پہلے عورت اس کے بعد مرد
یہ جو مہذب دنیا کے مردوں نے’’لیڈیز فرسٹ‘‘ والی تہذیب رائج کی ہے اس میں خواتین کی عزت افزائی خواتین کو بے وقوف بنانا ہی مقصود نہیں ہے بلکہ بڑی بڑی مصلحتیں ہیں۔ مثلاً یہی کہ ہر جگہ عورتوں کو پہلے بھیجا جائے تاکہ اگر کوئی مصیبت راہ میں حائل ہو تو پہلے وہ اس سے دوچار ہولیں اور جو کچھ گذرتا ہے وہ اُن پر گذر جائے، مرد اس مصیبت سے محفوظ رہ سکیں۔ چنانچہ اب بڑی چالاکی کے ساتھ یہ کہا جا رہا ہے کہ ستاروں کا جو سفر درپیش ہے اس کے لئے مردوں سے زیادہ عورتیں موزوں ہیں اور لیڈیز فرسٹ اصول کو پیش نظر رکھ کر مرد یہ گستاخی کر بھی نہیں سکتے کہ عورتوں کو پیچھے چھوڑ کر خود پیش قدمی کر جائیں۔ اس طرح وہ اس دنیا ہی میں نہیں بلکہ ساری کائنات میں بدنام ہو جائیں گے کہ عجیب جانگلو ہیں۔ اس دنیا کے لوگ بھی کہ ان کو تہذیب کا یہ بنیادی اصول بھی نہیں معلوم کہ لیڈیز کو آگے بڑھایا جاتا ہے اور مرد اُن کے پیچھے پیچھے ہیں۔ نیاز مندی کے ساتھ فدوی بنے ہوئے۔
رائٹ فیلڈ (اوہیو) کے مرکز میں ائرمیڈیسین لیبارٹری نے بتایا ہے کہ کائنات میں سفر کرنے کے لئے مرد جتنا ناموزوں ہے عورتیں اتنی ہی موزوں ثابت ہوئی ہیں۔ یہ تجربہ اس وقت ہوا جب سائنسدانوں نے تجربہ کے کیبن میں مردوں اور عورتوں دونوں کو رکھا۔ اس کیبن میں کائناتی سفر کا ماحول پیداکردیا گیا تھا۔ اس ماحول میں بے صبر مرد تھوڑی ہی دیر کے بعد گھبرا گئے اور انھوں نے جھجھلا نا شروع کردیا مگر عورتیں نہایت صبر وسکون کے ساتھ بیٹھی رہی۔ کیا مجال کہ ذرا بھی گھبراہٹ ان پر طاری ہو۔ اُن کی جبیں پر ایک بھی شکن پڑی ہو، وہ حسب معمول تھوڑی تھوڑی دیر کے بعد اپنا پرس کھول کر آئینہ دیکھ لیتی تھیں اوراپنا میک اپ درست کرلیتی تھیں، بالوں پر ہاتھ پھیر کر اُن کودرست کرلیتی تھیں اور چھوٹے سے ریشمی روماں سے لپ اسٹک پھیل گئی ہو تو وہ اس کو درست کرلیتی تھیں۔ یہ مشق اس لئے جاری تھی کہ اگر وہ واقعی کسی نئی دنیا میں پہونچیں تو وہاں کے باشندے ان کو دیکھ کر بس دیکھتے ہی رہ جائیں اور پہلی ہی نظر میں اُن کے حُسن کاجادو اُن اجنبیوں کو مسحور کردے۔
عورتوں کے اس اطمینان اور مردوں کی اس سراسیمگی کو دیکھ کر یہی نتیجہ نکالا گیا ہے کہ مردوں کو کائناتی سفر پر بھیجنا غلط ثابت ہوگا۔ اس کی ابتداء عورتوں ہی سے کرائی جائے اور لیڈیز فرسٹ ہی سے کام لیاجائے۔ اس کے بعد جب عورتیں اس سفر سے واپس آکر اپنے تجربات سے مردوں کو آگاہ کریں گی اور ان کو اس سفرکی تربیت دیں گی تو شاید مرد بھی ہمت کر گذریں، ورنہ سچ تو یہ ہے کہ اس قسم کی مردانہ ہمت آج کل کی عورتوں ہی میں نظر آتی ہے۔ مرد تو دو کوڑی کا بھی نہیں رہا ہے۔ خواہ مخواہ بھی مونچھوں پر تاؤ دیتا پھرتا ہے اور جب کوئی مہم درپیش ہوتی ہے تو لیڈیز فرسٹ کہہ کر عورتوں کو آگے بڑھا دیتا ہے اور خود اُن کی آڑ میں چھُپ جاتا ہے۔ ان مردوں نے مہذب ہونے کے بعد ہر میدان میں عورتوں کو ڈھال کے طور پر استعمال کرنا شروع کردیا ہے اور دیکھ لیجئے گا کہ اس قسم کے خطرناک تجربے کیا معنی مرد تو جہنم کے دروازے پر پہونچ کر بھی عورتوں سے کہے گا کہ ’’لیڈیز فرسٹ۔‘‘
اس کائناتی سفر کے سلسلے میں یہ لیڈیز فرسٹ والی بات کوئی نئی نہیں ہے۔ روس نے سب سے پہلے لیڈی لائیکا ہی کو اس سفر پر روانہ کیاتھا۔ ورنہ کیا یہ نہیں ہوسکتا تھا کہ بجائے اس نازک اندام کتیا کے کسی قومی ہیکل کتّے کو بھیجا جاتا مگر غالباً اس تجربے کے وقت بھی کتوں نے بھی یہی عذ ر پیش کیا تھا کہ آخر ہم ایک مہذب ملک کے کتّے ہیں۔ ہم سے اس گنوارپن کی توقع کیوں کی جارہی ہے کہ ہم اپنی لیڈیز یعنی کتیوں کو پیچھے چھوڑ کرخود آگے بڑھ جائیں گے، یہ اعزازپہلے کسی کتیا کو دیا جائے گا چنانچہ لائیکا کو بھیجا گیا تھا جو آج تک واپس نہیں آئی ہیں اور روس کے کتّے اپنی اس دانشمندی پر خوش ہیں کہ اگر انھوں نے لیڈیز فرسٹ کے اصول پر عمل نہ کیا ہوتا تو بجائے اس معزز کتیا کے نہ جانے کون سا کتا اس تجربہ کی بھینٹ چڑھ جاتا۔ خیر وہ کتوں کو بھیجنے کا زمانہ تو گیا اب انسان کو بھیجنے کی باری آئی ہے تو مردوں نے ابھی سے یہ اڑا دی ہے کہ اس کائناتی سفر کے لئے عورتیں ہی موزوں سمجھی گئی ہیں، مرد تو نہایت ناکارہ ثابت ہوا ہے اور بس اسی قابل ہے کہ لیڈیز فرسٹ کہہ کہہ کر عورتوں کو مقدم اور اپنے کو موخر بناتا رہے۔
مقصد صرف یہ ہے کہ یہ بات توسب ہی جانتے ہیں کہ اس تجربہ میں صرف وہی حصہ لے سکتا ہے جو اپنی جان کو عزیز نہ رکھتا ہو۔ اس سیارے میں بیٹھ کراڑنے کے بعد سب سے پہلے تو یہی کہنا پڑتا ہے کہ؛
پہلی منزل ہے فنا اے رہرو راہ بقا
آگے قسمت ہے تری اور ہمت مردانہ ہے
یعنی اُڑنے والا خود ہی یہ طے کر لیتا ہے کہ لوبھئی اڑے ہم اس دنیا سے اور صرف روح ہی قفس عنصری سے پرواز نہیں کررہی ہے بلکہ قفس عنصر بھی پرواز کر رہا ہے عالم بالا کی طرف۔ اب یہ دوسری بات ہے کہ یہ حضرت ایسے لائف انشیورڈ ثابت ہوںکہ موت ان کو اس خودکشی کے باوجود نہ پوچھے بلکہ یہ موت کے پیچھے دوڑیں تووہ سرپر پیر رکھ کر بھاگے ورنہ ننانوے اعشاریہ نوفی صدی تو امید یہی ہوتی ہے کہ بس گئے یہ حضرت۔ لہٰذا مرد تو یہ چاہتے ہیں کہ جب تک یہ کائناتی سفر ہر طرح محفوظ ہو جائے اور جب تک اس سفر سے واپسی یقینی نہ ہوجائے وہ ذرا پیچھے ہی رہیں اور خواتین کو لیڈیز فرسٹ کہہ کر آگے بڑھاتے رہیں تاکہ تمام تجربے ان پر گزر جائیں اورمرد اس سفر کا آغاز اس وقت کریں جب یہ تجرباتی مرحلہ گذر جائے اور یہ سفر انگریزی کا SUFFER باقی نہ رہے۔
رہ گئیں عورتیں وہ بھی دراصل اتنی بیوقوف ہیں جتنی نظر آتی ہیں۔ وہ ان خود غرض مطلب پرست اور کائناتی مردوں کی تمام چالاکیوں کو بخوبی سمجھتی ہیں کہ مرد ان کو کس کس طرح قربانی کی بکریاں بناتا رہتاہے۔ بڑے محبت کے دعوے کرتا ہے، نازبردار بنتا ہے، نگاہِ ناز سے شہید ہوتا رہتا ہے۔ روز ایک نئی ادا پر ایک تازہ موت مرتا ہے اور کسی دن بھی اس کاجنازہ نہیں نکلتا۔ عورت کی چشم وابرو کے اشارے پر جان تک دینے کو تیار رہتا ہے مگر جب کوئی ایسا امتحان سامنے آجاتا ہے جس میں واقعی مرنے جینے کا سوال ہو تو عورت کو آگے بڑھاکر لیڈیز فرسٹ ڈھونگ رچانا شروع کردیتا ہے۔ ایسے خود مردوں کی اس دنیا میں رہ کر جہاں جنسِ وفاراشن کارڈ پر بھی نہ مل سکے مسلسل بیوقوف بنے جانے سے تو اچھا یہی ہے کہ؛
رہیے اب ایسی جگہ چل کر جہاں کوئی نہ ہو
اور کیوں نہ ان تجربوں کے لئے اپنے کو پیش کردیں۔ موت برحق تو ہے ہی کیوں نہ زندگی کی تلاش میں آئے۔ اگر تجربہ کامیاب ہوگیا تو کائنات کی ماں کہلائیں گی ورنہ مرحومہ ومغفورہ تو ہیں ہی۔
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.