رشوت ٹیکس
وزیر ٹیکس بڑے الجھے ہوئے تھے، انہیں بجٹ پیش کرنا تھا اور وہ بھی گھاٹے کا۔ بلا نئے ٹیکسوں کے چارہ نہ تھا۔ جس مد کو دیکھتے بھنا جاتے، یا تو اس پہ ٹیکس درٹیکس ملتا، یا ان کی سوشلسٹ پالیسی راستہ روک لیتی، مجبوراً سکریٹری کو مشورے کے لیے طلب کیا اور بولے؛
’’سکریٹری صاحب، ہم کو عوام کی غریبی دور کرنے کے لیے امیروں پر ٹیکس بڑھانے ہی پڑیں گے۔ ہم سے عوام کی غریبی اب پھوٹی آنکھ نہیں دیکھی جاتی۔‘‘
سکریٹری، مہاراج دیکھی تو مجھ سے بھی نہیں جاتی مگر دیکھ رہا ہوں۔
آج میں نے غریب عوام کی جو حالت اپنی موٹر سے دیکھی، اس پہ آنکھوں میں آنسو آگئے۔
وزیر ٹیکس، (خفا ہوتے ہوئے) ہاں ہاں! مانا کہ غریبوں کی حالت بہت خراب ہے جسے بہتر بنانے کے لیے ہم بہت کچھ کررہے ہیں۔ ضرور حالت خراب ہے، مگر ایسی بھی خراب نہیں! کیا دیکھ لیا آپ نے موٹر سے جو ہم کو ہوائی جہاز تک سے نظر نہ آیا؟
سکریٹری، ایک آدمی سڑک پرچاٹ کا پتّہ چاٹ رہا تھا۔ کئی آدمی اور کتّے اس کے پتّہ پھینکنے کے ایک ساتھ منتظرتھے۔ چاٹ کے پتّے پر جس طرح جھپٹے وہ دل ہلادینے والا منظر تھا۔ پتّہ ایک فاقہ زدہ دبوچے ہوئے تھا۔ اس کے منھ کے ساتھ کتّوں کی لمبی لمبی زبانیں ایک ساتھ پتّہ چاٹ رہی تھیں۔
وزیر ٹیکس، (بگڑتے ہوئے) ہوں، تو پچھلی وزارت نے حالت اس حد تک بگاڑ دی، جسے ابھی تک ہم سنبھال نہیں پائے۔ بھلا کس علاقے کی یہ حالت ہے؟
سکریٹری، سوائے ہمارے آپ کے جیسے علا قوں کے، ہر علاقے کی یہی دردشا ہے۔
وزیر ٹیکس، (بڑبڑاتے ہوئے) یہ بدمعاشوں نے ملک کو فاقے کروادیے۔
سکریٹری، سرکار! ایک بات اور دیکھنے کی ہے۔ امیروں پہ آپ نے اب تک جو بھی ٹیکس لگائے، وہ انہوں نے کسی نہ کسی بہانے غریبوں کے سر مونڈ دیے۔
وزیر ٹیکس، (دانت پیستے ہوئے) بدمعاش، ہمیشہ بچ کر نکل جاتے ہیں۔
سکریٹری، منتری جی (عوام بھوکوں مررہے ہیں، مانا کہ آپ ان کے دُکھ دور کرنے کے اپائے سوچتے ہیں۔ سوچنے سے بھلا کسی کا کوئی دُکھ دور ہوا ہے؟ آپ کا بدعنوان عملہ تو انہیں صرف لوٹنے کی ہی سوچتا ہے۔ دفتروں، کارخانوں اور کچہریوں میں لوگ میزوں، میزوں مارے مارے پھر رہے ہیں۔ بلا رشوت کے نہ کوئی کاغذ کھسکتا ہے، نہ فائل۔ حد یہ کہ بلا حق دیے جان بلب مریض اسپتال تک میں بھرتی نہیں ہوپاتے۔ میں کہتا ہوں حالت اب یہ ہے کہ بلا رشوت دیے عوام کو کہیں کوئی راحت نہیں مل سکتی۔
وزیر ٹیکس، (زور دیتے ہوئے) کیا یہ حقیقت ہے کہ بلا رشوت دیے کسی کو، کہیں کوئی راحت نہیں مل سکتی؟
سکریٹری، (سر ہلاتے ہوئے) جی نہیں! بالکل نہیں!
وزیر ٹیکس، (بہت غور کرنے کے بعد اچھل کر) سمجھ میں آگیا!
کہاں بچ کے جاتے ہیں بدمعاش! ابھی لگاتا ہوں، بدعنوانی دشمن ٹیکس، سکریٹری صاحب یہ ہمارا بالکل نیا سماج وادی ٹیکس ہوگا، سمجھے؟ اب یوں رشوت ٹیکس لگاؤں گا۔ اس کے بعد اگر آپ کہیں رشوت کا نام بھی سن لیں تو گدی چھوڑدوں گا گدّی!
سکریٹری، (حیرانی سے) منتری جی مہاراج، چھما کیجئے گا۔ گستاخی معاف۔ آپ کا رشوت ٹیکس کچھ اپنے پلّے نہیں پڑا۔
وزیر ٹیکس، رشوت ٹیکس سے ہماری مراد رشوت پہ ٹیکس ہے۔
سکریٹری، (آنکھیں پھاڑ کر چلاتے ہوئے) سرکار! رشوت توقانون کی نظرمیں ناجائز ہے۔ اس کا لینا بھی جرم ہے اور دینا بھی جرم ہے۔ آپ اسے کیسے لیں گے؟ اور لوگ کیسے دیں گے؟
وزیر ٹیکس، اس کی فکر ان کو کرنا چاہیے جو بجائے جائز آمدنی کے رشوت پہ پل رہے ہوں۔ (آنکھیں چمکاتے ہوئے) ہر سماجی خرابی کی طرح ہم رشوت کے خلاف بھی ایسا قانون بناسکتے ہیں، جو رشوت لینے والوں کے چھکے چھڑادے۔ قانون بنانا ہمارا کام ہے۔
سکریٹری، (حیرت سے) وہ کیسے؟
وزیر ٹیکس، (سمجھاتے ہوئے) مثلاً جب کسی ٹھیکیدار کا بل پھنستا ہے تو اسے کیش کروانے کے لیے، اسے قدم قدم پہ رشوت دینا پڑتی ہے۔ اسی طرح تمام ادائیگیوں میں تاخیر صرف رشوت لینے کے لیے کی جاتی ہے۔ ہم اس تاخیرکو دور کرنے اور اس مسئلے کو حل کرنے کے لیے رشوت ٹیکس لگادیں گے۔
سکریٹری، رشوت ٹیکس لگادیجئے گا؟
وزیر ٹیکس، ہاں! جس دفتر میں کسی بھی بل کی ادائیگی یا کام میں ذرا بھی تاخیر ہوگی، یعنی ہاتھ کے ہاتھ اسی وقت بل کیش کرنے یا کام میں مدد نہ دی گئی، یا عوام کا کسی بھی سرکاری یا غیر سرکاری ادارے میں کاغذ یا فائل فوراًمکمل نہ ہوئی تو متعلقہ افسروں اور ماتحتوں کے بارے میں فرض کرلیا جائے گا کہ انہوں نے رشوت کے چکّر میں یقینا ٹال مٹول کی ہے۔ پھر جرمانے کے طور پر رشوت ٹیکس براہ راست ان کی تنخواہوں سے کاٹ لیا جائےگا۔ یا فوری جرمانوں کی شکل میں ان کے پراویڈنٹ فنڈ یا ذاتی اکاؤ نٹ میں سے کاٹ لیا جائےگا۔ اس کے لیے ہر دفتر اور کارخانے میں انسداد رشوت کا ایک خفیہ شعبہ قائم کیا جائےگا، جس کے جرمانے کی اپیل نہ ہوگی۔
سکریٹری، لیکن سرکار اگر خفیہ کا شعبہ بھی رشوت میں شریک ہو گیا تو؟
وزیر ٹیکس، (زور دیتے ہوئے) ہم اس کی نگرانی کے لیے اس کے اوپر ایک اور خفیہ ایجنسی مسلط کردیںگے۔
سکریٹری، اگر خفیہ ایجنسی مل گئی تو؟
وزیر ٹیکس، (چلّاتے ہوئے) ہم اس کی کڑی نگرانی کے لیے اس کے اوپر ایک وجیلنس ڈائرکٹریٹ بٹھادیں گے۔
سکریٹری، اگر وہ بھی مل گئے؟
وزیر، (گلا پھاڑ کرچلاتے ہوئے) ان بدمعاشوں کے اوپر انتہائی سخت جاسوس لگادیں گے۔ (میز پر مکّا مارتے ہوئے) بہت ہی بھروسے کے جاسوس۔
سکریٹری، حضور خطا معاف! پھر آپ کی رشوت ٹیکس اسکیم تو وہی ہوجائےگی کہ ایک چڑیا آئی اور ایک گیہوں کا دانہ لے گئی۔ ایک چڑیا آئی اور ایک گہیوں کا دانہ لے گئی پھر ایک اور چڑیا آئی اور ایک اورگیہوںکا دانہ لے گئی۔
وزیر ٹیکس، (غرّاتے ہوئے) سکریٹری صاحب! الفاظ سے مت کھیلیے! یادرکھیے، جب بڑے لوگ رشوت نہ لے پائیں گے تو پھر کوئی بھی رشوت نہ لے پائے گا۔ ہم اسمگلروں کی طرح بدعنوان کارکنوں کی بھی جان کو آجائیں گے۔
وزیر ٹیکس کی رشوت اسکیم میں سچ مچ بڑے لوگوں کے بھی نہ بخشے جانے کی بات پر پانچ فیصد یقین کرتے ہی سکریٹری کی آنکھیں خوشی سے چمکنے لگیں اور اس نے وزیر ٹیکس کے پا ؤں چھوتے ہوئے کہا؛
’’مان گیا مہاراج، مان گیا! واقعی بھگوان نے آپ کو بالکل صحیح ٹیکس باندھنے کے لیے پیدا کیا ہے۔ واقعی آپ ہی بجٹ کے دیو کو قابو میں لاسکتے ہیں۔‘‘
وزیر ٹیکس، (مونچھوں کی جگہ پہ تا ؤ دیتے ہوئے) سکریٹری صاحب! بات یہ ہے کہ ہم بالکل صاف ستھرا ایڈمنسٹریشن چاہتے ہیں۔ ہمارا رشوت ٹیکس، کرپشن کی کمر توڑ کر رکھ دےگا اور سوشلزم لاکر رہے گا۔ آخر بے ایمانی سے بھی تو ایمانداری سے نپٹنا ضروری ہے۔
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.