میڈم نے بھی کیا عجیب طبیعت پائی ہے۔ گھڑی میں تولہ گھڑی میں ماشہ کبھی ہنسی کا پٹارا بنی خود قہقہہ لگارہی ہیں اور دوسروں کو بھی قہقہہ لگانے کی دعوتِ عام دے رہی ہیں، کبھی سنجیدگی کے ایسے گہرے لبادے میں کہ مسکراہٹ تک منہ پر نہیں آتی۔ موڈ میں آئیں تو ایک دن میں گھر کے کئی پھیرے کر لئے،گھر گھیر ڈالا، کبھی مہینوں خبر نہ لی، کبھی تو آپ سے اپنی، اپنے بچوں کی، اپنے گھر کی تعریف میں قصیدے سے سننے کی خواہاں کبھی آپ نے ان کی کسی چیز کی تعریف کردی تو جھٹ بول پڑیں۔
’’لاحول ولا وقوۃ۔ یعنی کہ یہ آپ کو پسند ہے، مجھے تو بالکل پسند نہیں۔‘‘ آپ یہ سن کر جل تو جائیں گی، لیکن یہ ہرگز نہ کہہ سکیں گی کہ ’’پسند تو مجھے بھی نہیں، محض آپ کا دل رکھنے کو کہہ دیا تھا۔‘‘ کیونکہ میڈم کا مزاج بھی تو آخرکوئی چیز ہے۔
میڈم کے یہاں کھانا کوئی نہیں کھاتا، پھر بھی کھانا پکتا ہے، اور وہ بھی ایسا ویسا نہیں، ایسا کہ شاید کسی کے یہاں نہ پکتا ہو،ان کے یہاں کھانا پکنا فیشن ہے اور کھانا نہ کھانے کا پروپگنڈا اس سے بھی بڑا فیشن، اور اسی فیشن کے تحت وہ کھانا کھاتیں نہیں، بلکہ چکھتی ہیں، اس کے باوجود اگر آپ ان کا تن و توش دیکھ لیں، تو منہ سے بے ساختہ نکل جائے ماشاءاللہ!
میڈم کو بحث کرنے پرعبورحاصل ہے، وہ ہر بحث میں جیت جاتی ہیں۔ بحث کسی طرح کی ہو وہ اس میں حصہ ضرور لیتی ہیں، زیرِ بحث موضوع کوئی بھی ہو، کشاکش زمانہ پر ہو یا روزافزوں مہنگائی پر، تاریخ پر ہو کہ حالت ِحاضرہ پر، تجریدی آرٹ پرہوکہ علامتی افسانوں پر، سیاست پر ہو کہ ادب پر۔ میڈم اس میں ضرور کود پڑیں گی۔ اس سے بھی کوئی غرض نہیں کہ وہ بحث لیٹن زبان کے پیچ وخم پرہورہی ہے،یا فرنچ ادب پر۔میڈم بولیں گی ضرور۔ اور نہ صرف بولیں گی،بلکہ بڑے زورشورسےبحث کریں گی، اس زورسےکہ وہاں بیٹھےتمام عالم فاضل ہارجائیں گے کیونکہ وہ بےچارے اتنا تو ضرور جانتے ہیں کہ کہاں خاموش ہوجانا چاہئے۔
میڈم کبھی کبھی بڑی عجیب وغریب مثالیں پیش کرتی ہیں۔ کہنےلگیں، ’’خواتین میں حس مزاح کی کمی ہوتی ہے۔‘‘
پوچھا، ’’وہ کیسے؟‘‘ انہوں نے ایک مثال دی۔
’’فرض کرو، بازار میں ایک شخص جارہا ہے اور وہ پھسل کر گرپڑا، وہاں موجود تمام لوگ ہنس دیں گے، لیکن اگر دس بھینسیں کہیں جارہی ہوں اور ان میں سے ایک بھینس گرپڑے تو باقی نو بھینسیں اس پر ہرگز نہیں ہنسیں گی۔‘‘
میں ان کی اس عجیب وغریب مثال پر زورسے ہنس پڑی اور بولی، ’’کیا پتہ بھینسیں بھی ہنستی ہوں، لیکن یہ تو بتاؤ،اس مثال سے عورتوں کی حسِ مزاح کی کمی کا پہلو کدھر سے نکلتا ہے۔‘‘
’’بالکل صاف نکلتا ہے‘‘، وہ حسبِ عادت اپنی بات پر زور دے کر بولیں، ’’یہ تو تمہیں ماننا پڑے گا کہ ہنستا وہی ہے، جس میں کچھ عقل وشعور ہو، یا بات کو سمجھتا ہو، یا سمجھنے کی کوشش کرتا ہو،انھیں کیسی ہی مزیدار بات سناؤ، لطیفہ یا مزاحیہ کلام سناؤ،کیا مجال کہ ٹوکےبغیردھیان سے پوری بات سن لیں، یا اپنی ٹانگ نہ اڑائیں۔‘‘ میں دیر تک ان سے بحث کرتی رہی کہ یہ کمی مرد اورعورت دونوں میں یکساں طور پر پائی جاتی ہے۔ ایسے مردوں کی بھی کمی نہیں جو لطیفہ سن کر پوچھتے ہیں، ’’اس کے بعد کیا ہوا؟‘‘
یا ’’ایسا ہو ہی نہیں سکتا۔ ناممکن۔‘‘
یا ’’کسی کی موت یا نقصان پر ہنسنا بری بات ہے‘‘، وغیرہ وغیرہ۔ لیکن حسب عادت میڈم نے میری ایک نہ سنی اور اپنی بات پر اڑی رہیں۔
میڈم پر کبھی کبھی سیاحت کا موڈ نہیں بلکہ بھوت سوار ہوتا ہے، اور جب ایسا ہوتا ہے تو وہ ہفتوں کیا مہینوں کے لئے غائب ہوجاتی ہیں پچھلے دنوں کافی دنوں بعد ان سے ملاقات ہوئی، معلوم ہوا جہان آباد گئی تھیں۔
پوچھا، ’’کیسا شہر ہے؟‘‘
بولیں، ’’بہت اچھا۔ وہاں کی عورتیں بڑی شرم وحیا والی اورشریف ہیں۔‘‘
پوچھا، ’’کیا پردے کا رواج بہت ہے۔‘‘
بولیں، ’’نہیں! آنکھوں کا پردہ زیادہ ہے وہاں۔ مرد ہمیشہ نظریں جھکا کرباتیں کرتے ہیں، عورتیں ڈھکی ڈھکائی رہتی ہیں، مثلاً وہاں کی عورتیں پچاس سینٹی میٹر میں اپنا بلاؤز سیتی ہیں جس کی وجہ سے عریانیت بہت کم ہوگئی۔ گریبان بھی یہاں والیوں سے کم کھلا ہوتا ہے اور بلاؤز کے گلے پر چاکِ گریباں کا دھوکا نہیں ہوتا۔ اکثر لڑکیاں گلے میں دوپٹہ ڈالے بھی نظر آتی ہیں۔‘‘
پوچھا، ’’اور مردوں کی شرافت کا کیا حال ہے؟‘‘
بولیں، ’’مرد تومرد،وہاں کے لڑکے نہایت شریف، لڑکیوں سے بھی زیادہ شرمیلے، ذرا ذرا سی بات پر ہائے اللہ کہہ کر سرجھکا لینے والے۔ پھر پہناوا تو ان کا ایسا شریفانہ کہ بیان نہیں کرسکتی، کھلی مہری کی غرارہ کو مات کردینے والی پتلونیں، بندگلے اور پوری آستین کی جبہ نماقمیض، کہیں کہیں تو جھالردار قمیض، لیس ٹکے ہوئے سوئٹر اور جیکٹ کے نمونے بھی دکھائی دیئے، یہاں والوں کی طرح بالوں کی چوٹیاں نہیں گوندھتے اور نہ ربن ہی بالوں میں ڈالتے ہیں سیدھے سادے پٹّے ہوتے ہیں۔ ہاں ذرا لاکٹ وغیرہ پہنے کے شوقین ہیں۔ غرضیکہ شرم وحیا اور طورطریقوں میں انہوں نےلڑکیوں کوکوسوں پیچھے چھوڑدیا ہے۔‘‘
کہا، ’’خیر،یہ توہوئی وہاں کےلوگوں کی شرافت کی باتیں، کچھ شہرکا بھی حال بتاؤ۔‘‘
بولیں، ’’شہر!اب شہر کی نہ پوچھ۔ جنت ہے جنت، کم سےکم اپنے شہر کے مقابلے میں توجنت ہی ہے۔ یہاں کھانے پینے کی چیزیں بہت اچھی اور خالص ملتی ہیں، ملاوٹ تو بس پچاس فیصد ہوتی ہے۔ اس کےعلاوہ یہاں اصلی گھی، دودھ، مکھن وغیرہ پچھتر فیصد ملاوٹ کے ساتھ مل جاتا ہے۔ بناسپتی، تیل وغیرہ کبھی گوداموں میں پورے کے پورے بند نہیں ہوتے، کچھ نہ کچھ مارکیٹ میں ضرور رہتے ہیں۔۔۔ ہر چیز آسانی سے مل جاتی ہے۔۔۔ ہرآدمی کھاتا پیتا خوش حال ہے۔‘‘
کہا، ’’بھئی آخروہاں کچھ غریب لوگ بھی تو ہوں گے۔‘‘
جواب دیا، ’’ہیں کیوں نہیں، لیکن جب وہ کچھ کرنا ہی نہیں چاہتے تو غریب تو رہیں گے ہی، وہاں ایک طبقہ ایسا ہے، جو بس ہر وقت ایمان، مذہب، اخلاق وغیرہ کے گیت گاتا رہتا ہے، اب تم ہی بتاؤ، ان سے کہیں پیٹ بھرتا ہے۔ آج کے زمانے میں ایسی’آؤٹ آف ڈیٹ‘ باتیں۔‘‘
پوچھا، ’’شہر کی آب و ہوا کیسی ہے؟‘‘
بولیں، ’’ارے، اس کی نہ پوچھو۔ ایک دم فسٹ کلاس۔ وہاں کے مکان تو یہ بڑے بڑے اور کھلے۔ تمہیں یہ سن کر تعجب ہوگا، کہ وہاں مکانوں میں لیٹِرن کے علاوہ غسل خانہ اور باورچی خانہ ہوتا ہے، اور وہ بھی الگ الگ۔۔۔ اکثر گھروں میں میں نے برآمدے بھی دیکھے ہیں۔ کمرہ تو وہاں بھی ایک ہوتا ہے، لیکن برآمدہ، اور کسی کسی گھر میں آنگن جیسی عنقا چیز بھی نظر آگئی۔ بعض گھروں میں کھڑکیاں اور روشندان تک نظر آئے، انہیں دن میں لائٹ بھی جلانا نہیں پڑتی۔
آب تو یہیں والا ہے، یعنی پائپ کا، جس میں کبھی نیلا، کبھی ہرا، کبھی پیلا پانی آتا ہے، بالکل یہیں جیسا، لیکن ہوا بہت اچھی ہوتی ہے گیس، گردوغبار اور دھوئیں کی پرسنٹیج بہت کم۔
اب تم سے کیا بتاؤں کیسا شہر ہے۔ اگراپنےشہر کےبلوے، فتنےفساد، اسٹرائکیں جلسے جلوس اور ہنگامے یاد نہ آتے، تو پھرکس کم بخت کا دل یہاں آنے کو چاہتا۔ ہائے رے اپنے وطن کی محبت، ہائے ری مجبوری۔‘‘
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.