Font by Mehr Nastaliq Web

aaj ik aur baras biit gayā us ke baġhair

jis ke hote hue hote the zamāne mere

رد کریں ڈاؤن لوڈ شعر

لیڈر بن جاؤ

حاجی لق لق

لیڈر بن جاؤ

حاجی لق لق

MORE BYحاجی لق لق

    اگر آپ کو دنیا میں کوئی کام نہیں ملتا تو لیڈر بن جاؤ۔ تجارت کرنے کے لئے سرمائے کی ضرورت ہے۔ کھیتی باڑی کرنے کے لئے محنت کی ضرورت ہے اور نوکری کی تو بات ہی چھوڑ دیجئے۔ پہلے تعلیم کی ضرورت ہے پھر سفارش کی۔ سفارش کے بغیر چپراسی کی نوکری بھی نہیں ملتی۔ ہاں لیڈری سب سے آسان چیز ہے، نہ سرمائے کی ضرورت نہ محنت کی، نہ تعلیم کی، نہ سفارش کی۔ اور مزے ولایت پاس سے بھی زیادہ، جدھر جاؤ عزت، ’’زندہ باد‘‘ کے نعرے، جلسے جلوس، مرغ پلاؤ۔ غرض مزے ہی مزے ہیں۔ اب آپ پوچھیں گے کہ لیڈری کا نسخہ اور اس کی ترکیب استعمال کیا ہے، سو پہلے یہ سن لیجئے کہ میں کس طرح لیڈر بنا۔

    ایک دفعہ کا ذکر ہے کہ مجھے منٹگمری جانے کا انتفاق ہوا۔ شہر منٹگمری سے دس بارہ میل کے فاصلے پر میرے ایک زمیندار دوست تھے۔ ان سے کچھ کام تھا میں لاہور سے انٹر کلاس کے ڈبے میں بیٹھ کر منٹگمری پہنچا۔ جب گاڑی اسٹیشن پر ٹھہری تو میں نے دیکھا کہ پلیٹ فارم پر سینکڑوں آدمیوں کا ہجوم ہے اور بہت سے لوگوں کے ہاتھوں میں پھولوں کے ہار ہیں۔ گاڑی ٹھہری ہی تھی کہ یہ ہجوم بھاگتا ہوا انٹر کلاس کے ڈبّے کی طرف آیا جس میں ایک میں اور ایک سکھ مسافر بیٹھے تھے۔ ایک معزز آدمی نے جھٹ میرے ڈبے کا دروازہ کھولا اور مجھ سے مصافحہ کیا۔ میں باہر نکلا تو لوگوں نے میرے گلے میں پھولوں کے ہار ڈالنا اور مصافحہ کرنا شروع کر دیا میں حیران تھا کہ،

    ’’یا الٰہی یہ ماجرا کیا ہے‘‘

    بات یہ تھی کہ اس شہر میں اسی ٹرین سے یوپی کے مولانا رفاقت علی لاہور سے آنے والے تھے اور مسلمانوں کے ایک جلسے میں تقریر کرنے والے تھے۔ اتفاق یہ ہے کہ نہ تو مولانا کبھی پہلے منٹگمری آئے تھے اور نہ مٹنگمری کے کسی شخص نے مولانا کو پہلے کبھی دیکھا تھا۔ ڈبے میں ایک میں تھا اور ایک سکھ۔ میں بھی داڑھی رکھتا تھا اور خالصہ جی بھی۔ اگر خالصہ جی اکیلے ہوتے تو شاید انہی کو مولانا رفاقت علی سمجھ لیا جاتا بشرطیکہ خالصہ جی کے کیس نظر نہ آتے۔ بہرحال مجھے مولانا سمجھ لیا گیا۔

    میرے جی میں آئی کہ میں حقیقت حال بیان کردوں اور کہوں کہ میں مولانا رفاقت علی نہیں لیکن پھر سوچا کہ اس میں میرا بگڑنا ہی کیاہے ایک دن لیڈری کرکے بھی دیکھ لینا چاہیے۔ دل میں سوچا کہ تقریر کرنی پڑے گی کیونکہ مولانا کا یہاں بلائے جانے کا یہی مقصد ہوسکتا ہے اور میں نے کبھی تقریر نہیں کی۔ تقریر کے تصور نے تو مجھے کپکپا دیا لیکن میں نے حوصلہ نہ ہارا اور خاموش رہا۔ دل میں کہا کہ پرواہ نہیں۔ گزارہ چل جائے گا۔ ساتھ ہی مجھے ایک لیڈر کا کہنا یاد آگیا۔ ایک دفعہ ریل میں ایک لیڈر سے ہم سفری کا اتفاق ہوا تھا۔ میں نے اُن سے پوچھا کہ تقریر کرنے کا گر بتائیے۔ لیڈر صاحب نے جواب دیا کہ تقریر کرنے کے لئے کھڑے ہوجاؤ اور یہ تصور کرلو کہ جتنے آدمی تقریر سننے کے لئے جمع ہیں سب کے سب اُلّو اور گدھے ہیں۔ ان میں مجھ سے زیادہ لائق کوئی نہیں اس تصور کے ساتھ جو جی میں آئے کہتے جاؤ۔

    بہر حال میں نے فیصلہ کرلیا کہ اپنی شخصیت کو ظاہر نہیں کروں گا۔

    لوگوں کی بھیڑ بھاڑ میں اسٹیشن کے باہر پہنچا تو وہاں جلوس کا انتظام تھا۔ مجھے ایک شاندار جلوس کی شکل میں شہر تک لے جایا گیا۔ راستے بھر مجھ پر پھولوں کی بارش ہوتی رہی اور ’’مولانا رفاقت علی زندہ باد‘‘ کے نعرے لگتے رہے۔ میں نے لیڈروں کے جلوس تو کئی دیکھے تھے اس لئے وہی حرکتیں کرتا رہا جو لیڈر لوگ اپنے جلوس کے دوران کرتے ہیں یعنی مسکرا کر اور ماتھے کے قریب ہاتھ لے جاکر کبھی دائیں طرف کے تماشائیوں کو سلام اور کبھی بائیں والوں کو کورنش۔

    جلوس ایک رئیس کے مکان پر ختم ہوا۔ جہاں ہم ایک اعلیٰ درجے کے فرش فروش اور فرنیچر سے سجے ہوئے کمرے میں داخل ہوئے اور تھوڑے عرصے کے بعد کھانے کا وقت ہوگیا۔ کھانے کے کمرے میں گئے تو دیکھا نوابانہ شان کے بے شمار کھانوں سے دستر خوان سجا ہوا ہے۔ کھانا کھایا چائے پی صاحب خانہ نے کہا کہ مولانا جلسے کا وقت ہوگیا ہے۔ تشریف لے چلئے۔

    مجھے تشویش تو یہ تھی کہ مجھے تو یہ بھی معلوم نہیں کہ تقریب کیا ہے جلسہ کس بات کا ہے اور تقریر کس موضوع پر کرنی ہے اگر میں نے یہ باتیں پوچھیں تو راز افشا ہوجائے گا۔ میں اسی سوچ میں تھا کہ صاحب خانہ کا بچہ کھیلتا ہوا اندرآیا۔ صاحب خانہ نے اس سے کہا کہ ادھر آؤ بیٹا۔ مولانا کی خدمت میں السلام علیکم عرض کرو۔ بچے نے میرے پاس آکر السلام علیکم کہا اور میں نے وعلیکم السلام کہہ کر اس سے ہاتھ ملانے کے بہانے وہ اشتہار لے لیا جو اس کے ہاتھ میں تھا اور کہا کہ تم اس کو پڑھ سکتے ہو؟ لڑکے نے اٹک اٹک کر پڑھنا شروع کیا لکھا تھا؛

    ۲۰, مارچ کو بعد نماز عصر مولانا رفاقت علی صاحب مسلمانوں کے ایک جلسۂ عام میں اصلاحی تقریر فرمائیں گے۔

    اب مجھے اس اشتہارسے یہ تو پتہ چل گیا کہ اصلاحی تقریر کرنا ہے لیکن اس کا مطلب؟ اورمیں اس موضوع پر کیا کہہ سکوں گا؟ میں نے دل کو حوصلہ دیا کہ تمام حاضرین اُلّو ہوں گے اور میں ان سب سے لائق ہوں۔

    جلسہ گاہ میں پہنچے۔ پہلے مقامی حضرات کی تقریریں ہوتی رہیں۔ اس کے بعد تالیوں کی گونج اور ’’زندہ باد‘‘ کے نعروں میں تقریر کرنے اٹھا اور یوں گویا ہوا۔

    ’’میرے بھائیو۔ میں آپ کا شکر گزار ہوں کہ آپ نے مجھے یہاں آنے اور تقریر کرنے کی عزت بخشی۔ آپ کی ہمت قابل داد ہے کہ آپ نے مسلمانوں کی اصلاح کا عزم کرلیا ہے۔ مسلمانوں کی حالت بلاشبہ قابل رحم ہے، جو اکھیلتے ہیں۔ شرابیں پیتے ہیں اور سنیما دیکھتے ہیں۔ سنیما میں جاؤ تو دیکھو گے کہ زیادہ تماشائی مسلمان ہیں اور سنیما میں ہر شب اور ہر شو میں اتنی بھیڑ ہوتی ہے کہ الامان ۔ بھیڑ تو ریل میں بھی بہت ہوتی ہے، پچھلی دفعہ جب میں جالندھر گیا تو بھیڑ کی وجہ سے ٹرین پر سوار نہ ہوسکا اور شالامار باغ کے میلے میں بھی بھیڑ کم نہیں ہوتی۔ کھوے سے کھوا چھلتا ہے اور پولیس کے سخت انتظام کے باوجود ایسی دھکا پیل ہوتی ہے کہ لوگوں کے کپڑے پھٹ جاتے ہیں۔ آپ میں سے جو لوگ لاہورگئے ہیں انہوں نے شالامار باغ ضرور دیکھا ہوگا۔ شاہان اسلام کی یاد گار ہے۔

    (نعرہ۔ ’’اسلام زندہ باد‘‘)

    ہر سال یہاں میلہ لگتاہے۔ اس میلہ میں خلیفہ کے کباب اور قصوریوں کا مرغ مسلم کھانے کی چیزیں ہوتی ہیں۔ کباب بھی عجب چیز ہے اور یہ بھی مسلمانوں کی ایجاد ہے۔ ایک انگریز نے جو ہندوستان رہ چکا ہے، ولایت کے ایک رسالے میں کباب پر پورے پانچ صفحوں کا ایک مضمون لکھا اور ثابت کیا کہ مہذب دنیامیں مسلمانوں کا سب سے زیادہ قابلِ قدر حصہ کباب ہے۔

    (نعرہ۔ ’’اسلام زندہ باد‘‘)

    کباب دراصل گھر پر اچھے نہیں بنتے۔ انہیں دکاندار ہی بنا سکتے ہیں۔ دکانداروں کی بھی کیا پوچھتے ہو۔ گزارہ ہی چلتا ہے کوئی آمدنیاں نہیں رہیں۔ آمدنی ہے تو سنیما والوں کو، اچھی فلم ہو یا برُی ان کا کام خوب چلتاہے، بعض فلمیں بہت مخرب اخلا ق ہوتی ہیں۔ میں نے ایک فلم دیکھی۔ میرا مطلب ہے کہ ایک شخص سے اس فلم کے متعلق سنا کہ بہت ہی گھٹیا درجے کی فلم تھی اور اس سے اخلاق پر بُرا اثر پڑتا تھا۔ پس اے مسلمانوں، وقت آگیا ہے کہ ہم اخلاق درست کریں۔

    ’’گلدستۂ اخلاق‘‘ میں لکھا ہے۔۔۔

    میں اسی طرح تقریر کرتا گیا اور میں یہ دیکھ کر حیران تھا کہ لوگوں پر میری تقریر کا بہت اثر ہو رہا ہے۔ وہ بُت بنے ہوئے ایک ایک لفظ کو غور سے سن رہے ہیں اور کبھی کبھی ’’زندہ باد‘‘ کا نعرہ بھی لگ جاتا ہے۔

    میں ابھی تقریر کرہی رہا تھا کہ ایک ٹیلی گراف کا ہرکارہ آیا اور صدر جلسہ کے ہاتھ میں ایک تار دے کر چلا گیا۔ صدر جلسہ نے تار کھولا۔ اُسے پڑھا اور میری طرف دیکھنے لگا۔ لیکن میں نے تقریر کو جاری رکھا۔

    جب تقریر ختم ہوگئی تو صاحب صدر نے اٹھ کر حاضرین سے مخاطب ہوکر کہا،

    ’’صاحبان! میں آپ کو ایک عجیب بات سناؤں۔ جن صاحب نے ابھی آپ کے سامنے تقریر کی ہے یہ مولانا رفاقت علی نہیں۔ مولانا کاتار ابھی ابھی آیاہے جو میرے ہاتھ میں ہے۔ مولانا اطلاع دیتے ہیں کہ میں دفعۃً علیل ہوجانے کے باعث نہیں آسکتا۔ بہر حال نقلی مولانا رفاقت علی کو بھی داد دینی چاہیے کہ انہوں نے اپنا پارٹ خوب نبھایا اور تقریر سے جو نور علٰی نور تھی آپ کو محظوظ فرمایا۔ میں اب جلسے کی برخاستگی کا اعلان کرتا ہوں۔‘‘

    میں رات کو وہیں سویا اور صبح اپنے دوست کے گاؤں کو روانہ ہوا لیکن اس واقعہ سے مجھے شوق پیدا ہوگیا کہ لیڈر بننا چاہیے چنانچہ میں لیڈر بن گیا ہوں۔ آپ کو لیڈر بننا ہوتو اسی طرح جائیے جس طرح میں بنا ہوں۔

    ’’لیڈری زندہ باد۔‘‘

    Additional information available

    Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.

    OKAY

    About this sher

    Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.

    Close

    rare Unpublished content

    This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.

    OKAY

    Jashn-e-Rekhta | 13-14-15 December 2024 - Jawaharlal Nehru Stadium , Gate No. 1, New Delhi

    Get Tickets
    بولیے