Font by Mehr Nastaliq Web

aaj ik aur baras biit gayā us ke baġhair

jis ke hote hue hote the zamāne mere

رد کریں ڈاؤن لوڈ شعر

تانگے والا

حاجی لق لق

تانگے والا

حاجی لق لق

MORE BYحاجی لق لق

    مجھے دفتر آتے جاتے وقت ریلوے کا بالائی پل عبور کرنا پڑتا ہے۔ یہ پل گرانڈ ٹرنک روڈ (متصل فیض باغ) سے شروع ہو کر ریلوے لائنوں کے اوپر سے ہوتا ہوا اسٹیشن کے باہر ختم ہوتا ہے اور اس مقام کے سامنے تانگوں کا اڈا ہے۔ اس لیے مجھے صبح و شام تانگہ والوں جی باتیں سننے اور ان کی حرکت دیکھنے کا اتفاق ہوتا ہے اور ان کی بنا پر میں کہہ سکتا ہوں کہ یہ خدا کی دلچسپ مخلوق ہے۔

    پچھلی جنگ کے سلسلہ میں ایک دفعہ مجھے ایم ٹی کمپنی (فوجی موٹروں کی کمپنی) میں ملازمت کرنے کا موقع ملا۔ ہماری کمپنی کے ایک حولدار منیجر عبد اللہ خاں بڑے زندہ دل آدمی تھے۔ وہ کہا کرتے تھے کہ بارہ بیڑے (یعنی مختلف فوجی سروسیں مثلا رسالہ، پیادہ فوج، توپ خانہ وغیرہ)تو گورمنٹ نے بنائے تھے لیکن موٹر کمپنی تیرھواں بیڑا ہے جسے شیطان نے بنا یا ہے۔ میں نے پوچھا، یہ کیوں؟ حوالدار میجر بولے، اس لیے کہ موٹر ڈرائیور بھی خاندان کوچبان سے تعلق رکھتے ہیں۔ یہ تانگہ چلا تے ہیں اور وہ موٹر لیکن ہیں دونوں بان۔ اس لیے شیطان۔ میں وہی روایتی جواب دے کر خاموش ہو رہا کہ ہاں مہر بان!

    میں اس حد تک تو نہیں جاتا کہ کو چبان کو شیطان یا شیطان کی مخلوق کہوں، البتہ یہ کہنے میں مجھے باک نہیں کہ کو چبان ’’شیطان کی ٹوٹی‘‘ ضرور ہوتے ہیں۔ سواریوں سے اس قسم کی چھیڑ چھاڑ کر جاتے ہیں کہ ہنسی آجاتی ہے۔ کل ہی کا ذکر ہے کہ اسٹیشن پر ایک مسافر نے ایک تانگے والے سے پوچھا کہ سبزی منڈی چلو گے؟ یہ کسی اور طرف جا رہا تھا، اس لیے اس نے ایک دوسرے تانگے والے کو آواز دی اور کہا، ابے فجو! انہیں سبزی منڈی لے جاؤ۔ چار آنے مل جائیں گے۔

    فجو نے جواب دیا، بات تو ٹھیک ہے لیکن سبزی منڈی ہے۔ گویا اس نے بھلے چنگے انسان کو سبزی کا ٹوکرا بنا دیا۔

    ایک دفعہ ’’موٹے درگاہ‘‘ کے سائز کابھاری بھرکم آدمی دادا بھائی کی دکان کے پاس کھڑا تانگے کا انتظار کر رہا تھا کہ ایک تانگہ قریب آیا۔ کوچبان نے پوچھا،

    بابو جی کہاں جاؤگے؟

    بابو جی، موچی دروازے۔

    کوچبان، آئیے۔ لے چلتا ہوں۔

    بابو جی، کتنے پیسے؟

    کوچبان، آٹھ آنے۔

    بابو جی، وہ کیوں یہاں سے موچی دروازے کے لیے چار آنے ہوتے ہیں۔

    کوچبان، ٹھیک کہا آپ نے۔ ایک پھیرے کے چار آنے ہوتے ہیں لیکن مجھے آپ کو دو پھیروں میں لے جانا پڑے گا۔

    ایک یوپی کا بادشاہ سڑک کے کنارے تفریحاًکھڑا تھا کہ ایک تانگہ والا قریب آیا اور پوچھنے لگا کہ میر صاحب کہاں جایئے گا؟

    میر صاحب بولے، کہیں نہیں۔ تھوڑی دیر کے بعد ایک اور تانگہ قریب آیا اور کوچبان نے پوچھا، کہاں تک میر صاحب؟ میر صاحب زبان سے تو کچھ نہ بولے لیکن نفی میں سر ہلا دیا۔ اس کے بعد تیسرے تانگے والے نے میر صاحب سے یہی سوال کیا۔ اب کے ذرا سخت لہجہ میں صاحب بولے کہ کہیں نہیں جاؤں گا بھائی۔ کیوں تنگ کرتے ہو؟ لیکن میر صاحب کھڑے ایسی جگہ پر تھے جہاں تانگوں کا تانتا بندھا ہوا تھا۔ اس لیے ایک اور تانگے والا آپ کے سر ہو گیا اور بولا، کہاں جائیے گا جناب؟ میر صاحب اس دفعہ بہت ترش ہو گئے اور جھنجھلا کے بولے، جاؤں گا جہنم۔

    کو چبان نے نہایت نرمی سے کہا، آئیے! تشریف لائیے لیکن اتنا بتا دیجئے کہ صرف جانا ہی ہوگا۔ واپس بھی آئیے گا؟

    مزا اس وقت آتا ہے جب تانگے والوں میں سواریاں حاصل کرنے کے لیے کشمکش ہوتی ہے۔ ایک دن کا ذکر ہے کہ اسٹیشن کے قریب ایک مرد، ایک عورت اور ایک بچہ کھڑے تھے۔ مرد نے ایک گٹھری اٹھائی ہوئی تھی اور عورت نے چھوٹا سا بچہ انگلی سے لگا رکھا تھا۔ تانگوں والے شور مچاتے ہوئے ان کی طرف بڑھے۔ ایک نے مرد کے ہاتھ سے گٹھری چھین لی اور یہ کہتا ہوا اپنے تانگے کی طرف بھاگا کہ آؤ میاں جی بس جا ہی رہا ہوں۔ دوسرے نے بچے کو اٹھا یا اور اپنے تانگے میں بیٹھا دیا۔ تیسرا کو چبان مرد کو ہاتھ سے پکڑ کر اپنے تانگے کی طرف کھینچنے لگا اور چو تھا عورت سے التجا ئیں کرنے لگا کہ بی بی جی ذرا میرا گھوڑا تو دیکھو۔

    اتنے میں ادھر سے ٹریفک کا سپاہی سیٹی بجاتا ہوا ان کی طرف بھاگا۔ چونکہ یہ ایسی جگہ تھی جہاں سے سواریاں لادنے کی اجازت نہ تھی۔ اس لیے دو تانگے سپاہی کی شکل دیکھتے ہی بھاگ اٹھے۔ ایک میں بچہ تھا اور دوسرے میں گٹھری۔ ادھر بچے کے ماں باپ دہائی دے رہے تھے اور ادھر تانگے بھاگے جا رہے تھے۔ آخر کانسٹبل نے ان کا تعاقب کر کے انہیں پکڑا اور مسافروں کا مال ان کے حوالے کیا۔

    بعض دفعہ تانگہ والوں کی گت بھی بن جاتی ہے۔ ایک دفعہ ایک کوچبان یہ کہتا ہوا تانگہ لیے جا رہا تھا کہ لو ہاری لے چلیا جے یعنی لوہاری لیے جا رہا ہوں۔ سامنے ایک عورت جا رہی تھی۔ اس نے آؤ دیکھا نہ تاؤ۔ گھوڑے کی باگیں پکڑ کر تانگہ روک لیا اور لگی گالیاں دینے۔ اپنی ماں کو لے جاؤ، اپنی بہن کو لے جاؤ، تیرے دادے داڑھی، تیرے ستی پیڑ سی وغیرہ۔ لوگ جمع ہو گئے اور کوچبان کو بے بھاؤ کی پڑنے لگیں۔

    کوچبان مار کھا رہا تھا اور چلا رہا تھا کہ آخر میرا قصور کیا ہے۔ ذرا دم تو لو؟ آخر ایک دانا آدمی نے کہا کہ بھائی ذرا اس کی بات تو سن لو۔ جب مارنے والے رک گئے تو اس شخص نے پوچھا کہ بی بی بات کیا ہے؟ بی بی نے کہا، موا کم بخت راہ چلتی عورتوں سے چھیڑ خانی کرتا ہے۔ پوچھا گیا کہ اس نے تم سے کیا چھیڑ خانی کی ہے؟

    عورت بولی، یہ کہہ رہا تھا کہ لوہاری لیے جا رہا ہوں۔ آخر مجھے لے جانے والا یہ کون؟ اس کے گھر ماں نہیں؟ بہن نہیں؟ میں لوہاری ہوں تو کیا آوارہ عورت ہوں؟

    عورت ذات کی لوہاری تھی۔

    تانگے والوں کو چونکہ ہر قسم کی سواری سے واسطہ پڑتا ہے، اس لیے وہ معلومات کا خزانہ ہوتے ہیں اور خاص طور پر بدمعاشی کے اڈوں اور بدمعاش مرد عورتوں کو ان سے زیادہ کوئی نہیں جانتا۔ ایک دفعہ ایک کوچبان نے مجھے ایسا واقعہ سنایا جو افسانے سے کم دلچسپ نہیں۔

    بولا، میں صاحب کو ہر روز ان کے دفتر پہنچا یا کرتا تھا اور شام کو واپس لایا کرتا تھا۔ وہ مجھے ماہوار تنخواہ دیتے تھے۔ کچھ عرصہ ان کے گھر آنے جانے کے بعد ان کی نو جوان اور خوبصورت بیوی نے مجھے اپنے دفتر کے لیے لگایا۔ بی بی کا دفتر ایک ہوٹل تھا۔ انہوں نے مجھ سے رازداری کی قسم لے کر ایک روپیہ روزانہ دینے کا اقرار کیا اور معاملہ چلتا رہا۔ ایک روز میں بابو صاحب کو دفتر پہنچا نے کے بعد بی بی جی کو ہوٹل لے گیا اور باہر ٹھہرا رہا۔ بی بی جی کا معمول تھا کہ وہ ہوٹل کے اندر جا کر چند منٹ کے بعد مجھے اطلاع کر دیتی تھیں کہ میں ایک آدھ گھنٹہ تک ٹھہرا رہوں یا دوبارہ آؤں۔ بی بی جی نے دیر لگا دی۔ اتنے میں کیا دیکھتا ہوں کہ ہوٹل کے اندر سے بی بی جی اور ان کا خاوند دست وگریباں ہوتے ہوئے باہر آ رہے ہیں۔ میں حیران تھا کہ میں تو بابو جی کو دفتر میں چھوڑ کر آیا تھا یہ کہاں آگئے۔

    دونوں لڑتے جھگڑتے سڑک پر آ گئے اور کئی لوگ جمع ہو گئے۔ دونوں میں جو گفتگو ہوئی وہ یہ ہے۔

    خاوند: قحبہ کہیں کی۔ ہوٹلوں میں بدمعاشی کراتی ہے؟ یہاں کیا لینے آئی تھی۔

    بیوی: اور تم یہاں کیا لینے آئے تھے؟

    خاوند: مجھے تمہارے متعلق شک پیدا ہو گیا تھا کہ تم اس ہوٹل میں بری نیت سے آتی ہو۔ اس لیے میں امتحان کرنے آیا۔

    بیوی: مجھے بھی شبہ تھا کہ تم اس ہوٹل میں بدمعاشی کرنے آتے ہو، اس لیے میں بھی امتحان کے لیے آئی۔

    اتنے میں ایک شریف آدمی نے یہ کہہ کر بیچ بچاؤ کرا دیا کہ چھوڑو اس قصے کو، تم دونوں ایک دوسرے کا امتحان کرنے آئے ہو اور شکر ہے کہ دونوں پاس ہو گئے ہو۔ اب صلح کر لو اور جاؤ گھر کو۔

    دونوں نے صلح کر لی اور میرے تانگے کی طرف بڑھے۔ پہلے تو میرا ارادہ یہ ہوا تھا کہ بھاگ جاؤں۔ پھر میں نے سوچا کہ میرا اس میں کیا قصور ہے؟ اور پیسے کیوں چھوڑوں؟ چنانچہ میں کھڑا رہا۔

    دونوں تانگے کے پاس آئے اور بابو جی مجھ کو دیکھ کر ہکا بکا رہ گئے اور ان کا چہرہ تمتما اٹھا۔ میں نے زبان سے تو کچھ نہ کہا، البتہ ہاتھ جوڑ دیے۔ اس پر عورت بولی، اس کے پیسے کون دے گا؟ خاوند بولا، تم! بیوی نے پر زور لہجہ میں کہا، نہیں تم! اس پر ایک شخص نے کہا، اپنے اپنے دے دو۔ ایشور کی کرپا سے دونوں کماؤ ہو۔

    میرا خیال تھا کہ میری تنخواہ گئی لیکن بابو جی بڑے شریف آدمی تھے۔ جب میں نے دونوں کو ان کے گھر کے باہر اتارا تو بابو جی بولے، دیکھو میاں! آج سے تم میرے ہاں نہ آیا کرو اور تنخواہ کے دن دفتر آکر اپنی تنخواہ لے جانا۔ میں اب بابو صاحب کو ان کے دفتر نہیں پہنچا یا کرتا البتہ بی بی جی کا بد ستور ملازم ہوں، جنہوں نے اپنا دفتر بدل لیا ہے۔

    مأخذ :

    Additional information available

    Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.

    OKAY

    About this sher

    Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.

    Close

    rare Unpublished content

    This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.

    OKAY

    Jashn-e-Rekhta | 13-14-15 December 2024 - Jawaharlal Nehru Stadium , Gate No. 1, New Delhi

    Get Tickets
    بولیے