شاعر کی ڈائری
۲؍ مئی،
میں آج بے حد متفکر بیٹھا ہوں۔ پندرہ روپے مکان کا کرایہ دیناہے اورکرایہ ادا کرنے کی تاریخ میں ایک ہفتہ باقی ہے۔ بجلی کا بل بھی ادا نہیں کیا۔ بجلی کے دفتر سے دھمکی آچکی ہے کہ اگر ایک ہفتے کے اندر بل ادا نہ کروگے تو کنکشن کاٹ دیا جائے گا۔ کم از کم بیس روپے چاہئیں لیکن یہ آئیں کہاں سے؟ تنخواہ کا دن ابھی دور ہے او ردفتر والوں نے اڈوانس دینا بند کر رکھا ہے۔ کیا کیا جائے؟
۳؍ مئی،
ڈاک آئی۔ ایک چھٹی ملی جسے کھول کر پڑھا تو دل باغ باغ ہے۔ خدا کسی کے کام نہیں روکتا۔ وزیر آباد کی ’’بزم شعر‘‘ کے سکریٹری صاحب لکھتے ہیں کہ ۵؍ مئی کو ہمارے ہاں عظیم الشان مشاعرہ ہے ضرور تشریف لائیے۔ پچیس روپے پیش کئے جائیں گے۔ مشاعرہ شام کے چھ بجے ہے۔
۴؍ مئی،
دفتر کا کام ختم ہوچکا ہے لیکن میں بیٹھا سوچ رہا ہوں کہ ’’بزمِ شعر‘‘ کے سکریٹری نے کرایہ کیوں نہیں بھیجا؟ ڈاک آئی اور ایک چٹھی اور ملی۔ یہ گوجرانوالہ کی ’’مجلس اردو‘‘ کی طرف سے ہے۔ گوجرانوالہ میں بھی مشاعرہ ہے۔ ۶؍ مئی کو سکریٹری صاحب نے لکھا ہے کہ فکر نہ کیجئے نذرانہ پیش کرنے میں تنگدلی سے کام نہیں لیا جائے گا۔ پہنچئے ضرور۔ یہ خط پڑھ کر دل میں کہا کہ خدا جب دینے پر آتا ہے تو چھپر پھاڑ کر دیتا ہے۔ اب سارے کام ہو جائیں گے۔
۵؍ مئی،
میراارادہ ریل سے وزیر آباد جانے کا تھا لیکن ایک دوست نے مشورہ دیا کہ ریلیں آج کل بہت لیٹ پہنچتی ہیں۔ بس خوب رہے گی۔ میں نے ان کا مشورہ مان لیا اور بس میں سوار ہوگیا۔ لاری کوئلے سے چلتی تھی اور گوجرانوالے تک بڑے مزے سے چلی لیکن گوجرانوالے کے اڈے سے کوئی دومیل چل کر ایسی ٹھہری کہ ’’گل محمد‘‘ بن گئی؛
’’زمیں جنبد نہ جنبد گل محمد‘‘
ڈرائیورنے بہیتری کوشش کی، کوئلے تازہ ڈال کر سلگائے، پرزوں کی دیکھ بھال کی، لیکن لاری نے نہ چلناتھا نہ چلی۔ سارے مسافر سڑک پر درخت کے سائے میں بیٹھے لاری کو کوس رہے تھے۔ آخر ڈرائیور نے تنگ آکے سب سے کہا کہ میرے کلینر کو ساتھ لے جائیے اور گوجرانوالے جاکر ہمارے دفتر سے اپنے باقی دام لے لیجئے۔ گرمی کی شدت میں ہم لوگ گوجرانوالے پہنچے۔ دام لئے اور سوچنے لگے کہ اب کیا کیا جائے ٹرین ایسے وقت وزیر آباد پہنچتی تھی کہ میں مشاعرے میں شریک نہ ہوسکتا تھا۔ آخر ایک لاری ملی اور میں اس میں سوار ہوگیا۔ لیکن میری بدقسمتی کہ یہ لاری بھی آٹھ دس میل چل کر بگڑ گئی اور اس کی مرمت ہوتے ہوتے چھ بج گئے اور میں ۹ بجے سے پہلے وزیر آباد نہ پہنچ سکا مقام مشاعرہ پر گیا۔ وہاں اُلّو بول رہے تھے۔ دریافت کرنے پر معلوم ہوا کہ مشاعرہ آٹھ بجے ہی ختم ہوگیا تھا۔
اب میں حیران تھا کہ کہاں جاؤں۔ واپسی کے لیے جیب میں پائی نہیں۔ آخر پوچھتے پچھاتے سکریٹری صاحب کے گھر پہنچا۔ ملاقات ہوئی میں نے اپنا تعارف کرایا تو انہوں نے چین بچیں ہوکر کہا واہ جی واہ! آپ نے ہماری خوب بے عزتی کرائی۔ سب لوگ ہمیں گالیاں دے رہے تھے اور کہہ رہے تھے کہ حاجی لق لق کا نام یونہی اشتہار میں لکھ کر لوگوں کو دھوکا دیا گیا ہے۔
میں نے سارا قصہ بیان کیا لیکن اس کا فائدہ کیا تھا۔ سکریٹری صاحب نے بیٹھک میں بٹھا یا کھانا کھلایا اور میں یہ سوچتا ہوا سوگیاکہ مجھے کچھ ملے گا بھی یا نہیں۔
۶؍ مئی،
صبح سکریٹری صاحب آئے۔ میں نے اجازت چاہی انہوں نے فرمایا کہ بہت بہتر لیکن چونکہ آپ مشاعرے پر نہیں آئے اس لئے معاف کیجئے کہ آپ کو پیسوں ویسوں کا کوئی حق نہیں۔ بہر حال یہ کرائے کے دام لے لیجئے۔ یہ کہہ کر انہوں نے مبلغ تین روپے میرے ہاتھ میں دے دیئے اور میں سلام علیکم کہہ کر روانہ ہوا۔
گوجرانوالے پہنچاتو ان لوگوں نے بڑی خاطر ومدارت کی۔ جس سے میں نے اندازہ لگا یا کہ یہ لوگ مجھے تیس روپے سے کم نہ دیں گے۔ شام ہوئی اور ہم ایک سکول کے ہال میں چل دیئے۔ وہاں بہت سی مخلوق جمع تھی۔ لیکن اندر تھوڑے ہی آدمی تھے کیونکہ منتظمین نے ٹکٹ لگا رکھا تھا۔
ہم ہال کے اندر گئے ہی تھے کہ تمام مخلوق ایک ریلے کے ساتھ بے ٹکٹ اندر آگئی۔ نہ اب تو پولیس کا انتظام نہ بے ٹکٹوں کو نکالنے کا کوئی ذریعہ۔ منتظمین نے منت سماجت بھی کی اور دھمکیاں بھی دیں لیکن کون سنتا تھا؟ آخر مشاعرہ شروع کردیا گیا اور دو تین گھنٹے تک خوب رونق رہی۔
۷؍ مئی،
صبح اٹھ کر میں نے سکریٹری صاحب سے اجازت چاہی تو انہوں نے رونی سی صورت بناکے کہا کہ رات جو کچھ ہواآپ نے دیکھ ہی لیا۔ پانچ چھ روپے سے زیادہ کے ٹکٹ نہیں بک سکے اور مجلس کے پاس کوئی فنڈ بھی نہیں بلکہ پچھلے مشاعرے کا تھوڑا سا قرضہ مجلس کے سر پر ہے۔ اس لئے میں نہایت عفو طلبی کے ساتھ یہ حقیر سی رقم پیش کرتا ہوں۔ یہ صرف آپ کا کرایہ ہی ہے پھر کبھی آپ کو بلایا جائےگا تو کسر پوری کردی جائے گی۔ میں نے ہاتھ بڑھایا تو سکریٹری صاحب نے پانچ روپے کا نوٹ میرے ہاتھ پر رکھ دیا۔
۸؍ مئی،
سوچ رہا ہوں کہ پندرہ روپے مکان کا کرایہ دینا ہے اور کرایہ ادا کرنے کی تاریخ میں صرف ایک دن باقی ہے۔ بجلی کا کنکشن کٹنے میں بھی ایک دن باقی ہے کیا کروں۔ کہاں جاؤں؟
۱۲؍ مئی،
آج دفتر میں ایک مقامی کالج کے دولڑکے آئے تھے، کہنے لگے کہ شام کو ہمارے کالج ہال میں مشاعرہ ہےاور ہماری بڑی خواہش ہے کہ آپ اس میں شرکت فرمائیں۔ میں نے جواب دیا کہ حاضر ہوں گا لیکن مجھے دیں گے کیا؟ طلباء بولے کہ صاحب سب شعرا مفت آرہے ہیں اور آپ کو خوشی کے ساتھ مفت آنا قبول کرلینا چاہیے کیونکہ ایک ہندو کالج میں ’’بزم ادب اردو‘‘ کا قیام غنیمت سے۔ آپ اسے اُردو ادب کی خدمت تصور فرمائیے۔ بس ہم یہی کرسکتے ہیں کہ شام کو تانگے پر لے جائیں گے اورتانگہ آپ کو واپس چھوڑ جائے گا۔
میں نے ہاں کرلی اورشام کے وقت ایک لڑکا آیا اور مجھے تانگے میں سوار کرکے کالج لے گیا۔ مشاعرہ ہوا اور بڑا کامیاب رہا۔ لیکن جب ختم ہوا تو وہ لڑکے مجھے ڈھونڈے سے بھی نہ مل سکے اور میں پیدل ٹاگیں توڑتا گھر پہنچا۔ کھانا کھانے کے بعد یہ سطور لکھ رہا ہوں۔
۲۱؍ جون،
آج مجھے ’’بزم اقبال‘‘ جالندھر کے مشاعرے میں شریک ہونے کے لئے جانا تھا۔ تین چار روز پہلے بزم کے پروپیگنڈہ سکریٹری صاحب آئے تھے اور مجھے مدعو کرگئے تھے۔ میں نے اُن سے اپنی فیس اس لئے طے نہ کی کہ جالندھر والے اس معاملے میں بہت فراخدل واقع ہوئے ہیں۔
لاہور سے گاڑی دوبجے جالندھر جاتی ہے۔ میں دفتر میں بیٹھا دوبجے کی انتظار کررہا تھا کہ سکریٹری صاحب پھر آگئے اور بولے چلئے۔ میں آپ کو لینے آیا ہوں۔ میں اُٹھ کر چلنے ہی کو تھا کہ دفعتاً خیال آیا ذرا اپنے معاوضے کے متعلق اطمینان کرلوں۔ میں نے کہا کہ آپ کومیری فیس معلوم ہے؟ وہ بولے معلوم تو نہیں لیکن آپ فکر نہ کیجئے آپ کو خوش کیا جائے گا۔ میں نے کہا پھر بھی کچھ بتائیے تو سہی؟ نوجوان نے جواب دیا کہ ورکنگ کمیٹی نے آپ کے دس روپے مخصوص کررکھے ہیں۔ یہ سن کر میں نے عرض کیا کہ تشریف لے جائیے اور ارکان بزم کی خدمت میں مرا سلام عرض کر دیجئے۔
۲۲؍ جون،
سوچ رہا ہوں کہ اگر یہ لوگ مشاعروں کی فیس نہیں دے سکتے تو مشاعرے کراتے کیوں ہیں؟ کیا مشاعرے کرانا کوئی کسی حکیم کا مشورہ ہے؟
۱۰؍ جولائی،
آج گوجرانوالے میں مشاعرہ تھا۔ لاہور اور دیگر کئی مقامات سے شعراء آئے ہوئے تھے۔ ایک شاعر صاحب نے جو لاہور میں رہتے ہیں اپنا کلام سنانے سے پہلے ایک مختصر سی تقریر فرمائی جس میں آپ نے شکوہ کیا کہ مشاعرہ کرانے والے شاعروں کو کافی معاوضہ نہیں دیتے۔ اس بات پر زور دیتے ہوئے آپ نے فرمایاکہ ’’صاحب! آپ جتنا گڑ ڈالیں گے اتنا ہی میٹھا ہوگا۔‘‘
تقریر کے بعد آپ نے کلام شروع کیا۔ ابھی مطلع ہی پڑھا تھا کہ ایک نوجوان اٹھا اور اُس نے آگے بڑھ کر ایک پیسہ شاعر کو دے کر کہا کہ لیجئے جناب پہلے اپنے کلام میں تھوڑا گڑ ڈال لیجئے۔
۸؍ اگست،
امرتسر میں آج بڑے زناٹے کا مشاعرہ تھا۔ لاہور کے قریباً تمام مشہور شاعر جمع تھے۔ مشاعرہ کے دوران میں ایک نہایت ہی حسین وجمیل لڑکا غزل پڑھنے کے لئے اٹھا۔ حاضرین نے تالیاں بجائیں۔ نوجوان نے اشعار پڑھنے شروع کئے جو بہت پختہ تھے۔ خوب داد مل رہی تھی۔ لیکن طنزیہ رنگ میں کسی نے کہا، واہ! لکھنے والے نے کمال کیاہے۔ دوسرے نے کہا، اجی آپ کے استاد کی کیا بات ہے وغیرہ۔
اس پر صاحب صدر اٹھے اور انہوں نے طنزیہ داد دینے والوں کو ایک جھاڑ ڈالی اور کہا کہ ’’آپ ایک نوجوان کے متعلق کیوں بدگمانی کررہے ہیں؟ آپ کو خوش ہونا چاہیے کہ اس لڑکے نے چھوٹی عمر میں ہی اچھا شعر کہنے کی قابلیت پیدا کرلی ہے۔ مجھے ذاتی طورپر علم ہے کہ یہ نوجوان خود شعر کہتا ہے اور بہت اچھا شعر کہتا ہے۔‘‘
لڑکے نے کلام پڑھنا جاری رکھا اور جب یہ مصرع پڑھا تو صاحب صدر کا رنگ فق ہوگیا،
’’جیواں اسے کہئے انساں نہیں ہوتا‘‘
بات یہ ہوئی کہ ’’حیوان‘‘ کی ح کے نیچے کسی طرح ایک نقطہ پڑگیا تھا یا شاید پہلے ہی کاغذ پر سیاہ بندی موجود تھی۔ نوجوان نے اسے ’’جیواں‘‘ پڑھ کر اپنی قلعی آپ کھول دی اور حاضرین نے اس قدر داد دی کہ بیچارے کو بیٹھ جانا پڑا۔
۱۵؍ ستمبر،
کل فیروز پور میں مشاعرہ تھا۔ میں بھی مدعو تھا لیکن دفعتہ علیل ہوجانے کے باعث نہ جاسکا۔ آج ایک دوست مشاعرہ سے واپس آئے تو انہوں نے ایک عجیب قصہ سنایا۔
یوپی کے ایک مشہور شاعر صاحب بھی بلائے گئے تھے۔ مشاعرہ شروع تھا لیکن آپ ابھی تک ڈیرے پر تھے۔ جب کافی وقت ہوگیا تو حاضرین نے ان کا نام لے لے کر شور مچانا شروع کردیا کہ کہاں ہیں؟ سکریٹری نے کہا کہ وہ غسل فرمارہے ہیں، ابھی آئیں گے۔ پندرہ بیس منٹ کے بعد پھر شور مچا، تو سکریٹری صاحب نے نہایت ادب سے کہا کہ کھانا کھارہے ہیں۔ چند منٹ کے بعد آپ کے سامنے آجائیں گے۔
لوگوںکا اضطراب بڑھ رہا تھا کیونکہ وہ ان شاعر صاحب کو دیکھنے اور ان کا کلام سننے کے بہت شائق تھے۔ آخر خدا خدا کرکے شاعر صاحب تشریف لائے لیکن اس شان سے کہ آپ کو دوآدمیوں نے تھاما ہواتھا بہ مشکل آپ کو اونچی سٹیج پر چڑھایا گیا اور کرسی پر بٹھایا گیا۔
آپ کلام سنانے کے لیے اٹھے تو حاضرین نے خیر مقدم کی تالیاں بجائیں۔ شاعرصاحب ایک منٹ تک تو کھڑے سوچتے رہے پھرایک شعر کہا اور اس کے بعد دھڑام سے زمین پر گرگئے۔ لوگوں نے آپ کو اٹھایا اور دونوں طرف سے آپ کو تھام کر جس طرح آپ کو لایا گیا تھا۔ اسی طرح واپس ڈیرے پر پہنچا دیا گیا۔
میں سوچتا ہوں کہ شاعر لوگ شراب کیوں پیتے ہیں؟ اور اگر پیتے ہیں تو مشاعروں میں جاکر کیوں پیتے ہیں؟ اور اگر ایسا بھی کرتے ہیں تو مشاعرہ ختم ہونے کے بعد کیوں نہیں پیتے اور پہلے ہی کیوں الّو بن جاتے ہیں۔
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.