Font by Mehr Nastaliq Web

aaj ik aur baras biit gayā us ke baġhair

jis ke hote hue hote the zamāne mere

رد کریں ڈاؤن لوڈ شعر

ان کا موڈ

آصف اظہار علی

ان کا موڈ

آصف اظہار علی

MORE BYآصف اظہار علی

    دن میں کئی بار ہمارے گھر کا منظر قابل دید ہوتا ہے۔ ’’ہمارے‘‘ وہ کبھی اپنے چشمے کے کیس کی تلاش میں گھر بھر میں چکر کاٹتے نظر آتے ہیں۔ کبھی کبھی یہ تلاش کسی خطرناک مہم کی شکل اختیار کرجاتی ہے، کیوں کہ چشمہ کہیں ملتا ہی نہیں۔ (وہ آفس یا کسی ملنے جلنے والے کی میز کی زینت جو بنا ہوتا ہے) اس وقت ان کے ساتھ ہماری اماں، ان کی ایک عدد سالی صاحبہ! اور چہیتے سالے، گھر کا نوکر اور خود میں بھی چشمے کی کھوج میں گھر کے سامان کو الٹتے پلٹتے، سنگھار میز ٹٹولتے، الماریاں دیکھتے، چارپائیوں کے نیچے جھانکتے ہوئے آپ کو نظر آجائیں گے۔ تقریباً آدھے گھنٹے تک سلسلہ چلتا ہے۔ سب تھک کر بیٹھ جاتے ہیں۔ چشمہ کہیں سے برآمد نہیں ہوتا مگر ہمارے میاں جی کی ایک ہی رٹ رہتی ہے۔ ’’ابھی رات کو ہی تو میں نے یہاں میز پر رکھا تھا۔ اب اسے میز سے چور، ڈاکو اٹھالے گئے یا جنات، سمجھ میں نہیں آتا۔ ان کے ماتھے پر سلوٹیں ابھرآتی ہیں۔ موڈ خراب ہونا شروع ہوتا ہے کہ اچانک دروازے کی گھنٹی بجتی ہے اور پڑوس کا نوکر اپنے ہاتھوں میں ہمارے میاں کا چشمہ تھامے نظر آتا ہے اور اطلاع دیتا ہے : صاحب رات فون کرنے گئے تھے۔ وہیں بھول آئے تھے۔

    پورا گھر چین کی سانس لیتا ہے۔ میں اپنے دوسرے کاموں میں مصروف ہوجاتی ہوں۔ اس آدھ گھنٹے میں ذہن میں جو اتھل پتھل اور کھلبلی مچ جاتی ہے، اس کا اندازہ کوئی دوسرا لگا نہیں سکتا۔ آہستہ آہستہ بڑبڑانے اور غصہ کرنے کا حق مجھے بھی ہے۔ ابھی باورچی خانے میں میری بڑبڑاہٹ جاری ہے کہ آواز آتی ہے : ’’میرا بنیان کہاں ہے؟ میں دوڑی دوڑی بیڈروم میں آتی ہوں۔ کل شام ہی تو تہہ کرکے الماری میں بنیان رکھے تھے۔ مسہری پر الماری میں سے نکالے ہوئے کپڑوں کا ڈھیر ہے۔ میاں جی تولیا لپیٹے کھڑے ہیں۔ میں جلدی جلدی کپڑے الٹتی ہوں۔ بنیان نہیں ملتا۔ جھینپ کر دوسری الماری کھولتی ہوں۔ سلیقے سے تہہ کیے ہوئے بنیان سامنے رکھے ہیں۔ ایک غصہ بھری نظر ان پر ڈالتی ہوں اور بنیان ہاتھ میں تھمادیتی ہوں۔ دراصل بنیان اور رومال ان کی بہت بڑی کمزوری تھی۔ چاہے انھوں نے چار سال پہلے چار نئے بنیان خریدے ہوں، لیکن وہ جب بھی بنیان پہننے کے لیے نکالیں، بالکل ویسے ہی نئے نویلے ’’سفیدی کی چمکار‘‘ لیے ہونے ضروری ہیں۔ بھلا انہیں کیسے سمجھاؤں کہ یہ ان کے اپنے بنیان ہیں جنہیں بہت سنبھال سنبھال کر میں نے خود دھویا ہے۔ نہ تھپکا ہے، نہ پٹخا ہے اور نہ پیٹا ہے۔ ہاں، دھلتے دھلتے بے چارے اپنی اصل رنگت ضرور کھو چکے ہیں۔ اور اگر کہیں خدا نہ خواستہ ایک آدھ چھید بھی بنیان میں نظر آجائے تو فوراً تیوری چڑھاکر کہیں گے، یہ بنیان میرا نہیں ہے۔ ابھی تھوڑے دن پہلے بھی تو خرید کر لایا ہوں۔ ( گویا وہ ’’تھوڑے دن‘‘ پورے چار سو پچاس دن ہی کیوں نہ ہوں) میں بوکھلا جاتی ہوں۔ کیا غلطی سے کسی دوسرے کا بنیان اٹھالائی ہوں؟ دیور، جیٹھ، سب ہی تو ساتھ رہتے ہیں۔ لیکن نہیں، یہ تو میاں صاحب کا ہی بنیان ہے۔ ہر بنیان پر فیرک پینٹ سے ان کا نام جو لکھ دیتی ہوں۔ میرے لاکھ سمجھانے پر بھی وہ خفا سے ہوجاتے ہیں۔ ان کا خیال ہے کہ ان کے نئے نئے بنیان کوئی اڑا لے جاتا ہے اور اپنے پھٹے پرانے چھوڑ جاتا ہے۔

    اپنے میاں کی محبت نے مجھے بھی خاصا سنکی بنادیا ہے۔ کہیں دوچار روز کے لیے مہمان داری میں شادی بیاہ میں جانا مجھے بڑا دشوار لگنے لگا ہے۔ کہیں جاکر کپڑوں کی نگرانی ایک بہت بڑا بوجھ بن جاتی ہے۔ ابھی چند روز پہلے اپنی نند کے یہاں ان کی بچی کی شادی میں جانا پڑا۔ شادی کا بھرا پرا گھر۔ میرے دل میں بس ایک ہی خوف تھا کہ ان کے بنیان، رومال اور دوسرے کپڑوں کی حفاظت کیسے کرپاؤں گی، کیوں کہ شادیوں میں اکثر چیزیں کھو ضرور جاتی ہیں۔ میزا محترمہ تو یہی ہے۔ خاص طور پر کرتے، بنیان اور پاجامے، کیوں کہ یہ مردانے کپڑے بظاہر ایک سے ہی ہوتے ہیں۔ لیکن میں نے بھی سوچ لیا تھا کہ اس بار اپنے یہاں کا ایک بھی کپڑا ادھر سے ادھر نہ ہونے دوں گی۔ صبح کو فجر کی نماز پڑھنے کے بعد میرا سب سے پہلا کام یہ ہوتا کہ اپنے میاں اور بچوں کے کپڑے، خاص طور پر بنیان، رومال اور کرتے پاجامے دھوکر پھیلادیتی، تاکہ لوگوں کے سو کر اٹھنے تک میرے کپڑے سوکھ جائیں اور میں انہیں تہہ کرکے اپنی اٹیچیوں میں پہنچادوں۔ تار پر کپڑے پھیلانے کے بعد ان کے سوکھنے تک میں بار بار جاکر انہیں دیکھتی، الٹتی پلٹتی، لوگوں پر نظر رکھتی کہ کوئی اپنے کپڑے میرے کپڑوں کے پاس دھوکر تو نہیں ڈال رہا ہے۔ شادی بیاہ میں لوگ، خاص طور پر عورتیں اس بات پر نظر رکھتی ہیں کہ کون کتنی سج دھج میں ہے؟ کس کے پاس کتنا زیور ہے؟ کس کی ساڑی سب سے قیمتی اور خوب صورت ہے۔ لیکن یقین جانیے، مجھے ان تمام باتوں سے کوئی سروکار نہ تھا۔ میری نظریں اگر کہیں بھٹکتیں تو صرف ان کے دھوکر پھیلائے ہوئے کپڑوں پر۔ سچ، اتنی گہری نظر تو میں نے کبھی اپنے شوہر پر بھی نہ رکھی ہوگی ایک ایک کپڑا سوکھتا جاتا اور میں تہہ کر کرکے رکھتی جاتی۔

    ایک روز آسمان پر گہرے بادل تھے۔ میں دلہن کے کمرے میں ان کے بنیان اوررومال دھوکر پھیلا آئی کہ پنکھے کی ہوامیں سوکھ جائیں گے، شام تک میں نے کپڑوں کی خبر گیری کی۔ رات تک کپڑے سوکھے نہیں تھے، اس لیے میں نے وہیں کمرے میں ٹنگے چھوڑ دیے اور دلہن کو تاکید کردی کہ دیکھو بنو، کوئی ان کپڑوں کو ہاتھ نہ لگانے پائے۔ لیکن سچ مانیے، صبح سویرے جب دلہن کے کمرے میں گئی تو دھک سے رہ گئی۔ دلہن اور اس کی سکھیاں ہاتھوں میں مہندی لگائے بے خبر سو رہی تھیں اور ہمارے میاں کے کپڑے، یعنی بنیان اور رومال غائب تھے۔ کسی نے موقع سے خوب فائدہ اٹھایا تھا۔ اس برسات کے موسم میں بھلاایسے دھلے دھلائے سوکھے بنیان اور رومال کہاں ملتے۔ ہم تو بھیا سر پکڑ کر بیٹھ گئے کہ بس اب ہمارے میاں کا پارہ ساتویں آسمان پر جاچڑھے گا۔ چپ چاپ بازار سے اسی طرح کے بنیان منگائے۔ پہلے انہیں خوب مٹی میں لت پت کیا، پھر دھویا، تاکہ پرانے ہی نظر آئیں اور تب میاں کے سامنے پیش کیا۔ شکر ہے کہ وہ خاصے مصروف تھے۔ بھانجی کی شادی تھی، ورنہ بنیانوں کی کھال ادھیڑتے ہی نظرآتے۔

    ایک اور بہت بُری کمزوری ہے ان کی۔ ’’ہوائی چپلیں۔‘‘ نیلے رنگ کی ہوائی چپلیں عام طور پر ہر گھر میں پائی جاتی ہیں۔ ویسے میری پوری کوشش یہی ہوتی ہے کہ ان کی چپلوں کا رنگ الگ ہو، لیکن شامت کی ماری میں ایک روز قریب کے بازار گئی توان کے لیے نیلے رنگ کی چپلیں ہی خرید لائی۔ یہ دھیان ہی نہ رہا کہ گھر میں کئی لوگوں کے پاس نیلے رنگ کی چپلیں ہیں۔ اب روز ایک نیا تماشا ہونے لگا۔ گھر کے سب لوگ ایک ساتھ بیٹھ کر ٹی۔ وی اور وی سی آر دیکھتے۔ رات کو نیند کے نشے میں چور جھومتے جھامتے لوگ اٹھتے تو جو چپل سماتی، اسے پہن کر اپنے اپنے کمروں کی راہ لیتے۔ ہمارے میاں سب سے آخر میں اٹھتے تو اپنی چپلیں یا تو ندارد پاتے یا کسی اور کی بدرنگ چپلیں ان کے پیروں کے حصے میں آتیں۔ وہ بری طرح جھنجھلاتے۔ ’’میری چپلیں‘‘ کا شور مچتا اور ان کے موڈ کا پارہ پھر چڑھنے لگتا۔ دفتر سے گھر آتے ہی جب انہیں اپنی چپلیں کہیں نظر نہ آتیں تو نوکروں کو ہر کمرے میں دوڑا دیتے کہ میری چپلیں لے کرآؤ۔ ’’نوکر کسی دوسرے کی چاہے بالکل نئی چپلیں لاکر رکھ دیتا، لیکن انہیں اپنی ہی چپلیں چاہئیں۔‘‘ وہ ضد پکڑ لیتے۔ اب لاکھ سمجھاؤ کہ بھئی سب کی ایک سی چپلیں ہیں۔ اگر ادل بدل کر پہن لی گئیں تو کیا فرق پڑتا ہے۔ لیکن نہیں۔ اس معاملے میں وہ قطعی بچوں کی طرح مچل اٹھتے ہیں۔ حالانکہ دوبار جمعہ کی نماز پڑھنے کے بعد مسجد سے اپنی نئی چپلیں چھوڑ کر دو رنگ کی چپلیں بدل لائے ہیں، لیکن دماغ میں ان ہی نئی چپلوں کی تصویر بسی ہے۔ وہ یہ بالکل بھول گئے ہیں کہ نئی چپلیں گنوا چکے ہیں۔ اب چھوٹے دیور کی چپلیں انہیں اپنی نظر آتی ہیں۔ وہ بے چارہ بار بار کہہ کر تھک چکا ہے کہ ’’بھائی میاں‘‘ میں دس دن پہلے ہی تو یہ چپلیں خرید کر لایا ہوں۔ لکھانی، کی ہیں۔‘‘ آخر ایک دن جب ان کا موڈ چپل نہ ملنے پر بہت خراب ہوگیا تو میں دیور عدیل کے پاس پہنچی۔ نئی چپلوں کے لیے اسے روپے دیے۔ اور اس مظلوم کے پیروں میں سے چپلیں نکال کر لے آئی۔ ایک نوکیلی کیل سے ان پر اپنے میاں کے نام کے دو حرف گود دیے۔

    یقین مانیے، میں ان سے ڈرتی بالکل نہیں ہوں۔ لیکن اپنی کوئی چیز نہ مل پانے پر ان کا موڈ جب خراب ہوتا ہے تو مجھے بہت برالگتاہے۔ خود اپنے آپ کو لعنت ملامت کرتی ہوں کہ ان کی اتنی سی چیز کی حفاظت نہیں کرپائی۔ اب میرایہ حال ہے کہ میاں کے آفس جاتے ہی ان کی چپلیں ہاتھ میں اٹھاکر الماری میں رکھ دیتی ہوں یا الماری وغیرہ کے نیچے چھپادیتی ہوں۔ اب وہ بہت خوش رہتے ہیں، کیوں کہ ان کے دفتر سے آتے ہی ہاتھوں میں ایک جوڑی چپل لیے میں ان کا دروازے پر ہی خیرمقدم کرتی ہوں۔ لیکن ہاں، بنیان کے لیے ان کا موڈ گاہے بگاہے خراب ہی رہتا ہے۔

    Additional information available

    Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.

    OKAY

    About this sher

    Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.

    Close

    rare Unpublished content

    This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.

    OKAY

    Jashn-e-Rekhta | 13-14-15 December 2024 - Jawaharlal Nehru Stadium , Gate No. 1, New Delhi

    Get Tickets
    بولیے