شوہر اعظم
وہ مرزا جٹ کی نسل سے ہیں۔ اس لیے جس خاتون کو بھی دیکھا اسے صاحبہ نہیں صاحباں ہی سمجھا۔ ہر وقت کچھ نہ کچھ کرتے رہتے ہیں۔ جب چند گھنٹوں کے لیے فارغ ہوں اور کام نہ ہو تو شادی کر لیتے ہیں۔ تعلیم تو ان کی اتنی ہی ہے جتنی غلام حیدر وائیں صاحب کی ہے۔ اور وائیں صاحب اتنی دیر زیرتعلیم نہیں رہے جتنی دیر وزیر تعلیم رہے ہیں۔ بہرحال شوہر اعظم ملک جی ایم غیر سید نے شادیوں پر پی ایچ ڈی کی ہے۔ ان کی شادی پر تو فوٹو گرافر پولو رائیڈ کیمرے استعمال کرتے ہیں۔ کہیں یہ نہ ہو کہ جب تک تصویریں دھل کر آئیں، یہ نئی شادی کر چکے ہوں۔ وہ اگر کہیں کہ میں کئی سالوں سے پریشان ہوں تو لوگ سالوں سے مراد بھی مدت نہیں، رشتہ لیتے ہیں۔
ساری زندگی نمبر 2 رہے۔ بھٹو دور میں پی پی پی کے نمبر 2 لیڈر۔ این پی پی میں شامل ہوئے تو یہاں بھی دو نمبر لیڈر ہی رہے۔ یہاں تک کہ اپنی بیویوں کے بھی نمبر دو خاوند رہے۔ قوم کا اس قدر غم ہے کہ 1990ء میں انہیں پتہ چلا کہ پاکستان میں 48 لاکھ لڑکیاں شادی کے انتظار میں بیٹھی ہیں تو انہیں اس وقت تک رات کو نیند نہ آئی جب تک انہوں نے اس تعداد میں ایک کی کمی نہ کردی۔ سیانے کہتے ہیں کہ مطلقہ کی بجائے بیوہ سے شادی کرنا زیادہ بہتر ہوتا ہے۔ کہ وہ مرد کے بارے میں سب کچھ جانتی ہے۔ مگر جو مرد اس کے بارے میں سب کچھ جانتا ہوتا ہے، وہ زندہ نہیں ہوتا۔ کھر صاحب کو تجربہ کار لوگ اتنے پسند ہیں کہ انہوں نے ہمیشہ اس سے شادی کی جسے پہلی شادی کا تجربہ تھا۔ وہ مطلقہ کو ہی اپنی متعلقہ سمجھتے ہیں۔ انہیں تو ڈاکٹر تبدیلی آب و ہوا کا کہے تو سمجھتے ہیں، ڈاکٹر نے تبدیلی آب و حوا کہا ہے۔
جی ایم سید فٹوں میں سوچتے اور انچوں میں بولتے ہیں، جب کہ جی ایم سید انچوں میں سوچتے اور فٹوں میں بولتے ہیں۔ ملک جی ایم غیر سید خود کو پورا ملک سمجھتے ہیں۔ اس لیے اگر وہ کہیں، پورا ملک بھوکا ہے تو اس کا مطلب یہ ہوگا کہ انہوں نے صبح کا ناشتہ نہیں کیا۔ جہاں تک ملک سے ان کی محبت کی بات ہے تو یہی کہا جا سکتا ہے کہ جو ایک فرانسیسی شاعر نے اپنی محبوبہ سے کہا تھا، ’’میں رات بھر تمہاری جدائی میں جاگتا رہا ہوں اور ساری رات اپنے خوابوں میں صرف اور صرف تمہیں دیکھتا ہوں۔‘‘
ان کا تعلق کھرل قبیلے کی کھر شاخ سے ہے۔ تہمینہ درانی لکھتی ہیں، ’’کھرلوں کا ایک گروہ لاہور سے ملتان جا رہا تھا۔ راستے میں ملتان کے قریب انہوں نے گنے کے کھیت دیکھے تو انہیں کاٹ کر اپنی جھونپڑیاں بنانے لگے۔ کھیت کے مالک نے پوچھا تم کون ہو؟ انہوں نے کہا ہم تو کھرل ہیں۔ کھیت کے مالک نے کہا حرکتوں سے تو تم خر لگتے ہو۔ یوں کھرل کے بعد وہ کھر کہلائے۔‘‘ شاید اسی لیے تہمینہ نے جی ایم غیر سید سے شادی کے بعد اپنے نام کے ساتھ بھی کھر لکھنا شروع کردیا تھا۔ کھر صاحب بڑے مادہ پرست ہیں۔ یہاں مادہ سے مراد وہی ہے جو آپ سمجھ رہے ہیں۔
جب وہ گورنر تھے تو اکثر فور پیس میں ملبوس نظر آتے۔ کسی نے پوچھا، ’’تھری پیس سوٹ تو سنا ہے، فورپیس سے کیا مراد ہے؟‘‘ تری پیس تو پہنا ہوتا ہے اور ایک پیس ساتھ ہوتا ہے۔ خاتون کے ساتھ تصویر میں جی ایم غیر سید کو پہچاننا بڑا آسان ہوتا ہے۔ جس نے چادر لی ہو وہ موصوف ہوں گے۔ فرماتے ہیں۔ پنجاب کی کسی ماں نے مجھ سے بڑا بیٹا نہیں جنا۔ جب کہ میرا دوست ’’ف‘‘ کہتا ہے کہ یہ کون سی بڑی بات ہے۔ میں خود دسویں ماہ کی پیدائش ہوں۔ نواب آف کالا باغ نے کہا تھا کہ جس عہدے کے آخر میں نرآئے جیسے گورنر، کمشنر، ڈپٹی کمشنر وغیرہ ان سے ڈرو۔ جب کھر صاحب گورنر تھے تو لوگ ڈر کر انہیں شیر نہ کہتے بلکہ چڑیا گھر کے شیر کو بھی ڈر کے کھر کہہ کر بلاتے۔ یہ شیر آدم خور نہیں بلکہ حوا خور ہے۔ پیر پگاڑہ سے کسی نے اس شیر کے بارے میں پوچھا تو وہ بولے، ’’ہم اشرف المخلوقات سے رابطہ رکھتے ہیں، جانوروں سے نہیں۔‘‘
جب گورنر تھے تو ان کی اپنی ’’ادا‘‘ تھی۔ اداکارائیں گورنر ہاؤس میں یوں آتیں جیسے سٹوڈیو میں آ رہی ہوں۔ یحیی خان کے دور میں اداکارہ ترانہ جب یحییٰ خان سے ملنے کے بعد باہر نکلی تو ایوان صدر کے چوکیدار نے اسے سیلوٹ کیا۔ کسی نے پوچھا، جب وہ آئی تھی تب تو تم نے سیلوٹ نہیں کیا تھا؟ کہا، ’’جب وہ آئی تھی تو صرف ترانہ تھی، جب کہ اب وہ قومی ترانہ ہے۔‘‘ کھر صاحب اگر وزارت عظمی کے امیدوار بھی ہوں تو اس کی وجہ یہی ہوگی کہ اس وزارت میں عظمی بھی ہے۔ ویسے بھی کیا ہو، اگر وہ وزیر اعظم نہ بن سکے، شوہر اعظم تو بن گئے۔ تہمینہ نے جس دن طلاق لی، اس شام انہوں نے کہا، تہمینہ نے میرا گھر برباد کر دیا۔ عزت کو اخباروں میں اچھالا، الزامات لگائے۔ اور سب سے بڑھ کر یہ کہ میری آج کی شام برباد کردی۔ ایک مشہور گلوکارہ کی ذہانت سے متاثر ہوکر اس سے شادی کر نے کو کہا۔ وہ واقعی ذہین نکلی، اس نے فوراً کسی اور سے شادی کر لی۔ انہیں انکار اچھا نہیں لگتا۔ ویسے بھی مردوں کو اگر کسی عورت کا ’’انکار‘‘ پسند آئے تو یقین کرلیں وہ پروین شاکر ہوگی۔
اقتدار میں تھے تو اپنا چہرہ سرخ رکھنے کے لیے لسی، مکھن، دودھ اور حنیف رامے کی تصویر استعمال کرتے۔ کوٹ ادوان کا وہ کوٹ ہے جسے وہ جس کا چاہیں، پہنادیں۔ پڑھائی سے انہیں اتنا شغف ہے، ان کے سامنے رسالہ کہو تو وہ اسے کتاب کی بجائے فوج کا دستہ سمجھیں گے۔ بحیثیت گورنر انہوں نے ثابت کیا کہ وہ نواب آف کالا باغ لیول کے نواب آف سبز باغ ہیں۔ ان کی زندگی کی کہانی ایک فلمی کہانی ہے، جس میں فائٹیں اور بڑھکیں ہی نہیں گانے بھی موجود ہیں۔ پہلے صرف جاگیردار تھے تو کہتے میری کوٹھی کے آگے سے گاڑی ہٹاؤ، گورنر بنے تو کہنے لگے، میری گاڑی کےآگے سے کوٹھی ہٹاؤ، اب کہتے ہیں، کوٹھی کے آگے سے میری گاڑی ہٹاؤ۔ مزاج ایسا کہ وہ اپنے دور اقتدار میں اگر کسی آرٹسٹ کو فائن کہتے تو ان کے موڈ سے اندازہ لگانا پڑتا کہ کہیں آرٹسٹ سے فائن لینا تو نہیں۔ معاملات میں ایسے ہیں کہ آپ ان کے ساتھ کاروبار کرنا چاہیں تو پہلے اپنے وکیل سے مشورہ کریں۔ اگر وہ وکیل آپ کو اس کی اجازت دیتا ہے تو پھر آپ کسی اچھے وکیل سے مشورہ کریں۔
دنیا میں جو جھوٹ سب سے زیادہ بولا جاتا ہے، وہ ہے کہ حکومت آپ کے مسئلے حل کرنا چاہتی ہے، لیکن وہ ہر مسئلے کا حل نکال لیتے۔ ان کے دور اقتدار میں کچھ پارٹی ورکرز نے شکایت کی کہ ہمیں جاب نہیں ملتی تو انہوں نے فوراً ایک کمیٹی بنانے کو کہا جو یہ پتہ چلائے کہ انہیں جاب کیوں نہیں ملتی اور ان کو اس کمیٹی میں جاب دے دی۔ کسی بے وقوف کو اپنا نہیں بناتے، ہاں اپنے کو بے وقوف بنا لیتے ہیں۔ سیاست میں ان کا یہ اصول ہے کہ سیاست میں کوئی اصول نہیں ہوتا۔
گورمانی خاندان کو سیاسی طور پر دفن کرنے کے لیے سیاست میں آئے۔ حالانکہ گور تو اس خاندان کے نام میں پہلے ہی تھا۔ بھٹو اقتدارمیں تھے تو یہ ان کے دائیں بائیں ہوتے۔ وہ اقتدار میں نہ رہے تو یہ دائیں بائیں ہوگئے۔ پیپلز پارٹی سے ان کو نکالا گیا مگر پیپلز پارٹی کو ان سے نہ نکالا جا سکا۔ واپس پی پی پی میں آئے تو انہیں کچھ نہ کہا گیا۔ یعنی صدر کہا گیا نہ سکریٹری۔ 1977ء کے بعد ملک چھوڑ دیا۔ اگر یہ ملک نہ چھوڑتے تو ملک انہیں نہ چھوڑتا۔ جان کے گلبرتھ کہتا ہے، ’’سیاست دان اتنا اچھا ہوتا ہے، جتنا برا اس کا حافظہ ہوتا ہے‘‘ ان کا حافظہ تو ایسا ہے کہ ایک صحافی نے بچوں کی تعداد پوچھ لی تو خود جواب دینے کی بجائے اپنے سکریٹری کی طرف دیکھنے لگے۔
بے نظیر کے سسر حاکم زرداری فرماتے ہیں، کھر بھٹو کا بریف کیس ہی نہیں ان کے گھر کے جوتے بھی اٹھا کر لے جاتے۔ جس کا مطلب تو یہ ہے کہ بھٹو کا گھر ان کے لیے مسجد تھا۔ انہیں دن اچھا نہیں لگتا کہ صبح صبح چڑھ آتا ہے، البتہ رات پسند ہے کہ یہ اندھیرے میں آتی ہے۔ ناپسندیدہ 21 جون کہ اس کی رات بڑی چھوٹی ہوتی ہے۔ سگار پی رہے ہوں تو ساری دنیا ان کے لیے ایش ٹرے ہوتی ہے۔ یہ تو ہیں مرد آہن مگر آہن کا مسئلہ یہ ہے کہ اسے استعمال نہ کیا جائے تو اسے زنگ لگ جاتا ہے۔ وہ لاکھوں کے مجمع کو کنٹرول کر سکتے ہیں، مگر خود کو کنٹرول نہیں کر سکتے۔
ہر کسی کو غلام بنانے کی کوشش کرتے ہیں۔ جو غلام نہ بنے، اسےآقا بنا لیتے ہیں۔ کہتے ہیں میں کبھی کسی کے آگے نہیں جھکا۔ حالانکہ تہمینہ کہتی ہیں، وہ اپنی بیویوں کے آگے جھکتے۔ ظاہر ہے اتنا لمبا بندہ جھکے بغیر بیوی کے پیٹ میں گھونسا کیسے مار سکتا ہے؟ اچھے ڈرائیور ہیں۔ آج تک جتنے حادثے کیے، سڑک پر نہیں گھر پہ کیے۔ گاڑی یوں چلاتے ہیں جیسے گھوڑا دوڑا رہے ہوں۔ اس لیے بریکیں لگاتے وقت سٹیئرنگ یوں کھینچتے ہیں جیسے لگا میں کھینچ رہے ہوں، اتنے تیز رفتار کہ جتنی دیر میں آپ ایک پل کراس کرتے ہیں وہ ڈبل کراس کر چکے ہوتے ہیں۔ فرماتے ہیں، مخالفین مجھ سے اتنا ڈرتے ہیں کہ وہ مجھے زخمی کرنے کے لیے بھی میرے گھر پر تب حملہ کرتے ہیں جب انہیں یقین ہو کہ میں گھر پر نہیں ہوں۔
حریف کو کبھی معاف نہیں کرتے۔ ویسے بھی حریف سیاست دان اگر آپ سے سارے اختلافات ختم کرکے آپ کے ہاں آئے تو یقین کرلیں کہ وہ آپ کے جنازے پر آرہا ہے۔ سائنس کہتی ہے، گرمی سے چیزیں پھیلتی ہیں۔ ان کی گورنری کا دور اتنا گرم تھا کہ ان کی تیس ایکڑ زمین پھیل کر کئی گنا ہوگئی۔ مجھ سے اپنے وطن کی مٹی کی خوشبو آتی ہے۔ اگر یہ خوشبو زیادہ ہوجائے تو کپڑے بدل لیتے ہیں۔
مگرمچھ کی کھال کے جوتے تین تین سال چلاتے ہیں۔ میرا دوست ’’ف‘‘ کہتا ہے کہ یہ تو کوئی زیادہ عرصہ نہیں، یہ کھال تو مگرمچھ تیس تیس سال چلاتے ہیں۔ کہتے ہیں، میں یاراں کا یار ہوں۔ واقعی وہ زیادہ سے زیادہ ’’یاراں‘‘ کا یار ہو سکتے ہیں۔ باراں یا تیرہ کے نہیں۔ مصیبت میں جو ان کے کام آئے، اسے نہیں بھولتے۔ خاص کر اس وقت جب پھر مصیبت میں ہوں۔ فیصلہ کرنے میں اتنی دیر لگاتے ہیں کہ اب تک ادھیڑ عمر ہونے کا فیصلہ کرنےمیں ادھیڑ بن میں ہی ہیں۔ ان کے کاموں کے حساب سے ان کی عمر کا اندازہ لگائیں تو اپنے بیٹے کے ہم عمر نکلیں گے۔ اداکارہ نینسی آسٹر نے کہا تھا، میں نے فیصلہ کر لیا ہے کہ پچاس سال سے اوپر کی ہرگز نہ ہوں گی۔ سو ایک وقت ایسا آیا، نینسی جو عمر بتاتی، اس حساب سے اس کا بڑا بیٹا چار ماہ بعد پیدا ہوا۔ جی ہاں! نینسی آسٹر کی پیدائش کے چار ماہ بعد۔
عورتیں انہیں ایک شوہر، پی پی ورکرز ایک جوہر، بھٹو صاحب ایک شوفر اور جماعت اسلامی ایک لوفر کے طور پر جانتی ہے۔ انہوں نے اپنا سیاسی سفر کوٹ ادو کے ایک رکن اسمبلی کے طور پر شروع کیا۔ بھٹو کے دست راست بنے۔ پنجاب کے بااختیار گورنر بنے، لیکن پھر وہیں آگئے جہاں سے انہوں نے یہ سفر شروع کیا تھا۔ یعنی اب وہ پھر صرف کوٹ ادو کے ایک رکن اسمبلی ہیں۔
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.