مشاعر
شاعر سنا تھا۔
متشاعر بھی سنا تھا۔
ایک سرکار ی قسم کے مشاعرے میں، ’’مشاعر‘‘ بھی سن لیا۔
بانیٔ مشاعرہ شعرائے کرام کا شکر یہ ادا فرما رہے تھے۔ میں مشاعر صاحبان کا بے حد شکر گزار ہوں۔ مشاعر حضرات نے بڑی تکلیف فرمائی ہے، اس مشاعرے میں چوٹی کے مشاعر جمع ہیں، وغیرہ وغیرہ۔
پہلے تو کان کھڑے ہوئے کہ اور تو اور یہ مشاعر کیا بلا ہے مگر پھر فوراً سمجھ میں آگیا کہ مشاعر دراصل اس شاعر کو کہتے ہیں جس کا شاعر ہونا بھی مشکوک ہوسکتا ہے اور متشاعر ہونا بھی یقینی نہیں ہوتا، مگر چونکہ وہ مشاعروں میں شرکت کرتا ہے لہٰذا شاعر یا متشاعر ہو یا نہ ہو مگر’’مشاعر‘‘ ضرور ہوتا ہے۔
گویا یہ شاعروں کی وہ قسم ہے جو صرف مشاعروں میں پڑھنے کے لیے شعر کہتے ہیں جن کا میدان عمل اور میدانِ بے عملی جو کچھ بھی ہے مشاعرہ ہے اور جن کا مقصدِ زندگی سوائے اس کے اور کچھ نہیں کہ مشاعر خواہ وہ کسی قسم کا ہو، کہیں بھی ہو، کسی نے بھی کیا ہو، اس میں شرکت کرنا ضروری ہے۔
شاعروں کی یہ قسم مشاعروں کے لئے پیدل قافلوں میں، بیل گاڑیوں اورتانگوں میں، لاریوں اور موٹروں میں، ریل اور ہوائی جہاز تک میں مشاعروں کی شرکت کے لیے رواں دواں نظر آتی ہے۔ موسم کی کوئی قید نہیں، گرمی ہوتو کرتے اور انگرکھے میں جائیں گے۔ جاڑا ہوتو چسٹر اور کمبل میں جائیں گے۔ برسات ہوتو چھتری اور برساتی میں جائیں گے مگر جائیں گے اور ضرور جائیں گے، سوکام چھوڑ کر جائیں گے۔ دفتروں سے رخصت علالت لے کر جائیں گے۔ شادیوں کی تاریخیں بڑھوا کر جائیں گے، کوئی مرجائے تو قبرستان پر مشاعرے کو ترجیح دیں گے اورجائیں گے۔ بیمار ہیں تو دوا کی شیشیاں لے کر جائیں گے۔ مختصر یہ کہ مشاعرہ ان سے نہیں چھوٹ سکتا یوں چاہے زمانہ کا زمانہ ان کو چھوڑ دے۔ یقین نہ آتا ہوتو مئی اور جون کی گرمی میں ملتان میں مشاعرہ کرکے دیکھئے۔ دسمبر اورجنوری کی سردی میں کوہ مری پر کوئی بزم سخن منعقد کرکے امتحان کرلیجئے۔ یا شدید بارش میں موچی دروازے کی کسی تنگ گلی میں ایک مصرعہ طرح ڈال دیجئے، پھر دیکھئے کہ کہاں کہاں کا شاعر پہنچتا ہے اور کس کس حال میں پہنچتا ہے۔ حال خواہ کچھ ہو پہنچے گا ضرور۔یہ نہیں ہوسکتا کہ مشاعرہ شعراء کے نہ آنے کی وجہ سے مل جائے۔
یہ مشاعر واقعی مشاعروں کے لیے جیتے اور مشاعروں پر ہی مرتے ہیں۔ اٹھتے بیٹھتے، سوتے جاگتے، ان کے سرمیں مشاعروں کا سواد او ر پیروں میں مشاعروں کا سنیچر دیکھ لیجئے، کوئی بات کسی سے کریں تان ٹوٹے گی آکر اسی مشاعرے پر۔ کسی بحث پر گفتگو کیجئے گھوم پھر کر آئیں گے مشاعروں کے ذکر پر۔ دور نہ جائیے غریب خانہ تک زحمت فرمائیے قریب ہی برق صاحب رہتے ہیں۔ آپ بڑے پرانے شاعر ہیں اور آپ کا دولت کدہ سینکڑوں مشاعرحضرات کا اڈہ ہے۔ جہاں مشاعروں کے منتظمین آئے دن آتے رہتے ہیں معاوضے طے ہوتے ہیں۔ سفر خرچ طے ہوتے ہیں۔ مشاعروں میں شرکت کے پروگرام بنتے ہیں کہ ایک ہی تاریخ میں اتنے مشاعرے ہیں کون سی ٹولی کس مشاعرے میں جائے، کون سی کس مشاعرے پر دھاوا بولے۔ مختصر یہ کہ عجیب چہل پہل رہتی ہے۔ معلوم ہوتا ہے کہ برقؔ صاحب کا مکان کیاہے بھرتی کا دفتر ہے۔ اسی دروازے پر مشاعروں کی لاریاں آکر ٹھہرتی ہیں۔ یہیں سے مشاعر حضرات دساور کیے جاتے ہیں اور اسی جگہ مشاعروں سے متعلق تمام جھگڑے طے پاتے ہیں اور اگر بدقسمتی سے کبھی کوئی چہل پہل نہ ہوتو برقؔ صاحب ازروئے ہمسایہ نوازی غریب خانے پر تشریف لے آتے ہیں اور ان کا خیر مقدم کرنا پڑتاہے۔
’’آخاہ قبلہ برقؔ صاحب ہیں، تشریف لائیں حضور۔ معلوم ہوتاہے آج کہیں مشاعرہ وغیرہ نہیں ہے۔‘‘
برقؔ صاحب نے بڑے استغنا سے فرمایا، ’’حضت مشاعرہ کیوں نہ ہوتا۔ قصور میں ایک، شیخوپور میں دو، شاہ پورمیں تین۔ گویا تین مشاعرے تو آج ہی ہیں۔ مگر اب کوئی کہاں تک شرکت کرے۔ میں نے تو اب طے کر لیا ہے کہ ان مشاعروں میں شرکت ہی نہ کروں گا۔ لینا ایک نہ دینا دو، سفر میں تکلیف الگ اٹھاؤ۔ رات رات بھر مشاعروں میں جاگو صحت کا ناس ہوکر رہ گیا ہے۔‘‘
عرض کیا، ’’واقعی آپ کی عمر بھی اب اس قابل نہیں ہے کہ آپ یہ صعوبتیں برداشت کریں۔‘‘
کہنے لگے، ’’اجی تو بہ کیجئے میں نے تو اب کان پکڑے کہ ہر گز کسی مشاعرہ میں نہ جاؤں گا۔ جتنا سفر خرچ ملتاہے اس سے زیادہ صرف ہوجاتا ہے۔ لاکھ سیکنڈ کا کرایہ لو اور انٹر میں سفر کرو مگر حضت پردیس پھر پردیس ہے، طرح طرح کے خرچ نکل ہی آتے ہیں اور اب کی تو آپ کے سرعزیز کی قسم کمال ہی ہوگیا، کچھ اس ترتیب سے مشاعرے تھے کہ اب جو گھر سے نکلا ہوں تو پندرہ دن کے بعد گھر لوٹنا نصیب ہوا۔
حیرت سے عرض کیا، ’’پندرہ دن کے بعد یعنی مسلسل مشاعرے۔‘‘
کہنے لگے، ’’جی اور کیا دم اُلٹ کر رہ گیا ان مشاعروں سے۔ کہیں ریل سے سفر کیا۔ کہیں لاری سے پہنچے اور ایک جگہ تواونٹ تک پرسفر کرنا پڑا۔‘‘
ایک نجی بات دریافت کی، ’’اچھا تو یہ بتائیے کہ کچھ بچ بھی گیا۔‘‘
کہنے لگے، ’’اجی توبہ کیجئے دھیلا بھی نہیں بچا۔ البتہ اب اس کو چاہے بچنا کہیے یا مالِ غنیمت سمجھئے کہ سر گودھا کے مشاعرے میں سے ایک ٹین گھی کامل گیاتھا۔ کیا کہنا ہے وہاں کے گھی کا، عام طور پر خالص مکھن سے بنایا جاتا ہے مگر اس گھی سے آپ مکھن بنالیجئے۔ اعلیٰ درجہ کا دانہ دار گھی۔ سیالکوٹ سے ایک ہاکی اسٹک ذرا قیمتی قسم کی مل گئی تھی۔‘‘
تعجب سے پوچھا، ’’ہاکی اسٹک؟ برقؔ صاحب، ہاکی اسٹک بھلا آپ کے کس کام کی۔‘‘
برق ؔصاحب نے ہم کو آنکھوں ہی آنکھوں میں چغدسمجھتے ہوئے فرمایا، ’’میرے کس کام کی ہوتی مگر وہاں یہی چیز مشہور تھی لہٰذا منتظم مشاعرہ سے فرمائش کردی کہ بندہ زادے نے اسی شرط پر آنے دیا ہے آپ کے مشاعرے میں کہ واپسی میں اعلیٰ درجہ کی ہاکی اسٹک لے کر جاؤں۔ چنانچہ مل گئی ہاکی اسٹک ہوگی کوئی پندرہ سولہ روپے کی۔ اورجناب خدا آپ کا بھلا کرے گجرات سے ایک حقّہ لایا ہوں۔ حضت کیا حقّہ ہے، معلوم ہوتا ہے کوئی تاریخی عمارت رکھی ہوئی ہے، نہایت عظیم الشان حقّہ۔ دکھاؤں گا آپ کو کسی وقت۔ اور ہاں گجرات ہی سے چار پائی کے پائے بھی لایا ہوں۔ بھئی کیا رنگ ہے اور کیا روغن، اتفاق کی بات کہ وزیر آباد کے مشاعر ے میں جو پہنچا تو بانیٔ مشاعرہ سے ذکر آگیا مسہری کا۔ ان بیچارے نے فوراً ایسی لاجواب منگا کر دی کہ میری تو مسہری سج گئی۔‘‘
عرض کیا، ’’برقؔ صاحب، اگر اس طرح آپ ہر دورے میں یوں مالِ غنیمت جمع کرتے ہوں گے تو یہ تو گویا آمدنی کی بڑی اچھی صورت ہے۔‘‘
برقؔ صاحب نے بڑی مایوسی سے کہا، ’’اجی کہاں ہردورے میں۔ بڑے بڑے منحوس ہوتے ہیں بانیانِ مشاعرہ، ذرا مشکل ہی سے پھنستے ہیں، لائل پور کے مشاعرے میں بڑے ہیر پھیر سے ایک تھان لٹھے کی فرمائش کی تھی۔ میں نے کہا کیا بڑی بات تھی اگر تحفتہ دے دیا جاتا م، مگر ان حضرت نے نہایت بے مروتی سے کام لے کر جھٹ اُس کی قیمت بتادی۔ اب میں کیا کروں چُپ رہ گیا۔ البتہ ایک ریشمی تہبند ضرور لایا تھا وہاں سے۔‘‘
عرض کیا، ’’اس کو کہتے ہیں بھاگتے بھوت کی لنگوٹی۔‘‘
ہنس کر بولے، ’’بھئی کیا بات کہی ہے۔ بالکل یہ مثل صادق آئی۔ دیکھئے شارقؔ صاحب بزمؔ صاحب تشریف لارہے ہیں۔‘‘
اور پھر بلند آواز سے پکارا، ’’ارے بھئی میں ادھر ہوں، اسی طرف آجائیے۔‘‘
شارقؔ صاحب اور بزمؔ صاحب نے نہایت بدحواسی کے ساتھ آتے ہوئے کہا، ’’ملتان کے لوگ تو نہیں آئے تھے آپ کے پاس؟‘‘
برقؔ صاحب نے سنبھلتے ہوئے کہا، ’’نہیں تو، کیوں کیا بات ہے؟‘‘
شارق ؔصاحب نے کہا، ’’چودہ تاریخ کو مشاعرہ ہے ملتان میں۔ دعوت نامے لے کر آئے ہیں، احقرؔ صاحب کے یہاں گئے تھے۔ اُن سے وعدہ لے لیا ہے اور سفرخرچ کے علاوہ پچیس روپے طے پائے ہیں۔‘‘
برقؔ صاحب نے فرمایا، ’’یہاں تواب تک پہنچے نہیں۔ ایسا تو نہیں ہے کسی نے بہکایا ہو۔ بڑے بڑے کرم فرما پڑے ہوئے ہیں۔‘‘
بزمؔ صاحب نے فرمایا، ’’جی نہیں، وہ آئیں گے ضرور۔ مجھ سے ملے تھے۔‘‘
برقؔ صاحب نے بدحواسی سے پوچھا، ’’اچھا، یعنی آپ سے مل چکے ہیں؟ میرا نام بھی لیا تھا۔‘‘
بزم صاحب نے کہا، ’’جی ہاں آپ کا نام میں نے خود ان کی فہرست میں دیکھا تھا اور شارقؔ صاحب کا نام بھی بڑھوا دیا تھا۔ مگر کہتے ہیں کہ میں جا نہیں سکتا۔‘‘
برقؔ صاحب نے استادانہ شان سے فرمایا، ’’گویا یہ کہتے ہیں کہ یہ جا نہیں سکتے آخر کیوں؟ آخر کیا مجبوری ہے ایسی؟‘‘
شارقؔ صاحب نے کہا، ’’سب کپڑے دھوبی کے یہاں پڑے ہیں۔ باہر جانے کے لیے کم سے کم ایک جوڑا تو فالتو ہونا چاہیے۔‘‘
برقؔ صاحب نے فرمایا، ’’میاں لا حول و لا قوۃ۔ میں سمجھا کہ نہ جانے کیا مجبوری ہے۔ عزیزمن مشاعرے میں کپڑے نہیں دیکھے جاتے کلام دیکھا جاتا ہے۔ انشاء کا واقعہ یاد کرو کہ بھرے مشاعرے میں ایک فقیرتو بڑا لیے ہوئے پہنچتا ہے۔ لوگ اس کے بھی روادار نہیں کہ قریب بٹھائیں۔ وہ آکرایک طرف بیٹھ جاتا ہے اور اب جوغزل پڑھتا ہے ؛
کمر باندھے ہوئے چلنے کو یاں سب یار بیٹھے ہیں
بہت آگے گئے باقی جو ہیں تیار بیٹھے ہیں
تو سنّاٹا چھاگیا مشاعرے میں۔ انشاء تو اسی سج دھج سے غزل پڑھ کر کاغذ پھاڑ یہ جاوہ جا۔ مگر مشاعرے کو جیسے سانپ سونگھ گیا۔ تو کہنے کا مطلب یہ ہے جو کپڑے پہنے ہوئے ہو وہ ٹھیک ہیں۔ زیادہ سے زیادہ یہ کہ رقم پیشگی مانگو اور ایک جوڑا بنوالو۔‘‘
بزمؔ صاحب نے فرمایا، ’’یہ تو غلط ہے صاحب، مشاعرے کے بعد شاعر اور الیکشن کے بعد ووٹر کا ایک ساحل ہوتاہے۔ پھر کرتے پھرئیے ایک ایک کی خوشامد، یاد ہے سیالکوٹ کا مشاعرہ، پچاس پچاس کہہ کر لے گئے اورپندرہ پندرہ ٹکائے۔ تو جناب یہ غلط ہے، جو کچھ طے کریں وہ گن دیں سیدھے ہاتھ سے۔‘‘
بزم صاحب نے چونکتے ہوئے کہا، ’’لیجئے وہ آکر رکا تانگہ، وہی لوگ ہیں۔‘‘
برقؔ صاحب نے گھبراکر کہا، ’’شارق ؔصاحب دوڑنا ذرا اسی طرف لے آؤاور بزم بھائی ذراچار پان اور آدھی ڈبیہ سگریٹ لے لینا تنبولی سے مرانام لے کر۔‘‘
برقؔ صاحب منتظمین مشاعرہ کو لے کر اسی طرف آگئے۔ برقؔ صاحب نے ان کو سرآنکھوں پرجگہ دی، آدھی ڈبیہ سگریٹ کھول کر ان کے سامنے رکھ دی۔ پاس ہی پانوں کی پڑیابھی رکھی رہی۔ مزاج پرسی ہوئی، تشریف آوری اور پھر یا د آوری کے شکریے ادا کیے گئے اور آخر معاملہ کی گفتگو شروع ہوگئی۔ منتظمین مشاعرہ میں سے ایک صاحب نے فرمایا؛
’’قبلہ بات یہ ہے کہ قاعد اعظم میموریل فنڈکے سلسلہ میں ایک مشاعرہ کیا ہے۔ مقصد یہ ہے کہ اُس کی کلی آمدنی جمع کرکے قاعداعظم میموریل فنڈ میں بھیج دی جائے۔ اس کے لیے یہ بھی ضرور ی ہے کہ اخراجات کم سے کم ہوں۔ اب یہ فرمائیے کہ آپ لوگ ہمارے لیے زیادہ سے زیادہ کیا ایثار فرما سکتے ہیں۔‘‘
برقؔ صاحب نے کھیسیں نکال کر فرمایا، ’’آپ نے کچھ کہنے سننے کی گنجائش ہی نہیں چھوڑی ہے۔ قاعد اعظم میموریل فنڈ کا مشاعرہ ہے تو اب ہم کیا کہہ سکتے ہیں ورنہ لاہور سے باہر جانے میں پچاس سے کم تو میں لیتا ہی نہیں اور یہی مطالبہ شارقؔ صاحب اور بزمؔ صاحب کا ہوتا ہے۔ بہرحال سفرخرچ کے علاوہ آپ چالیس چالیس کردیجئے۔‘‘
منتظم مشاعرہ نے کہا، ’’چالیس تو بہت ہیں برقؔ صاحب، اس طرح تو ہم کچھ بھی نہ بچاسکیں گے۔ ہم نے آپ تینوں کے لیے بیس بیس روپے طے کیے تھے۔ یہ رقم حقیر ضرور ہے مگر مقصد دیکھئے کس قدر عظیم ہے۔‘‘
برقؔ صاحب نے فرمایا، ’’حضور والا، یہ تودرست ہے، مگر آپ نے بیس سے زیادہ بھی لوگوں کو دیئے ہیں۔‘‘
منتظم صاحب نے فرمایا، ’’صرف احقر صاحب کو، اور وہ بھی اس لیے کہ انھوں نے فرمایا ہے کہ مشاعرہ کمیٹی کا کھانا نہیں کھاؤں گا بلکہ چونکہ پرہیزی کھاتا ہوں لہٰذا اپنا انتظام خود کروں گا۔‘‘
برقؔ صاحب نے فرمایا، ’’اور سفر خرچ۔‘‘
منتظم صاحب نے فرمایا، ’’تیرہ کی رات کو لاری یہاں پہنچ جائے گی اور آپ لوگ چودہ کی صبح کو تڑکے تڑکے یہاں سے روانہ ہوجائے تاکہ آسانی سے پہنچ جائیں۔‘‘
برقؔ صاحب نے فرمایا، ’’یہ تو منظور ہے مگر اب ایک شرط ہے کہ جو کچھ طے ہوا ہے وہ یہیں عنایت کردیجئے۔ یہ ہم لوگوں کا اصول ہے اور ہم اس پر سختی سے پابند ہیں۔‘‘
منتظم صاحب نے کہ، ’’برقؔ صاحب یہ تو ممکن نہ ہوگا۔ بات یہ ہے کہ پچھلے سال ہم نے پیشگی رقمیں دے دی تھیں۔ نتیجہ یہ ہوا کہ تین سوروپیہ اپنی گرہ سے بھرنا پڑا اور شعراء نے شرکت نہ کی۔ بہرحال یہ رقم آپ کو وہاں پہنچتے ہی مل جائے گی۔‘‘
برقؔ صاحب نے گویا آخری فیصلہ سُنا دیا، ’’یہ غلط ہے جناب، اگر آپ اتنا اعتماد بھی نہیں کرسکتے تو ہم تیار نہیں ہیں۔‘‘
منتظم مشاعرہ نے لاکھ خوشامد کی لاکھ سمجھایا مگربرقؔ صاحب کسی طرح تیار نہ ہوئے۔ آخربہ مشکل تمام سمجھوتہ یہ ہوا کہ لاری ڈرائیور کے ہاتھ یہ رقم بھیج دی جائے گی پہلے وصول کرلیجئے پھر لاری میں قدم رکھئے۔‘‘
منتظمین مشاعرہ کے جانے کے بعد شارقؔ صاحب نے کہا، ’’اب بتائیے وقت اتنا کم ہے اور غزل بھی طرح میں کہنا ہے۔ پھر وہی کپڑے والا قصہ۔ صاحب مجھ کو نہ لے جائیے۔‘‘
برقؔ صاحب نے آنکھیں نکال کر کہا، ’’میاں تو بہ ہے تم سے بھی۔ بابا تم میرا ایک جوڑا لے لو، بس۔ اب تو خوش ہو۔ مصرعہ طرح کیا ہے۔‘‘
بزمؔ صاحب نے کہا،
مرے ذوقِ نظر کی ایک حد ہے آسماں کیا ہے
برقؔ صاحب نے کہا، ’’تمہارے پاس غزل تو موجود ہوگی۔ راولپنڈی کے مشاعرے کی؟‘‘
شارق ؔصاحب نے کہا، ’’وہ تو۔ کہاں کیا تھا، آسماں کیا تھا۔ میں ہے۔‘‘
برقؔ صاحب نے ہنس کر فرمایا، ’’بھئی سخت بیوقوف ہو۔ تھا کو، ہے بتاتے ہوئے بھی کوئی دیر لگتی ہے۔ پڑھو اپنا مطلع۔‘‘
شارقؔ صاحب نے مطلع پڑھا،
فنا کے بعد اب جانا کہ پر دہ درمیاں کیا تھا
کھلی جب آنکھ تو سمجھا کہ یہ خواب گراں کیا تھا
برقؔ صاحب نے کہا، ’’لکھیے اسے یوں،
فنا کے بعد جانیں گے کہ پردہ درمیاں کیا ہے
کھلے گی آنکھ تو سمجھیں گے یہ خواب گراں کیا ہے
برقؔ صاحب شارق ؔصاحب کے، ’’تھا‘‘ کو، ’’ہے‘‘ کرنے میں مصروف تھے اور ہم پر یہ صداقت چھائی جارہی تھی کہ واقعی یہ قوم نہ تو شاعر ہے نہ اس کو متشاعر ہی کہہ سکتے ہیں۔ اس کا اگر کوئی نام ہوسکتا ہے تو وہ مشاعر اور صرف مشاعر ہے۔
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.