سیزر، ماتا ہری اور مرزا
’’ہائے اللہ! یہ ہاتھی کا ہاتھی کتا کا ہے کو لے آئے؟‘‘
’’چوکیداری کے لیے۔‘‘
’’کس کی؟‘‘
’’گھر کی۔‘‘
’’اس گھر کی؟‘‘
’’ہاں! بہت ہی ہوشیار کتا ہے۔ گھر میں کچھ نہ ہو، تب بھی چوکیداری کر سکتا ہے۔‘‘
اس ازدواجی مکالمے سے بعد میں یہ فائدہ ضرور ہوا کہ تنخواہ ملتے ہی ہم نے گھر گرہستی کا ضروری سامان خرید ڈالا تا کہ کتا اس کی چوکیداری کر سکے، لیکن والدین کی سمجھ میں آنے والا جو فوری فائدہ ہم نے سردست بیان کیا، اس سے اپنے معصوم بچوں کو جان بوجھ کر محروم رکھنے کے لیے پتھر کا کلیجہ چاہیے۔ وہ فائدہ یہ تھا کہ آخر کو یہ ایک انگریز کا کتا تھا، اور یہ کون نہیں جانتا کہ ہمارے ہاں اَن پڑھ سے اَن پڑھ آدمی بھی اپنے کتے کا نام انگریزی رکھتا ہے اور انگریزی ہی میں اس سے بات چیت اور ڈانٹ ڈپٹ کرتا ہے۔ چنانچہ ہم نے اشارۃً توجہ دلائی کہ اس کی وجہ سے بچوں کو انگریزی بولنا آجائےگی۔
یہ سنتے ہی بیگم نے کتے کے سرپر ہاتھ پھیرا اور زنجیر ایسے فیصلہ کن جھٹکے کے ساتھ ہمارے ہاتھ سے چھین لی، جیسے لیڈی میکبتھ نے میکبتھ کے ہاتھ سے خنجر چھینا تھا،
INFIRM OF PURPOSE!
GIVE ME THE DAGGER…
یادش بخیر! اس ڈراپ سین سے کوئی بیس سال ادھر جب آتش جوان بلکہ نوجوان تھا، اس نے نیلی آنکھوں، بھری بھری ٹانگوں اور ’’بلونڈ‘‘ بالوں والی میم کو باغ میں اپنے جیبی سائز کے ’’پومرینین‘‘ کتے کو بھینچ بھینچ کر پیار کرتے دیکھا تھا۔ تھا بھی ظالم اسی قابل۔ گول مٹول۔ جھبرا۔ سفید بگلا سے بالوں سے سارا جسم اس بری طرح ڈھکا ہوا تھا کہ جب تک چلنا شروع نہ کرے، یہ بتانا مشکل تھا کہ منہ کس طرف ہے۔ ہائے! وہ بھی کیا زمانہ تھا جب ہر چیز جوان تھی۔ ہر چیز حسین تھی۔ ہر چیز پہ ٹوٹ کے پیار آتا تھا۔ کیسے مہکتے دہکتے دن تھے وہ بھی۔ مری سانس میں ہے گرمی کہ یہ لو سی چل رہی ہے۔
اچھی طرح یاد ہے کہ اس دن ان گنہ گار آنکھوں کو زنجیر کے دونوں سروں پر حسن نظر آیا اور دل میں یہ پیار بھری حسرت کروٹیں لینے لگی کہ انگریز کی غلامی سے آزاد ہونے کے بعد کبھی فراغت اور گوشۂ چمن نصیب ہوا تو ایک نیلی آنکھوں، بھری بھری ٹانگوں اور ’’بلونڈ‘‘ بالوں والا کتا ضرور پالیں گے۔ مگر ایک تو بقولِ مرزا اعلیٰ نسل کے کتے باوا کے مول ملتے ہیں۔ دوسرے اس زمانے میں مکان اتنا تنگ تھا کہ جانور کا تندرست رہنا محال۔ وہ تو خدا بھلا کرے مسٹر ایس۔ کے ڈین (شیخ خیر الدین) ایم۔اے (آکسن) کا، جو ہماری آتش شوق کو ہوا دیتے رہے۔ یہ ہمارے دور پرے کے عزیز ہمسائے تھے۔ ان کے پاس ایک بڑا جید کتا تھا۔ خالص ’’گرے ہاؤنڈ‘‘، جسے وہ پڑوسیوں کا خون پلا پلا کر پال رہے تھے۔ دہن رسا رکھتا تھا۔ جسم تتیئے جیسا اور مزاج بھی ایضاً۔ یوں تو بھونکنے کے تمام متداول اصناف میں استادانہ مہارت رکھتا تھا، لیکن چاندنی چھٹکی ہو اور طبیعت حاضر، تو پھر کچھ ایسی ’’اوریجنل‘‘ طرز اختیار کرتا کہ جتنی مرتبہ بھونکتا، طبیعت کو ہربار ایک نئی کوفت حاصل ہوتی۔
دیکھا گیا ہے کہ ایسے ویسے شوقیہ بھونکنے والے کتوں کا سانس تو دوچار دفعہ ہی ٹیاؤں ٹیاؤں کرنے میں اکھڑ جاتا ہے۔ مگر یہ کتا بقول مرزا، اردو میں بھونکتا تھا، یعنی بھونکتا ہی چلا جاتا تھا۔ کہنے والے کہتے تھے کہ مسٹر ایس کے ڈین اپنے نج کے بزرگوں کو اپنے لائق نہیں سمجھتے۔ مگر اپنے اصیل کتے کا شجرۂ نسب پندرہویں پشت تک فرفر سناتے اور اس کے آباو اجداد پر اس طرح فخر کرتے، گویا ان کا خالص خون ان کی ناچیز رگوں میں دوڑ رہا ہے۔ کہتے تھے نہر سویز کے اس طرف اتنا خالص و خونخوار کتا ڈھونڈے سے نہیں ملے گا۔ اس کا دادا پندرہ جون ۱۹۴۱ء کو پانڈیچری میں دیسی کتوں سے لڑتا ہوا مارا گیا۔ چاندنی رات۔ ہو ہو کا عالم۔ چوراہے پر گھمسان کا رن پڑا۔ کتوں کے پشتے لگ گئے تھے۔
محلے میں مشہور تھا کہ مسٹر ڈین کے ہاں کوئی گھبرایا گھبرایا فائر بریگیڈ کو فون کرنے بھی چلا جائے تو اسے اپنے مرحوم کتوں کے البم دکھائے بغیر فون کو ہاتھ نہیں لگانے دیتے۔ ڈرائنگ روم میں مسٹر ڈین کی ایک بڑی سی تصویر بھی ٹنگی تھی، جو انہوں نے اپنے کتے کے جیتے ہوئے کپ اور ٹرافیوں کے ساتھ کھڑے ہو کر اور اس کے تمغے کوٹ پر لگا کر کھنچوائی تھی۔ ہماری دیرینہ حسرت و شیفتگی کے پیش نظر ایک دن تخلیے میں ہمیں اپنے ٹیپ ریکارڈ پر موجودہ کتے کے والد مرحوم کا بھونکنا سنایا۔ سن کر خود آبدیدہ ہوئے اور ہمیں بھی ان کی حالت دیکھ کر رونا آ گیا۔
کتا پالنے کی حسرت کا اظہار ہم نے بارہا مرزا کے سامنے کیا، مگر وہ کتے کا نام آتے ہی کاٹنے کو دوڑتے ہیں۔ کہتے ہیں ،’’ہٹاؤ بھئی! واہیات جانور ہے۔ بالکل بے مصرف۔ کتے کی تخلیق کا واحد مقصد یہ تھا کہ پطرس اس پر ایک لاجواب مضمون لکھے۔ سو یہ مقصد، عرصہ ہوا، پورا ہوچکا اور اب اس نسل کو زندہ رہنے کا کوئی حق نہیں۔‘‘ وہ تو یہاں تک کہتے ہیں کہ یہ نسل ناپید ہو بھی گئی تو اردو طنز نگاروں سے نام چلتا رہے گا۔ یوں تو سبھی جانوروں کے بارے میں مرزا کی معلومات ظالمانہ حدتک ادھوری ہیں (مثلاً ابھی کل شام تک وہ لومڑی کو گیدڑ کی مادہ سمجھے بیٹھے تھے اور۔۔۔ غضب خدا کا۔۔۔ بڑے چیونٹے کو عام چیونٹی کانر!) مگر کتوں کے ساتھ وہ خصوصیت سے تعصب برتتے ہیں اور اپنی بات کی پچ میں ایک سے ایک دلیل پیش کرتے ہیں۔ مثال کے طور پر ایک دن کہنے لگے، ’’جس گھر میں کتا ہو، اس گھر میں چور ہی نہیں، رحمت کے فرشتے بھی داخل نہیں ہو سکتے۔‘‘
’’چور کا داخل نہ ہونا تو سمجھ میں آتا ہے، مگر رحمت کے فرشتوں کو کیا ڈر ہے؟‘‘
’’اس لیے کہ کتا ناپاک ہوتا ہے۔‘‘
’’مگر کتے کو صاف ستھرا بھی تو رکھا جا سکتا ہے۔ انگریزوں کو دیکھیے، صبح و شام نہلاتے ہیں۔‘‘
’’اپلے کو اگر صبح و شام صابن سے دھویا جائے تو کیا پاک ہوجائے گا؟‘‘
’’مگر سوال یہ ہے کہ کتا ناپاک کیسے ہوا؟‘‘
’’کج بحثی کوئی تم سے سیکھے۔ اللہ بخشے، نانی جان کہا کرتی تھیں کہ کتے کے منہ میں سؤر کی رال ہوتی ہے۔‘‘
’’لیجیے۔ آپ نے ناپاکی کی ایک اچھوتی توجیہہ تلاش کر لی۔‘‘
’’بھائی میرے! ایک موٹی سی پہچان آج تمہیں بتائے دیتا ہوں۔ یاد رکھو، ہر وہ جانور جسے مسلمان کھا سکتے ہیں، پاک ہے۔‘‘
’’اس لحاظ سے مسلمان ممالک میں بکروں کو اپنی پاکی و طہارت کے سبب، خاصا نقصان پہنچا ہے۔‘‘
’’بکنے والے بکا کریں۔ مسلمانوں نے کتے کو ہمیشہ کتا ہی کہا۔ بڑے آدمیوں کے نام سے نہیں پکارا۔‘‘
’’بڑے آدمیوں کی ایک ہی رہی۔ آپ نے سنا نہیں کہ نسلاً سب کتے ایک زمانے میں بھیڑیے تھے؟ آدمی کی صحبت میں ان کا بھیڑیا پن جاتا رہا۔ مگر خود آدمی۔۔۔‘‘
’’دیکھو، تم پھر لٹریچر بولنے لگے۔ علموں بس کریں او یار!‘‘
اس بارۂ خاص میں مرزا کے نسلی تعصب کی جڑیں ان کے سگ گزیدہ بچپن تک پہنچتی ہیں۔ اس لیے ہم نے خواہ مخواہ ان سے الجھنا مناسب نہ سمجھا اور چپ چاپ کتا رکھنے کی آرزو کو پالتے رہے۔ یہاں تک کہ وہ دن آگیا، جب ہمارا انگریز افسر بھاری دل اور اس سے زیادہ بھاری قدموں کے ساتھ اپنے وطن کی جانب روانہ ہوا۔ اور روانگی سے قبل اس تعلق خاطر کی بنا پر، جو ہم کو اس سے اور اس کو اپنے کتے سے تھا، دریافت کیا، ’’تم چاہو، تو میرا کتا بطور یادگار رکھ سکتے ہو۔ امپورٹڈ السیشن ہے۔ تیرہ ماہ کا۔ ’سیزر‘ کہہ کر پکارو تو دم ہلاتا آتا ہے۔‘‘ آپ اندازہ نہیں کر سکتے، اس صلائے خاص میں ایک کمزور دل کے آدمی کے لیے للچاہٹ کے کیا کیا سامان پوشیدہ تھے۔ اس میں مطلق شبہ نہ تھا کہ اس سے بہتر کوئی یادگار نہیں ہوسکتی کہ جب بھی وہ بھونکے گا، افسر کی یاد تازہ ہو جائے گی۔ پھر یہ کہ السیشن! کبھی ہم اس کو، کبھی اپنے گھر کو دیکھتے ہیں! افسر کی ادنیٰ مہربانی سے ہمیں اتنی خوشی ہوتی ہے کہ بقول مرزا، اگر اس وقت ہمارے دم ہوتی تو ایسی ہلتی کہ پھر نہ تھمتی۔
رہی سہی ہچکچاہٹ کو لفظ ’’امپورٹڈ‘‘ نے دور کر دیا۔ اس زمانے میں ہر وہ شے جو وطنِ عزیز میں پیدا نہ ہوئی ہو، قدر و منزلت کی نگاہ سے دیکھی جاتی تھی۔ چنانچہ ہر بگڑا ہوا مسلمان رئیس یہ ثابت کرنے پر تلا بیٹھا تھا کہ نہ صرف اس کے کتے کے، بلکہ اس کے اپنے بزرگ بھی اصلی امپورٹڈ تھے اور خالی ایک تلوار لے کر ماوراء النہر سے ہندوستان میں وارد ہوئے تھے۔ امپورٹڈ کتا سماج میں کیا حیثیت رکھتا ہے، اس کا سرسری سا اندازہ اِن واقعات سے لگایا جا سکتا ہے جو دو سال پیشتر ہماری نظر سے گزر چکے تھے۔ ہم سے چار گھر دور مسٹر خلجی بیرسٹر رہتے تھے۔ ان کے والد مرحوم نے چند نایاب کتے ترکے میں چھوڑے تھے۔ (چھوڑنے کو تو چند نایاب کتابیں بھی چھوڑی تھیں، مگر چونکہ وہ بھی کتوں ہی سے متعلق تھیں، اس لیے ہم نے قصداً ذکر نہیں کیا۔) انہی میں کی ایک دوغلی سی کتیا تھی۔ (جس کے متعلق ان کا فخریہ دعویٰ تھا کہ اس کی نانی جو زیفین کے تعلقات راسپوٹن سے رہ چکے تھے، جو ایک امپورٹڈ ’’گریٹ ڈین‘‘ کتا تھا۔ نیز یہ کہ وہ شملہ سول اینڈ ملٹری کینل سے اس واردات کلبی کا سرٹیفیکٹ حاصل کرچکے ہیں، جو ان کے سونے کے کمرے میں آج بھی آنکھوں کو نور، دل کو سرور بخشتا ہے۔)
نام ماتا ہری رکھ چھوڑا تھا۔ کسی زمانے میں اس کے لجلجے کان ہر وقت لٹکے رہتے تھے۔ مگر انہوں نے شہر کے بہترین سرجن سے آپریشن کرا کے السیشن کی طرح کھڑے کرا لیے تھے۔ رنگ ہلکا براؤن جیسے میٹھی آنچ پر سنکا ہوا توس۔ بیرسٹر صاحب کی اینگلو انڈین بیوی (جو خود بھی بڑی بھری پری عورت تھی اور سلطنت کی طرح دست بدست آئی تھی) اس پر اپنے ہاتھ سے یوڈی کلون چھڑک کر، مگر مچھ کی کھال کا جڑاؤ کالر پہنائے گھمانے لے جاتی اور اپنے جوتے سے میچ کرنے کے لیے اس پر ٹوتھ برش سے خضاب لگا دیتی۔ کبھی سیاہ، کبھی بولتا ہوا عنابی۔ یہ تو گرمیوں کی شاموں کے معمولات میں سے تھا۔
جاڑے میں ماتا ہری فرنچ برانڈی کے دو چمچے غٹاغٹ پی کر ایرانی قالین پر اپنی مالکہ کی طرح اطالوی ریشم کی انگیا کی تہمت لگائے سوتے جاگتے پہرا دیتی تھی۔ صورتاً بھیڑیا اور سیرۃ ًبھیڑ۔ ہم بھیڑ اس لیے کہہ رہے ہیں کہ صبح و شام ولایتی بسکٹ اور ڈبے کا گوشت کھاتے رہنے کے باوجود (یا شاید اسی وجہ سے) بقرعید کی رات کو محلے کے قصائی کے ساتھ بھاگ گئی اور تین شب بعد مٹکتی مٹکاتی لوٹی بھی تو اس طنطنے سے کہ ایک درجن رفقائے حیات جلو میں۔ چال جیسے قرۃ العین حیدر کی کہانی۔۔۔ پیچھے مڑمڑ کر دیکھتی ہوئی۔ خوش صحبتی کے گلی گلی چرچے، مگر ذہانت چھوکر نہیں گئی تھی۔ بقول مرزا بالکل گدھی تھی۔
انہیں سے مروی ہے کہ اکثر بازاری کتیوں کے پلے آکر چسر چسر اس کے دودھ کا آخری قطرہ تک پی جاتے اور اپنے بچے دم ہلاتے یا پلاسٹک کی ہڈیاں چچوڑتے رہ جاتے۔ مگر ایمان کی بات یہ ہے چوکیداری کے لیے چنداں بری نہ تھی کہ اپنی عزت آبرو کے علاوہ ہر چیز کی بخوبی حفاظت کر سکتی تھی۔ اس کے یہ لچھن دیکھے تو بیرسٹر صاحب نے اس کی رکھوالی کے لیے ایک چوکیدار رکھا۔ اسی سال گرمیوں کی چھٹیوں میں وہ اپنے کنبے اور کتیا سمیت کار سے مری جانے لگے تو ان کے نانا جان قبلہ نے اچھا خاصا ہنگامہ کھڑا کردیا۔ بس اڑگئے کہ میں اس ’’بخس کتی‘‘ کے ساتھ کار میں سفر نہیں کر سکتا۔ لہٰذا بیرسٹر صاحب ان کو ہمارے ہاں چھوڑ گئے۔ جتنے دن بزرگوار موصوف ہمارے ہاں مہمان رہے بعد نماز عشاء ہاتھ پھیلا کر منتقم حقیقی سے دعا مانگتے کہ پروردگارا! مال زادی ماتا ہری سالانہ زچگی میں اپنے کیفرکردار کو پہنچے۔ کتیا کہیں کی۔
ہر رنگ، ہر سائز کی گالی ان کی روزمرہ گفتگو میں نگینے کی طرح جڑی ہوتی۔ دن بھر نماز کی چوکی پر بیٹھے سب کو حسب مراتب خورد و کلاں گالیاں دیتے رہتے۔ دعا میں بھی بے ساختہ یہی رنگ رہتا۔ مرزا کا خیال تھا کہ اگر وہ اپنے دل پر جبر کرکے دعا میں سے گالیاں حدف کردیتے تو ساری تاثیر جاتی رہتی۔ جو دعا دل سے نہ نکلے کیونکر مستجاب ہوسکتی ہے؟ اوقاتِ دعا کے علاوہ ہر آئے گئے کے سامنے اپنے نافرمان نواسے کے امتیازی سلوک کی شکایتوں کے دفتر کھول دیتے۔ ان کے تمام شکوے شکایتوں کا لب لباب بس یہ تھا کہ میرے ساتھ کتے جیسا سلوک کیوں نہیں کیا جاتا! آخر میں بھی جان دار ہوں۔
امپورٹڈ کتے کی چھیل چھبیلی نواسی کی یہ لذیذ حکایت بیان کرنے کا مدعا یہ ہے کہ لفظ ’’امپورٹڈ‘‘ نے انگریز افسر کے منہ سے نکلتے ہی ہماری مدافعت کی دیوار کو، جو کبھی بھی بہت بلند اور پختہ نہ تھی، یک لخت ڈھا دیا۔ بھلا ایسے صحبت یافتہ کتے روز روز کہاں ملتے ہیں۔ بالآخر شوق فضول ہمارے فطری خوف پر غالب آیا اور جہاز کا لنگر اٹھنے سے پہلے ہم نے اپنےآپ کو ایک خوش نصیب کتے کا مالک پایا۔ لیکن ایک بات کے لیے ہم بھی ذہنی بلکہ جسمانی طور پر تیار نہ تھے۔ ’’تیرہ ماہ‘‘ کی عمر سن کر ہمارے تصور میں ایک بہت ہی بھولی بھالی صورت ابھری تھی۔ ہم نےسوچا، جیسے تیرہ مہینے کا آدمی کا بچہ بڑا پیارا سا ہوتا ہے۔ تھن متھنا، گبداسا،غاؤں غاؤں کرتا ہوا، ویسا ہی یہ بھی ہوگا۔ سچ تو یہ ہے کہ بچہ کسی کا بھی ہو، بڑا ’’سویٹ‘‘ لگتا ہے۔ پھر یہ تو السیشن کا بچہ ٹھیرا۔ جی ہاں بچہ! دراصل ہم اس کے ’’امپورٹڈ‘‘ ہونے سےاس قدر مرعوب تھے کہ پلا کہتے ہوئے خود شرم سی محسوس ہوتی تھی۔
مگر سیزر ہر اعتبار سے ہماری توقعات سے بڑھ کر نکلا۔ اس کا سراپا کھینچ کر ہم ناظرین کا وقت ضائع نہیں کرنا چاہتے۔ اس کے ڈیل ڈول کا سرسری سا اندازہ اس امر سے لگایا جا سکتا ہے کہ ہمارے دیرینہ کرم فرما پروفیسر قاضی عبدالقدوس کی سالم ران اس کے منہ میں آجاتی تھی۔ اور یہ پروفیسر مذکور ہی نے بتایا کہ بندۂ خدا! تم نے بھی بڑا غضب کیا۔ تیرہ مہینے کا السیشن تو پورا پاٹھا کتا ہوتا ہے۔ کتابوں میں لکھا ہے کہ تین مہینے سے زیادہ کا السیشن نہیں لینا چاہیے۔ اس پر مرزا نے یہ نمک چھڑکا کہ آنکھوں دیکھی بات ہے،کتے کی تندرستی اور نسل اگر مالک سے بہتر ہو تو وہ آنکھیں ملا کر ڈانٹ بھی نہیں سکتا۔ پھر یہ تو غیرمعمولی طور پر خونخوار بھی نظر آتا ہے۔ ہم نے کہا، مرزا! تم خواہ مخواہ ڈرتے ہو۔ بولے، جو شخص کتے سے بھی نہ ڈرے، مجھے اس کی ولدیت میں شبہ ہے۔ ہم نے کہا مرزا! کتا اگر خونخوار نہ ہوتو پالنے سےفائدہ؟ پھر آدمی بکری کیوں نہ پال لے۔ بولے، ہاں! بکری کتے سے بدرجہا بہتر ہے۔ بڑی بات یہ کہ جب چاہو، کاٹ کر کھا جاؤ۔
گر چہ چھوٹی ہے ذات بکری کی
دل کو بھاتی ہے بات بکری کی
بحثا بحثی میں ہم دونوں پٹری سے اتر گئے تھے۔ لہٰذا پروفیسر قاضی عبد القدوس نے بحیثیت ثالث بالخیر بیچ میں پڑ کے اس معتدل رائے پر بحث ختم کی کہ کتے میں سے اگر جبڑا نکال دیا جائے تو خاص معقول اور مخلص جانور ہے۔ قاضی عبد القدوس نے کچھ غلط نہیں کہا تھا کہ بڑا کتا بڑی مشکل سے سدھایا جاتا ہے۔ پھر نیا گھر، نئے چہرے،نئی بوباس۔ نتیجہ یہ کہ پہلی رات خود سویا نہ دوسروں کو سونے دیا۔ رات بھر ایک سانس میں منہ زبانی بھونکتا رہا۔ دوسری رات بھی وحشت کا یہی عالم رہا۔ البتہ چوبیس گھنٹے کی تربیت سے اتنا فرق ضرور پڑا کہ فجر کے وقت جن اراکین خاندان کی آنکھ لگ گئی تھی، ان کے منہ چاٹ چاٹ کر خوابِ غفلت سے بیدار کیا۔ تیسرے رتجگے سے پہلے ہم نے اسے ایک سونے کی گولی دی۔ کوئی افاقہ نہیں ہوا۔ چوتھی رات دو دیں، مگر صاحب! کیا مجال، جو ذرا چپکا ہو جائے۔ زچ ہوکر مرزا سے رجوع کیا تو کہنے لگے، میری مانو، آج اسے کچھ نہ دو۔ خود تین گولیاں کھالو۔ ہم نے ایسا ہی کیا۔ اس رات وہ بالکل نہیں بھونکا۔
لیکن حیرت اس بات پر ہوئی کہ صبح دس بجے ہمارے بہرے ہمسائے خواجہ شمس الدین (امپورٹر اینڈ ایکسپورٹر) نے، جو نئے نئے پڑوس میں آئے تھے، ہمیں بڑی بدتمیزی سے جھنجھوڑ کر جگایا اور شکایت کی کہ رات بھی آپ کا کتا میرے گھر کی طرف منہ کرکے خوب بھونکا۔ اور (ہیئرنگ ایڈ یعنی سننے کا آلہ اپنے کان میں فٹ کرتے ہوئے) اور دیکھ لیجیے، اس وقت بھی بہت جی لگاکے بھونک رہا ہے! ہم نے کہا، آپ کا ریڈیو بھی تو سارے سارے دن محلے کو سر پر اٹھائے رکھتا ہے۔ خدا گواہ ہے جس دن سے آپ پڑوس میں اٹھ کر آئے ہیں، ہم نے اپنے ریڈیو پر پروگرام سننا بند کردیا ہے۔ پھر یہ کہ ہمارے پاس تو کتے کا لائسنس بھی ہے۔
لائسنس کا نام آتے ہی ان کے چہرے کا رنگ سیاہ سے بینگنی ہوگیا۔ جس کے نتیجے میں وہ اور ان کا ریڈیو تین ہفتے تک خاموش رہے۔ البتہ ان کے چوکیدار کی زبانی معلوم ہوا کہ وہ راتوں کو اٹھ اٹھ کے اپنی ہیئرنگ ایڈ کان سے لگا کر سنتے ہیں کہ ہمار کتا بھونک رہا ہے یا سو گیا۔ ہمارے کانوں میں یہ بھنک بھی پڑی کہ اب وہ ہر ایک سے یہ کہتے پھر رہے ہیں کہ بعض نادہند اپنے قرض خواہوں سے بچنے کے لیے کتے پال لیتے ہیں۔ وہ یہ کہتے بھی سنے گئے کہ سیزر اشرافوں کا کتا معلوم نہیں ہوتا۔ ادھر ان کی بیوی کی بدگمانی کا یہ حال تھا کہ سیزرجھوٹوں بھی دروازے میں سے جھانک لے تو جھٹ ہاتھ بھر کا گھونگھٹ نکال لیتی تھیں۔
تین ہفتے بعد دیکھا کہ پھر منہ پھلائے کلبہ احزاں کی طرف چلے آرہے ہیں۔ ہمارے پرجوش السلام علیکم کے جواب میں فرمایا، دیکھیے، اس سور کے بچے نے کیا کیا ہے؟ مرزا بیچ میں بول اٹھے۔ منہ سنبھال کر بات کیجیے۔ وہ کتے کا بچہ ہے۔ اس حَملہ معترضہ کے بعد ہم بھی کچھ سخت بات کہنے والے تھے کہ مرزا نے جو اس وقت ہم سے ’’لوڈو‘‘ کھیل رہے تھے، ہمارے کہنی مار کر اپنی چھجے دار بھووں کی جنبش سے خواجہ شمس الدین کی بائیں ٹانگ کی طرف اشارہ کیا جو گھٹنے تک پائینچے سے بے نیاز تھی۔ ہم نے کن انکھیوں سے دیکھا تو زخم واقعی اتنا لمبا تھا کہ زپ لگاکر بآسانی بند کیا جا سکتا تھا۔ ندامت اور انسانی ہمدردی کے جذبات سے مغلوب ہوکر ہم نے پوچھا:
’’کیا کتے نے کاٹا ہے؟‘‘
’’جی نہیں! میں نے خود ہی کاٹا ہے!‘‘
’’ارے صاحب! گھوڑے بھی کچھ کم ظالم نہیں ہوتے؟‘‘ مرزا پھر بول اٹھے۔ مرزا کا یہ پر شماتت وار ایسا اچانک اور کاری تھا کہ وہیں ڈھیر ہوگئے۔ ایک دفعہ کو اپنے جسمانی زخم بھول گئے اور اندرونی چوٹوں کو سہلاتے اور گھوڑوں کی ماں بہنوں کو ارمان بھری گالیاں دیتے ’’فیڈآؤٹ‘‘ ہوگئے۔ قصہ در اصل یہ تھا کہ ان کے بزرگ خیبر پار سے گھوڑے بیچنے ہندوستان آئے تھے اور مالا مال ہو کر یہیں پڑ رہے۔ آگے چل کر ان بزرگوں کی اولاد کو انہی گھوڑوں کی ناخلف اولاد نے تباہ کر ڈالا۔ وہ اس طرح کہ اس خانوادے کے آخری چشم و چراغ خواجہ شمس الدین کی ’’بلیک‘‘ کی کمائی کی ایک ایک پائی ریس میں انہیں گھوڑوں کے بھینٹ چڑھتی اور ان کے اپنے اہل و عیال انکم ٹیکس والوں کی طرح منہ دیکھتے رہ جاتے۔
اس نوع کی خوش طبعی سے قطع نظر سیزر ابتدائے سن بدتمیزی سے پرلے درجے کا کاہل واقع ہوا تھا اور دوڑ دوڑ کر کام کرنےکے بجائے دن کے بیشتر حصے میں دروازے پر محراب کی شکل میں چھائی ہوئی بوگن ولیا کے سائے میں لوٹیں لگاتا رہتا۔ درزی کی سوئی یوں تو ہر طرح کے کپڑے میں سے نکلتی ہے، مگر ایمان کی بات ہے، ہم نےسیزر کو کبھی کسی غلط آدمی کو کاٹتے نہیں دیکھا اور یہ کہنا تو سراسر غلط بیانی اور تہمت طرازی ہوگی کہ وہ بالکل جنگلی یا بے کہا تھا۔ سدھا سدھایا ضرور تھا مگر صرف پچاس فی صد۔ اس اجمال پر ملال کی تفصیل یہ ہے کہ اگر بچے حکم دیتے کہ جاؤ، اس راہ گیر کے پیچھے لگ جاؤ، تو یہ میرا شیر اپنی کمین گاہ سے نکل کر تعمیلاً جھپٹ پڑتا اور اس کی ٹائی پکڑکے لٹک جاتا۔ لیکن جب دوسرا حکم ملتا کہ چھوڑ دو تو مجال ہے جو چھوڑ دے۔
مرزا کو مبدء فیاض نے حد درجہ محتاط اور وہمی طبیعت ودیعت کی ہے۔ ہمیں یقین ہے کہ انہیں آب حیات بھی پینا پڑے تو بغیر ابالے نہیں پییں گے۔ اسی وضع احتیاط کے باعث انہوں نے سیزر کے آنے بعد ہمارے ہاں آنا جانا اتنا کم کر دیا کہ کبھی بھولے بھٹکے آ نکلتے تو ہم سب ان کی ایسی خاطر مدارات کرتے، ایسی گرم جوشی سے ملتے کہ انہیں خدشہ ہونے لگا کہ ہم قرض نہ مانگ بیٹھیں۔
ایک دن ہمارے ایماء پر پروفیسر عبد القدوس مرزا کو طرح طرح سے سمجھانے لگے کہ کتا بڑا بے نظیر جانور ہے۔ کتے کے سوا کوئی جان دار پیٹ بھرنے کے بعد اپنے پالنے والے کا شکر ادا نہیں کرتا۔ غور کرو، دم دار جانوروں میں کتا ہی تنہا ایسا جانور ہے جو اپنی دم کو بطور آلۂ اظہار خلوص و خوشنودی استعمال کرتا ہے۔ ورنہ باقی ماندہ گنوار جانور تو اپنی پونچھ سے صرف مکھیاں اڑاتے ہیں۔ دنبہ یہ بھی نہیں کر سکتا۔ اس کی دم صرف کھانے کے کام آتی ہے۔ البتہ بیل کی دم سے ’’ایکسی لیٹر‘‘ کا کام لیا جاتا ہے۔ مگر تمہیں بیل گاڑی تھوڑی دوڑانی ہے۔ (مرزا کے زانو پر ہاتھ مار کر) ہائے! ایک فرانسیسی ادیبہ کیا خوب کہہ گئی ہے کہ میں آدمیوں کو جتنے قریب سے دیکھتی ہوں، اتنے ہی کتے اچھے لگتے ہیں! (لہجہ بدل کر) کتوں سے ڈرنا بڑی نادانی اور بزدلی ہے۔ خصوصاً ولایتی کتوں سے۔
پھر مرزا کا ڈر نکالنے کے لیے انہی کے کھچڑی سر کی قسمیں کھا کھا کر یقین دلایا کہ انگریزوں کے کتوں کے دانت مصنوعی ہوتے ہیں۔ کھانے کے اور، کاٹ کھانے کے اور۔ قسموں سے بھی بات بنتی نظر نہ آئی تو ہماری طرف اشارہ کرکےاپنا ذاتی تجربہ بیان کیا کہ ان کی دیکھا دیکھی میں نے بھی تین ہفتے سے ایک دم کٹا ’’کاکر اسپینل‘‘ پلا پال رکھا ہے۔ (کاکر اسپنیل کی مشہور پہچان معلوم ہے؟ اس کے کان اس کی ٹانگوں سےلمبے ہوتے ہیں اور ٹانگیں اتنی چھوٹی کہ زمین تک نہیں پہنچ پاتیں۔) دو ہفتے تک تو بچے دن دن بھر اسے گود میں لیے بھونکنا سکھاتے رہے۔ مگر اب ان کو اس سے ذرا دور ہی رکھتا ہوں۔ کیونکہ جمعہ کو چھوٹے بچے نے کھیلتے کھیلتے اچانک اسے کاٹ کھایا۔ اپنے پہلے دانت سے۔ ابھی تک پلے کے پنسلین کے انجکشن لگ رہے ہیں۔
پروفیسر قاضی عبدالقدوس بے دودھ کی کافی کے گھونٹ لے لے کر یہ سگ بیتی سنا رہے تھے۔ بیٹھے بیٹھے سیزر کو نہ جانے کیا ہڑک اٹھی کہ بوگن ولیا کی اوٹ سے ان کے قیمہ بھرے سموسے پر جھپٹا۔ کافی منہ کی منہ میں رہ گئی۔ بدحواسی میں پیالی مرزا کے سرپر گری (جس سے مؤخر الذکر کئی جگہ سے چٹخ گیا) اور پروفیسر مذکور گرم کافی کا غرارہ کرتے ہوئے اپنے قد سےاونچا پھاٹک پھلانگ گئے۔ مرزا نے پوچھا، ’’کتے سے ڈر گئے؟‘‘
’’نہیں تو!‘‘ وہ پھاٹک کے دوسری طرف سے بڑے خوددار لہجے میں تھر تھر کانپتے ہوئے بولے۔
ممکن ہے یہ گفتگو کچھ دیر اور جاری رہتی، مگر موضوع گفتگو نے ایک ہی جست میں پروفیسر قاضی عبدالقدوس کو دبوچ لیا اور ان کی سڈول ران میں اپنے نوکیلے، کِیلے پیوست کر دیے۔ وہ منہ پھیر کر کھڑے ہوگئے۔ چار پانچ دن پہلے بھی ایسی ہی گتھم گتھا ہوچکی تھی کہ کبھی کتا ان کے اوپر اور کبھی۔۔۔ اور کبھی وہ کتے کے نیچے۔ لہٰذا ہم نے پھر بوگن ولیا کی کانٹے دار ٹہنی توڑ کر ایک قمچی بنائی اور اس بدتمیز کو سڑاک سڑاک مارنےکو دوڑے۔ مگر پروفیسر موصوف جہاں کے تہاں ہاتھ جوڑ کر کھڑے ہوگئے۔ کہنےلگے، للہ! یہ نہ کرو۔ ابھی تو میرے پچھلے نیل بھی نہیں مٹے۔
جیسا کہ ہمارے پڑھنے والوں نے بھانپ لیا ہوگا، کتا پالنا تو ایک طرف رہا، کتوں اور پروفیسر قاضی عبدالقدوس کے باہمی تعلقات کاٹنے اور کٹوانے کے کامیاب تجربات سے کبھی آگے نہیں بڑھے۔ ورنہ ان کا علم الحیوانات اس حد تک کتابی یعنی ناقص ہے کہ ہمارے بچے جس دن بازار سے طوطے کا پہلا جوڑا خرید کر لائے تو اُن سے دریافت کیا چچا جان! ان میں نرکون سا ہے اور مادہ کون سی؟ فاضل پروفیسر نے چار پانچ منٹ تک سوال اور جوڑے کوالٹ پلٹ کر دیکھا۔ پھر بہت محتاط انداز میں فرمایا، ’’بیٹا! یہ بہت طوطا چشم جانور ہوتا ہے۔ ابھی دو تین مہینے اور دیکھو۔ دونوں میں سے جو پہلے انڈے دینا شروع کردے، وہی مادہ ہوگی۔‘‘ خیر، یہ لاعلمی تو انسانی معذوری سمجھ کر پھر بھی معاف کی جا سکتی ہے کیونکہ طوطا اپنی مادہ کو انسان کی بہ نسبت زیادہ آسانی سے پہچان لیتا ہے، لیکن ایک دن ناصحانہ انداز میں بڑے تجربے کی بہت باریک بات یہ بتائی کہ یقین مانو، کتا رکھنے سے صحت بہتر ہو جاتی ہے۔ یہ سننا تھا کہ مرزا نے اتنے زور کا قہقہہ لگایا کہ تعلقات میں فوراً بال پڑگیا جوکئی دفعہ کافی پلانے کے بعد دور ہوا۔
تعلقات جب از سر نو اس درجہ خوشگوار ہوگئے کہ ابے تبے سے گفتگو ہونے لگی تو مرزا کو تپانے کے لیے وہ پھر ثنائے سگ میں مشغول ہوگئے۔ ایک دن موج میں جو آئے تو بشارت دی کہ طبی نقطۂ نگاہ سے کتا بہت مفید و مقوی جانور ہے۔ یہ سن کر مرزا انہیں مسلمان نظروں سے دیکھنے لگے تو وہ اپنے دونوں ہاتھوں کی انگلیوں پر اپنے ساتھ کے ان بیماروں کے نام گنوانے لگے، جنہیں اس نسل نے تندرستی کی دولت سے مالا مال کر دیا تھا۔ اور دور کیوں جائیں۔ خود ان کو اپنے بالشت بھر کے پلے سے بے انتہا فائدہ پہنچ رہا تھا۔ مرزا نے کہا، ’’ذرا کھول کے بات کرو۔‘‘ بولے، ’’اب تم سے کیا پردہ۔ کتے کو روزانہ گوشت چاہئے۔ اور یہ ہم پر کتا پالنےکے بعد ہی منکشف ہوا کہ پہلے ہمارے گھر میں روزانہ گوشت نہیں پکتا تھا اور ہم بڑی لا علمی میں زندگی بسر کر رہے تھے!‘‘ ان کی بنا سپتی زندگی پر جو پردۂ غفلت چالیس سال سےپڑا ہوا تھا، اس کے دفعتاً اٹھنے بلکہ چاک ہونے کے بعد ہم اپنی آنکھوں سے دیکھ رہے تھے کہ اب وہ اپنی صحت سے اس قدر مطمئن ہوگئے تھے کہ ایک نمبر بڑا جوتا پہننا شروع کردیا تھا۔
ہم تو اس کو حسن اتفاق ہی کہیں گے کہ مدتوں بعد پروفیسر موصوف کی تندرستی ایک دم ایسی بحال ہوئی کہ ہمیں رشک آنے لگا۔ اس لیے کہ اب وہ اس قابل ہوگئے تھے کہ مہینے میں تین چار دن بغیر دوا کے رہ سکتے تھے۔ مرزا کہتے تھے کہ اس کی اصل وجہ یہ ہے کہ انہیں اپنے خیالی پلے کو صبح شام دو تین میل ٹہلانا پڑتا ہے۔
اونچی ذات کے کتوں کی صحت بخش صحبت سے پروفیسروں کی کایا پلٹ ہونا تو غیر شاعرانہ خیال آرائی ہے۔ تاہم اس کی گواہی سارا محلہ دے گا کہ ہمارے بعض احسان فراموش ہمسایوں کی گرتی ہوئی صحت پر سیزر کی موجودگی، خصوصاً اس کے بھونکنے کا نہایت خوشگوار اثر پڑا۔ جس کا ایک ادنیٰ کرشمہ یہ تھا کہ غریب خانے کے سامنے سے گزرتے ہوئے لدھڑ سے لدھڑ پڑوسی کی چال میں ایک عجیب چوکنا پن، ایک عجیب چستی اور لپک جھپک پیدا ہوجاتی تھی۔ سیزر منٹوں کا فاصلہ لمحوں میں طے کروادیتا تھا۔ اوروں کا کیا ذکر، خود خواجہ شمس الدین (امپورٹر اینڈ ایکسپورٹر) جو کہنے کو سیزر سے نالاں تھے، اس کے فیضانِ صحت سے اپنے کو نہ بچا سکے۔
سیٹھ صاحب موصوف کم و بیش پندرہ سال سے لو بلڈ پریشر (Low Blood Pressure) کے لاعلاج مریض تھے۔ علاج معالجے، ٹونے ٹوٹکوں پر لاکھوں روپے صرف کر چکے تھے۔ سب بے سود۔ اور اب یہ نوبت آگئی تھی کہ لالچی سے لالچی ڈاکٹر بھی انہیں اپنا مستقل مریض بنانے کے لیے تیار نہ تھا۔ مبادا انہیں روز روز مطب میں بیٹھا دیکھ کر دوسرے مریض بدک جائیں کہ اس ڈاکٹر کے ہاتھ میں شفا نہیں۔ لیکن ہمارے پڑوس میں آنے کے تین مہینے کے اندر اندر نہ صرف یہ کہ ان کا ’’بلڈ پریشر‘‘ بڑھ کر نارمل ہوگیا بلکہ بفضلہٖ اس سے بھی پندرہ بیس درجے اوپر رہنے لگا۔
ان واقعات کا تعلق اس دورِ ناواقفیت سے ہے جب ہم کتا پالنا کھیل سمجھتے تھے۔ کینل کلب کا باقاعدہ ممبر بننے کے بعد ہمیں احساس ہوا کہ سیزر بچارا بالکل بے قصور تھا۔ غلطی سراسر ہماری ہی تھی کہ کتے کو مثل اپنی اولاد کے پال رہے تھے۔ یعنی ڈانٹ ڈانٹ کر۔ بڑے بڑے جگادریوں سے کتا پالنے کے ادب آداب سیکھے تو پتہ چلا کہ کتے کے ساتھ تو نرمی کا برتاؤ لازم ہے۔ بلکہ اس کے سامنے بچوں کو بے دردی سے پیٹنا نہیں چاہیے ورنہ اس کی شخصیت پچک کر رہ جاتی ہے۔ اور یہاں یہ کیفیت تھی کہ گھر کے ہر فرد نے اس پر بھونک بھونک کر اپنا گلا بٹھا لیا تھا۔ لیکن جیسے جیسے کتا بڑا ہوا، ہم میں بھی سمجھ آتی گئی اور ڈانٹ پھٹکار کا سلسلہ بند ہوگیا۔
سیزرہی کے دم خم سے آٹھ نوسال تک ایسی بے فکری رہی کہ کبھی تالا لگانے کی ضرورت محسوس نہ ہوئی۔ اس کو ہمارے مال و اسباب کی حفاظت کا اس درجہ خیال تھا کہ شامت کا مارا کوئی کوا یا بلی باورچی خانے کے پاس سے بھی گزر جائے تو نتھنے پھلا کر اس بری طرح کھدیڑتا کہ سارے چینی کے برتن ٹوٹ جاتے۔ گھر کی چوکیداری اور کام کاج میں اس طرح ہاتھ بٹانے کے علاوہ وہ ایک سمجھ دار کتے کے دیگر فرائض بھی انجام دیتا رہا جن سے صاف بوئے وفا آتی تھی۔ یہی نہیں کہ وہ ناشتے پر ہمارے لیے تازہ اخبار منہ میں دبا کر لاتا، بلکہ جب مہینے کی پہلی تاریخ کو اخبار والا بل لے کر آتا تو اس پر بھونکتا بھی تھا۔ اور ایک منہ میں اخبار لانے پر ہی موقوف نہیں۔ وہ تو کہیے، ہم نے خود دو تین دفعہ سختی سے منع کر دیا، ورنہ وہ تو ہمارے لیے توس بھی اسی طرح لا سکتا تھا۔ کھانے پر دونوں وقت وہ ہماری کہنی سے لگا بیٹھا رہتا اور حسب معمول ہم ہر پانچ لقموں کے بعد ایک لقمہ اسے بھی ڈال دیتے۔ اگر وہ اسے سونگھ کر چھوڑ دیتا تو ہم بھی فوراً تاڑ جاتے کہ ہو نہ ہو کھانا باسی ہے۔غرض کہ بہت ہی ذہین اور خدمتی تھا۔
وقت گزرتا دکھائی نہیں دیتا مگر ہر چہرے پر ایک داستان لکھ جاتا ہے۔ کل کی سی بات ہے۔ جب سیزر بچہ سا آیا تھا تو پروفیسر قاصی عبدالقدوس جو سدا سے یک رنگی کے قائل ہیں، اتوار کے اتوار موچنے سے اپنے سر کے سفید بال اکھاڑا کرتے تھے۔ بال وہ اب بھی اکھاڑتے تھے مگر صرف کالے۔ (انہیں خود بھی اپنی عمر کا احساس ہو چلا تھا اور غالباً اسی رعایت کے تحت اب صرف بال بچوں والی عورتوں پر ان کی طبیعت آتی تھی۔) نادان بچوں کی وہ پہلی کھیپ جس نے سیزر کے ذریعے انگریزی سیکھی، اب ماشاء اللہ اتنی سیانی ہو چکی تھی کہ اردو اشعار کا صحیح مطلب سمجھ کر شرمانے کے قابل ہوگئی۔ سیزر بھی رفتہ رفتہ خاندان ہی کا ایک معمر رکن بن گیا۔۔۔ اس لحاظ سے کہ اب کوئی اس کا نوٹس نہیں لیتا تھا۔ ہمارے دیکھتے دیکھتے وہ بوڑھا ہوگیا۔ اور ساتھ ہی ساتھ دل میں اس کے لیے رفاقت وہم سفری کا ایک احساس، دردمندی وہم نصیبی کا ایک رشتہ پیدا ہو چلا کہ ہم نے ایک دوسرے کو بوڑھا ہوتے دیکھا تھا۔ ایک ساتھ وقت سے ہار مانی تھی۔
آج اس کی ایک ایک بات یاد آرہی ہے۔ جوان تھا تو راہ چلتوں کا پنجے جھاڑ کر ایسا پیچھا کرتا کہ وہ گھگھیا کر قریب ترین گھر میں گھس جاتے اور بے آبرو ہوکر نکالے جاتے۔ وہ تاک میں رہتا اور نکلتے ہی ان کے منہ اور گردن کو ہر دفعہ باندازِ دیگر یوں بھنبھوڑتا گویا جانور نہیں، کسی انگریزی فلم کا ندیدہ ہیرو ہے۔ (یہ مرزا کے الفاظ ہیں۔ کہتے ہیں انگریزی فلموں میں لوگ یوں پیار کرتے ہیں جیسے تخمی آم چوس رہے ہیں۔) ابھی تین سال پہلے تک اسے دیکھ کر پڑوسیوں کا چلوؤں خون سوکھتا تھا۔ مگر اب اتنا ضعیف ہوگیا تھا کہ دن بھر بوگن دلیا کے نیچے کسی مرشد کاہل کی طرح مراقبے میں پڑا رہتا۔ بہت ہوا تو وہیں سے لیٹے لیٹے دم ہلا کر شفقت کا اظہار کر دیا۔ البتہ چھوٹے بچوں کو، خواہ گھر کے ہوں یا پاس پڑوس کے، اس نے کبھی مایوس نہیں کیا۔ اور ایسا کبھی نہیں ہوا کہ کوئی بچہ اسے آواز دے کر گیند پھینکے اور وہ گودا بھری نلی چھوڑ چھاڑ، گیند اپنے منہ میں رکھ کر واپس نہ لائے۔ اس معاملے میں اسے بچوں کی تالیف قلوب اس درجہ عزیز تھی کہ کئی دفعہ فٹ بال تک منہ میں رکھ کر لانے کی کوشش کی۔
اعضاء و جوارح رفتہ رفتہ جواب دے رہے تھے۔ ساری تن پھن غائب، غرفش ختم ۔ مرزا کے الفاظ میں اس کا بڑھاپا شباب پر تھا۔ کسی کسی دن سہ پہر تک بوگن ولیا کی چھاؤں میں وہی سنسنی خیز اردو اخبار اوڑھے اونگھتا رہتا، جس میں نوکر صبح قیمہ بندھوا کر لایا تھا۔ چاندنی اور ماداؤں کی مست مہک سے اب اس کے خون میں جوار بھاٹا نہیں آتا تھا۔ کہا ں تو یہ عالم تھا کہ ’’گرمی‘‘ پر آتا تو سرشام ہی سے زنجیر تڑاکر قدِ آدم دیوار پھاند جاتا اور فجر کی اذان کے وقت شاد کام لوٹتا۔ یا اب اس جواں دیدہ بزرگ کا یہ حال ہوگیا تھا کہ گرمائی ہوئی مادہ اور ہڈی بیک وقت نظر آجائیں تو ہڈی پر ہی جھپٹتا تھا اور جب اس ہڈی کو پپولتے پپولتے اس کے بوڑھے جبڑے دکھنے لگتے تو اسے سرخ بوگن ولیا کے نیچے دفن کرکے وضو کے لوٹے میں منہ ڈال کر پانی پینے چلا جاتا۔ یقین نہیں آتا تھا کہ یہ وہی سیزر ہے جس کے جبڑے کی مہر محلے کے ہر تیسرے آدمی کی پنڈلی پر آج تک گواہی دے رہی ہے کہ۔۔۔ اب جس جگہ کہ داغ ہے یاں آگے درد تھا۔
وہی دم جو ایک زمانے میں بقول شخصے سوالیہ نشان کی طرح کھڑی رہتی تھی، اب مفلس کی مونچھ کی مانند لٹکنے لگی۔ اس کے ہم عمر ایک ایک کرکے وہ گلیاں سونی کرگئے، جہاں سے راتوں کو ان دیکھے بھید بھرے جسموں کی خوشبوؤں کے بلاوے آتے تھے۔ وہ تنہا رہ گیا۔ بالکل تنہا و دل گرفتہ۔ نئی پود کے منہ زور کتوں کے ساتھ اٹھنا بیٹھنا تو درکنار، وہ ان کے نودولتے مالکوں پر بھونکنا بھی اپنے رتبے کے منافی سمجھتا تھا۔ لیکن جس دن سے ماتاہری کی جوان پٹھور بیٹی کلو پٹرا بھری دوپہری میں ایک حلوائی کے بے نام کتے کے ساتھ بھاگی، وہ ہفتوں اپنے ہم جنس کی آواز تک کو ترسنے لگا۔ جب تنہائی سے بہت جی گھبرانے لگتا تو ریڈیو کے پاس آکر بیٹھ جاتا اور پکے گانے سن کر بہت خوش ہوتا۔
جسم کے ساتھ ساتھ نظر بھی اتنی موٹی ہوگئی تھی کہ کبھی پروفیسر قاضی عبدالقدوس اجلے کپڑے پہن کر آجاتے تو انہیں اجنبی سمجھ کر بھونکنے لگتا۔ البتہ سماعت میں فرق نہیں آیا تھا۔ صاف معلوم ہوتا تھا کہ وہ اٹکل سے گیند کا پیچھا کرتا ہے اور اس کے ٹپا کھانے سے اس کی سمت اور محل وقوع کا اندازہ کرلیتا ہے۔ ایک دن شام کو اچھا خاصا بوگن ولیا کے نیچے اپنا مخصوص آسن مارے (دائیں آنکھ، جو بچپن سے سرخ رہتی تھی، آدھی بند کیے، بائیں پنجے پر تھوتھنی رکھے) بیٹھا تھا کہ ایک نیلی ربن والی بچی نے ’’شو‘‘ کہہ کر سڑک پر پنگ پانگ کی گیند پھینکی۔ وہ آواز کی سیدھ پر لپکا۔ مگر جیسے ہی گیند منہ میں پکڑ کے تیزی سے پلٹا، ایک کار کے بریک لگنے کی دلخراش آواز سنائی دی۔
بچے چیختے ہوئے دوڑے۔ سڑک پر دور تک ٹائروں کے گھسنے سے دوسیاہ پٹیاں بن گئیں۔ کار ایک دھچکے کے ساتھ رکی اور اپنے اسپرنگوں پر دوتین ہچکولے کھاکر غراتی ہوئی تیزی سے پہلے ہی موڑ پر مڑگئی۔ مگر سیزر بیچ راستے ہی میں رہ گیا۔ اس کا پچھلا دھڑ کار کا پورا وزن سہار چکا تھا۔ منہ سے خون جاری تھا۔ اور پاس ہی گیند پڑی تھی جو اب سفید نہیں رہی تھی۔
سب نے مل کر اسے اٹھایا اور پھاٹک کے پاس بوگن ولیا کے نیچے لٹا دیا۔ لگتا تھا، شریانوں کے منھ کھل گئے ہیں۔ اور اس کی زندگی دل کی ہر دھڑکن کے ساتھ رس رہی ہے۔ ضرب بہ ضرب، قطرہ بہ قطرہ، دم بہ دم۔ ہر ایک اسے چھو چھو کر انگلیوں کی پوروں سے دل کی دھڑکن سن رہا تھا۔۔۔ وہ دھڑکن جو دوسری دھڑکن تک ایک نیا جنم، ایک نئی جون بخشتی ہے۔ کس جی سے کہوں کہ اس کا آب و دانہ اٹھ چکا تھا اور وہ رخصت ہو رہا تھا۔ اس ہمت، اس حوصلے، اس سکون کے ساتھ، جو صرف جانوروں کا مقدر ہے۔ بغیر کراہے، بغیر تڑپے، بغیر ہراساں ہوئے۔ بس بے نور نظریں جمائے دیکھے چلا جا رہا تھا۔ باری باری سب نے اسے چمکارا۔ سر پر ہاتھ رکھتے ہی وہ آنکھیں جھکا لیتا تھا، اور یہ یاد کرکے سب کی آنکھیں بھر آئیں کہ اس کی زندگی میں آج پہلا موقع تھا کہ سر پر ہاتھ پھرواتے وقت وہ جواباً اپنی ریشم سی ملائم دم نہیں ہلا سکتا تھا۔
آج اس کے نتھنوں میں ایک اجنبی خون کی بو گھسی جا رہی تھی۔ کوئی آدھ گھنٹہ گزرا ہوگا کہ چار پانچ کوے اوپر منڈلانے لگے اور دھیرے دھیرے اتنے نیچے اترآئے کہ ان کے منحوس سائے اس پر پڑنے لگے۔ کچھ دیر بعد احاطے کی دیوار پر آبیٹھے اور شورمچانے لگے۔ سیزر نے ایک نظر اٹھاکر انہیں دیکھا۔ ایک لحظے کے لیے اس کے نتھنے پھڑک اٹھے۔ پھر اس نے اپنی آنکھیں جھکا لیں۔ ہم سے یہ نہ دیکھا گیا۔ اس کا خون آلود منہ کھول کر سونے کی گولیوں کی شیشی حلق میں الٹ دی اور کالر اتار دیا۔ ذرا دیر بعد وہ اپنے پیار کرنے والوں کی دھندلاتی صورتیں دیکھتا دیکھتا ہمیشہ کے لیے سو گیا۔
مارچ کے چڑھتے چاند کی بھیگی بھیگی روشنی میں جب بچوں نے مل کر اس کی محبوب بوگن ولیا کے نیچے زمین کی امانت زمین کو سونپنے کے لیے گہرا سا گڑھا کھودا تو چھوٹی بڑی بے شمار ہڈیاں نکلیں، جنہیں وہ غالباً دفن کر کے بھول گیا تھا۔ دور دور تک بوگن ولیا کی لمبی لمبی انگلیوں جیسی جڑیں اپنا راستہ ٹٹولتی ہوئی زمین کے نیم گرم سینے میں اترتی چلی گئی تھیں اور اس کارس چوس چوس کر شاخوں کے سروں پر دبکتے ہوئے پھولوں تک پہنچا رہی تھیں۔ مگر سوکھی پیاسی جڑوں کو آج سیزر کے لہو نے ان پھولوں سے بھی زیادہ سرخ کر دیا ہوگا جو بچوں نے لحد کا منہ اپنی سلیٹوں اور تختیوں سے بند کرکے اوپر بکھیر دیے تھے۔ آخر میں نیلی ربن والی بچی نے اپنی سالگرہ کی موم بتیاں سرہانے روشن کردیں۔ ان کی اداس روشنی میں بچوں کے میلے گالوں پر آنسوؤں کی نمکین اجلی لکیریں صاف چمک رہی تھیں۔
کئی مہینے بیت گئے۔ پت جھڑ کے بعد بوگن دلیا پھر انگارے کی طرح دہک رہی تھی۔ مگر بچے آج بھی اس جگہ کسی آدمی کو پاؤں نہیں رکھنے دیتے کہ وہاں ہمارا ایک ساتھی سو رہا ہے۔
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.