Font by Mehr Nastaliq Web

aaj ik aur baras biit gayā us ke baġhair

jis ke hote hue hote the zamāne mere

رد کریں ڈاؤن لوڈ شعر

شعر، شاعر اور مشاعرہ

یوسف ناظم

شعر، شاعر اور مشاعرہ

یوسف ناظم

MORE BYیوسف ناظم

    شاعروں کی قسمیں گنانا کوئی اچھی بات نہیں ہے۔ اچھی بات ہو یا نہ ہو کام آسان بھی نہیں ہے کیونکہ شاعر تو تاروں کی طرح ہوتے ہیں، لاتعداد، جنہیں آج تک کوئی گن نہیں سکا۔ ماہرین فلکیات ہمارے یہاں اور ہمارے ملک کے علاوہ دوسرے ملکوں میں بھی جو ہماری طرح مقروض ہیں، پیدا ہوتے ہیں لیکن ان ماہرین میں سے کسی نے بھی تاروں کی مردم شماری کا کام انجام نہیں دیا۔ کون جان پر کھیلنا چاہے گا۔

    شاعر بھی تاروں ہی کی قبیل میں آتے ہیں،اس کی دو وجہیں ہیں، ایک تعداد اور دوسرے یہ کہ یہ بھی تاروں ہی طرح اندھیری راتوں میں چمکتے ہیں۔ ان میں فاصلہ بھی کافی رہتا ہے۔ ہم نے جہاں تک غور کیا ہے شاعروں میں دو قسم کے شاعر سرفہرست ہیں، ایک وہ جنھیں محاسن شاعری پر عبور حاصل ہوتا ہے اور وہ حتی الامکان اپنے اس عبور کو برقرار رکھتے ہیں اور دوسرے وہ شاعر جو معائب شاعری میں کمال حاصل کرتے ہیں اور ان معائب کی جی جان سے حفاظت کرتے ہیں۔ پہلی قسم کے شاعروں کو اب پسند نہیں کیاجاتا۔

    پہلے بھی بس ضرورتاً پسند کرلیاجاتا تھا کیونکہ ان میں اکثر شاعر لباس وغیرہ کے معاملے میں بھی محتاط رہتے تھے خاص طورپر مشاعروں میں بہت چوکنّے رہتے تھے اور کلام سناتے وقت ان میں سے کسی شاعر کا ازاربند خارج از بحر نہیں ہوتا تھا۔ وہ پان ضرور کھاتے تھے لیکن جب انہیں زحمت سخن دی جاتی یہ اپنا (قیمتی) پان اپنے منہ میں دائیں بائیں سمت کونے میں پہنچا دیتے تھے۔ رومال سے منہ بھی صاف کرلیتے تھے۔ ان کے یہ افعال محاسِن شاعری کے سوا ہوتے تھے اور لوگ ان کے محاسن شاعری کو گوارا کرلیتے تھے۔ محاسن کے مقابلے میں معائب شاعری کو ہمیشہ زیادہ پسند کیا جاتا رہا ہے۔

    جن شاعروں نے محاسن کا خیال رکھا ان سے تو کبھی نہ کبھی کوئی غلطی سرزد ہوگئی اور شعر میں کوئی سقم پیدا ہوگیا لیکن معائب شاعری سے ربط رکھنے والے شعرا اس معاملے میں ہمیشہ کامیاب و کامران رہے اور ان کی پوری شاعری معائب اور صرف معائب سے مملو اور مزین رہی۔ انھوں نے غلطی سے بھی کوئی شعر ایسا نہیں کہا جس میں کوئی خوبی درآئی ہو۔ ان شعرا نے اپنے کلام کو پراثر بنانے کے لیے محنت بہت کی اور ترنم کا برسوں ریاض کیا۔ ان کے گلے میں جو لحن پایا جاتا ہے کچھ تو خدا داد ہے اور کچھ طویل ریاض کا نتیجہ۔ جب بھی انھوں نے مشاعرے میں کلام سنایا ان کی مختصر بحر کے شعر بھی طویل بحر کے شعر معلوم ہوتے۔ (گوکہ بحران میں تھی نہیں)اور دیر تک ان کا لحن جاری رہا (دور تک بھی پہنچا۔)

    ہمیں اس خبر پر یقین تو نہیں آیا لیکن یہ خبر ہم نے سنی ضرور اور ایک نہیں کئی لوگوں کی زبانی کہ میوزک ڈائرکٹروں کی طرح اب شاعروں کی فلاح وبہبود کے لئے ترنم ڈائرکٹر بھی ہونے لگے ہیں اور یہ لوگ ازراہ خلوص شاعروں کو عموماً اور شاعرات کو خصوصاً ترنم کا درس دینے لگے ہیں۔

    ترنم کا درس اس لیے بھی مشکل ہوتا ہے کہ اس میں ساز کا سہارا نہیں لیا جاتا لیکن بوقت استعمال ساز کی کمی بھی محسوس نہیں ہوتی۔ ترنم ڈائرکٹروں کا خیال ہے کہ شاعرات کو ترنم سکھانے میں زیادہ محنت نہیں کرنی پڑتی کیونکہ ان کی آواز میں پہلے ہی سے ترنم قسم کی کوئی چیز پنہاں ہوتی ہے، جسے روبکار لانے کے لیے ڈائرکٹروں کا ہلکا سا دست شفقت کافی ہوتا ہے جب کہ مذکر شاعروں کی آواز میں لطافت پیدا کرنے میں دیر لگتی ہے اور کافی سے زیادہ مصالح انتظامی درکار ہوتے ہیں۔ ترنم ڈائرکٹر بنظر احتیاط شاعروں اور شاعرات کو الگ الگ شفٹوں میں درس دیتے ہیں۔

    شاعرات کو ترنم کا درس دیتے وقت اس شاعر کو حاضررہنے کی اجازت ہوتی ہے جس نے کلام پر اپنا زور صرف کیا ہو۔ بعض صورتوں میں مشکل الفاظ حذف کروا دیے جاتے ہیں۔ کلام کے دوسرے معائب اس لیے برقرار رہنے دیے جاتے ہیں کہ اگر انھیں حذف کیا گیا تو پھر کلام میں رہے گا کیا۔ اس لیے مشاعروں میں دیکھاگیا ہے کہ حسن کلام پر نہیں حسن ترنم پر زیادہ داد ملتی ہے۔

    صدر مشاعرہ بھی نیند سے فارغ ہوکر اس کلام کو آنکھیں کھول کر سنتے اور میٹھی میٹھی نظروں سے داد دیتے ہیں۔ شاعرات آتے وقت تو خالی ہاتھ آتی ہیں، جاتے وقت مشاعرہ لوٹ کر گھر لوٹتی ہیں۔ لوٹے ہوئے مشاعرے کو سنبھال کر لے جانے کے لیے مددگار جو تعداد میں کم سے کم چار ہوتے ہیں، مشاعرہ گاہ میں موجود رہتے ہیں۔ کچھ لوگ انھیں سیکورٹی گارڈ کہتے ہیں۔

    ہم نے اکثر شاعروں کو بھی مشاعرہ لوٹتے دیکھا ہے لیکن یہ لوگ بے دردی سے مشاعرہ نہیں لوٹتے، تھوڑا بہت چھوڑ بھی دیتے ہیں کیونکہ ان کی رائے میں مال غنیمت میں سب کا حصہ ہوتا ہے۔ شاعرات ایسا نہیں سوچتیں۔ شاعروں اور خاتون شاعروں کی نفسیات میں یہی فرق ہوتا ہے۔ دونوں میں اس فرق کے علاوہ دیگر قسم کے فرق بھی پائے جاتے ہیں جن میں سے کچھ قدرتی ہوتے ہیں۔

    مشاعروں کے سامعین بڑی حد تک منصف مزاج ہوتے ہیں (خوش مزاج تو ہوتے ہی ہیں) اور اپنی انصاف پسندی کی بنا پر جن شاعروں کے کلام میں عیوب اور نقائص کم ہوں، انھیں زیادہ داد نہیں دیتے۔ اکثر صورتوں میں تو سرے سے داد دیتے ہی نہیں اور یہ طریقہ ہمارے خیال میں ہر لحاظ سے صحیح ہے۔ یہ شاعر اسی سلوک کے مستحق ہوتے ہیں۔ یہ بات طے ہوچکی ہے کہ معائب شاعری سے لطف اندوز ہونا مقصود ہو تو مشاعرے میں ضرور جانا چاہئے، اور وہ بھی و قت مقررہ پر کیونکہ معائب کے مشاق شاعر، شروع ہی میں مشاعرے کو عروج پر پہنچا دیتے ہیں۔ اگر ان کاکلام کسی وجہ سے مشاعرے کو شباب پر (یا شباب کو مشاعرے پر) نہ لاسکے تو ناظم مشاعرہ اپنے لطیفوں سے اس کمی کو پوراکردیتا ہے۔

    مشاعروں میں اب لطیفوں پر بھی ویسی ہی داد دی جانے لگی ہے جیسا کہ کسی زمانے میں اچھے شعر پر دی جاتی تھی۔ سامعین لطیفہ سن کر باجماعت کہنے لگتے ہیں مکرر مکرر (اناؤنسر لطیفہ دوبارہ نہیں سناتا بلکہ تھوڑا سا جھینپ جاتا ہے) لوگوں کا خیال یہ بھی ہے کہ چند رسائل خرید کر بھی معائب شاعری سے لطف حاصل کیا جاسکتا ہے کیونکہ ادبی رسائل بھی پابندی سے کلام مذموم شائع کرنے لگے ہیں (اب منظوم کلام کم ہی نظر آتا ہے) لیکن رسائل کی بساط ہی کتنی، مشاعرے کی بات ہی اور ہوتی ہے۔ ہر نقص مکمل، ہر عیب درخشاں، مشاعرے میں معائب کی بارش ہوتی ہے، خود شاعر بھی تر ہو جاتا ہے۔

    کچھ عرصہ پہلے تک ادب میں اصناف ادب کی درجہ بندی ہوتی تھی اور دانشور قسم کے لوگ فیصلے صادر کرتے تھے کہ کس صنف ادب کو کس صنف ادب پر فوقیت حاصل ہے۔ اب یہ درجہ بندی نہیں ہوتی کیونکہ اب ساری اصناف ادب ایک ہی سانچے کی پیداوار ہیں تاہم جہاں تک نقائص اور معائب کا تعلق ہے شاعری کو افسانے اور ناول پر فوقیت حاصل ہے۔ شاعروں میں ’’مین پاور (MAN POWER) بھی تو زیادہ ہے۔ شاعری میں عیوب کا معاوضہ بھی بکثرت ہوتا ہے اور یہ کلام ساقط نظام بیرون ملک بھی جاتا ہے۔‘‘ جاتا ہے سے مراد یہ کہ خود شاعر اسے لے جاتے ہیں (یہ بوجھ کسی اور سے اٹھایا بھی نہیں جاسکتا) اس کلام کی خوبی یہ ہوتی ہے کہ وزن میں نہ جانے کے باوجود کافی وزنی ہوتا ہے۔ کچھ وزن نقائص کا ہوتا ہے اور کچھ بیاض کا۔ شاعری کو فن لطیفہ بنانے میں شاعروں نے جان توڑ کوشش کی ہے۔

    محاسن شاعری پر کتابیں بھی لکھی گئی ہیں اور ہر نکتہ وضاحت کے ساتھ سمجھایا گیا ہے، مثالیں بھی دی گئی ہیں، جن سے ان کتابوں کی افادیت اور مصنفوں کی قابلیت میں کافی اضافہ ہوا ہے۔

    ان کتابوں کے مصنفوں نے اپنی تصنیف سے متاثر ہوکر بڑے خلوص کے ساتھ، خود بھی شاعری کی ہے اور اس بات کا خاص طورپر خیال رکھا ہے کہ ان کے کلام میں صرف فن کا دخل ہو شاعری کا نہ ہو۔ اس طور کی شاعری میں شاعر کو بہت محنت کرنی پڑتی ہے اور اتنی ہی محنت قاری کو بھی کرنی پڑتی ہے۔ اس کلام میں زور بازو بہت ہوتا ہے۔ کچھ لوگ اس شاعری کو تُک بندی کا نام دیتے ہیں لیکن یہ مبالغہ ہے کیونکہ تُک بندی میں بھی تو کوئی تک ہوتا ہے۔

    ہندوستان کایک زرعی ملک ہے اس لیے شاعری ہمارے مزاج میں ہے۔ ہم بنجر زمین سے بھی اچھی فصل کی توقع رکھتے ہیں۔ ہمارے یہاں شاید ہی کوئی تنفس ایسا ہو جس نے شعر نہ کہا ہو۔ لڑکپن اور طالب علمی کے زمانے کے کہے ہوئے شعر آخر عمر میں ان لوگوں کو یاد دلاتے ہیں کہ انھیں ضائع نہ ہونے دیا جائے۔ لوگ صرف ان اشعار کی خاطر آٹو بایوگرافی لکھتے ہیں جو شعر آٹو بایوگرافی لکھنے پر اکسائیں انھیں اچھا ہونا ہی چاہئے۔

    اس مجموعۂ نثر ونظم کا نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ لوگ داد تو نہیں دیتے لیکن شاعر کم مصنف کا آٹوگراف ضرور لے لیتے ہیں (شاعر کم، مکمل اردو ترکیب ہے۔) ہمارا تجربہ بتاتا ہے کہ وہ شاعری جس میں محاسن ہوں سامعین جن میں ہم شامل ہیں کہ سر پر سے گزرجاتی ہے۔ کچھ لوگ تو کھڑے رہ کر یہ کلام سنتے ہیں لیکن شاعر کا کلام تب بھی اوپر ہی سے گزر جاتا ہے۔

    Additional information available

    Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.

    OKAY

    About this sher

    Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.

    Close

    rare Unpublished content

    This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.

    OKAY

    Jashn-e-Rekhta | 13-14-15 December 2024 - Jawaharlal Nehru Stadium , Gate No. 1, New Delhi

    Get Tickets
    بولیے