تلاش گم شدہ
مولانا شاہ احمد نورانی صاحب کا پچھلے دنوں اخبار میں ایک بیان پڑھا۔ بیان کیا تھا، اشتہار برائے تلاش گم شدہ تھا۔ جس میں کہا گیا تھا کہ مولانا عبدالستار خان نیازی جہاں کہیں ہوں واپس پارٹی میں آجائیں۔ ایسے اشتہار اکثر عزیز رشتہ دار بچوں کے گھر سے بھاگ جانے کے بعد اخبار میں دیتے ہیں۔ ویسے تو مولانا عبد الستار خان نیازی کی ابھی عمر ہی کیا ہے؟ ابھی تو ان کی شادی بھی نہیں ہوئی، ان کا شناختی نشان ان کی دستار ہے، وہ بھی ایسی کہ آپ انہیں مولانا دستار نیازی کہہ سکتے ہیں۔ بہرحال وہ میاں والی کے میاں ہیں۔ ظہیر الدین بابر دو آدمی بغل میں دبا کر دوڑ لگا سکتا تھا تو یہ آدھی جمعیت علماء پاکستان بغل میں دبا کر چل سکتے ہیں۔
مولانا شاہ احمد نورانی، مولانا کے اس طرح چلے آنے سے اداس چلے آ رہے ہیں اور پان سے غم غلط کرتے ہیں۔ پان کھانے میں انہوں نے پی ایچ ڈی کی ہے، گلوری منہ میں یوں دباتے ہیں جیسے کلرک فائل دباتے ہیں۔ وہ اقوام متحدہ سے خوش ہوں تو اسے بھی قوام متحدہ کہیں گے۔ مولانا نورانی صاحب گفتگو میں الفاظ کا چناؤ یوں کرتے ہیں جیسے جمعیت علماء پاکستان کے عہدیداران کا چناؤ کر رہے ہوں۔ ان کا جلسہ سن کر بندہ آرہا ہو تو لگتا ہے محفل سماع سن کر آرہا ہے۔ گلا تک عربی سے صاف کرتے ہیں۔ عربی، فارسی، اردو، انگریزی سواحلی اور فرانسیسی ایسی روانی سے بولتے ہیں کہ ساتھ سننے والے کو بہالے جاتے ہیں اور اہل زبان کو حیران کر دیتے ہیں۔ انگریز اہل زبان ہمیں بھی انگریزی بولتا دیکھ کر حیران ہو جاتے ہیں اورایک دوسرے سے پوچھتے ہیں، ’’یہ کیا کہہ رہا ہے؟ ‘‘ جب کہ مولانا عبد الستار نیازی یوں بولتے ہیں کہ لگتا ہے انگریزی، انگریز کی مونث ہے۔
مولانا نورانی کو ہم منجھے ہوئے سیاست دان اور پیر پگاڑا کو منجھلے سیاست دان سمجھتے ہیں۔ انہوں نے ملک ملک کا پانی پیا بلکہ ملک ملک کا پان کھایا ہے، کبھی کبھی پاکستان کے دورے پر تشریف لاتے ہیں تو تھکن جماعت اسلامی پر اتارتے ہیں۔ جماعت اسلامی پر فقرہ یوں پھینکتے ہیں جیسے پان کھاتے ہوئے پیک۔ یہاں پیک کو زیر لگا کر پڑھیں، زبر لگا کر زیرو زبر نہ کریں۔ جس کمرے میں بیٹھ جائیں وہ ان سے لبالب بھر جاتا ہے۔ پسندیدہ فرنیچر گول میز ہے۔ ہر کسی کو گول میز پر دعوت دیتے ہیں۔ مولانا نیازی کو نہ دی، ورنہ اس اشتہار کی ضرورت نہ رہتی۔ اسمبلی میں ان کے ارکان کی تعداد اتنی ہی ہوتی ہے کہ ساتھ تقریباً لگانا پڑتا ہے۔ دوران گفتگو کرسی پر یوں پہلو بدلتے ہیں جیسے حنیف رامے پارٹیاں بدلتے ہیں۔ انداز گفتگو ایسا کہ بندہ ان کی گفتگو سن رہا ہو تو سمجھتا ہے کہ گفتگو کر رہا ہے۔
مولانا نیازی اینٹ کا جواب پتھر سے تو نہیں دیتے البتہ پتھر کا جواب اینٹ سے ضرورت دیتے ہیں۔ ایک ایسے ہی کنوارے شخص سے کسی نے کہا، ’’اگر تم نے شادی نہ کی تو یاد رکھنا کوئی دوست تمہارے جنازے میں نہیں آئے گا۔‘‘ تو اس نے کہا، ’’کوئی بات نہیں، میں خود ان کے جنازوں میں چلا جاؤں گا۔‘‘ ویسے مولانا دستار نیازی دل کے اتنے اچھے ہیں کہ جس کے جنازے پر جا رہے ہوں اسے بھی درازی عمر کی دعائیں دیتے جائیں گے۔ غصے میں آجائیں تو اپنی دعائیں تک واپس لے لیتے ہیں۔ دیکھتے ہیں وہ واپس جاتے ہیں یا مولانا نورانی مایوس ہو کر یہ اعلان کرتے ہیں کہ میں انہیں اپنی تمام بقیہ منقولہ اور غیر منقولہ پارٹی سے عاق کرتا ہوں۔
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.