مرزا جگنو
مرزا جگنوکی کمزوری شراب ہے نہ عورت بلکہ پان، آپ پان کچھ اس کثرت سے کھاتے ہیں جیسے جھوٹا آدمی قسمیں یا کام چور نوکر گالیاں۔ خیر اگر پان کھا کر خاموش رہیں تو کوئی مضائقہ نہیں اپنا اپنا شوق ہے، کسی کو غم کھانے میں لطف آتا ہے۔ کسی کو مار کھانے میں اور کسی کو پان کھانے میں۔ لیکن مصیبت یہ ہے کہ مرزا پان کھاتے ہی نہیں۔ دن رات اس کے گن بھی گاتے ہیں۔ انہوں نے مشہور ضرب المثل ’’جس کا کھائے اسی کا گائے ‘‘ میں یہ ترمیم کی ہے ’’جسے کھا ئےاسی کا گائے‘‘ جو شخص پان نہیں کھاتا وہ ان کی نگاہ میں اول درجے کا کورذوق ہے۔ اکثر فرمایا کرتے ہیں، ’’پان کھائے بغیر تحریر و تقریر میں رنگینی پیدا کرنے کی کوشش گلال کے بغیر ہولی کھیلنے کے مترادف ہے۔‘‘
مرزا صاحب یو پی سے پنجاب میں آئے ہیں۔ اس لئے انہیں بنارسی اور لکھنوی پانوں کی یاد ہر وقت ستاتی رہتی ہے۔ لکھنؤ کے پستئی پانوں کا ذکر کرتے وقت اکثر ان کی آنکھوں میں آنسو تیرنے لگتے ہیں۔ ’’اجی صاحب! کیا بات تھی پستئی پانوں کی۔ واللہ! تلے اوپر چار گلوریاں کھائیے چودہ طبق روشن ہو جائیں اور اب یہاں وہ پان زہر مار کر نا پڑ رہاہے جسے پان کے بجائے ڈھاک کا پتہ کہنا زیادہ موزوں ہوگا۔ اس پر ستم یہ کہ یہاں قریب قریب ہر شخص تنبولی سے خرید کر کھاتا ہے۔ غضب خدا کا! بڑے بڑے رئیس کے ہاں چلے جائیے میز پر مٹھائیوں اور لسی کے بڑے بڑے گلاسوں کا انبار لگا دے گا لیکن پان کی فرمائش کیجئے تو بغلیں جھانکنے لگے گا۔ یا خفت مٹانے کے لئے نوکر سے کہے گا ’’اوے بھٹی چوکے لال! مرزا صاحب کے لئے پان خریدنا تو یاد ہی نہیں رہا۔ ذرا لپک کر ماتا دین پنواڑی سے ایک پان تو لے آؤ۔‘‘ اور پھر یک لخت معصوم سا بن کر آپ سے ایک ایسا سوال کرے گا ،جسے سن کر آپ کا جی سر پیٹنے کو چاہے گا۔ ’’کیوں صاحب! میٹھا کھائیں گے یا الائچی سپاری والا؟‘‘ لاحول ولاقوۃ! پانوں کی بڑی بڑی قسمیں سننے میں آئیں لیکن یہ بات آج تک سمجھ میں نہیں آئی کہ یہ میٹھا پان کیا بلا ہوتی ہے۔ بارہ مسالے کو ایک فضول سے سبز پتے میں کچھ اس طرح لپیٹ دیتے ہیں کہ اس پر جوشاندے کی پڑیا کا گمان ہوتا ہے۔ اسے یہ حضرات میٹھا پان کہتے ہیں۔ صاحب حد ہو گئی ستم ظریفی کی، اس سے تو بہتر ہوگا کہ پان کی بجائے آدمی دو تولے گڑیا شکر پھانک لیا کرے۔‘‘
مرزا جگنو پان کے اس قدر عاشق ہیں جس وقت دیکھو یا پان کھا رہے ہوں گے یا پان کی شان میں قصیدہ تصنیف کر رہے ہوں گے۔ ہمارا تو خیال ہے کہ زبان کے علاوہ جو چیز ہمیشہ ان کے بتیس دانتوں میں رہتی ہے وہ پان یا ذکر پان ہی ہے۔ یہ کھانے کے بغیر زندہ رہ سکتے ہیں، چائے نہ ملے تو کوئی بات نہیں لیکن پان کے بغیر ماہی بے آپ کی مانند تڑپنے لگتے ہیں۔ ایک بار ہم نے ڈرتے ڈرتے کہا، ’’مرزا صاحب پان کھا کھا کرآپ نے دانتوں کا ستیا ناس کر لیا ہے۔ آپ کے منہ میں اب دانت نہیں گویا کسی گلے سڑے انا ر کے دانے ہیں۔ خدا کے لئے اب تو پان کھانا چھوڑ دیجئے۔‘‘ مرزا صاحب نے پیک کی پچکاری ہماری سفید پتلون پر چھوڑتے ہوئے جواب دیا، ’’کیا کہا، پان کھانا چھوڑ دوں؟ یہ کیوں نہیں کہتے خود کشی کر لوں۔ اجی حضرت، پان ہے تو جہان ہے پیارے۔ آپ کے سر عزیز کی قسم ہم تو جنت میں بھی قیام کرنے سے انکار کر دیں گے اگر وہاں پان سے محروم ہونا پڑا۔ آپ کومعلوم ہے کہ والد ماجد ہمیں ولایت بھیجنے پر مصر تھے۔ فرماتے تھے دو ایک سال آکسفورڈ گزار آؤ زندگی بن جائے گی لیکن ہم نے وہاں جانے سے صاف انکار کر دیا کیونکہ ہم جانتے تھے کہ انگلستان میں پان کہاں۔‘‘
’’وہ تو شاید آپ نے اچھا کیا جو ولایت نہیں گئے نہیں تو فرنگیوں کی پتلونوں کی خیرنہیں تھی۔‘‘ ہم نے مرزا کو بناتے ہوئے کہا، ’’لیکن یہ جو آپ نے ہماری مکھن زین کی قیمتی پتلون کو تباہ کر دیا یہ ہمیں کس گناہ کی سزا دی۔‘‘
مرزا صاحب نے اپنا پیک سے بھرا ہوا نہ اوپر اٹھا کر اور ضرورتاً دیوار پر پیک سے گلکاری کرتے ہوئے فرمایا، ’’اجی حضرت! یہ سب آپ کا قصور ہے۔ یہ دیوان خانے میں اگلدان نہ رکھنے کی سزا ہے جو آپ کو دی گئی ہے۔ بندۂ خدا! الم غلم سے سارا کمرہ بھر رکھا ہے لیکن اتنی توفیق نہیں ہوئی کہ ایک اگلدان ہی خرید لیں۔ اپنے لئے نہیں تو مہمانوں کے لئے۔ گلے میں جب ایک نہ دو اکٹھی چار گلوریاں ہوں اور مشکی دانے کا تمباکو ضرورت سے زیادہ تیز ہو اورسامنے اگلدان موجود نہ ہو تو خود ہی بتائیے بجلی کی طرح پیک آپ کی پتلون پر نہیں گرے گی تو کہاں گرے گی؟‘‘
ہمیں مرزا جگنو کے گھر جب کبھی جانے کا موقع ملا ہمیشہ انہیں اس قسم کے مشاغل میں مصروف پایا۔ کبھی چھالیا کتر رہے ہیں، کتھے کو کیوڑے کی خوشبو میں بسا رہے ہیں، چونا چکھ چکھ کر دیکھ رہے ہیں کہ مطلوبہ تندی کا ہوا ہے یا نہیں اور کبھی مرادآباد تمباکو کی بلائیں لے رہے ہیں۔ کئی بار ان سے عرض کیا آپ اتنے عالم و فاضل ہیں۔ غزل کہنے میں استاد تسلیم کئے جاتے ہیں۔ مشاعروں کو لوٹ لینا آپ کے بائیں ہاتھ کا کرتب ہے۔ زہد اور پارسائی کی محلے بھر میں دھوم ہے۔ پھر آپ پان کھانے کی عادت کیوں نہیں ترک کر سکتے جب کہ آپ جانتے ہیں کہ پان دانتوں و مسوڑھوں کا زیاں ہے؟‘‘
ہر بار مرزا بگڑ کر فرماتے ہیں، ’’حضرت! ہر بڑے شخص میں ایک آدھ کمزوری ہوتی ہے۔ یہ بات نہ ہوتو اس کا شمار فرشتوں میں ہونے لگے۔ غالب کو ہی لیجئے اتنے عظیم شاعر لیکن بادہ نوشی کی ایسی لت پڑی کہ ادھا رپینے میں بھی انہیں عار نہیں تھی۔ وہ تو دعا بھی اس لئے مانگتے تھے کہ انہیں شراب ملے۔ تم نے وہ لطیفہ سنا ہوگا۔ ایک دفعہ جب انہیں شراب دستیاب نہ ہوئی تو وضو کر کے نماز پڑھنے کی ٹھانی۔ ابھی وضو ہی کر پائے تھے کہ ان کا ایک شاگرد کہیں سے شراب کی بوتل لے آیا۔ فوراً نماز پڑھنے کا ارادہ ترک کر دیا اور شراب پینے لگے۔ شاگرد نے پوچھا، ’’نماز پڑھئے گا کیا؟‘‘ ہنس کر فرمایا، ’’جس چیز کے لئے دست بدعا ہونا تھا وہ مل گئی، اب نماز پڑھنے کا فائدہ ؟‘‘
’’لیکن مرزا صاحب! شراب کی بات اورہے کہ چھٹتی نہیں ہے منہ سے یہ کافر لگی ہوئی، لیکن پان میں تو ایسی کوئی بات نہیں۔‘‘ ہم نے بحث کو آگے بڑھاتے ہوئے مشورہ دیا۔
’’اجی حضرت!‘‘ مرزا صاحب نے فرمایا، ’’پان کھانے کا لطف پان خور ہی جانتا ہے۔ آپ پاکباز قسم کے لوگ کیا جانیں۔ اس کی فضیلت کا حال تو بیربل سے پوچھئے جس نے اکبر کے سوال کرنے پر کہ سب سے بڑا پتا کون سا ہے۔‘‘ عرض کیا تھا، ’’مہا بلی! پان کا پتا جسے اس وقت ظل الٰہی کھا رہے ہیں‘‘، لیجئے اب تو سند بھی مل گئی کہ پان وہ چیز ہے جسے خود مغل اعظم نے منہ لگایا۔ اب آئندہ ہمارے پان کھانے پر اعتراض نہ کیا کیجئے۔‘‘
’’مگر پھر بھی ہمارا خیال ہے اگر آپ پان خور نہ ہوتے تو ولی ہوتے۔‘‘
سبحان اللہ! کیا پتے کی بات کہی ہے آپ نے یعنی صرف اتنی سی بات کے لئے ہم ولی کہلوائیں۔ پان خوری چھوڑ دیں نا صاحب! ہمیں یہ خسارے کا سودا بالکل پسند نہیں۔ ہمارا تو عقیدہ ہے؛
تم مرا دل مانگ لو دل کی تمنا مانگ لو
پان دے کر مجھ سے تم چاہو تو دنیا مانگ لو
اور ہاں دیکھئے صاحب! اب بحث بند کیجئے۔ ایک گلوری اپنے اور ایک ہمارے منہ میں ڈالئے اور کسی لکھنوی شاعر کا ایک بے نظیر شعر سنئے او ر سر دھنئے کہ پان کے ذکر نے شعر کو کتنا رنگین بنا دیا ہے۔ ہاں تووہ شعر ہے؛
پان لگ لگ کے مری جان کدھر جاتے ہیں
یہ مرے قتل کے سامان کدھر جاتے ہیں
ہم نے مرزا صاحب کے اصرار پر گلوری منہ میں ڈالی، شعر بھی سنا اور سننے کے بعد زیر لب گنگنانے لگے؛
تجھے ہم ولی سمجھتے جو نہ پان خور ہوتا
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.