موسموں کا شہر
انگریزوں کے متعلق یہ مشہور ہے کہ وہ طبعاً کم گو واقع ہوئے ہیں۔ میرا خیال ہے کہ وہ فقط کھانے اور دانت اکھڑوانے کے لیے منھ کھولتے ہیں۔ بلکہ یہ کہنا غلط نہ ہوگا کہ اگر انگلستان کا موسم اتنا واہیات نہ ہوتا تو انگریز بولنا بھی نہ سیکھتے اور انگریزی زبان میں کوئی گالی نہ ہوتی۔ کم و بیش یہی حال ہم اہالیانِ کراچی کا ہے۔ میں اپنے شہر کی برائی کرنے میں کوئی بڑائی محسوس نہیں کرتا۔ لیکن میرا خیال ہے جو شخص کبھی اپنے شہر کی برائی نہیں کرتا وہ یا تو غیر ملکی جاسوس ہے یا میونسپلٹی کا بڑا افسر! یوں بھی موسم، معشوق اور حکومت کا گلہ ہمیشہ سے ہمارا قومی تفریحی مشغلہ (INDOOR PASTIME) رہا ہے۔ ہر آن بدلتے ہوئے موسم سے جس درجہ شغف ہمیں ہے اس کا اندازہ یوں لگائیے کہ یہاں بہت سےنجومی ہاتھ دیکھ کر آئندہ چوبیس گھنٹوں کے موسم کی پیشین گوئی کرتے ہیں اور الغاروں کماتے ہیں۔
اب سے چند مہینے پہلے تک بعض گرم و سرد چشیدہ سیاست دان خرابئی موسم کو آئے دن وزارتی رد و بدل کا ذمہ دار ٹھیراتے تھے۔ ان کا خیال تھا کہ کراچی کا موسم بھی انگریز ہی کی ایک چال ہے۔ لیکن موسم گزیدہ عوام کو یقین ہو چلا تھا کہ در حقیقت وزارتی رد و بدل کے سبب یہاں کا موسم خراب ہو گیا ہے۔ نظرِ انصاف سے دیکھا جائے تو موسم کی برائی تہذیب اخلاق کا ایک مؤثر ذریعہ ہے۔ اس لیے کہ اگر موسم کو برا بھلا کہہ کر دل کا غبار نکالنا شہری آداب میں داخل نہ ہوتا تو لوگ مجبوراً ایک دوسرے کو گالیاں دینے لگتے۔
اس میں شک نہیں کہ ریڈیو کی گڑگڑاہٹ ہو یا دمہ، گنج ہو یا پاؤں کی موچ، ناف ٹلے یا نکسیر پھوٹے، ہمیں یہاں ہر چیز میں موسم کی کارفرمائی نظر آتی ہے۔ بلغمی مزاج والا سیٹھ ہو یا سودائی فن کار، ہر شخص اسی بت ہزار شیوہ کا قتیل ہے۔ کوئی خرابی ایسی نہیں جس کا ذمہ دار آب و ہوا کو نہ ٹھیرایا جاتا ہو (حالانکہ اکثریت ایسے لوگوں کی ہے جن کو خرابیٔ صحت کی وجہ سے موسم خراب لگتا ہے۔) ایک صاحب کو جانتا ہوں جنہیں عرصہ سے بنولے کے سٹہ کا ہوکا ہے۔ وہ بھی کراچی کی مرطوب آب وہوا ہی کو اپنے تین دوالوں کاذمہ دارقرار دیتے ہیں۔ ایک اور بزرگ کا دعویٰ ہے کہ میں اپنی بتیسی اسی نامعقول آب و ہوا کی نذر کر چکا ہوں۔ دیکھنےمیں یہ بات عجیب ضرور لگتی ہے مگر اپنے مشاہدے کی بناپر کہتا ہوں کہ اس قسم کی آب و ہوا میں چائے اور سٹہ کے بغیر تندرستی قائم نہیں رہ سکتی۔
اور تو اور چالان ہونے کے بعد اکثر پنساری اپنی بے ایمانی کو ایمائے قدرت پر محمول کرتے ہوئے اپنی صفائی میں کہتے ہیں کہ ’’حضور! ہم موسم کی خرابی کی وجہ سے کم تولتے ہیں۔۔۔ سیلن سے جنس اور دالوں کا وزن دگنا ہو جاتا ہے اور زنگ کھا کھا کر باٹ آدھے رہ جاتے ہیں۔ نتیجہ میں گاہک کو ۱/۴سودا ملتا ہے! ہم بالکل بے قصور ہیں۔‘‘
ایک اور ایک کفایت شعار خاتون (جنھوں نے پچھلے ہفتہ اپنی ۳۲ویں سالگرہ پر ۲۳موم بتیاں روشن کی تھیں) اکثر کہتی ہیں کہ دس سال پہلے میں گھنٹوں آئینے کے سامنے کھڑی رہتی تھی۔ لیکن یہاں کی آب و ہوا اتنی واہیات ہے کہ اب بے خبری میں آئینے پر نظر پڑ جاتی ہے تو اس کی ’’کوالٹی‘‘ پر شبہ ہونے لگتا ہے۔
لیکن غصہ ان حضرات پر آتا ہے جو بے سوچے سمجھے یہاں کے موسم پر نکتہ چینی کرتے ہیں اور اس کی وضاحت نہیں فرماتے کہ انہیں کون سا موسم ناپسند ہے۔ یہ تو آپ جانتے ہیں کہ کراچی میں موسم ہر لحظہ روئی کے بھاؤ کی طرح بدلتا رہتا ہے۔ ہم نے تو یہاں تک دیکھا ہے کہ ایک ہی عمارت کے کرایہ دار ایک منزل سے دوسری منزل پر تبدیل آب و ہوا کی غرض سے جاتے ہیں۔ یہاں آپ دسمبرمیں ململ کا کرتہ یا جون میں گرم پتلون پہن کر نکل جائیں تو کسی کو ترس نہیں آئے گا۔ اہل کراچی اس واللہ اعلم بالصواب قسم کے موسم کے اس قدر عادی ہوگئے ہیں کہ اگر یہ دو تین گھنٹے تبدیل نہ ہو تو وحشت ہونے لگتی ہے اور بڑی بوڑھیاں اس کو قربِ قیامت کی نشانی سمجھتی ہیں۔
ہوتا یہ ہے کہ اچھے خاصے لحاف اوڑھ کر سوئے اور صبح پنکھا جھلتے ہوئے اٹھے۔ یا محکمہ موسمیات کی پیش گوئی کو ملحوظ رکھتے ہوئے صبح برساتی لے کر گھر سے نکلے اور دوپہر تک لو لگنے کے سبب بالا ہی بالا اسپتال میں داخل کرا دیے گئے۔ کہاں تو رات کو ایسی شفاف چاندنی چھٹکی ہوئی تھی کہ چارپائی کی چولوں کے کھٹمل گن لیجیے۔ اور کہاں صبح دس بجے کہرے کا یہ عالم کہ ہر بس ہیڈ لائٹ جلائے اور اوس سے بھیگی سڑک پر خربوزے کی پھانک کی طرح پھسل رہی ہے۔ بعض اوقات تو یہ کہرا اتنا گہرا ہوتا ہے کہ نوواردوں کو کراچی کا اصل موسم نظر نہیں آتا۔ موسم کے تلون کی یہ کیفیت ہے کہ دن بھر کے تھکے ہارے پھیری والے شام کو گھر لوٹتے ہیں تو بغیر استخارہ کیے یہ فیصلہ نہیں کرسکتے کہ صبح اٹھ کر بھول بل کی بھنی گرما گرم مونگ پھلی بیچیں یا آئس کریم!
کراچی کے باشندوں کو غیرملکی سیر و سیاحت پر اکسانے میں آب و ہوا کو بڑا دخل ہے۔ یہ ایک تاریخی حقیقیت ہے کہ انگلستان کا موسم اگر اتنا ظالم نہ ہوتا تو انگریز دوسرے ملکوں کو فتح کرنے ہرگز نہ نکلتے۔ میں یہ نہیں کہتا کہ آپ محض میری صحت دیکھ کر یہاں کی آب و ہوا سے بدظن ہو جائیں۔ لیکن اطلاعاً اتنا ضرور عرض کروں گا کہ مقامی چڑیا گھر میں جو بھی نیا جانور آتا ہے، کچھ دن یہاں کی بہارِ جانفزا دیکھ کر میونسپل کارپوریشن کو پیارا ہوجاتا ہے اور جو جانور بچ جاتے ہیں، ان کا تعلق اس مخلوق سے ہے جس کو طبعی موت مرتے کم از کم میں نے کبھی نہیں دیکھا۔ مثلاً مگرمچھ، ہاتھی، میونسپلٹی کا عملہ!
ہم نے کراچی کے ایک قدیم باشندے سے پوچھا کہ یہاں مانسون کا موسم کب آتا ہے؟ اس بزرگ باراں دیدہ نے نیلے آسمان کو تکتے ہوئے جواب دیا کہ چار سال پہلے تو بدھ کو آیا تھا۔ یہ کہنا تو غلط ہوگا کہ کراچی میں بارش نہیں ہوتی۔ البتہ اس کا کوئی وقت اور پیمانہ معین نہیں ہے لیکن جب ہوتی ہے تو اس انداز سے گویا کسی مست ہاتھی کو زکام ہو گیا ہے۔ سال کے بیشتر حصہ میں بادلوں سے ریت برستی رہتی ہے۔ لیکن جب چھٹے چھماہے دوچار چھینٹے پڑ جاتے ہیں تو چٹیل میدانوں میں بیر بہوٹیاں اور بہو بیٹیاں ایک دوسرے کو دیکھنے کے لیے نکل پڑتی ہیں۔ اس قسم کا موسم بے تحاشا ’’رش‘‘ لیتا ہے۔
مغربی پاکستان میں برکھا رت اور کراچی میں جولائی کا مہینہ تھا۔ سمت کیماڑی سے مکھیوں کے دل بادل امنڈ امنڈ کر آ رہے تھے۔ چنانچہ میں مچھردانی میں بیٹھا آم چوس رہا تھا کہ مرزا عبد الودود بیگ آنکلے۔ چھوٹتے ہی کہنے لگے کہ لا حول و لا قوۃ! یہ بھی کوئی موسم ہے۔۔۔ جیسے کسی اقبالی مجرم کو ٹھنڈے پسینے چھوٹ رہے ہوں۔ ادھر کمبخت مکھیاں اس قدر لدھڑ ہوگئی ہیں کہ اڑنے کا نام نہیں لیتیں۔ آپ مانیں یا نہ مانیں مگر یہ واقعہ ہے کہ صبح قصائی نے میرے سامنے آدھ سیر ران کا گوشت تول کر قیمہ کوٹا۔ میں برابر پنکھا جھلتا رہا۔ لیکن گھر پر بیگم نے تولا تو پورا تین پاؤ نکلا۔
وہ انگریزی فلمیں جن میں بارش کے مناظر ہوتے ہیں، کراچی میں خوب کامیاب ہوتی ہیں۔ جغرافیہ پڑھنے والے بچے انہیں خود دیکھتے ہیں اور اپنے والدین کو دکھاتے ہیں۔ صاحب استطاعت والدین اپنے بچوں کو بارش کا مطلب سمجھانے کے لیے راولپنڈی لے جاتے ہیں اور انہیں وہ ہرے بھرے لان بھی دکھاتے ہیں جن پر پانی روپیہ کی طرح بہایا جاتا ہے۔ جو صاحب اولاد اس لائق نہیں ہوتے وہ اپنے بچوں کی انگلی پکڑ کر کلفٹن کے ساحل پر لے جاتے ہیں اور اپنی عینک رومال سے صاف کرتے ہوئے انہیں سمجھاتے ہیں کہ دیکھو! سامنے جو گاڑھا گاڑھا دھواں اٹھ رہا ہے اور ہماری عینک کو دھندلا رہا ہے، یہ درحقیقت پانی ہے جو بھاپ بن کر اڑ رہا ہے۔ دیکھتے ہی دیکھتے یہ اودے اودے بادلوں سے جا ملے گا۔ یہ بادل سمندر سے پانی بھر کر ہر سال شمال کو لے جاتے ہیں،
جو ابر یہاں سے اٹھے گا وہ سارے جہاں پر برسے گا
یہ شہر ہمیشہ ترسا ہے یہ شہر ہمیشہ ترسے گا
ساحلی ابخرات کا ذکر آتے ہی ان دو دیہاتی مولویوں کا قصہ یاد آ گیا جو پہلی دفعہ ہاکس بے کا جیتا جاگتا ساحل دیکھنے گئے تھے۔ وہاں انہوں نے دیکھا کہ ایک خاتون سیاہ برقعہ اوڑھے نہا رہی ہیں۔ ان سے ذرا فاصلے پر کچھ نسائی پیکر جھاگ اور دھند میں اِدھر ڈوبتے ہیں، اُدھر نکلتے ہیں۔ سامنے ایک سفید فام لڑکی دھوپ میں نہائی ہوئی ریت پر بیٹھی اپنا بدن سنو لا رہی تھی۔ معلوم ہوتا تھا کہ اس کی بے بند کی آبی محرم فقط قوتِ ارادی سے ٹکی ہوئی ہے۔ دونوں بزرگ دیر تک خدا کی قدرت کا تماشا دیکھتے رہے۔ ایکا ایکی پہلے مولوی صاحب جو عمر میں بڑے تھے اور عینک لگائے تھے، گھبرا کر چیخے، ’’حاجی امام بخش! خدا کے لیے نظریں نیچی کرلو! میں تو اندھا ہوگیا ہوں!‘‘
یہاں آب و ہوا میں آب، اور آب میں نمک کی زیادتی کے باعث موسم ہر وقت سلونا رہتا ہے۔ ظاہر ہے ایسی آب و ہوا میں تاجر اور مہاجر کے سوا اور کوئی زندہ نہیں رہ سکتا۔ سبزہ اور پھل پھلواری کی نایابی کا اس سے اندازہ کرلیجیے کہ یہاں سبزہ سے سو روپے کا نوٹ مراد ہوتا ہے اور تربوز اور گنے کا شمار پھلوں میں ہوتا ہے۔ اکثر بھلے گھروں میں ریفریجریٹر کو محض صراحی کے طور پر استعمال کیا جاتا ہے۔ میں نے بچشم خود ایک ریفریجریٹر میں مٹی کے پھل رکھے دیکھے ہیں۔ یوں کہنے کو یہاں چار پانچ دریا ضرور ہیں جو کراچی کے نقشے پر سال بھر بہتے رہتے ہیں۔ یہ کراچی کے لیے بڑی نعمت ہیں۔ اس لیے کہ ان کے پٹے سے پی-ڈبلیو-ڈی کے ٹھیکیدار سال بھر بجری نکالتے رہتے ہیں۔
عروس البلاد کے فن تعمیر میں ہوا کا بڑا حصہ ہے۔ یہاں ہر مکان قبلہ رو ہوتا ہے۔ وجہ اس کی یہ ہے کہ مغرب سے تیز ہوائیں چلتی ہیں جو ٹھنڈی ٹھنڈی ریت برساتی رہتی ہیں۔ منہ پر ذرا ہاتھ پھیریے تو محسوس ہوتا ہے کہ گویا ابھی ابھی تیمم کیا ہے۔ معتبر ذرائع سے معلوم ہوا ہے کہ بجری کے ٹھیکیدار رات کو اپنے خالی ٹرک ’’دریائے ملیر‘‘ میں ہوا کے رخ پر کھڑے کر دیتے ہیں۔ صبح تک وہ خودبخود بجری سے بھر جاتے ہیں، خالی کرنےکا طریقہ بھی یہی ہے۔ (مصر اگر تحفہ نیل ہے تو کراچی تحفہ ملیر۔) بعض اوقات جب موسم سہانا ہوتا ہے تو یہ پچھوا سارا مزہ کر کرا کردیتی ہے۔ اکثر یہ ہوتا ہے کہ اچھے خاصے صحن میں بیٹھے تاش کھیل رہے ہیں کہ یکایک،
چلی سمت ’غرب‘ سے اک ہوا کہ چمن سرور کا جل گیا۔
غالباً یہ ساحلی آب و ہوا کا اثر ہے کہ بدلتے ہوئے موسموں کے اس گنجان کاروباری شہر میں مچھلی اور مہمان پہلے ہی دن بدبو دینے لگتے ہیں۔ کبھی کبھی جب امس بڑھ جاتی ہے تو ایسا محسوس ہوتا ہے جیسے یہ بندرگاہ ایک وسیع و عریض تر کی حمام ہے جس میں سب کپڑے پہن کر ابخراتی غسل کر رہے ہیں۔ کپڑے ہیں کہ سوکھنے کا نام نہیں لیتے۔ (شاید اسی لیے دھوبی دو دو ہفتے شکل نہیں دکھاتے۔) پسینہ ہے کہ کسی طرح خشک نہیں ہوتا۔ جی چاہتا ہے کہ بلاٹنگ پپپر کا لباس بنوالیں۔ سچ تو یہ ہے کہ ایسی ستر کشا آب و ہوا میں کپڑے موسم سے بچاؤ کے لیے نہیں، بلکہ صرف قانون سے بچنے کے لیے پہنے جاتے ہیں۔ عام طور سے فیشن موسم کی رعایت سے بدلتے رہتے ہیں۔ چنانچہ آپ نے ملاحظہ فرمایا ہوگا کہ دوسرے شہروں میں اونچے گھرانوں کی فیشن پرست خواتین اہم تقریبوں میں خاص طور سے کپڑے پہن کر جاتی ہیں۔ یہاں اتار کر جاتی ہیں۔ لہٰذا رقص کے لباس کی تراش خراش میں قابل درزی اس بات کی کوشش کرتے ہیں کہ زیادہ سے زیادہ کپڑا کم سے کم رقبۂ بدن ڈھانک سکے۔
شام کو عموماً اتنی اوس پڑتی ہے کہ آپ اوک سے پی سکتے ہیں۔ نائیلون بھیگ کر پیاز کی جھلی بن جاتا ہے اور رخساروں پر پنسل سے بنی بھوؤں کے ریلے بہنے لگتے ہیں۔ گزشتہ سنیچر ہی کی بات ہے کہ میں ٹہلتا ہوا کلفٹن جا نکلا۔ دیکھا کہ سمندر کے کنارے ایک میز پر مرزا عبد الودود بیگ بیٹھے چائے پی رہے ہیں۔ چائے تو خیر واجبی سی تھی لیکن پڈنگ بے حد مزے دار نکلی۔ میں نے بیرے سے ہونٹ چاٹتے ہوئے فرمائش کی کہ ایک ’’سنگل‘‘ پلیٹ پڈنگ اور لاؤ تو اس نے نہایت رکھائی سے جواب دیا کہ اس ریستوران میں پڈنگ نہیں بنتی۔ لیکن جب میں نے اس کو اپنی پلیٹ پر پڈنگ کے آثار دکھائے تو فوراً لاجواب ہوگیا۔ دوڑا دوڑا گیا اور پلیٹ میں چار بسکٹ اور ایک چمچہ لے آیا۔
اسی بھیگی بھیگی شام کا ذکر ہے کہ ایک سجیلا جوان جو کراچی میں نووارد معلوم ہوتا تھا سینہ تانے سامنے سے گزارا۔ اس کی مونچھیں، بقول شخصے، دو بجنے میں دس منٹ بجا رہی تھیں۔ دیر تک میری نگاہیں اس کی سنہری کلاہ کے کلف دار طرے پر جمی رہیں، جو مور کی مغرور دم کی مانند پھیلا ہوا اور نئے کرنسی نوٹ کی طرح کرارا تھا۔ دس منٹ بعد وہ ساحل کا چکر لگا کر لوٹا تو کیا دیکھتا ہوں کہ وہ طرہ، جی ہاں وہی سرکش طرہ، اس کے منہ پر دوہا جو کے سہرے کی طرح لٹک رہا ہے اور اس کے نیچے مونچھیں چار بجنےمیں بیس منٹ بجا رہی ہیں۔
برسات کی بہاریں تو آپ دیکھ چکے ہیں اب ذرا سردی کا حال سنیے۔ یہاں کی سلیقہ شعار خواتین کو اپنے گرم کپڑے استعمال کرنے کی خاطر لاہور جانا پڑتا ہے۔ دسمبر میں یہاں ایک چادر کی سردی پڑتی ہے۔۔۔ یہ چادر مچھروں سے بچنے کے لیے اوڑھی جاتی ہے۔ البتہ جب اخباروں میں متواتر خبریں آتی ہیں کہ لاہور میں غضب کی سردی پڑ رہی ہے تو باشندگانِ کراچی اخلاقاً اپنے گرم کپڑے نکالتے ہیں، چلغوزے کٹکتے پھرتے ہیں اور انہیں اخباروں سے پنکھا جھلتے ہیں اور چھینک آتے ہی کمبل اوڑھ لیتے ہیں۔ عالم یہ ہوتا ہے کہ اگر کوئی جھوٹوں بھی اڑادے کہ لاہور میں اولے پڑے ہیں تو زندہ دلانِ کراچی فوراً سرمنڈا لیتے ہیں۔
مرزا غالب کے قویٰ مضمحل ہوئے تو وہ اس نتیجے پر پہنچے تھے کہ تندرستی نام ہے عناصر میں اعتدال کا۔ مجھے غالب اور تندرستی دونوں بہت عزیز ہیں، لیکن میں سمجھتا ہوں کہ جہاں تک موسم کا تعلق ہے عناصر کی معتدل آمیزش جان لیوا ثابت ہوسکتی ہے۔ جیکب آباد کی گرمی، ملتان کی گرد، مری کی سردی اور گوادر کی سیلن کی آمیزش سے جو معتدل مرکب ظہور میں آئے گا وہ اس شہر نگاراں کا موسم ہوگا۔ جذبۂ حب الوطنی کی اس سے مہیب آزمائش اور کیا ہوگی کہ انسان اس موسم کو ہنستے کھیلتے انگیز کر لے اور اس کے دل میں کبھی یہ خواہش نہ ہو کہ بقیہ عمر طبیعی پہاڑوں میں ناکردہ گناہوں سے توبہ کرنے میں گزار دے۔
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.