سبزی کانفرنس
’’شاہکار‘‘ کی یہ اشاعت بہار نمبر ہے۔ اس لیے میں نے اس پر چے کے لیے ایسا موضوع منتخب کیا ہے جس کو بہار سے تعلق ہو۔ موسم بہار سے صرف پھول پتیوں کو ہی تعلق نہیں بلکہ سبزیوں کا بھی بہار سے قریبی رشتہ ہے۔ آج میں بہاری اور بہاری سبزیوں کی ان کانفرنس کا ذکر کروں گا جو حال ہی میں ایس پی ایس کے ہال میں منعقد ہوئی۔
قصہ یوں ہوا کہ ملٹری کا ایک ٹھیکہ دار لاہور کی سبزی منڈی میں اکٹھی سبزی خرید نے آیا۔ جو نہی اس نے منڈی کے اندر قدم رکھا، مختلف سبزیاں اسے آوازیں دے دے کر اپنی طرف بلا نے لگیں۔ ٹھیکہ دار آڑھیتوں کی طرف بڑھ رہا تھا کہ شلغم نے بڑھ کر اس کا دامن تھام لیا۔ یہ حرکت دیکھ کر حلوا کدو شلغم سے گتھم گتھا ہو گیا۔ دوسری سبزیاں بھی ٹھیکیدار کو اپنی طرف کھینچنے کے لیے بڑھیں اور سبقت کی کوشش میں ایک دوسری سے لپٹ گیئں۔ ایک کہرام مچ گیا اور ٹھیکیدار یہ حال دیکھ کر بھاگا اور منڈی سے باہر نکل گیا۔
اتفاق سے سردار ہردیپ سنگھ تھا نے دار تھا نہ گوال منڈی، پولیس کی ایک چھوٹی سی جمعیت کے ساتھ ریز گاری چھپانے والو ں کے ہاں چھاپے مارنے کے لیے جا رہے تھے۔ منڈی کے دروازے پر پہنچ کر انہوں نے شور و غوغا سنا تو اندر گئے اور سبزیوں کو منتشر ہونے کا حکم دیا۔ جب اس کا کوئی اثر نہ ہوا تو سردار صاحب نے دھمکی دی کہ آنسو رلانے والی گیس چھوڑ دی جائے گی۔ یہ دھمکی بھی بے اثر رہی تو تھانے دار صاحب نے لاٹھی چارج کا حکم دے دیا۔ چنانچہ اس حکم کی تعمیل کی گئی اور یہ فتنہ خدا خدا کر کے دبا۔
دوسرے دن منڈی کے چودھریوں نے فیصلہ کیا کہ سبزیاں ایک کانفرنس منعقد کریں، جس میں ان کے فوائد و نقائص کا فیصلہ کیا جائے۔ اگلے دن بازاروں میں پوسٹر چسپاں کیے گئے، جن میں اعلان تھا کہ اتوار کو ایس پی ایس کے ہال میں ایک شاندار سبزی کانفرنس منعقد ہوگی۔
وقت مقررہ پر ہال کھچا کھچ بھر گیا۔ ا سٹیج پر سبزیاں براجمان تھیں اور نیچے سارے ہال میں تماشائی۔ تماشائی کون تھے؟ چمچے، چھریاں، سل بٹے، دیگچیاں، ہانڈیاں، چٹو، کونڈیاں، نمک، مرچ، مصا لحہ، ہلدی۔ غرضیکہ دنیائے مطبخ کے تمام ہاشندے۔
کارروائی شروع ہوئی۔ پہلے پیاز نے اٹھ کر جلسے کی غرض وغایت بیان کی اور کہا کہ ’’سیدالطعام‘‘ یعنی کھانوں کا بادشاہ گوشت ہے، اس لیے میں تجویز کرتا ہوں کہ اس کانفرنس کی صدارت حضرت گوشت فرمائیں، جنہیں اسی مقصد کے لیے خاص طور پر مدعو کیا گیا ہے۔ گوشت کی ران اچک کر کرسی صدارت پر جلوہ افروز ہو گئی۔
صاحب صدر نے ایک مختصر سی صدارتی تقریر فرمائی اور کہا کہ جناب پیاز کی طرح میں بھی سبزیوں کے جھگڑے میں غیر جانبدار ہوں۔ میرا ہر سبزی سے میل جول ہے اور میں سب کو محبت کے ساتھ اپنے گلے لگا لیا کرتا ہوں۔ اپنی یہ پوزیشن واضح کرنے کے بعد میں شکریہ ادا کرتا ہوں کہ مجھے صدارت کا شرف بخشا گیا، ورنہ من آنم کہ من ودنم۔
اس تقریر کے بعد حضرت گوشت نے کہا کہ سب سے پہلے جناب شلغم تشریف لا کر تقریر فرمائیں۔ تالیوں کی گونج میں شلغم صاحب کھڑے ہوئے اور آپ نے یوں تقریر شروع کی،
صاحب صدر، معزز حاضرات و حاضرین!
میرا نام شلغم ہے اور میری خوبیاں ہر انسان پر ظاہر ہیں۔ میں جنت کی سبزی ہوں۔ جنت سے میری مراد جنت ارضی ہے یعنی کشمیر۔ کشمیری سے میرا لطف پو چھو اور پھر میرا اچار کھا کے دیکھو۔ ہاتھ کاٹ کے نہ کھا جاؤ تو میرا ذمہ۔ جو بات مجھے دنیا بھر کی سبزیوں سے ممیز کرتی ہے، وہ یہ ہے کہ دوسری سب سبزیاں تو صرف زندہ انسانوں کے استعمال کی چیز ہیں لیکن مجھے مردہ بھی کھاتے ہیں۔ آپ نے سنا ہوگا کہ،
مردہ بدریا مے رود
دیدم کہ شلغم مے خورد
یہ کہہ کر شلغم صاحب ایک طرف کو لڑھک گئے اور صاحب صدر کے کہنے پہ جناب بینگن کھڑے ہوئے اور یوں بولے،
آپ نے شلغم صاحب کی تعلیاں نہیں سنیں۔ ان کو اس بات پرفخر ہے کہ وہ جنت کشمیر کے باشندوں کا من بھاتا کھا جا ہیں لیکن آپ نے یہ بھی دیکھا ہے کہ کشمیر سے جو ہاتو آتا ہے، اس کے سر پر بال نہیں ہوتے۔ گویا شلغم کیا ہے۔ اچھا خاصہ بال اڑانے کا پوڈر ہے اور پھر ایک اور بات ملا خطہ فرمایئے، شلغم جب تک گوشت کے ساتھ نہ پکے اس کی کوئی لذت نہیں۔ مجھ کو دیکھیئے! گوشت نہیں تو نہ سہی، بڑیاں ڈال کر پکایئے تو سبحان اللہ! پیاز کے ساتھ پکایئے تو کیا بات ہے۔ پھر میرا بھرتہ تو ایسی چیزہے کہ اس کا مقابلہ ہی نہیں۔ میرا ذکر بڑے بڑے شاعروں نے کیا ہے۔ مثلا خاقانی کہتا ہے،
پس از سی سال یک نکتہ محقق شد بہ خاقانی
کہ بورانی است بادنجان وبادنجان بورانی
ترک، عرب اور ایرانی بینگن کے اندرسے گودا نکال کر اس کی جگہ قیمہ بھرتے ہیں اور اس کھانے کو شیخ محشی کہتے ہیں۔ گویا مجھے شیخ کا رتبہ بھی حاصل ہے۔ پھر کون ہے جو میری فضیلت سے منکر ہو۔
بینگن کی تقریر ختم ہوئی اور آلو کی تقریر شروع ہوئی۔ جناب آلو نے کہا،
واہ جی واہ! سنیں آپ نے اس سیہ رو کی باتیں؟ کسی نے کہا ہے کہ صورت بہ بیں حالش مپرس۔ ذرا بینگن کا رنگ تو ملاحظہ ہو۔ وہ پنجابی میں اسی کے متعلق کہا گیا ہے، وہ نہ کہ کالا سی کلترسی کالے پیودا پتر سی۔ اور اتنا بدنام کہ تھالی کا بینگن کہلاتا ہے۔ اور پھر اتنا گرم کہ دو تین دن کھاؤ تو کئی بیماریاں لاحق ہو جائیں۔ مجھے دیکھو، ہر موسم میں ملتا ہوں یعنی سدا بہار ہوں۔ امیر غریب سب مجھ سے محبت کرتے ہیں۔ مسلمان ہندو سب کے لیے یکساں ہوں۔ گوشت میں پڑتا ہوں تو مسلمان اور اچھوتوں سے ملتا ہوں تو ہندو۔ نسل کے لحاظ سے ولایتی ہوں۔ انگلستان سے آیا ہوا ہوں۔ اس لیے جس طرح انگریز ہندوستان پر حکمران ہیں، اسی طرح میں بھی سبزیوں کا بادشاہ ہوں۔
یہ الفاظ سن کر ولایتی برتن فرائی پان نے نعرہ لگایا، بادشاہ سلامت زندہ باد!
آلو کی تقریرکے بعد مس مولی کھڑی ہوئی اور اس نے اپنی تقریر اس شعر سے شروع کی،
وہی آلو ترکاری جو پہلے تھی سو اب بھی ہے
وہی کمبخت بھٹیاری جو پہلے تھی سو اب بھی ہے
اس آلو نے ہمارا پیچھا نہ چھوڑا۔ حالانکہ یہ سبزی نہ سبزی کا بھائی۔ جہاں کوئی درخت نہ ہو وہاں خر پردھان ہوتا ہے اور جہاں کوئی سبزی نہ ہو وہاں آلو پردھان۔ پھر ایک غیر ملکی خواہ مخواہ ملک کا پردھان کیوں ہو۔ میں تو تجویز کروں گی کہ ہندوستان کی تحریک آزادی کے حامی آلو سے بھی پیچھا چھڑا نے کی کوشش کریں۔ ان الفاظ پر صاحب صدر نے مولی کو ٹوکا اور کہا کہ آپ سیاست کی طرف جا رہی ہیں۔ یہ مجمع سیاسی نہیں۔ نفس مضمون کے باہر نہ جایئے۔ مولی نے تقریر جاری رکھتے ہوئے کہا،
میں سبزی کی سبزی، پھل کا پھل، کچی بھی کھاؤ اور پکی بھی۔ کئی بیماریوں کا علاج ہوں اور پھر میرا ذکر تو شاعروں کے بابا آدم رو دکی بھی کر چکے ہیں۔ ان کا مصرعہ سنئے،
بوئے جوئے مولیاں آید ہمے
اس موقع پر صاحب صدر کو ایک رقعہ دیا گیا، جس میں لکھا تھا کہ سرسوں کا ساگ ابھی تشریف لایا ہے۔ اس کا نام بھی تقریر کرنے والوں کی فہرست میں درج کر لیا جائے۔ چنانچہ صاحب صدر نے مولی کے بعد ساگ کو تقریر کرنے کے لیے کہا۔ سرسوں کے ساگ نے تقریر شروع کی،
حضرات! میں ابھی ابھی گاؤں سے شہر میں آیا تھا کہ بازار میں پوسٹرمیری نظر سے گزرا، جس سے سبزی کانفرنس کا علم ہوا۔ بڑے افسوس کی بات ہے کہ مجھے اسی کانفرنس کا دعوت نامہ ارسال نہیں کیا گیا۔ معلوم ہوتا ہے کہ یا تو مجھے سبزیوں کی برادری سے خارج سمجھا جاتا ہے یا یہ بے توجہی شہری دیہاتی سوال کے باعث ہے۔ انسانوں میں شہری دیہاتی کا سوال ہو تو ہو، ہم میں یہ امتیاز نہیں ہونا چاہیئے اور میں اس کے خلاف پر زور احتجاج کرتا ہوں۔
میں کوئی لمبی چوڑی تقریر نہیں کروں گا۔ صرف یہ کہنا چاہتا ہوں کہ دیہات میں سرسوں کا ساگ ہی ایک ایسی سبزی ہے جس پرایک پیسہ تک خرچ کرنا نہیں پڑتا (تالیاں) اور میں ہی ایسی چیز ہوں جس کے کھانے سے انسان کا قبض دور ہو جاتا ہے (قہقہے) شہر والے مجھ سے ناجائز فائدہ حاصل کرتے ہیں یعنی مجھے قیمتاًبیچتے ہیں۔ اگر کبھی سبزیوں کی بھی اسمبلی بنی تو میں ایک مسودہ قانون پیش کروں گا جس کے ما تحت سرسوں کے ساگ کی فروخت بندہو جائے۔
اس پر ٹماٹر نے اٹھ کر کہا کہ شہری دیہاتی کا سوال مٹ نہیں سکتا۔ شہری شہری ہیں اور دیہاتی دیہاتی۔ اگر ساگ صاحب کو اس پر اعتراض ہے تو وہ ہال سے تشریف لے جائیں اور اپنے گاؤں کو سدھاریں۔ اس پر بعض سبزیوں نے اعتراض کیا اور بعض نے اس کی تایئد کی۔ ہال میں تو تو میں میں ہونے لگی۔ حتی کہ ہاتھا پائی تک نوبت آ گئی۔ اس پر صاحب صدر نے جلسے کو بر خاست کر دیا اور سبزیاں لڑتی جھگڑتی ہال سے باہر نکل گئیں۔
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.