دنیا میں دیکھا جائے تو کام ہی کام پڑا ہوا ہے اور اتنی کثیر تعداد میں پڑا ہوا ہے کہ اگر دنیا کی موجودہ آبادی میں مزید اتنی ہی آبادی کا اضافہ، آئینِ فطرت اور قانونِ قدرت کی مدد سے ہو جائے تب بھی کارِ دنیا ختم ہونے میں نہ آئے۔ دنیا اسی لئے اب تک نامکمل حالت میں ہے چند سال پہلے جب یہاں دو عدد عظیم جنگیں منعقد ہوئی تھیں تو دنیا کے مکمل ہونے کے کچھ آثار پیدا ہوئے تھے لیکن مجلس اقوام امتحدہ کے غلط فیصلوں بلکہ اس کی غیر ضروری مداخلت کی وجہ سے، ذرا سی جو امید بندھی تھی وہ بھی جاتی رہی۔
دنیا کے اس طرح ادھوری حالت میں رہنے کی اصل وجہ یہ ہے کہ جو شخص بھی اپنی مرضی سے یا لوگوں کے اصرار پر دنیا سے رخصت ہوتا ہے، وہ اپنے بہت سارے کام ادھورے چھوڑ جاتا ہے اور اس کے پسماندگان جب اس کے ان ادھورے کاموں کو انجام تک پہنچانے کی فکر یا کوشش کرتے ہیں تو ان کے اس نازیبا اقدام کی بناء پر خود ان کے اپنے کام ادھورے رہ جاتے ہیں۔
یہ سلسلہ ازل سے یوں ہی چلا آ رہا ہے، ویسے بھی جن لوگوں نے اپنے ذاتی اور خانگی کاموں پر دنیا کے کاموں کو ترجیح دی اور خدمت خلق میں مبتلا ہوئے، چند مثالوں کو چھوڑ کر انھیں ان رفاہی کاموں اور خدمت خلق کے صلے میں جو کچھ اس دنیا میں ملا اس کاذکر نہ کیا جائے تو بہتر ہے اور اس دنیا کے اخبارات ادھر آتے نہیں ہیں، اس لئے وہاں کی صحیح صورت حال ہمارے علم میں نہیں ہے، لیکن جو لوگ اپنے رفاہی کاموں کے سلسلے میں اپنی زندگی میں یہاں معتوب و مطعون نہیں کئے جا سکے ان کا بھی حشر کچھ اچھا نہیں ہوا کیونکہ دنیا میں یہ بھی ہوتا رہا ہے کہ ہر سو دو سو سال بعد تازہ ترین نسلیں اپنے اسلاف کے کاموں کا تنقیدی نظر سے جائزہ لیتی رہی ہیں اور اپنی تحقیقات کی روشنی میں یہ ثابت کرکے خوش وخرم ہوتی رہی ہیں کہ ان کے آباء واجداد میں سے فلاں بزرگ کے فلاں کارنامے نے دنیا کو فائدہ نہیں نقصان پہنچایا ہے اور اگر اتفاق سے بزرگ موصوف کا کوئی اسٹیچو وغیرہ کہیں کھڑا پایا گیا تو اسے نیست و نابود کرکے اس سے زیادہ خوفناک اسٹیچو وہاں نصب کردیاگیا۔
اس نئے مجسمے کی گلپوشی اور موصوف کے نام کے کتبے کی نقاب کشائی بھی عمل میں آئی۔ تحقیق و تفتیش اور رد و بدل کا یہ سلسلہ بھی ادھورے کاموں کے سلسلے کی طرح ختم ہونے والا نہیں ہے۔ عوام کی خدمت کسی زمانے میں شاید معیوب نہ بھی رہی ہو لیکن ان دنوں تو کوئی شخص اگر یتیم خانہ کھولتا ہے تو یتیم بچوں کی پرورش ضمناً ہوتی ہے۔ اصل مقصد تو خود اپنے بچوں کی پرورش کا ہوتا ہے۔ قہر درویش بجان درویش تو سنا تھالیکن اب مہر درویش، حال درویش کا رواج زیادہ ہے۔ سوشل سروس تو اختیاری مضمون ہے۔
لیکن جہاں تک نوکریوں کا سوال ہے وہ صرف ان لوگوں کی قسمت میں لکھ دی گئی جنھیں ان کی ضرورت نہیں ہے۔ ایک زمانہ تھا جب ہمارے یہاں نوکریاں ہی نہیں حکومتیں تک لوگوں کو یوں ہی مل جایا کرتی تھیں۔ بچہ سقہ کی مثال ہم بھولے نہیں ہیں کیسے بھول سکتے ہیں۔ یہ واقعہ تو ہمارے دل ودماغ میں فرہاد کے عشق کی طرح بس گیا ہے۔ بچہ سقہ نے تو ملازمت تک کی آرزو نہیں کی تھی اور مل گیا اسے تخت و تاج، کہا جاتا ہے کہ قدرت جب دینے پر آتی ہے تو چھپر پھاڑ کر دیتی ہے۔
ہندوستان کی تاریخ میں چھپڑ پھاڑ کر دینے کا حادثہ بس یہی بچہ سقہ کا حادثہ تھا ورنہ اس بچے کے بعد بھی یہاں کروڑوں کی تعداد میں مختلف اقسام کے بچے پیدا ہوئے، بہت سے بچے ان میں مرنے سے بچ بھی گئے لیکن قدرت نے ان کے گھرمیں جھانکا تک نہیں بلکہ بہت سے گھر تو ایسے ہیں جن پر کوئی چھپر ہی نہیں، قدرت دینا چاہے تو اسے آسانی ہی آسانی ہے۔ اب لوگ قناعت پسند بھی ہوگئے ہیں بلکہ قناعت ان کی عادت ہوگئی ہے۔ لوگ اب صرف ایک نوکری مانگتے ہیں اور نوکریاں ایسا معلوم ہوتا ہے خلا میں پرواز کرنے لگی ہیں۔ زمین پر اترتی بھی ہیں تو غلط گھروں کا رخ کرتی ہیں۔
بچہ سقہ کے علاوہ ہم نے یہ بھی دیکھا ہے کہ اس زمانے میں لطیفہ سنانے والوں کو اچھی اچھی ملازمتیں مل جاتی تھیں اور یہ لوگ راستے میں کہیں رکے بغیر شاہی دربار تک پہنچ جاتے تھے۔ انھیں تنخواہ بھی معقول دی جاتی تھی۔ تنخواہ کو اس زمانے میں منصب کہا جاتا تھا اور کھانے کپڑے کو خلعت۔ اس لفظ منصب میں بڑا وقار تھا اور صرف اس لفظ کو زبان پر لانے ہی سے معلوم ہو جایا کرتا کہ یہ شخص کچھ پارہاہے۔ لفظ تنخواہ میں وہ شان نہیں۔ تنخواہ کتنی ہی کیوں نہ ہو وہ منصب کا درجہ نہیں پا سکتی۔ اسی لیے جب بھی کسی ملازم پیشہ کے رشتے وغیرہ کی بات ہو تو اس کی صرف تنخواہ نہیں پوچھی جاتی بالائی آمدنی بھی دریافت کی جاتی ہے۔
لطیفہ گوئی کے عروج کے دنوں میں فارغ البالی بھی بکثرت تھی اس لئے ہم نے کسی بھی تاریخ کی کتاب میں یا اس زمانے کے رقعات اور مخطوطات میں کسی منصب کمیشن کا ذکر نہیں پڑھا۔ جب کہ ان دنوں ہر دوسرے تیسرے سال ایک نہ ایک پے کمیشن ہماری زندگی کا لازمی جزو بن گیا ہے۔ جس رات اس پے کمیشن کی سفارشوں کی منظوری کا اعلان ہوتا ہے اس کے دوسرے دن سورج کی پہلی کرن کے ساتھ بازار میں کھانے پینے کی چیزوں کے دام اس طرح بڑھنے لگتے ہیں جیسے انھیں ابھی کسی نے بتادیا ہو کہ ستاروں سے آگے جہاں اور بھی ہیں۔
قدرت کا یہ انتظام یعنی عجیب و غریب انتظام سبھی پر روشن ہے کہ اگر کسی نے ذرا کچھ لکھ پڑھ لیا تو نوکری اس سے دور گھسک گئی اور اگر اس نے والدین کے اصرار سے ہیں دوچار ڈگریاں حاصل کرلیں تو وہ غیب گیا کام سے۔ روشنی طبع کب اور کیسے بلا بنتی ہے اس کا انداز اسے ڈگری لینے کے فوراً بعد ہوجاتا ہے لیکن اب دیر ہو چکی ہوتی ہے، کچھ لوگ تو اپنی ڈگریوں کو جرم کی طرح چھپاتے ہیں لیکن وہ جو کہا گیا ہے کہ تاڑنے والے قیامت کی نظر رکھتے ہیں۔ کچھ لوگ سمجھتے ہیں کہ نوکری ملنے پر آدمی تجربہ کار بنتا ہے، یہ غلط خیال ہے۔
نوکری نہ ملنے پر آدمی کو تجربہ زیادہ ہوتا ہے اور اسے دنیا دیکھنے کے زیادہ سے زیادہ مواقع حاصل ہوتے ہیں۔ نوکری ملنے پر تو آدمی ایک جگہ قید ہوکر رہ جاتا ہے اور اگر وہ شادی شدہ ہو ا تو سمجھئے وہ دن میں جوڈیشیل کسٹڈی میں ہے اور رات میں پولس کسٹڈی میں۔ (جوڈیشیل کسٹڈی میں بس مارپیٹ نہیں ہوتی) حوالات میں نہ سہی وہ شب و روز سوالات کے گھیرے میں رہتا ہے۔
کبھی کبھی ہم سوچتے ہیں کہ یہ کولمبس نام کا شخص بھی کتنا خوش قسمت تھا، اپنی ہواخوری کے لئے نکلا اور کچھ نہیں کچھ نہیں ایک ملک اس کے ہاتھ لگ گیا اور ملک بھی کیسا ملک؟ لوگ ترک وطن کرکے اسی ملک کی طرف بھاگتے ہیں جسے کولمبس نے دریافت کیا تھا۔ اس سے تو اچھا تھا کہ کولمبس یوں ہی سمندر کی سیر کرکے اپنے گھر واپس آجاتا۔ لوگوں کو ترکِ وطن کی عادت تو نہ پڑتی اور ایسا بھی نہیں ہے کہ بیروزگاری کسی ملک کا اجارہ ہے۔
یہ سبھی جگہ اس بیماری کی طرح پھیلی ہوئی ہے جس کے بارے میں آج کل اخباروں میں ضرورت سے زیادہ کھا جارہا ہے اور اس سے بچنے کی احتیاطی تدابیر اختیار کی جارہی ہیں۔ احتیاطی تدابیر کسی بھی سلسلے میں ہوں اس لئے مفید ہوتی ہیں کہ ان تدابیر کی وجہ سے کچھ ملازمتیں وجود میں آتی ہیں اس لئے ہم جب بھی گناہوں سے فرصت پاتے ہیں یہی دعا کرتے ہیں کہ قدرت کی کرنی کچھ ایسی ہو کہ احتیاطی تدابیر کا سلسلہ دنیا کے ادھورے کاموں کے سلسلے کی طرح جاری وساری رہے۔
بیروزگاری کی کئی قسمیں ہوتی ہیں۔ ان میں سے دو قسم کی بیروزگاریوں سے ہم بخوبی واقف ہیں، ایک تو ہے عام بیروزگاری۔ یہ اتنی عام ہے کہ بعض ملکوں میں اسے مزید عام کرنے کے لئے بیروزگاری کا معاوضہ دیا جاتا ہے۔ عام بیروزگاری کے علاوہ مردانہ بیروزگاری بھی مقبول ہے۔ اس بیروزگاری کی وجہ یہ نہیں ہے کہ مردوں نے پڑھنا لکھنا یا ڈگریاں اور ڈپلومے جمع کرنا ترک کردیا ہے بلکہ ہوا یہ ہے یہ اب آدھی سے زیادہ نوکریاں ان کے حق میں لکھ دی گئی ہیں جن کے بارے میں شاعر اب تک کہا کرتے تھے، ’’کچھ تو ہے جس سے ہوئی جاتی ہے چلمن رنگیں‘‘ یہی وجہ ہے کہ دفتروں میں پہلے اوور ٹائم نہیں ہوا کرتا اب صرف اوور ٹائم ہوا کرتا ہے۔
ہمارا مشاہدہ ہے کہ اب سبھی جگہ جوتوں کی صنعت نے بہت زیادہ ترقی کی ہے اور اس کی ایک وجہ یہ بھی ہے کہ گھس جانے والے جوتوں میں زیادہ تعداد ان جوتوں کی ہوتی ہے جو نوکری کی تلاش میں گھستے ہیں۔ جوتوں کی خریداری ہی پر اب اتنی کثیر رقم خرچ ہوجاتی ہے کہ آدمی ٹوپی نہیں پہن سکتا۔ آج کل اگر کوئی شخص ٹوپی پہنے نظر آئے تو اس کے پاؤں پر ضرور نظر ڈال لینی چاہئے، ہوسکتا ہے کہ وہ جوتے نہ پہنے ہو۔
اتفاق کی بات یہ ہے کہ نوکری صرف انھیں ہی نہیں چاہئے جنھیں اس کی ضرورت ہوتی ہے بلکہ اس کی تلاش انھیں بھی ہوتی ہے جو آرام کرنا چاہتے ہیں۔ اسی لئے جب بھی ملازمت کا کوئی اشتہار (اخلاقاً) چھپتا ہے تو درخواستوں کے ڈھیر کے ڈھیر لگ جاتے ہیں۔
کچھ خوش قسمت لوگ ایسے بھی ہوتے ہیں جنھیں ہرسال ایک نئی ملازمت ایک نئی کار اور ایک نئی سکریٹری دستیاب ہوجاتی ہے، ہمارا شمار بھی ان ہی لوگوں میں ہے لیکن صرف اس وقت جب ہم خواب دیکھ رہے ہوں۔
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.