دستخط کرتے جاتے اور کف سے روشنائی خشک کرتے جاتے۔
کچھ دن بعد کسی بدخواہ نے جڑدی کہ وہ بغیر چیک کیے، اندھادھند دستخط کر دیتے ہیں۔ ثبوت میں رجسٹر اور ’لیجر‘ پیش کیے گئے جن کے ذیلی اندراجات پر چیکنگ کے ٹک مارک نہیں تھے۔ مسٹر اینڈرسن کے حضور ان کی پیشی ہوئی۔ خوب لتاڑے گئے۔ لیکن باہر آکر کہنے لگے کہ میں نے جنرل منیجر کا دروازہ ٹھوکر مار کر کھولا۔ (ثبوت میں اپنا جوتا دکھایا جس کی ٹوپر سے پالش ہی نہیں، کچھ چمڑا بھی دو مہینے سے اترا ہوا تھا۔) اینڈی (اینڈرسن کا پیار کا نام) بڑے ہی تپاک سے ملا۔ دیر تک ’ورلڈ وار‘ کی باتیں ہوتی رہیں۔
دوسرے دن سے انہوں نے اپنے اختیارات خصوصی چاچا فضل دین کو تفویض کر دیے۔ چوکیداری کے علاوہ اب اس کی یہ بھی ڈیوٹی ہوگئی کہ بندوق کو ندیدے بچے کی طرح چھاتی سے لگائے لگائے شام کو اکڑوں بیٹھا جھوم کر ہر اندراج کے سامنے چیکنگ کے ٹک مارک لگاتا چلاجائے۔ جب وہ سرگرم عمل ہوتا تو ایسا لگتا جیسے ’لیجر‘ پر آٹا گوندھ رہا ہو۔ بچارا ان پڑھ تھا۔ اس لیے ایک گھنٹے میں پانچ سو نشان لگا دیتا تھا۔ خود ان کی ہمت ساڑھے تین سو سے زیادہ کی نہیں پڑتی تھی۔ ذمہ داری کا احساس بری بلا ہے۔
ابھی اس پیشی کے چرچے ختم نہیں ہوئے تھے کہ ان کا پھر چالان ہوگیا۔ چپراسی نے خبردار کیا، ’’بڑا صاحب آج شارٹ سرکٹ کی طرح یوں چڑچڑ چنگاریاں چھوڑ رہا ہے۔‘‘ نوعیت جرم کی یہ کہ انسٹیٹیوٹ آف بینکرز کے زیراہتمام ’’قومی بچت اور اس کے مؤثر طریقے‘‘ پر مضمون نویسی کا مقابلہ ہوا تھا۔ اس میں نحاس پاشا کنجو نے ایک چار سطری قابل ضبطی مقالہ، جس میں ہمارے زورِ انشا و منشا کا بھی دخل تھا، سپرد قلم کیا۔ چنانچہ ہم بحیثیت سلطانی گواہ پیش ہوئے۔ رقم طراز تھے کہ حکومتیں اگر نوٹوں پر مناظر قدرت، ٹیڑھے میڑھے درختوں اور ناقابل مرمت تاریخی کھنڈروں (جن پر سینٹرل بینکوں کے گورنروں کے دستخط اس طرح ہوتے ہیں گویا وہی اس صورتِ حال کے خالق و ذمہ دار ہیں) کے بجائے NUDES (لباس سے بے نیاز تصویریں) چھاپنی شروع کردے تو آج کل کے نوجوان انہیں خود سے جدا کرکے خرچ کرنے کے بجائے اپنی جیب میں سینہ سے لگائے رکھنے پر مجبور ہوں گے۔ فی زمانہ، نئی نسل کو فضول خرچی سے باز رکھنے کی یہی ایک صورت ہے۔
جلالی وظیفہ اور لال طوطے
دوتین مہینے سے کنجو کو خط اور تحریر شناسی کے مطالعہ کی جھک لگی ہوئی تھی۔ شام کو مختلف ’’ہینڈرائٹنگ‘‘ اور دستخطوں کے نمونے سامنے رکھ کر اپنی قیافہ شناسی کی بناپر صاحب تحریر کے کردار کے ڈھکے چھپے گوشوں پر روشنی ڈالتے۔ کہتے تھے کہ میں i پر نقطہ لگانے اور t کاٹنے کے انداز سے بتا سکتا ہوں کہ لکھنے والے کے جوتے کی ایڑی کس طرف سےگھسی ہوئی ہے۔ اتوار کو کس وقت سوکر اٹھتا ہے۔ موزے کتنے دن بعد دھوتا ہے۔ گنجا ہے یا کھپریلا۔ بعض اوقات تو سارا چال چلن ایک شوشہ، ایک تشدید میں نچڑ کر آجاتا ہے۔ یہی نہیں۔ یہاں تک دعویٰ کرتے تھے کہ میں نمونے کی چار سطریں لکھ کر دوں اور آدمی نوے دن تک بالکل اسی طرز میں اس کی نقل کرتا رہے تو اس کا سارا چال چلن خود بخود بدل جائے گا۔ ہم نے بڑی بے صبری سے پوچھا، کیا بال بھی اگ آئیں گے؟ بولے، یہ بتائیے، جب کشتی ثابت و سالم تھی، جب سرپہ پورے بال تھے تو آپ کو کبھی ان سے کوئی فائدہ پہنچا؟
پھر ایک دور ایسا آیا کہ وہ فکرمند سے رہنے لگے۔ کوچین کی الف لیلیٰ ختم۔ ملیالم گیت موقوف۔ ایک چپ سی لگ گئی۔ رات کو چار چار بجے تک بینک میں نہ جانے کس ادھیڑبن میں لگے رہتے اور دن بھر جماہیاں لیتے رہتے۔ اس اچانک تغیر کا سبب پوچھا تو کہنے لگے میرے والد کا سانحہ ارتحال ہو گیا ہے۔ دوسرے، ایک جنی مجھ پر عاشق ہوگئی ہے، جس کارن میرے سینے کے تین بال سفید ہوگئے ہیں۔ (ریشمی اسکارف ہٹاکر حاضرین کو متذکرہ صدر تین عدد عشق زدہ بال دکھائے) جنی کے بیٹے کو عربی کا بغدادی قاعدہ پڑھا رہے تھے۔ ایک دن فرمایا کہ تین ماہ پہلے کا ذکر ہے۔ میں نےٹاٹ کا کرتا پہنا۔ ملیرکے باغ میں چالیس رات شیر کی کھال پہ بیٹھ کے جلالی وظیفہ پڑھا۔ ملیالم گالی، پیاز اور لہسن بالکل چھوڑدیا۔ جنی کو بو آتی تھی۔ کھجور اور اونٹنی کے دودھ پر گزارہ تھا۔ اونٹنی کے دودھ میں ببول کے کانٹوں اور آک کارس ہوتا ہے۔ فاسد خون اور خیالات کے لیے مصفی ہے۔ پرندوں کی بولی سمجھنے لگ گیا تھا۔ منہ سے طبلہ بجاتا تو سارنگی اور پایل کی آواز نکلتی۔ از کجا می آید ایں آواز دوست۔ ذرا آنکھ بند کرتا تو بالکل سامنے آکھڑی ہوتی۔
’’کون؟‘‘ ہم نے بڑی ہی بے قراری سے پوچھا۔
’’موت۔ اور کون؟‘‘
جھنجھلاہٹ کے بعد قدرے سکوت فرمایا۔ پھر سلسلہ تجلیات کو جاری رکھتے ہوئے ارشاد ہوا، انتالیسویں شب کوکہ شب نیم ماہ تھی، تہجد کے اول وقت کھجور کھاکر گٹھلی تھوکی تو وہیں پیپل کا درخت اگ آیا۔ اب جو حوض میں چلتے ہوئے فوارے کے اوپر کھڑے ہوکر غسل کرنے لگا تو دیکھتا کیا ہوں کہ ہر بوند کا ایک لال طوطابن گیا ہے اور پیپل کے ایک ایک پتے پر بیٹھ کر حمد باری تعالیٰ کر رہا ہے۔
’’لال طوطا؟‘‘ ہم سے نہ رہا گیا۔ خان سیف الملوک خاں نے ہمیں ٹہوکا دیا۔ کہنے لگے،’’چپ کر بدبختا! یہاں اور کون سی بات سائنس کے مطابق ہو رہی ہے جو تجھے طوطے کے رنگ پہ اچنبھا ہو رہا ہے۔‘‘
بیان جاری رکھتے ہوئے فرمایا، ’’اذانوں کے وقت ۱۰۱ تعویذ پتنگ کے کاغذ پر زعفران سے لکھ کر، سہاگن کے ہاتھ کے پسے ہوئےآٹے کی گولیوں میں لپیٹتا اور سیٹھ غفار بھائی نے جو فینسی مچھلیاں حوض میں پال رکھی تھیں،انہیں کھلا دیتا۔ جرمنی سے ٹیکسٹائل مشینری کے ساتھ فانوس اور مچھلیاں، ACCESSORIES، دکھا کر امپورٹ کی تھیں۔ سب مجھے پہچاننے لگی تھیں۔ دیکھتے ہی دم ہلاتی آتی تھیں۔‘‘
’’چالیس دن بعد پردۂ غیب سے کچھ ظہور میں آیا؟‘‘
’’آیا۔ سب مچھلیاں مرگئیں۔ مالیوں نے مجھے دھر لیا۔ ڈھائی سو روپے دینے پڑے۔ اسے رشوت کہہ لو۔ چاہے قصاص کہہ لو۔ اب ایک سفلی عمل پڑھ رہا ہوں۔ صبح بھنے کپورے کھاتا ہوں۔ بینک سے صبح چار بجے سیدھا کلفٹن جاتا ہوں اور سورج نکلنے سے پہلے کمر کمر پانی میں کھڑے ہوکر عمل پڑھتا ہوں۔ سو کے نوٹ کو دس کا تو اسی وقت بنا سکتا ہوں۔ ہے کسی کے پاس؟ پورنماشی کی رات کو شمشان گھاٹ جاتا ہوں اور راکھ آنکھوں سے ملتا ہوں۔ چیک پر کئے ہوئے دستخط کو نگاہ بھر کے دیکھ لوں تو ساری روشنائی اڑ جائے۔‘‘
چاچا فضل دین
اس زمانےمیں وقت بھی بتاتے تو اس انداز سے گویا کشف ہوا ہے۔ کلائی پر بندھی ہوئی گھڑی سے اس اطلاع کا کوئی تعلق نہیں۔ چاچا فضل دین بڑی عقیدت سے ان کی باتیں سنتا۔ ایک سال پہلے اس نے اپنے گاؤں جاکر اس بڑھاپے میں تیسری شادی کی تھی۔ بے اولاد تھا۔ دو بیویاں مر چکی تھیں، مگر وہ عام نسل انسانی کے متوازی اپنی ذاتی نسل چلانے کے لیے اولادِ نرینہ چھوڑنا ضروری سمجھتا تھا۔ دلہن کے حنائی ہاتھوں سے بالوں میں مہندی کا خضاب (مونچھوں پر ہمیشہ سیاہ خضاب لگاتا تھا۔ کہتا تھا مہندیائی مونچھ کو مٹیار اور ڈاکو خاطر میں نہیں لاتے۔) لگوا کر عجیب ہیئت کتخدائی بنائے، توبہ تلا کرتا لوٹا۔
ایک دن کہنے لگا کہ بڑھاپے کی شادی اور بینک کی چوکیداری میں ذرا فرق نہیں۔ سوتے میں بھی ایک آنکھ کھلی رکھنی پڑتی ہے اور چٹیا پہ ہاتھ رکھ کر سونا پڑتا ہے۔ ہم نے گجراتی کی مثل سنائی کہ جوانی کی بیماری، ضعیفی کی مفلسی، جاڑے کی چاندنی اور بڑھاپے کی شادی پہ حقے کا پانی! (یعنی لعنت۔) بولا میں تو حقہ ہر دفعہ تازہ کر کے پیتا ہوں۔ ہم نے کہا، چاچا! تم نے تین شادیاں کیں اور کوئی سبق حاصل نہ کیا۔ بولا کیوں نہیں کیا۔ آئندہ کسی بیوہ یا پکی عمر کی عورت سے شادی نہیں کروں گا۔ میری توبہ ہے۔
چند روز پہلے گاؤں سے پوسٹ کارڈ آیا تھا کہ آپ کی سب گائیں، ڈھورڈھنگر خیریت سے ہیں۔ پچ کلیان بھینس کے دوتھن مارے گئے۔ اللہ دتہ مستری کی دائیں آنکھ فیوز ہوگئی۔ دیگر احوال یہ کہ رضائے الہی سے آپ کے بال بچے کے یہاں بال بچہ ہوا ہے۔ نورچشمی شلغم مولی کی طرح الٹا پیدا ہوا۔ یعنی سر سے پہلے پیر تو لد ہوئے۔ اطلاعاً عرض ہے۔ بہت ہونہار اور کالا ہے۔ چاچا فضل دین نے چیک کی سیاہی اڑانے والی کرامات کا ذکر بڑے غور اور عقیدت سے سنا۔ اس کی خواہش تھی کہ کنجو نومولود کے چہرے کی ساری سیاہی چوس لیں۔ واپسی ڈاک سے اس کا فوٹو منگوانے کو تیار تھا۔ خط کا جواب ہمیں ڈکٹیٹ کروایا۔ بیوی کی کار کردگی سے خوش ہوکر چاچا نے اس کا مہر مبلغ ۵۱ روپے سکہ رائج الوقت سے بڑھا کر ۱۰۱روپے کر دیا۔ ہم نے قلم روک کر پوچھا معجل یا مؤجل؟ بولا یہ کیا ہوتا ہے؟ کہا معجل وہ جو جلدی مچانے پر فوراً دینا پڑے۔ اور مؤجل وہ جو آرام آرام سے، بینک اور ڈرافٹ کی طرح واپس کیا جائے۔ بولا تو پھر ہزار کردو۔ بینک والا۔
تا کس نہ گوید بعد ازیں من دیگرم تو دیگری
اب نحاس پاشا کنجو اکثر فرماتے کہ میرے دادا جان قبلہ مجاہد و مجتہد عصر تھے۔ انہوں نے انگریزوں کے خلاف جنگ کی جس میں سرمبارک شہید ہوا۔ حضرت اپنا بریدہ سربائیں ہتھیلی پہ رکھے اور دائیں ہاتھ سے تلوار چلاتے، خونم خون، سمندِ شب رنگ پہ سوار سرنگا پٹم سے بنگلور آئے۔ تیرہویں میل پر پہنچ کر وہ اور مشکی گھوڑا شہید ہوئے۔ اپنی نماز جنازہ خود پڑھائی اور سلام پھیر کر غائب ہوگئے۔ پیر گھوڑا شاہ کا مرقد منور آج بھی زیارت گاہِ انام ہے۔
اس باب خاص میں خان سیف الملوک خان نے یہ ریسرچ کی تھی کہ اس کا دادا ایک عربی گھوڑے کی چوری کے الزام میں پکڑا گیا۔ کوتوال نے منھ کالا کیا اور خرسیاہ پہ الٹا بٹھا کے شہر بدر کر دیا۔ کالک کی وجہ سے پتہ نہیں چلتا تھا کہ دادا کہاں ختم ہوتا ہے اور گدھا کہاں سے شروع ہوتا ہے۔ خر مذکور کی ٹانگوں میں جب تک سکت رہی چلتا رہا۔ آخرش تیرہویں سنگ میل پر پہنچ کر ایسا بیٹھا کہ پھر نہ اٹھا۔ یہیں اس کی قبر بنی۔ دادا نے بھی یہیں توطن اختیار کیا۔ کچھ عرصہ بعد جب انہوں نے بھی دنیا سے پردہ کیا تو یہیں مدفون ہوئے۔ اہل بنگلور کی غفلت سے قبریں گڈمڈ ہوگئیں۔ تاکس نہ گوید بعدازیں من دیگرم تو دیگری۔ بڑے بوڑھوں کا کہنا ہے کہ ان کا مزار خرسیاہ کی پائینتی ہے۔ مجاور کہتے ہیں سرہانے۔ بہرحال یہ تحقیق نہ ہوسکا کہ کون کس میں آرام فرما ہے۔ ایک لال بجھکڑ سے یہ بھی مروی ہے کہ راکب و مرکب ایک ساتھ جاں بحق تسلیم ہوئے۔ اور وہ اس پر بیٹھے ہوئے، اسی پوز میں، دفنادیے گئے اور اسی پر ابدی نیند سورہے ہیں۔ چنانچہ مزار کی اونچائی اس کی لمبائی سے زیادہ ہے۔ دوسری قبر غیر مسکونہ ہے۔ واللہ اعلم۔۔۔
کم خرچ بالا خانہ نشین
طرح طرح کی خبریں سننے میں آرہی تھیں۔ خاں صاحب ہی کہیں سے یہ خبر لائے کہ سیکنڈ لفٹین این۔ ایم۔ ایم۔ این۔ پی کنجو سراسر فراڈ ہے۔ اول درجہ کا جھوٹا لپاٹی۔ سیکنڈ لفٹین نہیں ہے۔ حدیہ کہ کنجو بھی نہیں ہے۔ اصل نام کچھ اور ہے۔ مدراسی بھی نہیں۔ وظیفے اور جنتر منتر سب بکواس۔ گھٹیا آدمی ہے۔ کپڑے کے امپورٹروں سے ایک ایک گز لٹھا تک لینے سے نہیں چوکتا۔ چاول کے گودام چیک کرنے جاتا ہے تو ہر بوری میں تین تین دفعہ سنبھا (سنبھا (پنجابی) نالی دار سوا جسے بوری میں گھسا کر اناج کی بانگی نکالی جاتی ہے۔) گھونپتا ہے اور جو بانگی نکلتی ہے اسے جھولے میں بٹور کر لے آتا ہے۔ کپڑا اور چاول نذیر محمد چپراسی کو بخش دیتا ہے جس کے نو بچے ہیں۔ خود انشورنس کمپنیوں سے کمیشن کھاتا ہے۔ بینک کے مقروضوں سے قرض لیتا ہے۔ بیوی بھی سگی نہیں ہے۔ ایک یونہی سی عورت کے ساتھ یونہی رہتا ہے۔ اس یک جائی میں دونوں نے شرع کو دخل انداز نہیں ہونے دیا:من ترا قاضی بگویم تو مرا قاضی بگو۔
منھ بولی بیوی ہے۔ وہی اس کی بالائی آمدنی کی بالائی اتارتی ہے۔ اس کے علاوہ قرض کے زور پر کوچہ بکوچہ، دربدر، زن بزن مارا پھرتا ہے۔ پچھلے سال تو ایک طوائف نے اسے گھر میں ڈال لیا تھا۔ کم خرچ، بالاخانہ نشین۔ ہم نے کہا،’’آوارگی اپنی جگہ، مگر اس میں بھی تو خوش مذاقی، حسن انتخاب کا ثبوت دیا جاسکتا ہے۔‘‘ مرزا بولے،’’کس دنیا کی بات کرتے ہو۔ بقول اشرف صبوحی، رونا تو یہی ہے کہ جس میں رس ہے، اس پہ بس نہیں۔ اورجس پہ بس ہے، اس میں رس نہیں۔ اور دل کی بات پوچھو تو جب تک سیخ کباب میں سے دہکتے انگاروں اور دھوئیں کی لپٹ نہ آئے، چٹخارا نہیں آتا۔ جیسے بھری پری سمپورن راگنی ہوتی ہے، ویسے ہی سمپورن ناری ہوتی ہے۔ سمپورن راگنی اکتارے پر نہیں بجا کرتی، میرے سرکار!‘‘
داستانِ غبن
یہ آج سے تقریباً بیس برس ادھر کی بات ہے لیکن ہمیں اچھی طرح یاد ہے کہ اس دن جمعرات تھی۔ اس لیے کہ جمعرات کو وہ کام شروع کرنے سے پہلے اپنی ڈیسک پر ایک میسوری اگربتی جلاتے تھے۔ اس دن وہ صبح ساڑھے نو بجے ہی طبیعت کی خرابی کاعذر کرکے گھر چلے گئے۔ دوسرے دن بھی نہیں آئے۔ تیسرے دن کھاتے ’’بیلنس‘‘ کیے گئے تو ایک لاکھ کہ نحاس پاشا کنجو نے ایک کھاتے سے ایک لاکھ روپے اپنے جعلی اکاؤنٹ میں منتقل کرکے غبن کر لیے۔ آدمی دوڑائے گئے مگر ان کا سراغ نہ ملا۔ اتوار کو گیارہ بجے شب پولیس اپنی تفتیش سے اس نتیجہ پر پہنچی کہ وہ جمعرات کو نوبجے بینک سے ایک لاکھ روپے نکلواکر سیدھے ایئر پورٹ گئے اور گیارہ بجے کی فلائٹ سے (جس میں ان کی سیٹ ایک ہفتے پہلے بک ہوچکی تھی) بمبئی چلے گئے، جہاں وہ بینک اور قانون کی گرفت سے باہر تھے۔ اس دن چاچا فضل دین بہت رویا۔ غم میں روٹی نہیں کھائی۔ کبھی طیش میں آکر کہتا، ’’اگر تینوں چوری کرنی ہی سی تے مرداں وانگوں مجھ گاں چراندا۔ اے کی جگ ماری؟ (اگر تجھے چوری ہی کرنی تھی تو مردوں کی طرح گائے بھینس چراتا۔ یہ کیا جھک ماری؟)
پھر سر پیٹ کر کہتا، ’’کی کردا پتر؟ جے تینوں پیسے ہی دی لوڑسی، تے مینوں دسناسی۔ میں اپنے سارے مہینے دی تنخواہ تینوں دے دیندا۔ ہن کی ہوسی؟ (بیٹا! یہ تونے کیا کیا؟ اگر تجھے پیسے ہی کی ہوس تھی تو مجھے تو بتایا ہوتا۔ میں اپنی سارے مہینے کی تنخواہ تجھے دے دیتا۔ اب کیا ہوگا؟) ایک دفعہ اکاؤنٹنٹ رخصت پر تھا اور نیا منیجر تجوری کی دونوں چابیاں کھلی دراز میں رکھی چھوڑ گیا۔ اس وقت تجوری میں دس لاکھ روپے تھے۔ چاچا فضل دین چابیوں کو سینہ سے لگائے رات بھر لاالہ الااللہ، لا الہ الاللہ کا ورد کرتا، ٹہلتا رہا۔ اس کی بیوی ٹی۔ بی کے آخری درجہ میں منھ سے خون ڈالتی، علاج کو ترستی خانیوال میں اپنے میکے میں دم توڑ رہی تھی۔ چاچا کو فقط چارسورتیں اور ۷۳ تک گنتی آتی تھی کہ یہی اس کی تنخواہ تھی۔ دس لاکھ روپے میں تو بقول اس کے اتنی بھینسیں آسکتی تھیں کہ سارے کا سارا گاؤں اپنے پیاروں سے خالی کرانا پڑتا۔ اور اس نے تو صرف آدمی کمائےتھے۔
اس زمانے میں ایک لاکھ روپے کا غبن آج کے دس لاکھ کے برابر ہوتا تھا۔ بینکوں میں برسوں ایسی واردات کے چرچے رہتے۔۔۔ بالکل اسی طرح جیسے باتونی عورتیں اپنی پچھلی زچگی کی ڈینگیں اس لمحے تک مارتی رہتی ہیں جب تک کہ خود انہیں یا سامعین میں سے کسی کو تازہ ترین زچگی نہ ہو جائے۔ جس نے سنا، سرپیٹ کر رہ گیا۔ اس رد عمل سے ذرا فراغت ہوئی تو ایک دوسرے پر غفلت مجرمانہ کے الزام لگائے گئے۔ پولیس نے پہلے تو چار گواہوں کے بیان قلم بند کیے، پھر خود انہیں بند کرلیا۔ مگر روپیہ برآمد نہ ہوا۔ البتہ کنجو کی دراز سے روشنائی اڑانے کے کیمیکل کے علاوہ، دوکاپیاں اور چیک بک بھی برآمد ہوئیں جن میں وہ جعلی دستخط بنانے کی مشق کیا کرتے تھے۔ ان میں راقم الحروف کے دستخط بھی شامل تھے۔
پانچ چھ مہینے بعد بمبئی سے آنے والوں نے بتایا کہ اس روپے سے انہوں نے بارہ ٹیکسیاں چلائیں۔ جب وہ چلتے چلتے پانچ رہ گئیں تو اونے پونے ٹھکانے لگاکر فلم پروڈیوسر بن گئے۔ اور کوچین کی ایک لوک کہانی فلمانی شروع کی۔ لیکن کہانی ختم ہونے سے پہلے اوچھی پونجی خلاص ہوگئی۔ ہمارا خیال کیا یقین ہے کہ فلم میں ہیروئن کی جگہ جتنی سانولیوں اور ’’خمریوں‘‘ کو انہوں نے ڈالا ہوگا، اس کے لیے تو قارون کا خزانہ بھی ناکافی ہوتا۔ لکشمی جس چور دروازے سے آئی تھی اسی سے راتوں رات اُدھل گئی۔ پیسے پیسے اور زنانِ شبیہ کو محتاج ہوگئے۔
بصد سامانِ رسوائی
مگر وہ یوں ہار ماننے والو ں میں سے نہیں تھے۔ گرہ کشائی کے لیے زر نہ ہو تو پھر زبان کی قینچی چلتی ہے۔ اللہ نے ان کی زبان کو بلا کی تاثیر دی تھی اور آنکھ میں جادو۔ اسی کا کرشمہ کہنا چاہیے کہ اب وہ بمبئی کے قطب الاقطاب بنے بیٹھے ہیں۔ اور ان کا شمار صاحب کشف و کرامات پیروں میں ہوتا ہے۔ خانقاہ عالیہ مرجع خلائق ہے اور ان کے جلالی وظیفوں کی سارے مہاراشٹر اور آندھرا پردیش میں دھوم ہے۔ تہجد سے اشراق تک مصلے پر قرار پکڑتے اور دعائے قنوت نازلہ کا ورد کرتے ہیں۔ اپنا آپا مٹی میں ملا چکے ہیں۔ ایک دن محفل سماع میں حال آگیا تو اسی عالم میں خانقاہ سے باہر نکل آئے۔ اور سر کے بال نوچتے، سینہ پیٹتے، برہنہ پاچل دیے۔ پیچھے پیچھے مریدین اور قوال ہارمونیم اٹھائے ’’بصد سامان رسوائی سربازار می رقصم‘‘ گاتے جارہے تھے۔ آدھ میل تک اسی طرح سڑک پر دیوانہ وار رقص رواں جاری رہا۔ میرین ڈرائیو پر ٹھٹ لگ گئے۔ سارا ٹریفک، جیم ہوکر رہ گیا۔
۱۹۷۰ء میں بمبئی سے آنے والے ایک اسمٰعیلی واقف کار کے ہاتھ انہوں نے مدراسی کافی، صندل کی تسبیح، سرمے، اور اپنی تصویر کی سوغات بھیجی۔ تصویر کے نیچے وہ پنجابی ٹپہ تحریر تھا جس نے کبھی دل کو گرمایا اور آلام روزگار کو آسان بنایا تھا۔ جاڑے پالے میں چراغ کی طرف دیکھنے سے بھی گرمائی آجاتی ہے۔ گزری ہوئ صحبتیں ایک ایک کرکے یاد آئیں اور ان کے ساتھ نہ جانے کیا کیا یاد آگیا۔ جب کوئی کسی ہمدم دیرینہ کو یاد کرتا ہے تو دراصل اپنے آپ کو یاد کرتا ہے، دیر تک اس تصویر میں اپنے آپ کو دیکھا کیے۔ وہی کشادہ جبیں، وہی نیم والب، وہی ذہین مسکراتی آنکھیں۔ پر نہ جانے کس حریص جنی کی نظر لگی کہ ساری داڑھی سفید گالا ہوگئی ہے۔ تاہم یہ دیکھ کر ذرا ڈھارس بندھی کہ آج کل آنکھوں میں سرمہ نہیں لگاتے، کاجل لگاتے ہیں۔ دنبالہ دار!
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.