ان کی سسرال
مرزا صاحب نے لاکھ بار کہا کہ ہمارا جانا ٹھیک نہیں۔ اول تو تمہارے حالات کچھ نہایت نامعقول واقع ہوئے ہیں۔ دوسرے ہماری زبان خود ہمارے اختیار میں نہیں ہے۔ بات کرنے کے بعد پتہ چلتا ہے کہ جو نہ کہنا تھا وہ کہہ گئے مگر مرزا نے ایک نہ سنی۔ دیرینہ مراسم کا واسطہ دیا۔ احباب نوازی کے خدا جانے کتنے تاریخی حوالے دے ڈالے کہ کس طرح دوستوں نے دوستوں کے پسینہ پر خون بہایا ہے۔ اور آخر میں آنکھوں میں آنسو بھر کر کچھ اس طرح التجا کی کہ ہم ان کے ساتھ ان کی ہونے والی سسرال جانے پر راضی ہوگئے مگر صرف راضی ہونے سے تو کام نہیں چلتا۔ ضرورت اس کی تھی کہ باقاعدہ ریہرسل کرلیں کہ وہاں جاکر ہم کو کیا کہنا پڑے گا او ر کون کون سی باتیں ایسی ہیں جن کا ہرگز اظہار نہ کیا جائے۔ مرزا نے روانگی سے ایک روز قبل با قاعدہ ریہرسل کرایا کہ بس تم میری تعریفوں کے پل باندھ دینا کہ ایسا لڑکا قسمت والوں ہی کو ملتا ہے۔ پڑھا لکھا، سلیم الطبع، کماؤ۔ صاحب جائیداد، متعدد تو مکان ہیں جو کرایہ پر اٹھے ہوئے ہیں۔ دکانوں کا کرایہ الگ آتا ہے۔ خاندان ایسا کہ جس کی شرافت کی قسم کھائی جاتی ہے۔
عرض کیا، ’’اگر ان کو معلوم ہوگیا کہ آپ کے بزرگوں میں کچھ سزا یافتہ بھی گزرے ہیں تو؟‘‘
مرزا نے اِدھر اُدھر دیکھ کر کہا، ’’اول تو ان کو پتہ ہی کیسے چل سکتا ہے اور اگرچل بھی جائے تو تم نہایت آسانی سے کہہ سکتے ہو کہ وہ حضرت ذرا کانگریسی واقع ہوئے تھے، سیاسی مذاق تھا۔ لہٰذا نظر بند کردیئے گئے تھے۔‘‘
پوچھا، ’’اور پڑھا لکھا جو میں نے کہہ دیا اور وہ بیٹھ گئے امتحان لینے میں کس طرح بھانپ سکوں گا۔‘‘
مرزا نے ڈانٹ دیا، ’’بکتے ہیں آپ۔ ارے میاں کون لیتا ہے امتحان۔ بس تم ذرا دھونس گانٹھ دینا، پھر کسی کی ہمت ہی نہیں ہوسکتی۔ سب سے زیادہ ان کو خاندانی شرافت کا خیال ہے۔‘‘
ہم نے کہا، ’’اور اسی سلسلہ میں تم سب سے زیادہ گڑبڑ ہو۔ ارے بھئی تعلیم کا یہ حال ہے کہ گریجویٹ نہ سہی پھر بھی اردو مڈل تو پاس ہی ہو۔ جائداد نہ سہی مگر اکثر قیمتی چیزیں تمہارے پاس ہیں۔ ایک تو چاندی کا خلال ہی میں دیکھ چکا ہوں۔ ایک فونٹین پین بھی یاد پڑتا ہے مجھ کو، قمیض کے بٹن بھی خاصے رکھ رکھاؤ کے ہیں۔ مگر خاندان کا یہ حال ہے کہ کوئی کہتا ہے کہ میرا ثی ہو۔ اور خاںصاحب تو قسمیں کھارہے تھے کہ یہ لوگ بندروالے ہیں۔‘‘
مرزا نے الجھ کر کہا، ’’یہ سب غلط ہے۔ بیہودہ ہیں یہ لوگ۔ البتہ یہ ضرور ہے کہ والد صاحب کاانتقال کچھ ایسا رواروی میں ہوا کہ میں خود ان سے پوچھ نہ سکا کہ ہم لوگ دراصل ہیں کیا۔ مگراب یہی تو تمہارا کمال ہے کہ وہاںسب کو ایسا شیشہ میں اتارو کہ بات بھی بن جائے اور ناک بھی اونچی رہے۔‘‘
ہم نے کہا، ’’میاں، تم کو ناک اونچی کرنے کی فکر ہے اور میں یہ سوچ رہا ہوں کہ جانے سے پہلے کم سے کم اپنی ناک کا توبیمہ کراہی لوں۔ ارے وہاں نہ جانے کیا افتاد پڑے۔‘‘
کہنے لگے، ’’خیر یہ تو مذاق ہے۔ مگر میں چاہتا ہوں کہ پہلے سے ہم دونوںیہ طے کرلیں کہ وہاں کیا بیان دیناہے۔ تاکہ ہم دونوں کے بیان میں کوئی فرق نہ ہو، مثلاً قوم کیا ہونا چاہیے میری۔‘‘
عرض کیا، ’’نہ بہت اونچی نہ بہت نیچی۔ کچھ واجبی سی ہو۔ مرزا تو کہلاتے ہو بس مغل ٹھیک ہے۔‘‘
کہنے لگے، ’’صرف اتنا کافی نہیں۔ میں بتاؤں۔ تم یہ کہنا کہ شاہانِ مغلیہ سے ان کا سلسلہ ملتاہے۔‘‘
ہم نے کہا، ’’معلوم ہوتا ہے بیحد پٹواؤ گے۔‘‘
چاپلوسی کرتے ہوئے بولے، ’’کون مار سکتا ہے میرے بھائی کو۔‘‘
ہم نے جلدی سے کہا، ’’بھائی تو خیر نہ کہو ورنہ میرا خاندان بھی گڑبڑ ہوکر رہ جائے گا۔ دوستی کا رشتہ کافی ہے!دوست یاں تھوڑے میں اور بھائی بہت۔‘‘
کہنے لگے، ’’اگر مہر اور پاندان خرچ وغیرہ لکھوانے پر زور دیں تو انکار ہرگز نہ کرنا۔‘‘
ہم نے کہا، ’’انکار تو نہیں کروں گا۔ مگر گواہی کے دستخط کی امید بھی نہ رکھنا۔‘‘ اب تو ذرا چکر میں آئے۔ پہلے کچھ غور فرماتے رہے، پھر کہنے لگے، ’’وہاں دیکھا جائے گا۔ ابھی تو کل جانا ہے، تم بھی غور کرو۔ میں بھی غور کرتا ہوں۔‘‘
وہ حضرت تو یہ کہہ کر اپنے انتظامات میں لگ گئے اور ہم نے سنجیدگی کے ساتھ غور کرنا شروع کیا کہ اس موقع پر بھاگ جانا مناسب رہے گایا صفائی سے کام لے کر جانے سے انکار کردینا ہی اچھا ہے۔ اس لئے کہ یہ طے تھا کہ یہ حضرت وہاں طرح طرح کے جال پھیلائیں گے اور ممکن ہے کہ ان لوگوں کو پھانس بھی لیں۔ مگر خود بھی پھنسے بغیر نہیں رہ سکتے اور ان حضرت کے ساتھ ہم خواہ مخواہ پھنس کر رہ جائیں گے۔ مگرسوال تو یہ تھا کہ مروّت بھی آخر کوئی چیز ہے۔ کس خوشامد سے وہ بار بار کہہ رہا ہے۔ جہاں تک ہوسکے گا اپنے کو بچانے کی کوشش کریں گے، پھر جو اللہ کو منظورہے دیکھا جائے گا۔
دوسرے دن کچھ نہ پوچھئے مرزا صاحب کی بہار متعدد صابنوں سے گھنٹوں غسل فرمانے کے بعد جب بال بال موتی پردیئے اپنی جامہ زیبی کے کمالات دکھاتے آپ باہر تشریف لائے تو پہلی نظر میں ہم کو بھی شریف ہی محسوس ہوئے۔ مگررفتہ رفتہ شجر سے خامیاں اجاگر ہونے لگیں۔ مثلاًآپ نے سرمہ بھی لگایا تھا۔ ایک گال میں متعدد گلوریاں بھی ٹھونسی تھیں اور نہایت واہیات قسم کاتیز خوشبو والا دماغ پاش پاش کردینے والا عطر بھی استعمال کیاتھا اور تو اور جب کور سے لٹھے کاپاجامہ پہن کر جب آپ کھڑبڑ کرتے ہوئے چلتے تھے تو معلوم ہوتا تھا کہ کوئی مردہ اپنے کفن میں چہل قدمی کررہا ہے۔ ہم نے مرزا صاحب کی یہ سج دھج دیکھی اور ابھی کچھ کہنے کا ارادہ ہی کیاتھا کہ وہ خود بول اُٹھے؛
’’کیوں بھئی ٹھیک ہے؟‘‘
ہم نے کہا، ’’بس اب تو یہی دعا ہے کہ خداکرے لڑکی والے نہایت ہی تھرڈ کلاس بدقومے ہوں۔‘‘
حیرت سے بولے، ’’واہ یہ کیا کہہ رہے ہو۔ وہ لوگ بڑے خاندانی لوگ ہیں۔ لڑکی کا ایک چچا تو وکیل ہے۔‘‘
ہم نے کہا، ’’بس اب تو اُستاد تم پر مقدمہ ضرور چلے گا۔‘‘
کہنے لگے، ’’یعنی خواہ مخواہ بھئی۔ آخر کیا بات ہے؟‘‘
ہم نے کہا، ’’وہ صورت دیکھتے ہی پہچان لیں گے کہ نہ یہ لڑکا پڑھا لکھا ہے نہ شریف خاندان ہے اور نہ صحبت یافتہ ہے۔ یہ آپ سے سرمہ لگانے کو کس نے کہا تھا۔ اور یہ لوفروں کی طرح گلوریاں ٹھونسی گئی ہیں گال میں، یہ کس صحبت کا اثر ہے؟ پھر کور سے لٹھے کا پاجامہ۔‘‘
کہنے لگے، ’’بھئی میں نے تو نئے کی وجہ سے پہن لیا تھا۔ ورنہ دھلا ہوا پاجامہ بھی موجود ہے، ابھی لو۔‘‘
خدا خدا کرکے ان حضرت کو کسی نہ کسی حد تک آدمی بناکر لے چلے اپنے ساتھ۔ راستہ بھر دل دھڑکتا رہا کہ خدا ہی آج عزّت آبرو کے ساتھ گھر لائے۔ کہ آپ نے دورہی سے ایک مکان کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا، ’’یہ ہے مکان۔‘‘ اور اب جو ہم نے اس مکان کی طرف دیکھا تو دل میں ایک مرتبہ پھر خیال آیا کہ مولانا ابھی سویرا ہے، تانگے سے پھاندو اور بھاگو سرپر پیر رکھ کر۔ مگر فرار ہونے کا ارادہ ابھی خام ہی تھا کہ تانگہ ٹھہر گیا اور ایک نہایت خوفناک بزرگ نے اتنے زور سے ’’السلام علیکم‘‘ مارا کہ ہم نے بلبلاکر کہا، ’’وعلیکم السلام۔‘‘
چھ فٹ کے یہ بزرگ جن کے تمام سینہ پر داڑھی چھائی ہوئی تھی۔ آگے بڑھے اور مصافحہ کرنے کے بعد اپنے ساتھ ایک کمرے میں لے کر پہنچے۔ جہاں پہلے سے چند لوگ بیٹھے ہوئے تھے۔ ایک صاحب بٹیر سے کچھ بڑے اور تیتر سے چھوٹے چشمہ لگائے کھیسیں نکالے بیٹھے تھے۔ دوسرے صاحب یا توبینڈ ماسٹر تھے ورنہ جادو کا تماشہ دکھاتے ہوں گے۔ مونچھوں پر وہی پروفیسر معشوق علی مسمریزم والے کا ساتاو اور گلے میں اس قسم کی بو۔ ایک صاحب جو سب سے زیادہ معتبرنظر آتے تھے، داڑھی کو دوحصوں میں تقسیم کئے داڑھی کے بیچوں بیچ کچھ عجیب ریڈ کلف بنے بیٹھے تھے۔ جو بزرگ ہم لوگوں کو اندر لائے تھے انہوں نے تعارف کی رسم ادا کی۔
’’آپ ہیں حکیم مرزا صاحب عالم صاحب۔ آپ ہیں عمردراز بیگ صاحب وکیل اور آپ ہیں صوبیدار رونق علی صاحب۔ اور بھئی صوبیدار صاحب یہ ہیں وہ صاحبزادے اور یہ ان کے دوست۔‘‘
ہم لوگوں کو بڑے پتاک سے بٹھادیا گیا اور مرزا خلاف معمول نہایت مہذب بن کر بیٹھ گئے۔ کچھ شرمائے ہوئے، کچھ لجائے ہوئے۔ پہلے تو خاصدان کا دور چلا، پھر سگریٹ سے دھمکایا گیا اور آخر ہمارے رہنما، چھ فٹ کے مسلّم بزرگ نے کہا، ’’آپ لوگ ذرا تشریف رکھیں۔ میں ان صاحبزادے کو لئے جارہا ہوں اندر۔ بات یہ ہے کہ مستورات دیکھنا چاہتی ہیں۔ اور آپ جانتے ہیں کہ عمل داری مستورات ہی کی ہے۔‘‘
لیجئے ہم تو باہرہی رہ گئے اور مرزا صاحب روانہ کردیئے گئے اندر۔ اُن کے جاتے ہی سب سے پہلے ان ہی آدھے تیتر آدھے بٹیر بزرگ نے نہایت مہین سی آواز میں پوچھا،
’’کیا مشغلہ ہے ان صاحب زادے کا؟‘‘
ہم نے نہ جانے کیا کہنا چاہا مگر کہا صرف یہ کہ’’ارے صاحب مشغلہ ہی کیا ہوتا۔ جائیداد خدا کے فضل سے کافی ہے۔ مکانات، دکانیں۔ انہی کے انتظام میں مصروف رہتے ہیں۔‘‘
بینڈ ماسٹرنما بزرگ بولے، ’’مگر میں نے سُنا تھا کہ سرکاری ملازم بھی ہیں۔‘‘
اب بتائیے ہم کیا کہتے، مگر چپ رہنا اور بھی بُرا تھا۔ لہٰذا کچھ بولنے کی کوشش کی، ’’جی ہاں، وہ ملازمت تو بس یوں سمجھئے کہ یونہی بس دل بہلانے کے لیے کرلی ہے۔ ورنہ ان کے یہاں خود کیا کمی ہے کہ ملازمت کرتے پھریں۔‘‘ داڑھی کے تقسیم کنندہ محترم بولے، ’’کہاں ملازم ہیں؟‘‘
کتنا معمولی سا سوال تھامگر کیسا ٹیڑھا، خصوصاً ایسی حالت میں جبکہ کہیں ملازم ہی نہ تھے۔ مگر واہ رے ہماری حاضر جوابی، ’’جی یہیں لاہور میں۔‘‘
بینڈ ماسٹر صاحب نے کہا، ’’میرا مطلب یہ ہے کہ کس محکمہ میں؟‘‘
اب تو گویا صاف مارے گئے۔ محکمہ کی تفتیش نہایت خطرناک تھی۔ لہٰذا عرض کیا، ’’جی وہ دیکھئے بھلا سا نام ہے اس کا۔ دماغ میں ہے زبان پر نہیں آتا۔‘‘
ان بزرگ نے مشکل آسان کردی، ’’انکم ٹیکس سنا تھا میں نے۔‘‘
ہم نے بڑی متانت سے کہا، ’’جی ہاں اور کیا ایک قسم کا انکم ٹیکس سمجھ لیجئے۔‘‘
مگر وہ ٹھہرے وکیل، جرح شروع کردی۔ ’’ایک قسم کا انکم ٹیکس سمجھ لوں؟ یہ کیا بات ہوئی، ارے بھئی انکم ٹیکس تو بس انکم ٹیکس ہی ہوتا ہے۔‘‘
ہم نے اپنے اوپر جبر کرتے ہوئے کہا، ’’جی نہیں وہ کچھ انکم ٹیکس بھی ہے اور کچھ انکم ٹیکس نہیں بھی ہے۔ ابھی دیکھئے وہ آتے ہیں تومیں پوچھ کر بتاتا ہوں۔‘‘ آدھے تیتر آدھے بٹیر صاحب بولے، ’’سیلز ٹیکس کا محکمہ تو نہیں؟‘‘
ہم نے آنکھیں گھما چرا کر کہا، ’’غالباً میرا خیال ہے کہ آپ قریب قریب ٹھیک سمجھ رہے ہیں۔‘‘
داڑھی کے تقسیم کنندہ بزرگ نے مبحث بدلا، ’’صاحبزادے کی تعلیمی حالت کیاہے؟‘‘
ہم نے کہا، ’’کیا کہنا ہے صاحب! ماشاء اللہ پڑھے لکھے آدمی ہیں اپنے زمانے کے نہایت ہونہار طالب علم سمجھے جاتے تھے۔‘‘
بینڈ ماسٹر صاحب بولے، ’’علی گڑھ میں بھی پڑھ چکے ہیں غالباً؟‘‘
ہم نے بھی ترکی بہ ترکی کہا، ’’عرض تو کیا کہ علی گڑھ کے نہایت ہونہار طالب علم سمجھے جاتے تھے۔‘‘
شکر ہے کہ وہ بزرگ محترم جو مرزا کو لے کر گئے تھے۔ مرزا کو چھوڑ کر آگئے اور ایک کرسی پر بیٹھتے ہوئے بولے، ’’صاحب اس زمانے میں ایسے شرمیلے لڑکے بہت کم دیکھنے میں آتے ہیں۔ کیا مجال ہے جو میرے کسی سوال کا جواب ٹھیک دیا ہو۔‘‘
بینڈ نما بزرگ نے فرمایا، ’’بھائی صاحب یہ صاحبزادے کس محکمے میں ملازم ہیں؟‘‘
وہ بزرگ بولے، ’’اکسائز کہتے ہیں۔‘‘
اورہم نے نعرہ بلند کیا، ’’جی ہاں اکسائز اکسائز، ٹھیک ہے اکسائز۔‘‘
بینڈ ماسٹر صاحب نے ہنس کر کہا، ’’کہاں اکسائز، کہاں انکم ٹیکس، کہاں سیلز ٹیکس۔‘‘
چھ فٹ کے بزرگ نے ہم سے کہا، ’’تو گویا خاندانی سلسلہ شاہانِ اودھ سے ملتا ہے۔‘‘
ہم کو بتایاتھا شاہان مغلیہ سے سلسلہ ملانے کو اور خود ملابیٹھے شاہانِ اودھ سے۔ اب بتائیے ہم کس سے ملاتے۔ ہم نے عرض کیا، ’’جی ہاں۔ دادھیال کی طرف سے سلسلہ ملتا ہے۔ شاہان اودھ سے اور نانہال کی طرف سے شاہان مغلیہ سے۔‘‘
آدھے تیتر آدھے بٹیر صاحب نے کہا، ’’شجرہ تو مل سکے گا۔‘‘
ہم نے جلدی سے کہا، ’’کیوں نہیں یقینا شجرہ ہوگا ان کے پاس۔‘‘
چھ فٹ کے بزرگ نے کہا، ’’بی اے کس سن میں کیا ہے؟ یہ تو برخوردار نے بتایا کہ گریجویٹ ہیں۔ مگر سن میں پوچھنا بھول گیا تھا۔‘‘
ہم نے کہا، ’’سن تو مجھ کو بھی یاد نہیں۔‘‘
انہی بزرگ نے کہا، ’’گورنمنٹ کالج سے ہی تو کیا ہے بی اے۔‘‘
بینڈ ماسٹر صاحب بولے، ’’گورنمنٹ کالج علی گڑھ؟‘‘
’’جی ہاں دونوں۔ بات یہ ہے کہ علی گڑھ میں پڑھےاور امتحان گورنمنٹ کالج میں دیا۔‘‘
چھ فٹ کے بزرگ نے کہا، ’’لڑکا مجھ کو بیحد پسند ہے۔ خصوصاً اس لیے کہ میری لڑکی خود انٹر میڈیٹ تک پڑھی ہوئی ہے۔ مگر صاحبزادے کچھ اس قدر کم سخن اور شرمیلے واقع ہوئے ہیں کہ پڑھی لکھی لڑکیاں تو ایسے نوجوانوں کو انگلیوں پر نچا دیا کرتی ہیں۔ تو ان کے والد صاحب امروز و فردا میں آنے والے ہیں۔‘‘
لیجئے معلوم ہوتا ہے کہ ان حضرت نے والد صاحب کا بھی وعدہ کرلیا ہے۔ حالانکہ وہ بیچارے نہایت رواروی میں بغیر اپنی قوم بتائے مرچکے تھے۔ اب معلوم نہیں والد کا انتظام کہاں سے کریں گے۔ بہر حال ہم نے کہا، ’’معلوم نہیں، مجھ کوتو کچھ ذکر آیانہیں۔‘‘
وہ بزرگ بولے، ’’جی نہیں، ابھی کہہ رہے تھے کہ والد صاحب آنے والے ہیں۔ جائیداد کے بٹوارے کے سلسلے میں، وہی لڑکی کے نام ایک آدھ مکان لکھ دیں گے۔‘‘
خدا کا شکر ہے کہ نوکر نے چائے لاکر لگادی۔ ورنہ خدا جانے اور کتنے جھوٹ بولنا پڑتے۔ چائے کے ساتھ ہی مرزا صاحب بھی اندر سے نہایت سرخرو واپس تشریف لائے اور چائے نوشی میں شریک ہوگئے۔ عین اسی وقت ان بینڈ ماسٹر نما بزرگ نے مرزا صاحب کو مخاطب کرتے ہوئے کہا،
’’آپ نے سبجیکٹ کیا لئے تھے؟‘‘
مرزا صاحب نے ایک بڑا ساکیک کا ٹکڑا منہ میں رکھ لیا تاکہ ان کے بجائے ہم جواب دیں۔ ہم نے کہا، ’’یہ تو آرٹس میں تھے۔‘‘
اب ہم نے جلدی کرنا شروع کردی اس لیے کہ سوالات کا رُح خطرناک ہوتا جا رہا تھا۔ ہم نے کہا، ’’مرزا صاحب، اب ہم کو فوراً واپس بھی پہنچنا ہے۔ گھر پر میٹنگ ہے اور سب منتظر ہوں گے۔‘‘
آدھے تیترآدھے بٹیر صاحب نے کہا، ’’ایسی بھی کیا جلدی چلے جائیے گا۔ ہاں برخوردار تم نے کس ڈویژن میں پاس کیا بی اے؟‘‘
مرزا بول اٹھے، ’’فسٹ۔‘‘
چھ فٹ کے بزرگ نے کہا، ’’ماشاء اللہ، اور کس سنہ میں؟‘‘
مرزا نے جلدی سے کہا، ’’۱۹۴۵ء میں۔‘‘
داڑھی کے تقسیم کنندہ نے کہا، ’’خوب تو گویا آپ ۱۹۴۵ء میں گورنمنٹ کالج میں تھے۔‘‘
مرزا نے بغیر کسی ہچکچاہٹ کے کہا، ’’جی ہاں، بس امتحان دیا تھا۔‘‘
ہم نے پھر کہا، ’’صاحب معاف کیجئے ذرا۔ وہ میٹنگ ان سے زیادہ میرے لئے ضروری ہے۔ لہٰذا کم سے کم مجھ کو اجازت ہی دیجئے۔‘‘
مرزا نے کہا، ’’نہیں میں بھی اجازت لے کر جارہا ہوں۔‘‘
اور بمشکل تمام وہاں سے نکل سکے۔
راستہ بھر تو ہم کچھ نہ بولے۔ مگر آخر غصہ کے مارے یہ تو پوچھنا ہی تھا کہ والد آپ کے کیونکر زندہ ہوگئے؟ عرض کیا۔
’’بھئی اور تو جو کچھ ہوا وہ ہوا۔ مگر یہ آپ کے والد امروز و فردا میں کہاں سے آجائیں گے؟‘‘
مرزا نے کہا، ’’بھئی خدا بڑا مسبب الاسباب ہے۔ بات یہ ہوئی کہ میرے ہونے والے خسر نے کہا کہ والد صاحب کیا باہر ہیں؟ میرے منہ سے نکل گیا ’’جی ہاں‘‘ بس جی ہاں کو پھر نبھانا پڑا۔ اب میرا خیال یہ ہے کہ عزیز مرزا کو والد بننے پر تیار کرلوں گا۔ مگر آج کا معاملہ رہا بڑا ٹھاٹھ دار یار۔ بڑے مرعوب ہوئے ہیں یہ لوگ۔‘‘
ہم نے کہا، ’’دیکھو مرزا، آج کے بعد سے مجھ سے امید نہ رکھنا کہ میں پھر تمہارے اس قصہ میں کسی حیثیت سے شرکت کروں گا۔ خدا کی قسم سخت چغد تھے یہ لوگ۔ ورنہ ہم دونوں میں سے کوئی صحیح سلامت واپس نہ آسکتا۔‘‘
مرزا نے اطمینان دلایا کہ ’’یہ سب امتحان ہوئے جھگڑے ہیں اس کے بعد تو ہماری عزت ان کی عزت بن جائے گی اور پھر اگر جھوٹ کھل بھی گیا تو اس پر وہ خود پردہ ڈالیں گے۔‘‘
وہ دن اور آج کا دن مرزا سے پھر ہم نے ملنا گوارہ نہیں کیا۔ سُنا ہے کہ ’’عزیزم مرزا ان کے والد بنے ہوئے ہیں اور آج ہی کل میں شادی کی تاریخ ٹھہرنے والی ہے۔ کیا دنیا واقعی اتنی ہی اندھی ہے؟‘‘
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.