وہ آگئیں
جب سے کالجوں میں تعلیم مخلوط ہوئی ہے اکثر ادبی رسائل بھی مخلوط ہوگئے ہیں۔ آپ کوئی رسالہ اٹھا کر اس کی فہرست مضامین پر نظر دوڑائیے اس میں دس نام مرد اہل قلم کے ہوں گے تو دوچار خواتین کے اسمائے نازک بھی نظر آئیں گے۔
کالجوں کی مخلوط تعلیم جس ’’بے تکلفی‘‘ کا موجب بنتی ہے۔ مخلوط رسائل بھی اسی قسم کی ’’رواداری‘‘ کا باعث بنتے ہیں۔ زید نے ایک نظم لکھی اور زبیدہ نے ایک افسانہ لکھا۔ دونوں ایک ہی رسالہ میں چھپے اور نتیجہ یہ ہوا زید اور زبیدہ خود ایک دلچسپ افسانہ بن گئے۔
لاہور میں ایک نامور ادیب کی شادی ایک مشہور ادیبہ سے اسی ’’مخلوط نویسی‘‘ کے باعث ہوچکی ہے۔ ادیبہ نے ایک مضمون لکھا، ادیب نے اس کے جواب میں ایک مقا لہ لکھا۔ اسی طرح ایک دوسرے پر دوتین وار ہوئے اور دونوں شہید ہوکر رہ گئے۔ تھوڑے ہی عرصہ کے بعد وہ بیوی شوہر بن گئے اور وہ رسالہ جس میں ان کے مضامین چھپے تھے اچھا خاصہ شادی ایجنسی ثابت ہوا۔
ہمارے ارشد مرزابھی مخلوط نویسی کا شکار ہیں۔ ایک ادبی رسالہ میں ان کی اور ایک دہلوی لڑکی مس رفیقہ کی نظمیں چھپتی رہیں۔ اور رفتہ رفتہ دونوں ہم قافیہ مصرعے بن گئے۔ لیکن وزن میں ذرا فرق نہ تھا۔ اس لئے دونوں نے فعولن فعولن کی رٹ لگا کر عرصہ دراز میں وزن درست کیا۔ مرزا ارشد کی راہ میں یہ مشکل حائل تھی کہ وہ صرف شادی شدہ بلکہ تین چار بچوں کے باپ بھی تھے۔ بہرحال مصرع ثانی نے مصرع اولیٰ کا یہ ’’اعطائے جلی‘‘ قبول کرلیا اور یہ طے پایا کہ دونوں مصرعوں کو ملاکر ایک مکمل اور موزوں شعر بنا دیا جائے۔
حسب تجویز ارشدمرزا نے اپنے بھائی کو تاربھیجا جو حسب ذیل تھا،
Allwell؛ ComeImmediately یعنی ہر طرح خیرت ہے آپ فوراً تشریف لائیے۔ ارشد مرزا نے ہر طرح خیرت کے الفاظ اس لئے جڑ دیئے تھے کہ کہیں بھائی صاحب پریشان نہ ہو جائیں کہ کیا معاملہ ہے۔ ان الفاظ میں یہ اشارہ بھی تھا کہ کوئی ایسی ویسی بات نہیں صرف آپ اکیلے آجائیے۔ لیکن گاؤں میں تار کا آنا ایک مصیبت ہوتاہے۔ ہر چند آصف مرزا لکھے پڑھے آدمی تھے اور تار میں صاف لکھا تھا کہ ہر طرح خیرت ہے۔ لیکن آپ گھبرا گئے کہ خدا جانے بھائی کے سرپر کیا مصیبت آپڑی ہے۔ اسی گھبراہٹ میں آپ نے تار کو ارشد مرزا کے سسرال روانہ کردیا۔ جہاں ارشد مرزا کے بال بچے گئے ہوئے تھے اور ستم یہ کہ کہ تار کا اردو ترجمہ نہ لکھا۔ اب یہ چھوٹا سا گاؤں جس میں ایک پٹواری اور ایک مدرس، لڑکا تار کو پٹواری کے پاس لے گیا تو اس نے کہا کہ میں رومن کیرکٹر تو جانتا ہوں اور ان حروف کو پڑھ سکتا ہوں، لیکن معنی نہیں سمجھ سکتا۔ البتہ ایک لفظ کے معنی جانتا ہوں۔ اور وہ ’’لاہور‘‘ ہے۔ یہ تار لاہور سے آیا ہے۔
گاؤں میں تار آجائے تو گھر بھر میں گھبراہٹ پھیل جاتی ہے اور بعض اوقات ان دنوں کوئی رشتہ دار بیمار ہو یا لڑائی وغیرہ میں گیا ہوا ہوتو تار پڑھائے بغیر رونا پیٹنا شروع ہوجاتا ہے۔ ارشد مرزا کے گھر والوں میں بڑی پریشانی پھیلی رہی تھی کہ مجید مرزا آگئے جو ارشد مرزا کے رشتہ دار تھے اور زمیندار کے ایڈیٹر تھے۔
لڑکے نے تار دے کر کہا، بھائی اس تار کو نہ پٹواری پڑھ سکا ہےنہ مدرس۔ مجید مرزابولے، ’’اجی واہ، تارکا پڑھنا کوئی آسان کام ہے؟ اس کے لیے قابلیت کی ضرورت ہے کیونکہ اس میں حروف حذف کرکے اختصار سے کام لیا جاتاہے اورحذف شدہ الفاظ کو جان لینا ایسے ویسوں کا کام نہیں۔ اگر پٹواری اورمدرس تار پڑھنے لگیں تو ہم انٹرنس پاس لوگوں کو کون پوچھے گا؟‘‘
مجید مرزا نے عینک نکالی اور اسے آنکھوں پر لگاکر تار کو بلند آواز سے پڑھنے لگے۔ بلند آواز سے اس لئے کہ انہیں اپنی انگریزی دانی کا لوہا منوانا تھا۔
پہلی لفظ سے ALL اس کے معنی ہیں سب کے سب تمام اس کے آگے ہے WELL یہ فالتو لفظ ہے انگریز لوگ اکثر اردو بولتے وقت بھی اس کواستعمال کیا کرتے ہیں۔ ویل تمہارا کیا نام ہے اس کے بعد ہے ComeImmediately اس کے معنی ہیں فوراً چلے آؤ۔ تو سارے تار کا مطلب یہ ہوا کہ سب کے سب چلے آؤ۔‘‘
اب ارشد مرزا کی سنئے وہ اپنے گھر دوتین ہمراز دوستوں میں بیٹھے نئی شادی کے متعلق گپ شپ ہانک رہے تھے۔ آپ کہہ رہے تھے کہ دیکھئے آخر خدا وہ وقت لے ہی آیا کہ میرے دل کی مراد پوری ہونے کو ہے۔ بھائی جان بس آہی رہے ہوں گے۔ وہ آئے اورمیں انہیں لے کر دہلی پہنچا۔ اور پھر سمجھ لیجئے کہ وہ بھی آگئیں۔ میری نئی بیگم صاحبہ۔
اتنے میں دروازے پر دستک ہوئی ارشد مرزا باہر نکلے اور پھر اندر آکر دوستوں سے کہنے لگے۔ اب آپ تشریف لے جائیے وہ آگئیں۔
الطاف، وہ کیسے آگئیں، ابھی تک آپ کے بھائی صاحب توآئے نہیں اور آپ دہلی گئے نہیں وہ کیسے آگئیں؟
ارشد مرزا، ارے وہ آگئیں۔۔۔ وہی پرانی بیگم صاحبہ!
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.