سسرال
گیدڑ کی جب موت آتی ہے وہ شہر کی طرف بھاگتا ہے۔ شہری کی جب شامت آتی ہے تو وہ دیہات میں شادی کر لیتا ہے۔ یہ شامت ہمارے بھاگ میں بھی تھی۔ خیر یوں تو ہم بھی کون سے کلکتہ، بمبئی کے رہنے والے ہیں۔ مگر پھر بھی شہر میں رہے سہے۔ شہر میں پڑھے، لیجیے ہوگئے شہری اور لگے دیہات سے گھبرانے۔ مگر بڑے بول کا سر تو نیچا ہوکر ہی رہتا ہے۔ آخر پھر اسی دیہات میں بیوی کی بھیگ مانگتے ہوئے پہنچے اور بہت کچھ دوڑ دھوپ کے بعد موضع بھدیسل کے زمیندار صاحب نے ہم کو اپنی غلامی میں لے لیا۔
ہمارے یہ سسر صاحب بڑی آن بان کے زمیندار ہیں اور انسان تو ایسے ہیں کہ اگر شہر میں آجائیں تو لوگ ان کو دور دور سے دیکھنے آئیں۔ ایک ہے ان کے پاس لٹھ جو ہم سے کچھ ہی پتلا ہوگا۔ دوڈھائی سیر تو لوہا اس میں جڑا ہوا ہے اور کوئی آدھ سیر کے قریب چاندی۔ ہم نے ایک مرتبہ اگراس لٹھ کو مگدر کے طور پر اٹھایا تو ہمارا خیال یہ ہے کہ اگر لٹھ کو ہم روز سویرے دو ایک مرتبہ اٹھا لیا کریں تو اس سے سینہ بھی بڑھے گا اور بازو کے پٹھے بھی چوڑے چکلے پہلوانوں جیسے ہوجائیں گے۔ دوسری چیز ہے ہمارے سسر صاحب کا جوتا جو دور سے تو ہوائی جہاز معلوم ہوتا ہے۔ قریب جائیے تو فرنیچر کے قسم کی کوئی چیز دکھائی دیتی ہے اور جب بالکل پاس پہنچ کر دیکھئے تو معلوم ہوتا ہے کہ اس گاؤں بھر کے لوگوں نے الگ الگ جوتے بنوانے کے بجائے ایک ہی جوتا بنوا لیا ہے اور سب اس کو ایک ساتھ پہنچتے ہوں گے۔ اگریہ جوتا ہم کو مل جائے تو ہم اس سے سوٹ کیس کا کام نکالیں۔ ان دونوں چیزوں سے یہ اندازہ تو ضرور ہوسکتا ہے کہ ہمارے سسر صاحب کوئی معمولی آدمی نہیں ہیں۔ ہمارے ایسے لوگ تو بھنگے ہیں ان کے سامنے۔ اللہ ہماری نظر بد سے بچائے دیو کے دیو ہیں۔ منھ میں بالٹی لگاکر کھڑے کھڑے پانچ چھ سیر دودھ پی جاتے ہیں۔ ایک مرتبہ بیمار ہوگئے تھے تو شہر کے کسی ڈاکٹر نے کہہ دیاتھا کہ آپ گن کر روٹیاں کھایا کیجیے، تو وہ بے چارے گن کر پچیس تیس روٹیاں کھاجاتے تھے۔ ان کو کھانا کھاتے ہوئے دیکھنا ہر ایک کا کام نہیں ہے۔ پہلی مرتبہ تو ان کا کھانا کھاتے ہوئے دیکھ کر ہم ایسا سمجھے تھے کہ یہ طے کر لیا تھا کہ ادھر کی دنیا اُدھر ہوجائےمگر ان کی لڑکی سے ہم قیامت تک شادی نہیں کریں گے۔ نہ جانے یہ کس دن ہم کو اٹھاکر منھ میں رکھ لیں مگر اب عادت پڑگئی ہے دیکھتے دیکھتے۔
یہ تو سب کچھ ہے مگر سسرصاحب اگر دنیا میں کسی کی بات مانتے ہیں تو وہ ہماری سکے ہیں کہ شہر کا پڑھا لکھا لڑکا ہے۔ مڈل سے بھی آگے تک پاس ہے اس کی بات نہ مانیں گے تو کیا تکونو کی بات مانیں گے جس نے شہر میں جاکر کھیتوں کا مقدمہ ہی نہ جانے کیا الٹی سیدھی بات کرکے ہرا دیا۔
خیر اب سسر صاحب کی ایک ایک بات کہاں تک بیان کی جائے، اس کے لیے تو ایک الگ کتاب لکھنے کا خودان ہی سے وعدہ کر چکے ہیں۔ مگر اس وقت ان کی چھوٹی لڑکی کے بیاہ کا حال سن لیجیے کہ وہاں کا کیا حال تھا او ر ہم پر کیا گذر رہی تھی۔ ہم کو بہت دن پہلے سے موضع بھدیسل بلایا گیا تھا اور ایک ایک بات ہم سے پوچھ کر کی جا رہی تھی۔ اصل میں یہ شادی بھی خود ہم ہی نے ٹھہرائی تھی۔ ہمارے ایک دوست تھے اور ہم چاہتے تھے کہ شہر میں ہماری طرح کا ایک آدھ دیہاتی داماد اور بڑھے۔ ہمارے سسر صاحب کو تو بس اتنا ہی اطمینان کافی تھا کہ یہ شادی ہم نے ٹھہرائی تھی مگر ہمارے دوست کی جان پر بنی ہوئی تھی کہ اگر اس کم بخت نے زندگی بھر کا مذاق کردیا تو کیا ہوگا۔ رہ گئے ہم، تو ہمارا حال یہ تھا کہ ہم سسر صاحب کے اس اطمینان کا خون کرنا ہی نہیں چاہتے تھے اور اپنے دوست سے مذاق کرنے کی نیت بھی نہ تھی۔ البتہ یہ ڈر ضرور لگ رہا تھا کہ معلو م نہیں دیہات کی کس بات کو مذاق سمجھ بیٹھیں۔ اب ہماری سب سے پہلی کوشش یہی تھی کہ دلہن کو ہاتھ کا کتا اور ہاتھ کا بنا جو جہیز دیا جانے والا تھا وہ کسی طرح ٹل جائے تو اچھا ہے۔ اس لیے کہ خود ہماری بیوی کے جہیز میں جو کرسی آئی تھی اس کو ہم بہت دنوں تک گھڑونچی سمجھتے رہے اور جب پتہ چلا کہ یہ کرسی ہے تو گاؤں گئے تھے سسر صاحب سے پوچھنے کہ اس پر بیٹھنے کا طریقہ کیا ہے۔
مطلب یہ کہ انھیں تمام باتوں سے ہم اپنے دوست کو بچانا چاہتے تھے اور بچانے کی کوئی صورت نظر نہ آتی تھی۔ وہاں دھڑا دھڑ زیور پر زیور ڈھل رہے تھے۔ جن میں سے ایک بھی اس قابل نہ تھا کہ اس کو زیور سمجھ کر پہنا جاسکے۔ شہر میں ان چیزو ں سے ورزش کی جاتی ہے۔ آخر ہم کو دخل دینا ہی پڑا اور ٹھیک اس موقع پر جب کہ ہمارے سسر صاحب ڈھائی تین سیر کی ایک جھانجھ لیے ہوئے اپنے نسیم سے کہہ رہے تھے کہ ہلکی رہی یہ، ہم سے ضبط نہ ہوسکا اور ہم نے سسر صاحب سے پوچھ ہی لیا، ’’بھائی ابا یہ کیا ہے؟‘‘ ہم ان کو بھائی ابا اس لیے کہتے تھے کہ ہماری بیوی ان کو یہی کہتی تھیں۔
ہمارے سوال پر جھانجھ ہماری طرف بڑھاتے ہوئے کہا، ’’جھانجھ ہے بھیا، پر میں یہ کہتا ہوں کہ یا تو چیز نہ دی جائے اور یا دی جائے توایسی کہ ناک نہ کٹے۔‘‘ ہم نے دبی زبان سے کہا، ’’ناک نہ کٹے، چاہے پیر ٹوٹ جائے۔‘‘ چونک کر بولے، ’’بائیں! پیر کی کیا بات ہوئی!‘‘ ہم نے ان کو سمجھانے کے لیے آگے کھسک کر کہا، ’’بھائی ابا یہاں آپ لوگ زیور کو تو دیکھتے ہیں اور اس بے چاری کو بھول جاتے ہیں، جس کو زیور پہننا ہے۔ اب آپ ہی بتائیے کہ یہ جھانجھ، یہ اس کے بعد کڑے، پھر چھڑے اور ایسی ایسی نہ جانے کیا کیا چیزیں پہننے کے بعد اس غریب کا پیر اٹھ سکے گا۔ پھر سب سے بڑی بات یہ ہے کہ جو چیز آپ دینا چاہتے ہیں وہ کم سے کم ایسی تو ہو کہ جو اس کے کام آسکے۔ شہر میں بیاہ کر جا رہی ہے۔
زیور ایسے ہیں کہ ان کو دیکھتے ہی شہر والوں کا بھی دم نکل جائے اور دولھا کو بھی دھڑکن ہونے لگے۔ جب سے میں آیا ہوں چپکے چپکے تمام انتظام دیکھ رہا ہوں اور دل ہی دل میں ہنس رہا ہوں کہ آخر آ پ کا ارادہ کیا ہے۔ جہیزکا جو سامان آپ تیار کرانا چاہتے ہیں اس کے لیے کم سے کم ایک پوری ریل گاڑی کی ضرورت تو ہوگی جو اس لڑائی کے زمانے میں تو مل نہیں سکتی۔ اس کے علاوہ اس زمانے میں جو لڑائی کی وجہ سے لوگ اپنے کو ہلکا پھلکا رکھنا چاہتے ہیں آپ اپنی لڑکی اور داماد کے اوپر یہ بوجھ لاد رہے ہیں جس کو لے کے کہیں نہ آیا جا سکے۔ نہ جایا جا سکے۔ دیجیے تو ایسی چیز دیجیے کہ جس سے لڑکی بھی فائدہ اٹھاسکے داماد بھی خوش ہواور دیکھنے والے بھی دیکھیں کہ عقل صرف شہر میں نہیں بٹی ہے دیہاتوں میں بھی پہنچی ہے۔‘‘ جھانجھ ایک طرف رکھ کر سر سے پیر تک سوالیہ نشان بن گئے اور گل مچھوں پر ہاتھ پھیر کر بولے، ’’تو بتاؤ نا بھائی آخر میں نے تو سب کچھ تو پر چھوڑ ہی رکھا ہے۔ اب میں شہر والوں کی سی انگریزی پڑھی عقل کہاں سے لاؤں ایسے میں سویرا ہے۔۔۔ اب بھی جو کہہ دو گے ہو جائے گا۔‘‘ ہم نے کہا، ’’پہلے یہ بتائیے کہ آپ کا ارادہ جہیز پر کتنا روپیہ صرف کرنے کا ہے؟‘‘ ایک دم سے ڈنکار کر منیم کو پکارا کہ بڑے بھیا کے بیاہ کا کھاتہ لاؤ اور ہم سے کہنے لگے ’’میرا خیال یہ ہے بلکہ جہاں تک یاد پڑتا ہے ساڑھے تین ہزار کا جہیز تمہاری بیوی کو دیا تھا بس اسی کے لگ بھگ سمجھ لو۔‘‘ ہم نے کہا، بس تو ٹھیک ہے آپ یہ تمام روپیہ جنگی قرضے میں دے کے اس کے سرٹیفکیٹ جہیز میں دے دیجیے۔ سسر صاحب پر ایک دم بجلی سی گری، تڑپ کر بولے، ’’ہائیں! کیا کہا؟ ارے بھائی اُردو میں سمجھاؤ نا۔‘‘
ہم نے منھ پھیر کر مسکرانے کے بعد کہا، ’’مطلب یہ ہے یہ روپیہ تو دے دیجیے سرکار کو قرض اور اس کی پکی رسید لڑکی کے حوالے کر دیجیے۔ جب لڑائی ختم ہوجائے گی تو اسی روپیہ سے جو منافع کے ساتھ واپس ملے گا وہ اپنی مرضی کا جو چاہے گی بنوالے گی۔‘‘ آج غالباً پہلی مرتبہ ان کو اس بات کا افسوس ہوا کہ ان کی بڑی لڑکی کی قسمت ایک پاگل کے ساتھ پھوڑی گئی ہے، کہنے لگے، ’’کیسی باتیں کرتے ہو بھیا، نہ جانے لڑائی کا اونٹ کس کل بیٹھے۔ کون جیتے کون ہارے پھر کس کو رسید دکھا کر روپیہ مانگتے پھریں گے۔‘‘
ہم نے ان کو سمجھاتے ہوئے کہا، ’’دیکھئے اس کو یوں سمجھئے کہ اول تو ہمیں جیت رہے ہیں اور اسی طرح کی چھوٹی چھوٹی رقموں اور ذرا ذرا سی ہمدردیوں کے بل بوتہ پر جیت رہے ہیں اور فرض کرلیجیے کہ نہ بھی جیتیں تو کیا آپ یہ سمجھتے ہیں کہ یہ تمام سامان یہ تمام زیور اور یہ سب کچھ جو آپ جہیز میں دے رہے ہیں باقی بچ جائے گا، دشمن کے لوٹ مار اس کو باقی رہنے دے گی۔ بم کے گولے کسی چیز کو استعمال کے قابل رہنے دیں گے یا استعمال کرنے والوں کو صحیح سلامت چھوڑیں گے۔ اس وقت تو آپ کے اسی روپیہ سے دشمن کو پیچھے ہٹایا جاسکتا ہے اور اگر یہی روپیہ ہم گھروں میں دباکر رکھ لیں تو وہ نہ تو ہمارے کام آئے گا اور نہ سرکار کے کام بلکہ دشمن لٹیرے اس کو یا تو لوٹ لیں گے یا تباہ کرکے رکھ دیں گے۔‘‘
اتفاق کی بات تھی کہ یہ باتیں کچھ کچھ ان کی سمجھ میں آرہی تھیں، کہنے لگے، ’’بات تو کچھ جچتی ہوئی ہے۔ پریہ تو سوچو گاؤں والے کیا کہیں گے، برادری کیا تھوکے گی، سب یہی کہیں گے ناکہ لونڈیا کو ایک کاغذ تھما دیا اور چلتا کیا۔‘‘ ہم نے کہا، ’’برادری میں سب سے بڑے بزرگ آپ ہیں اور گاؤں کے سب سے بڑے زمیندار بھی آپ ہیں۔ اگر آپ ہی ایسی مثالیں قائم نہ کریں گے تو کون کرے گا۔‘‘ مٹھی میں اپنی داڑھی کو پکڑ کر بیٹھ گئے۔ تھوڑی دیر کے بعد فرمایا، ’’اچھا، تو میں کل جواب دوں گا ذرا تمہاری ساس واس سے بھی پوچھ لوں۔‘‘ ساس تک غنیمت تھا مگر یہ واس بڑی خطرناک چیز ہے۔ اس کا مطلب یہ تھا کہ گاؤں بھر کی بڑی بوڑھیوں کا مشورہ لیا جائے گا جو سب کی سب ہماری واس تھیں۔ مگر بڑے میاں کو ہم ایسا رام کر چکے تھے کہ دوسرے دن تک تمام ساسیں اور تمام واسیں لاکھ چیخیں چلائیں مگر ہم کو صبح ہی ساڑھے تین ہزار روپے مل گئے کہ شہر جاکے ان کو جمع کرو اور پکی رسید لاکے دکھاؤ۔
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.