ریل بابو کانفرنس
شاید بہت کم لوگوں کو اس بات کا علم ہوگا کہ لاہور میں ان ریل بابوؤں کی ایک ایسوسی ایشن قائم ہے، جو پنشن پا چکے ہیں۔ یہ بڈھے بابو ہر مہینے کے پہلے اتوار ایک کانفرنس منعقد کرتے ہیں، جو ریلوے روڈ پر میسرز ریلو رام اینڈ سنٹر کے دفتر میں ہوا کرتی ہے۔ لالہ ریلو رام بھی سابق ریلوے بابو ہیں۔ آپ اسٹیشن ماسٹر ہوا کرتے تھے۔ آپ پنشنر ہیں۔
کل مجھے اس کانفرنس کا علم ہوا تو ایک پنشنر ریل بابو کی وساطت سے، جو ہمارے محلے میں رہتے ہیں، میں بھی اس میں شامل ہوا اور یہاں کے حالات دیکھ کر حیران رہ گیا۔ ایسو سی ایشن کا چندہ ایک روپیہ ماہوار ہے اور وصولی کی یہ صورت ہے کہ ایک بابو اس کھڑکی کے اندر کی طرف بیٹھا ہوتا ہے جو دفتر کے برآمدے میں کھلتی ہے۔ اس کے سامنے چھوٹی سی میز پر ٹکٹ رکھے رہتے ہیں اور ساتھ ہی اس تاریخ کی مہر۔ ممبر آتے ہیں تو کھڑ کی کے پاس جا کر ایک روپیہ ادا کرتے ہیں۔ ٹکٹ بابو ٹکٹ پر کھٹ سے مہر لگاتا ہے اور ٹکٹ ممبر کے ہاتھ میں دے دیتا ہے۔
دفتر کے دروازہ میں ایک گیٹ کیپر ہاتھ میں سروتا لیے کھڑا ہوتا ہے۔ وہ ٹکٹ کا ایک کونہ کاٹ کر ممبر کو اندر جانے کی اجازت دیتا ہے۔ اندر کرسیاں لگی ہوتی ہیں، جن میں ایسو سی ایشن کے عہدہ داروں کی کرسیوں پر ’’ریزرو‘‘ کا ٹکٹ لگا ہوتا ہے۔
مجھے ٹکٹ نہ خریدنا پڑا، کیوں کہ مہمانوں کے لیے داخلہ مفت ہے۔ میں نے اندر جاکر ادھر ادھر نگاہ ڈالی تو دیکھا کہ ایک طرف ایک بورڈ پر لکھا ہے کہ ’’تھوکو مت۔‘‘ اور دوسری طرف ایک دوسرا بورڈ آویزاں ہے جس پر یہ سطور لکھی ہیں،
’’اگر کوئی شخص بغیر رضا مندی اپنے ہمراہیوں کے تمباکو نوشی کرے گا تو اس کو پچاس روپیہ تک سزائے جرمانہ دے سکتی ہے۔ اور اگر کوئی شخص باوجود اس امر کے کہ اس کو کسی عہدہ دار نے تمباکو نوشی سے منع کیا ہو، تمباکو نوشی پر اصرار کرے گا تو کوئی عہدہ دار اسے ہال سے باہر نکال سکتا ہے۔ ''
ایک دیوار کے ساتھ ساتھ ایک زنجیر جاتی تھی، جس کے وسط میں ایک چھوٹے سے بورڈ پر لکھا تھا، ’’خطرہ کے وقت زنجیر کھینچو۔‘‘ ایک کیل سے پیتل کی گھنٹی لٹک رہی تھی، جیسی کہ گائے بھینسوں کے گلے میں باندھا کرتے ہیں۔
صدر کی میز کے سامنے میں نے ایک عجیب بات دیکھی۔ جس طرح تقریر کرنے والے منہ کے سامنے لاؤڈ اسپیکر کا مائکرو فون ہوتا ہے، اس طرح یہاں ایک چھوٹا سا سگنل نصب تھا، جو بالکل ریلوے سگنل کی نقل تھا۔ یہ ایک تار کے ذریعہ اوپر نیچے ہوتا تھا اور اس تار کا دوسرا سرا پریذیڈنٹ کی میز پر ایک بھاری پیردیٹ کے نیچے دبا ہوا تھا۔
اس دفعہ کانفرنس کی صدارت کے فرائض میرے ہم محلہ چودھری غلام احمد نے انجام دینے تھے۔ وہ کرسی صدارت پر بیٹھ گئے۔ جب سارے ممبر اندر آچکے تو گیٹ کیپر نے دروازہ بند کر دیا۔ پریذیڈنٹ نے میز سے ایک لائن کلیئر اٹھا کر سیکریٹری کو دیا، جو میز کے دائیں طرف کرسی پر بیٹھا تھا۔ مجھے بعد میں معلوم ہوا کہ اس مقصد کے لیے ردی فردشوں سے ریلوے کے استعمال شدہ لائن کلیر لائے جاتے ہیں۔
سیکریٹری لائن کلیئر لے کر اٹھا اور کرسیوں پر بیٹھے ہوئے ممبروں میں سے ایک ہاتھ میں دے آیا۔ یہ وہ ممبر تھا جس نے سب سے پہلے تقریرکرنی تھی۔ سیکریٹری نے واپس میز کے پاس آکر اپنی جیب سے ایک سیٹی نکالی اور بجائی۔ ایک شخص نے کونے میں لٹکی ہوئی گھنٹی کو بجایا۔ تقریر کرنے والا اٹھ کر میز کے پاس اور سگنل کے عین سامنے آکر کھڑا ہو گیا۔ پریذیڈنٹ نے پیپرویٹ ہٹا کر تار کو ڈھیلا کر دیا، جس سے سگنل ڈاؤن ہو گیا اور مقرر نے اپنی تقریر کی ڈاک گاڑی چھوڑ دی۔
میں یہاں بتا دوں کہ ریل بابو کانفرنس میں صرف ممبروں کے خاص دوستوں کو ہی اجازت دی جاتی ہے، کیوں کہ ممبر اپنی تقریروں میں اپنے عہد ملازمت کی آپ بیتیاں سناتے ہیں، جن میں بعض جرائم قسم کی ہوتی ہیں اور ان کا عوام تک یا یوں کہئے کہ افسروں تک پہنچ جانا خطرناک ہے۔
تقریر کرنے والے صاحب کا نام میلا رام تھا۔۔۔۔ اور آپ نے یوں تقریر شروع کی،
صاحبان! جن دنوں میں لاہور وزیر آباد لائن پر ٹی ٹی کے طور پر چلتا تھا، ایک روز عجیب واقعہ ہو گیا۔
میں وزیر آباد سے لاہور کی طرف آ ر ہا تھا کہ ایک ڈبے میں، میں نے ایک شخص کو پکڑا جس کے پاس ڈیڑھ من کے قریب خربوزے تھے اور ان خربوزوں کا کرایہ نہیں ادا کیا گیا تھا۔ میں نے اس کا ٹکٹ دیکھا، جو اس کے ساتھی کے پاس تھا اور خربوزوں کی بابت دریافت کیا تو اس نے کہا کہ جلدی کے باعث میں نے انہیں بک نہیں کرایا۔ میں نے اپنی جیب سے تو لنے کا کانٹا نکال کر خربوزوں کا وزن کیا اور دوسری جیب میں میمو بک نکالنے کے لیے ہاتھ ڈالا لیکن جیب خالی تھی۔
بات یہ ہوئی کہ پچھلے ڈبے میں، میں نے ایک ٹکٹ مسافر کو چارج کیا تھا اور میمو بک وہیں دھری رہ گئی۔ ان دنوں مجھے حکم مل چکا تھا کہ چلتی گاڑی میں ایک ڈبے سے دوسرے ڈبے میں مت جاؤ، اس لیے میں نے گاڑی ٹھہر نے تک انتظار کیا۔ اگلے سٹیشن پر گاڑی ٹھہری تو میں پچھلے ڈبے میں گیا لیکن میمو بک غائب تھی۔ میں نے مسافروں سے پوچھا تو کہنے لگے کہ ہمیں علم نہیں اور یہ کہ آپ یہاں سے لے گئے تھے۔ بات در اصل یہ تھی کہ وہ مجھ سے مذاق کر رہے تھے۔ یہاں گاڑی کا اسٹاپیج صرف ایک منٹ تھا۔ وہ ہماری تکرار میں گزر گیا اور گاڑی چل پڑی۔ آخر ایک مسافر نے ہنستے ہوئے میمو بک میرے ہاتھ میں دے دی لیکن اب اگلے ڈبے میں جانے کے لیے مجھے پھر انتظار کرنا پڑا۔
اگلے اسٹیشن پر گاڑی رکی تو میں خربوزوں والے ڈبے میں گیا۔ کیا دیکھتا ہوں کہ وہاں صرف دو خربوزے سیٹ پر پڑے ہیں۔ میں نے ادھر ادھر نگاہ ڈالی تو خربوزوں والی گٹھری کہیں نظر نہ آئی۔ میں نے اس بھلے مانس سے پوچھا کہ خربوزے کہاں ہیں؟ اس نے کہا کہ مسافروں سے پوچھئے۔ میں نے سب مسافروں سے مخاطب ہو کر دریافت کیا کہ خربوزے کہاں ہیں؟ سب نے یک زبان ہو کر اور اپنے اپنے پیٹ کر ہاتھ رکھ کر کہا، ’’خربوزے یہاں ہیں۔‘‘
میں بڑا خفیف ہوا اور خربوزوں کے مالک کی طرف دیکھنے لگا۔ اس نے دونوں خربوزے اٹھا کر میرے ہاتھ میں دے دیے اور کہا یہ آپ کا حصہ ہے۔ مجھے اس کی حرکت پر بے اختیار ہنسی آ گئی اور میں نے ہاتھ بڑھاتے ہوئے، یہ کہہ کر کے اس سے مصافحہ کیا کہ آپ بڑے خوش طبع آدمی ہیں اور آج سے میں آپ کو اپنا دوست سمجھوں گا۔ اس نے جواب دیا کہ اگر آپ دوست ہیں تو ذرا بیٹھ جائیے۔ میں آپ کو ایک اور بات بتاتا ہوں۔
میں بیٹھ گیا اور اس نے کہا، ’’جناب من! میں نے نہ صرف خربوزے ہی بک نہیں کرائے تھے بلکہ خود بھی بے ٹکٹ ہوں۔ میں نے حیران ہو کر کہا، بے ٹکٹ؟ آپ کا ٹکٹ تو ان صاحب نے مجھے دکھایا تھا؟ وہ بولا، بیشک، لیکن وہ ان کی بیوی کا ٹکٹ ہے جو زنانہ ڈبہ میں بیٹھی ہے۔‘‘
اس کے بعد اس شریف آدمی نے کہا کہ میں کسی وجہ سے ٹکٹ نہیں خرید سکا تھا، اس لیے پلیٹ فارم پر مجھے ایسے شخص کی تلاش ہوئی جس کے ساتھ زنانہ سواری بھی ہو، کیوں کہ میں جانتا ہوں کہ زنانہ سواریاں تو زنانہ ڈبہ میں بیٹھ جاتی ہیں لیکن ان کا ٹکٹ ان کے مردوں کے پاس ہوتے ہیں۔
میں نے دیکھا کہ ان صاحب کے ساتھ ایک خاتون ہے۔ یہ اس کو زنانہ ڈبہ میں بیٹھا کر خود اس ڈبے میں آ بیٹھے اور میں بھی ان کے پاس آ بیٹھا۔ بیٹھتے ہی میں نے ایک بہت خوبصورت خربوزہ گٹھری سے نکال کر ان کی خدمت میں پیش کیا تاکہ راہ ورسم پیدا ہو جائے اور جب باتوں باتوں میں ذرا سی بے تکلفی ہو گئی تو میں نے اپنی مشکل بتائی۔ انہوں نے مہربانی کر کے مجھے تسلی دی کہ کوئی بات نہیں۔
مسافر کی یہ بات سن کر مجھے فوراً اپنے سرکاری فرض کا احساس ہوا۔ میں نے اپنی ساری سروس میں کبھی کسی بے ٹکٹ پر رحم نہیں کھایا تھا۔ ہمیشہ کرایہ چارج کیا لیکن اس نئی دوستی کے بعد میں سوچنے لگا کہ اس نئے دوست کو کس طرح معاف کر کے محکمہ کے حق میں بدد یانتی کروں؟ آخر میں نے ایک میمو کاٹ کر اسے دے دیا اور کہا کہ اسے اپنے پاس رکھل لے۔ وہ حیرت سے میری طرف تکنے لگا۔ میں نے کہا، کرایہ کی فکر نہ کرو، میں اپنی جیب سے ادا کروں گا۔
یہ شخص آج تک میرا دوست ہے۔ اس کا نام شیخ ظہور حسن ہے اور آج کل اخبار ’’شہباز‘‘ کا ہیڈ کاتب ہے۔ کچھ عرصہ کے بعد ایک روز۔۔۔
بابو میلا رام کی تقریر یہاں تک پہنچی تھی کہ صاحب صدر نے سنگل کے تار کو کھینچا جس سے سگنل اپ ہو گیا۔ اس کا مطلب یہ تھا کہ بابو میلا رام کا وقت ختم ہو گیا ہے۔ بابو میلا رام اپنی کرسی پر جا بیٹھے۔
اتنے میں پھر گھنٹی بجی اور ساتھ ہی ہال کا بغلی دروازہ کھلا۔ اس دروازہ سے ایک شخص نکلا جس نے صدا دی، ’’ہندو مسلمان چائے بسکٹ۔‘‘ یہ آواز سن کر سب لوگ کرسیوں سے اٹھ کھڑے ہوئے اور ساتھ والے کمرے میں گئے۔ جہاں ٹی پارٹی کا انتظام تھا۔ میزوں پر چائے، کیک، بسکٹ اور پھل قرینے سے سجے ہوئے تھے۔ یہاں سب نے کھایا پیا اور پھر ہال میں آکر اپنی اپنی جگہوں پر بیٹھ گئے۔
اب پھر لائن کلیر دیا گیا۔ سیٹی اور گھنٹی بجی اور ایک اورصاحب تقریر کے لیے میز کے پاس گئے جن کا نام خورشید علی تھا۔ سگنل ڈاؤن ہوا اور آپ نے یوں تقریر شروع کی،
صاحبان! جن دنوں میں لاہور اسٹیشن پر پارسل کلرک تھا، ان ایام کا ایک واقعہ سنئے،
ہم چار پارسل کلرک تھے۔ دو ہندو، ایک سکھ اور ایک میں یعنی مسلمان۔ ہمارا معمول تھا کہ ہم کھانے پینے کی چیزوں کے پارسل کھول لیا کرتے تھے۔ ان میں سے کچھ حصہ نکال کر کھا لیتے اور پیکنگ کی اشیا ڈال کر وزن پورا کر دیا کرتے تھے۔
ایک روز دس سیر وزن کا ایک پارسل آیا۔ جس کے اوپر لکھا تھا، ’’مٹھائی۔‘‘ یہ لفظ پڑھ کر ہمارے منہ میں پانی بھر آیا اور ہم نے پارسل کو کھول مارا۔ دیکھا کہ اس میں لڈو، پیڑے اور ہر قسم کی مٹھائیاں بھری ہوئی ہیں۔ ہم نے نصف حصہ نکال لیا اور دروازہ بند کر کے کھانے بیٹھ گئے۔ جب خوب سیر ہو چکے تو باقی ماندہ پھر پارسل میں ڈال دی۔
اتنے میں کسی نے دروازہ کھٹکھٹایا۔ ہم نے پارسل کو فوراً میز کے نیچے چھپا کر دروازہ کھولا تو دیکھا کہ ایک عورت ہاتھ میں بلٹی لیے کھڑی ہے۔ میں نے پوچھا کیا چاہتی ہو؟ عورت بولی میرا پارسل نہیں آیا؟ یہ ہے بلٹی۔
میں نے بلٹی لے کر دیکھی تو یہ اسی مٹھائی کی بلٹی تھی۔ اب ہم لوگ گھبرا سے گئے، کیوں کہ پارسل کو ابھی تک ہم نے وزن پورا کر کے بند نہیں کیا تھا۔ بہر حال میں نے نہایت بے پروائی سے عورت کو کہا کہ یہ پارسل ابھی نہیں آیا، کل آنا۔
عورت بولی، کیوں نہیں آیا؟ چٹھی تو کل سے آ چکی ہے۔ یہ کہہ کر ایک چٹھی اس نے میرے ہاتھ میں دے دی اور کہا کہ پڑھ لیجئے۔ میں نے چٹھی کھول کر پڑھی لکھا تھا،
’’میری بیٹی! لالہ لدھا رام ساہوکار کے بیٹے کی شادی تھی۔ میں نے لکھا کہ شادی پر آ جاؤ کیوں کہ بہت سی مٹھائی آئے گی۔ لیکن تم نہ آیئں۔ شادی ہو چکی ہے اور ہمارے ہاں ایک من کے قریب مٹھائی کی جھوٹ(پنجابی جھوٹ) آئی ہے۔ اس میں سے دس سیر بھیجی جاتی ہے بلٹی ارسال ہے۔ رسید گی سے اطلاع دو۔‘‘
تمہاری ماں
سنتو بھنگن
یہ سننا تھا کہ ہمارے ہوش اڑ گئے۔ عورت تو چلتی بنی اور میرے دوست لگے پانی سے غرارے کرنے اور منہ میں انگلیاں ڈال ڈال کر صفائی کرنے لیکن اب کیا ہو سکتا تھا۔ بھنگیوں کے ہاتھوں کی جھوٹی مٹھائی ہمارے پیٹوں میں جا چکی تھی۔ اس دن سے ہم نے قسم کھائی کہ کبھی کسی کا پارسل نہیں کھولیں گے۔
یہ کہہ کر مقرر نے پریذیڈنٹ کی طرف دیکھا۔ پریزیڈنٹ نے سگنل اپ کیا اور خورشید علی اپنی کرسی پر جا بیٹھے۔ پھر بغلی دوازہ کھلا اور آواز آئی، کیلے، سنگترے، میٹھی گنڈیریاں۔
سب لوگ پھر دوسرے کمرے میں گئے۔ اب کے پھلوں کی دعوت تھی۔ پھل کھانے کے بعد سب لوگ اٹھے اور پریذیڈنٹ نے اعلان کیا کہ آج کا اجلاس ختم۔
ممبر ہال سے ہو کر گیٹ کے راستے باہر نکلنے لگے۔ وہاں ’’ٹکٹ کلکٹر‘‘ کھڑا ہر ایک کے ٹکٹ وصول کر رہا تھا۔ جب میں گزرنے لگا تو اس نے مجھے ٹھہرا لیا کیوں کہ میں بے ٹکٹ تھا۔
جب سارے ممبر باہر جا چکے تو ٹکٹ کلکٹر مجھے صدر کی میز کے پاس لے گیا۔ وہاں اس نے ایک استعمال شدہ کتاب سے ایک میمو کاٹ کر میرے ہاتھ میں دے دیا اور کہا اس کو اپنے پاس رکھیے اور کرایہ کی فکر نہ کیجئے۔ میں اپنی جیب سے ادا کر دوں گا۔
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.