معلماؤں کے نام ایک انقلابی پیغام: سویٹر بنو!
پچھلی پیڑھی کی بہت سی روایات کے تحفظ اور انکی بقا کی ذمہ داری ہمیشہ ہی آئندہ نسلوں پر ہوتی ہے۔ ہم نوجوان اس معاشرے کی ایک نسل کو دھیرے دھیرے ختم ہوتے ہوئے دیکھ رہیں۔ اور ایک یہ نئی نسل ہے کہ جو بزرگوں کی روایات کا پھندا اپنے گلے میں نہیں ڈالنا چاہتی۔ حالانکہ شکایت تو پوری ہی نوجوان نسل سے کی جا سکتی ہے لیکن اس وقت میری مخاطب وہ قوم نوجوانان وک ہیں جو آج وطن عزیز ہندوستان کے دور دیہات کے لہلہاتے کھیتوں کے بیچ اسکولوں میں کتنے ہی بچوں کی کٹائی اور چھٹائی میں مصروف ہیں۔ جی۔۔ آپ کا اندازہ صحیح ہے! میں اسی نسل ناتواں کا ذکر بخیر کر رہا ہوں، کہ جسکو یہ معاشرہ لفظ ’’ٹیچر‘‘ سے خطاب کرتا ہے۔ لیکن میری مراد اس وقت کیول ’’معلمات‘‘ ہی سے ہے۔ ہم نے تو اپنے دورۂ تپھلی میں یہی پایا کہ ہماری استانی پوری یکسوئی اور توانائی سے بچوں کی کٹائی کرتیں اور اس کار خیر سے ذرا فراغت نصیب ہوتی تو سوئیٹر بنتیں۔ وہ پابندی وقت کے ساتھ پیریڈ بدلتے ہی کلاس میں پہنچ جاتیں۔ بیگ کو کرسی کے کنارے ٹانگتیں، اور سوئیٹر بنتیں۔ کڑاکے کی سرد ہواؤں کے باوجود وہ اسکول آتیں، اور پوری ذمہ داری سے سوئیٹر بنتیں۔ وہ لو اور بارش کی مشکلات کا سامنا کرتے ہوئے درس گاہ آتیں، اور اس فرض منصبی سے ذرا لاپرواہی نہ برتتیں، اور سوئیٹر بنتیں۔ حالانکہ مجھے ہمیشہ ہی یہ بات پریشان کئے دیتی تھی کہ وہ اون کا غلہ کبھی ختم کیوں نہیں ہوتا تھا؟ اور مانندرداء دروپدی طویل سے طویل تر ہوتا جاتا تھا۔ سوئیٹر بننے کا بھی ایک مخصوص دلفریب انداز! جسمیں دل کے ساتھ ساتھ نگاہوں کو فریب دینے کے عناصر بھی شامل تھے۔ افسوس۔۔۔! کہ نوجوانوں کے اس ہراول دستے نے اس کاروبار دل فریباں کی ذرا قدر نہ جانی۔ اور دیگر روایات اجداد ہی کی مانند اس روایت عظیم سے بھی ناآشنا ہو گئے۔
میں آج یاد کرتا ہوں، اس عظیم انقلابی شخصیت کو۔ جسکے چرخے نے ہندوستان کو ایک نئی سمت دی۔ جنگ آزادی کے اس پرآشب دور میں گاندھی جی سے کچھ لوگ اعتراض کرتے تھے کہ بھلا یہ کیا وقت ہے چرخہ چلانے کا؟ پورا ملک ایک بحران میں مبتلا تھا، مگر گاندھیؔ جی کپڑا بن رہے تھے۔ اپنے لیے نہیں۔ آنے والی نسلوں کے لیے۔ کیونکہ وہ چرخہ محض چرخہ نہیں تھا۔ بلکہ ایک مکمل نظریاتی تحریک تھی۔ معلمات دیرینہ کے اون کے غلوں میں میں ویسی ہی نظریاتی وسعت اور انقلابی تحریک دیکھ رہا ہوں۔
اے معلماؤں وقت، کچھ تو اپنے فرائض کا پاس رکھ۔ مستقبل کا مورخ دور حاضر کو تاریخ میں تبدیل ہوتے دیکھ رہا ہے۔ یہ وقت اسکو ایک مثال پیش کرنے کا ہے۔ با لخصوص آج کا یہ یوم الاساتذہ (Teachers Day) تم سے عہد وپیمان چاہتا ہے۔ اگر آج تم نے اون کے گلے سے اپنا تعلق توڑ دیا تو کیا جواب دو گی آنے والی نسلوں کو؟ کیا بزرگوں کی اس روایت کو ایسے ہی ختم ہو جانے دو گی؟ تم نے جب غیبت کرنا نہیں چھوڑا، تو سوئیٹر بننا کیسے چھوڑ سکتی ہو؟ آج اس عظیم انقلابی روایت کی بازیافت کا ذمہ تمہارے مضبوط کاندھوں پر ہے۔ (اچھا ٹھیک ہیں۔۔۔ ٹھیک ہے، کاندھے پر تو بڑا سا بیگ ہے، جسمیں آدھا بیوٹی پارلر جمع ہے۔) تو یوں کہتا ہوں کہ’’یہ ذمہ تم پر ہے۔‘‘ یاد رکھو، اون کے ان غلوں میں تاریخ کے وہ راز پوشیدہ ہیں کہ جن کے انکشاف سے دنیا کی تشکیل نوع کا سراغ ملتا ہے۔
تو وقت کے بگل کی آواز سنو۔ اور سوئیٹر بنو۔ کلاس در کلاس سوئیٹر بنو۔ کبھی برسر راہ سوئیٹر بنو۔ اسکولوں، کالجوں اور دیگر علمی درسگاہوں میں سوئیٹر کی بنائی کی ایسی فضا بنا دو کہ یہ روایت تاریخ کے ماتھے رقم ہو جائے۔ گھبراؤ نہیں۔ اگر سر دار بھی سوئیٹر بننا پڑے، تو سوئیٹر بنو۔ یہ مت سوچو کہ کون پہنے گا (حالانکہ پہننے والے بہت ہیں) بس سوئیٹر بنو۔ یاد رکھو، جب تمہاری سلائیاں اون کو ایک دور میں پرو رہی ہونگی، اس وقت تم ایک نئے سماج کا طعنہ بانا بنوگی جو آنے والی نسلوں کے لیے زر حیات ثابت ہوگا۔
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.