شوہر کی جنت
بات یہ ہے کہ ہم نے بیگم کو ہمیشہ اسی بات کا یقین دلایا ہے کہ ہم کو کسی اور جنت کی ضرورت ہی نہیں ہے۔ ہماری جنت تو صرف آپ کی ذات ہے۔ مگر واقعات اس کے سراسر خلاف ہیں جب کہ ہم کو تو مستقل طور پر یہ فکر ہےکہ اگر جنت میں ہمارا ساتھ ان ہی نیک بخت کا رہا تو آخر کیا ہوگا؛
اب تو گھبرا کے یہ کہتے ہیں کہ مر جائیں گے
مر کے بھی چین نہ پایا تو کدھر جائیں گے
طالب علمی کے زمانے میں بورڈنگ ہاؤس کی زندگی بسر کرنے کا ہم کو پورا تجربہ ہے مگر قسم لے لیجئے جو بورڈنگ ہاؤس کے ایک قانون کو بھی صحیح سالم چھوڑا ہو۔ اسکول میں ماسٹروں سے مرعوب ہونا ہمارے نزدیک ہمیشہ ذلت کی بات تھی۔ البتہ ذرا ہیڈ ماسٹر صاحب کے گھنٹہ میں تھوڑی دیر کے لیے دم سادھ کر بیٹھنا پڑتا تھا مگر اب تو یہ حال ہے کہ گویا ہیڈ ماسٹر صاحب ہی سے شادی کرلی ہے۔ کیا مجال کے بیگم صاحبہ کے ہوتے ہوئے ہم اپنے پیدائشی حق یعنی آزادی سے کوئی بھی فائدہ اٹھا سکیں۔ صبح دیر میں سوکر اٹھیں تو منحوس۔ منھ دھوئے بغیر چائے پی لیں تو اچھوت۔ دفتر دیر سے جانے کا ارادہ کریں تو کام چورنوالہ حاضر۔ جاڑے کا زمانہ اگر بغیر غسل کے ٹالنا چاہیں تو افیونی۔ تاش کھیلیں تو جواری۔ شطرنج سے دل بہلائیں تو نحوست کے ذمہ دار۔ باہر گھومنے جائیں تو آوارہ گرد۔ رات دیر میں لوٹ کر آئیں تو اعلیٰ درجہ کے بدمعاش۔ پتنگ اڑانے کا ارادہ کریں تو لوفر اور اگر کچھ بھی نہ کریں یعنی خاموش بیٹھ کر اونگھیں یا منھ اٹھائے محض بیٹھے رہیں تو بیوقوف۔۔۔
اب آپ ہی بتائیے کہ یہ زندگی ایک شوہر کی زندگی ہے یا کالے پانی کی سزا پانے والے کسی مجرم کی زندگی۔ مگر جیسی کچھ بھی زندگی ہے بہرحال اب تو اسی طرح اس کو بسر کرنا ہے۔ اس لیے کہ بیگم صاحبہ کا ساتھ کوئی ایک دودن کا تو ہے نہیں بلکہ زندگی بھر کا ساتھ ہے اور زندگی ایک اتنی بڑی مدت کا نام ہے کہ اس کا تصور کرتے کرتے بھی اختلاج ہونے لگتا ہے۔
خیر یہ زندگی تو جس طرح بسر ہورہی ہے ہوہی رہی ہے۔ مگر سوال تو یہ ہے کہ جنت میں کیا ہوگا۔ یعنی اگر ایک یتیم شوہر پریہ تمام زیادتیاں کرنے کے باوجود بیگم بھی اس جنت سے گئیں جہاں ہمارا جانا اس جہنمی زندگی بسر کرنے کے بعد گویا یقینی ہے تو وہاں کیا ہوگا اور وہاں سے کیوں کر ہم کو نجات مل سکے گی۔ مگر جہاں تک ہمارا خیال ہے ہماری جنت یقینا ان خطرات سے پاک ہوگی۔ اور وہاں بیگم صاحبہ ہم کو اپنا شوہر بناکر یوں نہ رکھ سکیں گی بلکہ وہاں ہم ٹانگیں پھیلا کر دن چڑھے تک سویا کریں گے۔ آفتاب کی شعاعیں ہمارے لحاف پر کھیلا کریں گی۔ مگر بیگم کی یہ مجال نہ ہوگی کہ لحاف گھسیٹ کر ہمارے کسی خواب کو نامکمل چھوڑدیں اور ہم کو اندھیرے منھ نودس بجے دن کو اٹھاکر بٹھادیں۔ ہمارا جب تک جی چاہے گا سویاکریں گے، چاہے ہفتوں سوتے رہیں یا مہینوں سوکر نہ اٹھیں۔ پھر یہ بھی کوئی ضروری بات نہ ہوگی کہ سوکر اٹھے تو منہ بھی دھوئیں ورنہ چائے نہ ملے گی۔
یہ تمام پابندیاں تو اس بیگم والی دنیا اور شوہرانہ زندگی تک ہیں۔ جنت میں تو ہمارا منھ اپنا ذاتی منہ ہوگا خواہ اس کو دھوئیں ی نہ دھوئیں اور چائے بے چاری کی توخیر کیا مجال ہے کہ وہ اپنے لیے ہمارا منھ دھلوائے بلکہ جہاں تک چائے کا تعلق ہے وہ تو سوتے میں بھی ہم پی سکیں گے۔ اس لیے کہ چائے کی خواہش کو پورا کرنا ہمارا کام نہ ہوگا بلکہ یہ خود چائے کا فرض ہوگاکہ وہ وقت مقررہ پر ہماری اس طلب کو پوراکرے یعنی وہ ہمارے معدے میں اپنی ذمہ داری کے ساتھ پہونچا کرے گی۔ مثلاً فرض کرلیجئے کہ ہم سورہے ہیں تومحض چائے کے لیے بیدار ہونا اور اپنی نیند میں خلل ڈالنا نہ پڑے گا بلکہ چائے کا فرض ہوگا کہ وہ خود ہی بنے، بن کر کیتلی سے دم کھاتی ہوئی پیالی میں آئے۔ پھر وہ پیالی اس چائے کو لے کر ہمارے بسترتک دبے پاؤں آئے گی اور نہایت احتیاط کے ساتھ لحاف کے اندرپہونچ کر ہمارے لبوں سے لگ جائے گی تاکہ چائے اس پیالی سے نکل کر ہمارے لبوں سے ہوتی ہوئی آہستہ آہستہ حلق کے نیچے اترجائے اور ہم کو خبر بھی نہ ہو۔ اسی طرح چائے کے ساتھ کا ناشتہ اپنے فرائض منصبی کو خود ہی محسوس کرے گا۔ مطلب کہنے کا یہ کہ یہ تو خیر ایک آدھ مثال تھی جو ہم نے پیش کردی ورنہ عام طور پر تو یہ ہوگا کہ ہم خود کسی کام کے لیے کبھی مجبور نہ ہوں گے بلکہ ہر کام خود ہمارے لیے جنت میں مجبور ہوگا اور کسی قسم کے کسی قاعدہ یا قانون کی پابندی ہم پر فرض نہ ہوگی بلکہ ہر قاعدہ اور قانون ہمارا پابند ہوگا۔
اب جاڑے کے زمانہ میں نہانے ہی کولے لیجیے کہ بیگم ناک میں دم رکھتی ہیں۔ اور دسمبر یا جنوری کے زمانہ میں بھی ان کو ذرا بھی ترس نہیں آتا۔ نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ ہم کو مرمرکے نہانا پڑتا ہے۔ لیکن جنت میں یہ ظلم ہم پر نہ ہوسکے گا۔ وہاں تو جب ہم چاہیں گے بغیر غسل کیے غسل کی تازگی اپنے اوپر طاری کر لیا کریں گے۔ خواہ وہ دسمبر اور جنوری کا زمانہ ہویا مئی او ر جون کا موسم اور جب یہ صورت ہمارے اختیار میں ہوگی تو اس کے بعد آپ ہی بتائیے کہ بلاوجہ غسل کرنا وقت برباد کرنا نہیں تو اور کیا ہے۔ بیگم ہمارے ان اختیارات کو دیکھیں گی اور تعجب کریں گی اور صرف یہی کیا ان کو تو سب سے زیادہ چڑھ ہے ہمارے تاش کھیلنے سے۔ یہاں تک کہ گھر میں کبھی کوئی تاش کا پیکٹ رہنے ہی نہیں پاتا اور اگر کبھی ہم نے تاش کی ایک آدھ بازی برس چھ مہینے کے بعد کھیل لی تو اتنے ہی دنوں تک اس کی جواب دہی بھی کرنا پڑتی ہے اور اٹھتے بیٹھتے ہر وقت طعنے سنتے ہیں۔ مگر جنت میں دیکھیں وہ کیسے منع کرتی ہیں۔ وہاں ہمارے اختیار میں ہوگا کہ جب چاہیں نظر بندی سے کام لے کر ان کو نظر باندھ دیں اور خود نہایت اطمینان سے تاش کھیلیں، ہم تاش کھیلیں گے اور وہ دیکھیں گی کہ ہم کوئی نہایت اہم مسئلہ لے کرچند عالی دماغوں کے درمیان سلجھانے کو بیٹھے ہیں۔ اسی طرح ہم شطرنج میں دن دن بھر مصروف رہیں گے اور ان کی سمجھ میں یہی آئے گا کہ ہم کوئی ہنگامہ خیز کتاب لکھ رہے ہیں۔ مگر آپ بجا طور پر یہ کہہ سکتے ہیں کہ یہ بھی ایک قسم کی چوری ہوئی اور چوری کی ضرورت پیش آئی۔ بیگم سے مرعوب ہونے کے بعد لہٰذا جانے دیجیے اس نظر بندی اور سمجھ بندی کی ترکیبوں کو۔ مگر آپ کے پاس اس کا کیا علاج ہے کہ ہماری جنت کی آب وہوا میں بیگم کے دماغ کی اصلاح اس حد تک ہوجائے گی کہ وہی تاش جس کا نام سن کر وہ آگ بگولہ ہو جاتی ہیں۔ جب ہم کھیلنا چاہیں گے تو بیگم نہایت خندہ پیشانی کے ساتھ کہیں گی۔
’’آپ نے تو تاش کھیلنا ہی چھوڑ دیا ہے۔ میں توخود غور کررہی تھی کہ آخر آپ کو تاش کی طرف کیوں کر متوجہ کیا جائے۔‘‘
اور جب ہم تاش کھیل چکیں گے تو وہ پھر گلاب کی طرح شگفتہ ہوکر کہیں گی کہ’’ایک بازی اور کھیل لیجیے میری خاطر سے سہی، دیکھئے آپ کو میری ہی قسم ہے۔‘‘ رہ گئی شطرنج یعنی وہ منحوس کھیل جس کو کھیلنے کے معنی بیگم کے نزدیک یہ ہیں کہ گھر سے برکت کا ہمیشہ کے لیے خاتمہ کر دیا جائے، رحمت کے فرشتہ اس منحوس گھر کا راستہ بھول جائیں اور تھوڑے ہی دنوں میں وہ گھر جس میں شطرنج کھیلی گئی ہو۔ اس طرح تباہ و برباد ہوجائے کہ بہار کے زلزلہ کی تمام تباہیاں عبرت سے اس گھر کا منہ دیکھیں۔ مگر اسی شطرنج کے لیے بیگم نہایت ہی اہتمام کریں گی۔ ہاتھی دانت کے مہرے بنوائیں گی، سنگ مرمر کی میز پر اس کی گنگا جمنی بساط ہوگی اور مہروں میں یہ خوبی ہوگی کہ ہر مہرہ اپنا نام خود سمجھے گا اور زبان سے نام لیتے ہی اپنی چال چلا کرے گا۔ بیگم ہم سے شطرنج کھیلنے کے تقاضے کیا کریں گی اور ہم بیگم سے آنکھ بچا کر ان کو میکے بھیج کر یا چھپ چھپ کر دوستوں کے یہاں شطرنج نہ کھیلیں گے بلکہ بیگم کے زیر اہتمام خود ان ہی کے ساتھ دن رات شطرنج ہوا کرے گی۔
گھومنے کے سلسلہ میں حال یہ ہے کہ بیگم چاہتی ہیں کہ ہم دفتر جانے سے پہلے اور دفتر سے واپسی پر بس ان ہی خدمت میں حاضر رہا کریں۔ وہ ڈلی کاٹتی جائیں اور اپنے پر ائے آئے گئے محلہ پڑوس والوں کے واقعات اور حالات کے سلسلہ میں بیکار دماغ چاٹیں اور ہم اپنے دماغ کو اس طرح بے عذر ان کے سامنے رہنے دیں گویا دماغ کیا ہے’’ماحضر‘‘ ہے اور یہ سمجھ کو چپ رہیں کہ؛
روزئی خود میخورد برخوان تو
مختصر یہ کہ نہ کہیں سیر کو جائیں نہ گھر کے باہر قدم نکالیں۔ لیکن ہماری جنت میں ہم ہوں گے اور سیر سپاٹا۔ جہاں چاہیں گے، جا ئیں گے اور جب تک جی چاہے گا، گھومیں گے بلکہ اگر خود ہم نہ جائیں گے تو بیگم ہم کو گھومنے کے لیے بھیجا کریں گی کہ ’’جائیے ذرا تفریح ہوجائے گی، تازہ ہوا جسم کو لگے گی دماغ تازہ ہوجائے گا۔ اگرآپ تھک گئے ہوں توسواری منگادوں اس پر چلے جائیے۔ مگر جائیے ضرور۔‘‘ گویا اب تو ہم باندھ باندھ کر رکھے جاتے ہیں۔ اور اپنی جنت میں گھیر گھیر کر گھومنے پھرنے بھیجے جائیں گے۔ ذرا ہماری جنت کا تصور تو کیجیے کہ کس قدر دلچسپ اور کیسی آزادی کی فضاؤں سے معمور جگہ ہوگی۔ یہاں تو یہ حال ہے کہ اگر کسی دن کسی حادثہ یا سانحہ کے سلسلہ میں یاکسی عمدہ فلم یا کسی جلسہ کے چکر میں چراغ جلنے کے بعد گھر آنا پڑا تو بس یہ سمجھ لیجیے کہ قیامت کا سامنا ہے۔ پھر لاکھ لاکھ سمجھائیے، خوشامد کیجیے، منت سماجت سے کام لیجیے مگر یہ تو گویا طے ہی ہے کہ بدمعاشی کے خطاب سے نہیں بچ سکتے۔ اور محض یہ اتفاق تاخیر ایسا سنگین جرم بن جاتی ہے جو قابل دست اندازی ہی نہیں بلکہ مچلکہ اور ضمانت سے بھی کچھ آگے ہی سمجھی جاتی ہے اور تھوڑی دیر کی تفریح جب تک ایک مستقل عذاب میں مبتلا نہیں کرلیتی، اس وقت تک گویا ہم کو اطمینان نصیب نہیں ہوتا۔ مگر ہماری جنت میں یہ نامعقول پابندیاں اپنے منحوس قدم بھی نہیں رکھ سکتیں۔ وہاں تو اگر ہرروز عید ہوگی تو ہر شب کو شب برات بننے کا حق بھی حاصل ہوگا۔ راتوں کی جوان تاریکیوں میں ہم اپنے جنتی احباب کو ٹہلایا کریں گے۔ وقت کا دھڑکہ ہمارے لطف کو کرکرا نہ کرے گا۔ بلکہ ہم آزاد ہوں گے کہ جب چاہیں گھر جائیں۔ چھ بجے شام کے بجائے سات بج جانا کیا معنی، ہم تو بارہ اور ایک بجے رات کوبھی اگر گھر آئیں گے تو بیگم کو اپنے استقبال کے لیے خوش آمدید لکھی ہوئی شائباف پائیں گے اور وہ مسکرا مسکرا یہی کہیں گی کہ
’’خدا کا شکر ہے کہ آج میرے سرتاج کا اتنا وقت دلچسپیوں میں گذرا اللہ اس سے زیادہ آپ کو بے فکریاں اپنے خزانۂ غیب سے عطا کرے۔‘‘
بیگم کے اس خلوص اور خیر مقدم سے ہمارا وہ تمام خون رگوں میں گردش کرجائے گا جو آج کل رات گئے آنے کے جرم میں ڈر کے مارے خشک ہوجاتا ہے۔ پھر ہم اپنی جنگ میں اپنی گلاب سے زیادہ شگفتہ بیگم کو جو آج کل پھانسی کا حکم سنانے والے سیشن جج سے زیادہ خشک نظر آتی ہیں اپنی دلچسپیوں کی تفصیل سنائیں گے کہ یوں احباب میں لطف رہا۔ اور یوں ہاہا ہوہو میں وقت کٹا اور بیگم جو اس دنیا میں احباب کا نام سن کر مشین گن کی صورت میں مشتعل ہوجاتی ہیں اور جن کی بددعاؤں سے ہمارے سیکڑوں دوست فائدہ اٹھاکر؛
بہت آگے گئے باقی جوہیں تیار بیٹھے ہیں
کا سلسلہ بنے ہوئے ہیں وہی بیگم ہمارے ایک ایک دوست کا نام لے لے کر اس کے اور اس کے بال بچوں کو دعائیں دیں گی کہ ’’یا اللہ اس شخص نے جیسا میرے شوہر کو آج خوش رکھا ہے تو بھی اس کو ایسا ہی خوش رکھنااور اس کی اس نیکی کا بدلہ تو اس کے بال بچوں کو دینا۔‘‘
پھر ہم ان سے اپنی ان تمام دلچسپیوں کا ذکر کریں گے جن کو اس دنیامیں وہ غیر شریفانہ باتیں، شہدہ پن، آوارہ گرد وغیرہ کہاکرتی ہیں مگر ہماری جنت میں ان ہی تمام باتوںکو وہ ہماری شرافت، ہماری نیکی اور ہماری نیک چلنی کی علامتیں سمجھیں گی۔ خدا کی پناہ اگر آج کل ہم گھر جاکر یہ کہنے کے بجائے کہ ’’ہم وعظ سن رہے تھے۔‘‘ کہیں یہ کہہ دیں کہ’’آج سنیما میں ایک مشہور گانے والی کا گانا سن کر آرہے ہیں۔‘‘ تو یقین جانئے کہ ایسی خبر لی جائے کہ پھر خود بھی سرگم الاپنا پڑے۔ مگر یہی بیگم جنت میں ایسی جنتی ہوجائیں گی کہ ہم خود ہی ان سے کہیں گے کہ ’’آج ایک حور نے ایسا لاجواب گانا سنایا کہ واہ واہ!سچ تو یہ ہے کہ جیسی وہ حسین تھی ویسی ہی حسین آواز بھی پائی ہے۔‘‘
بیگم مسکرا کر کہیں گی، ’’اللہ اس حور کا بھلا کرے جو میرے شوہر کو اس قدر پسند آئی۔‘‘
کیوں صاحب ہم پوچھتے ہیں کہ ہم کو تو خیر چھوڑئیے ہمارے حال پر۔ مگر ہمارے علاوہ بھی ہے کوئی اپنی بیوی کا شوہر جو اس دنیامیں کسی حسین سے حسین عورت کو اپنی بدصورت سے بدصورت بیوی کے سامنے حسین کہہ کر بیوی کے قہر وغضب سے بچ جائے۔ اور ہے کوئی ایسی بیوی اس دنیا کے پردہ پر کسی شوہر کی زوجیت میں جو اپنے شوہر کی پسندیدہ عورت کو اس طرح بیساختہ دعائیں دے۔ مگر یہ صرف ہم ہوں گے اور جنت میں ہماری جنتی بیگم جن سے اس قدر خوشگوار تعلقات ہوں گے۔ وہ خوشگوار تعلقات جن کے بغیر یہ دنیا جہنم کا نمونہ بنی ہوئی ہے۔ ذرا غور کیجیے کہ جب ہم اپنی بیگم سے کہیں گے کہ ’’بیگم وہ حور ایسی تھی کہ تمہاری ایسی سیکڑوں بیویاں اس پر قربان کردی جائیں۔‘‘ تو بیگم بجائے جلنے کے نہایت اشتیاق کے ساتھ کہیں گی کہ’’میرے سرتاج آ پ کے انتخاب پر قربان ہوجانا میرا اور آپ کی سیکڑوں بی بیوں کا فرض ہے۔‘‘ بیگم کے الفاظ پر ہم جھوم جائیں گے اورآخر ان سے کہہ دینا پڑے گا کہ ’’اے وفا کی دیوی جنت کی تمام حوریں تجھ پر قربان۔‘‘ بیگم کی آنکھوں میں مسرت کے آنسوں ہوں گے اور ہمارے دل میں بیگم کی دہشت نہیں بلکہ طوفانی محبت۔ یہ ہوگی ہم غرباں مؤشوہر کی جنت۔
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.