یادش بخیریا
یادش بخیر! مجھے وہ شام کبھی نہ بھولے گی جب آخرکار آغا تلمیذ الرحمن چاکسوی سےتعارف ہوا۔ سنتے چلے آئے تھے کہ آغا اپنے بچپن کے ساتھیوں کے علاوہ، جو اب ایک ہاتھ کی انگلیوں پر گنے جا سکتے تھے، کسی سے نہیں ملتے اور جس سہمے سہمے انداز سے انہوں نے مجھ سے مصافحہ کیا، بلکہ کرایا، اس سے بھی یہی ہویدا تھا کہ ہر نئے ملاقاتی سے ہاتھ ملانے کے بعد وہ اپنی انگلیاں ضرور گن لیتے ہوں گے۔ دشمنوں نےاڑا رکھی تھی کہ آغا جن لوگوں سےملنے کے متمنی رہے ان تک رسائی نہ ہوئی اور جو لوگ ان سے ملنے کے خواہش مند تھے، ان کو منہ لگانا انہوں نے کسرِ شان سمجھا۔
انہوں نے اپنی ذات ہی کو انجمن خیال کیا، جس کا نتیجہ یہ ہوا کہ مستقل اپنی ہی صحبت نے ان کو خراب کردیا۔ لیکن وہ خود اپنی کم آمیزی کی توجیہ یوں کرتے تھے کہ جب پرانی دوستیاں نباہنے کی توفیق اور فرصت میسر نہیں تو نئے لوگوں سے ملنے سے فائدہ؟ رہے پرانے دوست، سو ان سے بھی نہ ملنے میں زیادہ لطف و عافیت محسوس کرتے، اس لیے کہ وہ نفسیات کے کسی فارمولے کی گمراہ کن روشنی میں اس نتیجہ پرپہنچ چکے تھے کہ مل کر بچھڑنے میں جو دکھ ہوتا ہے، وہ ذرا دیر مل بیٹھنے کی وقتی خوشی سے سات گنا شدید اور دیرپا ہوتا ہے اور وہ بیٹھے بٹھائے اپنے دکھوں میں اضافہ کرنے کے حق میں نہیں تھے۔ سنا یہ ہے کہ وہ اپنے بعض دوستوں کو محض اس بنا پر محبوب رکھتے تھے کہ وہ ان سے پہلے مرچکے تھے اور ازبسکہ ان سےملاقات کا امکان مستقبل قریب میں نظر نہیں آتا تھا، لہٰذا ان کی یادوں کو حنوط کر کے انہوں نے اپنے دل کے ممی خانے میں بڑے قرینے سے سجا رکھا تھا۔
لوگوں نے اتنا ڈرا رکھا تھا کہ میں جھجکتا ہوا آغا کے کمرے میں داخل ہوا۔ یہ ایک چھوٹا سا نیم تاریک کمرہ تھا جس کے دروازے کی تنگی سے معاً خیال گزرا کہ غالباً پہلے موروثی مسہری اور دوسری بھاری بھرکم چیزیں خوب ٹھساٹھس جمادی گئیں، اس کے بعد دیواریں اٹھائی گئی ہوں گی۔ میں نے کمال احتیاط سے اپنے آپ کو ایک کونے میں پارک کر کے کمرے کا جائزہ لیا۔ سامنے دیوار پر آغا کی ربع صدی پرانی تصویر آویزاں تھی۔ جس میں وہ سیاہ گاؤن پہنے، ڈگری ہاتھ میں لیے، یونیورسٹی پر مسکرا رہے تھے۔ اس کے عین مقابل، دروازے کے اوپر دادا جان کے وقتوں کی ایک کاواک گھڑی ٹنگی ہوئی تھی جو چوبیس گھنٹے میں صرف دو دفعہ صحیح وقت بتاتی تھی۔ (یہ پندرہ سال سے سوا دو بجا رہی تھی۔) آغا کہتے تھے کہ اس گئی گزری حالت میں بھی یہ ان ’’ماڈرن‘‘ گھڑیوں سے بدرجہا بہتر ہےجو چلتی چوبیس گھنٹے ہیں مگر ایک دفعہ بھی ٹھیک وقت نہیں بتاتیں۔ جب دیکھو ایک منٹ آگے ہوں گی یا ایک منٹ پیچھے۔
دائیں جانب ایک طاقچےمیں جو فرش کی بہ نسبت چھت سے زیادہ نزدیک تھا، ایک گراموفون رکھاتھا، جس کی بالانشینی پڑوس میں بچوں کی موجودگی کا پتہ دے رہی تھی۔ ٹھیک اس کے نیچے چیڑکا ایک لنگڑا اسٹول پڑا تھا، جس پر چڑھ کر آغا چابی دیتے اور چھپن چھری اور بھائی چھیلا پٹیالے والے کے گھسے گھسائے ریکارڈ سنتے (سننے میں کانوں سے زیادہ حافظے سے کام لیتے تھے۔) اس سے ذرا ہٹ کر برتنوں کی الماری تھی جس میں کتابیں بھری پڑی تھیں۔ ان کے محتاط انتخاب سے ظاہر ہوتا تھا کہ اردو میں جو کچھ لکھا جانا تھا وہ پچیس سال قبل لکھا جا چکا ہے۔ (اسی زمانے میں سنا تھا کہ آغا جدید شاعری سے اس حد تک بے زار ہیں کہ نئے شاعروں کو ریڈیو سیٹ پر بھی ہوٹ کرنے سے باز نہیں آتے۔ اکثر فرماتے تھے کہ ان کی جوان رگوں میں روشنائی دوڑ رہی ہے۔)
آتش دان پرسیاہ فریم میں جڑا ہوا الوداعی سپاس نامہ رکھا تھا جو ان کے ماتحتوں نے پندرہ سال قبل پرانی دلی سےنئی دہلی تبادلہ ہونے پر پیش کیا تھا۔ اسی تقریب میں یادگار کے طور پر آغا نے اپنے ماتحتوں کےساتھ گروپ فوٹو بھی کھنچوایا جس میں آغا کے علاوہ ہر شخص نہایت مطمئن و مسرور نظر آتا تھا۔ یہ پائینتی ٹنگا تھا تاکہ رات کو سونے سے پہلے اور صبح اٹھنے کے بعد آئینہ ایام میں اپنی ادا دیکھ سکیں۔
مجھے اچھی طرح یاد ہے کہ اس وقت آغا تین درویش صورت بزرگوں کے حلقے میں مہابلی اکبر کے دور کی خوبیاں اور برکتیں نہایت وارفتگی سے بیان کر رہے تھے۔ گویا سب کچھ اپنی آنکھوں سے دیکھ چکے ہیں۔ ابوالفضل کےقتل تک پہنچے تو ایسی ہچکی بندھی کہ معلوم ہوتا تھا انہیں اس واردات کی اطلاع ابھی ابھی ملی ہے۔ اس حرکت پر وہ شیخو کو ڈانٹ ڈپٹ کر ہی رہے تھے کہ اتنے میں پہلا درویش بول اٹھا، ’’اماں چھوڑو بھی۔ بھلا وہ بھی کوئی زمانہ تھا، جب لوگ چار گھنٹے فی میل کی رفتار سے سفر کرتے تھے، اور رؤسا تک جمعہ کے جمعہ نہاتے تھے۔‘‘ اس کا منہ آغا نےیہ کہہ کر بند کر دیا کہ حضرت اس سنہری زمانے میں ایسی سڑی گرمی کہاں پڑتی تھی؟ پھر پروفیسر شکلا نےآغا کی ہاں میں ہاں ملاتے ہوئے ارشاد فرمایا کہ ہمارے سمے میں بھی بھارت ورش کی برکھا رت بڑی ہی سندر ہوتی تھی (مجھے بعد میں پتہ چلا کہ ہمارے سمے سے ان کی مراد ہمیشہ چندر گپت موریہ کا عہد ہوتا تھا جس پر وہ تین دفعہ ’’تھیسس‘‘ لکھ کر نا منظور کروا چکے تھے۔)
اس مقام پر چگی ڈاڑھی والا درویش ایکا ایکی اوچھا وار کر گیا۔ بولا، ’’آغا! تم اپنے وقت سے ساڑھے تین سو برس بعد پیدا ہوئے ہو۔‘‘ اس پرآغا، شکلا جی کی طرف آنکھ مار کر کہنے لگے کہ ’’تمہارے حساب سے یہ غریب تو پورے دو ہزار سال لیٹ ہو گیا۔ مگر میں تم سے ایک بات پوچھتا ہوں۔ کیا تم اپنے تئیں قبل از وقت پیدا ہونے والوں میں شمار کرتےہو؟ کیا سمجھے؟‘‘ شکلا جی شرماتے لجاتے پھر بیچ میں کود پڑے، ’’اگر تمہارا مطلب وہی ہے جو میں سمجھا ہوں تو بڑی ویسی بات ہے۔‘‘
یہ نوک جھونک چل رہی تھی کہ پہلا درویش پھر گمبھیر لہجے میں بولا، ’’قاعدہ ہے کہ کوئی دور اپنےآپ سے مطمئن نہیں ہوتا۔ آج آپ اکبر اعظم کے دور کو یاد کر کے روتے ہیں لیکن مجھے یقین ہے کہ اگر آپ اکبر کے عہد میں پیدا ہوتے تو علاء الدین خلجی کے وقتوں کو یاد کرکے آبدیدہ ہوتے۔ اپنے عہد سےغیرمطمئن ہونا بجائے خود ترقی کی نشانی ہے۔‘‘
’’سچ تو یہ ہے کہ حکومتوں کے علاوہ کوئی بھی اپنی موجودہ ترقی سے مطمئن نہیں ہوتا۔‘‘ چگی ڈاڑھی والے درویش نے کہا۔ میں نے پہلے درویش کو سہارا دیا، ’’آپ بجا فرماتے ہیں۔ اسی بات کو ہم یوں بھی کہہ سکتے ہیں کہ اگر کوئی باپ اپنے بیٹے سے سوفیصد مطمئن ہے تو سمجھ لیجیے کہ یہ گھرانا رو بہ زوال ہے۔ برخلاف اس کے، اگر کوئی بیٹا اپنے باپ کو دوستوں سےملانے میں شرمانے لگے تو یہ علامت ہے اس بات کی کہ خاندان آگے بڑھ رہا ہے۔‘‘
’’مگر اس کو کیا کیجیے کہ آج کل کے نوجوان مطلب کی خاطر باپ کو بھی باپ ہی مان لیتے ہیں! کیا سمجھے؟‘‘ آغا نے کہا۔سب کو بڑاتعجب ہوا کہ آغا پہلی ملاقات میں مجھ سے بے تکلف ہوگئے۔۔۔ اتنے کہ دوسری صحبت میں انہوں نےمجھےنہ صرف اپنا پہلونٹی کا شعر بڑے لحن سے سنایا بلکہ مجھ سے اپنے وہ اداریے بھی پڑھوا کر سنےجو سترہ اٹھارہ سال پہلے انہوں نے اپنے ماہ نامے ’’سرودِرفتہ‘‘ میں پرانی نسل کے بارے میں مندرجہ ذیل نوٹ کے ساتھ شائع کیے تھے، ’’قارئین کا اڈیٹر کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں۔‘‘
یہ ربط ضبط دن بدن بڑھتا گیا۔ میں اس تقرب خاص پر نازاں تھا، گو کہ حاسدوں کو۔۔۔ اور خود مجھے بھی۔۔۔ اپنی سیرت میں بظاہر کوئی ایسی بات نظر نہیں آتی تھی جو آغا کی پسندیدگی کا باعث ہو۔ آخر ایک روز انہوں نے خود یہ عقدہ حل کر دیا۔ فرمایا تمہاری صورت عین مین ہمارے ایک ماموں سے ملتی ہے جو میٹرک کا نتیجہ نکلتے ہی ایسے روپوش ہوئے کہ آج تک مفقود الخبر ہیں۔
انگریزوں کا وطیرہ ہے کہ وہ کسی عمارت کو اس وقت تک خاطر میں نہیں لاتے جب تک وہ کھنڈر نہ ہو جائے۔ اسی طرح ہمارے ہاں بعض محتاط حضرات کسی کے حق میں کلمہ خیر کہنا روانہیں سمجھتے تا وقتیکہ ممدوح کا چہلم نہ ہو جائے۔ آغا کو بھی ماضی بعید سے، خواہ اپنا ہو یا پرایا، والہانہ وابستگی تھی، جس کا ایک ثبوت ان کی ۱۹۲۷ء ماڈل کی فورڈ کار تھی جو انہوں نے ۱۹۵۵ء میں ایک ضعیف العمر پارسی سے تقریباً مفت لی تھی۔ اس کی سب سے بڑی خوبی یہ تھی کہ چلتی بھی تھی اور وہ بھی اس میانہ روی کے ساتھ کہ محلے کے لونڈے ٹھلوے جب اور جہاں چاہتے چلتی گاڑی میں کود کر بیٹھ جاتے۔ آغا نے کبھی تعرض نہیں کیا۔ کیونکہ اگلے چوراہے پر جب یہ دھکڑ دھکڑ کر کے دم توڑ دیتی تو یہی سواریاں دھکے لگا لگا کر منزل مقصود تک پہنچا آتیں۔ اس صورت میں پٹرول کی بچت تو خیر تھی ہی، لیکن بڑافائدہ یہ تھا کہ انجن بند ہوجانے کے سبب کار زیادہ تیز چلتی تھی۔ واقعی اس کار کا چلنا اور چلانا معجزۂ فن سے کم نہ تھا، اس لیے کہ اس میں پٹرول سے زیادہ خون جلتا تھا۔ آغا دل ہی دل میں کڑھتے اور اپنے مصنوعی دانت پیس کر رہ جاتے۔ لیکن کوئی یہ کار ہدیتاً لینے کے لیے بھی رضا مند نہ ہوتا۔ کئی مرتبہ تو ایسا ہوا کہ تنگ آکر آغا کار کوشہر سے دور کسی پیپل کے نیچے کھڑا کرکے راتوں رات بھاگ آئے۔ لیکن ہر مرتبہ پولیس نے کار سرکاری خرچ پر ٹھیل ٹھال کر آغا کے گھر بحفاظتِ تمام پہنچا دی۔
غرض یہ کہ، اس کار کو علیحدہ کرنا اتنا ہی دشوار نکلا جتنا اس کو رکھنا۔ پھر یہ بات بھی تھی کہ اس سے بہت سے تاریخی حادثوں کی یادیں وابستہ تھیں جن میں آغا بے عزتی کے ساتھ بری ہوئے تھے۔ انجام کار، ایک سہانی صبح فورڈ کمپنی والوں نے ان کو پیغام بھیجا کہ یہ کار ہمیں لوٹا دو۔ ہم اس کو پبلسٹی کے لیے اپنے قدیم ماڈلوں کے میوزیم میں رکھیں گے اور اس کے بدلے سالِ رواں کے ماڈل کی بڑی کار تمھیں پیش کریں گے۔ شہر کے ہر کافی ہاؤس میں آغا کی خوش نصیبی اور کمپنی کی فیاضی کے چرچے ہونے لگے۔ اور یہ چرچے اس وقت ختم ہوئے جب آغا نے اس پیش کش کو حقارت کے ساتھ مسترد کر دیا۔ کہنے لگے، ’’دو لوں گا!‘‘ کمپنی خاموش ہوگئی اور آغا مدتوں اس کے مقامی کارندوں کی نااہلی اور ناعاقبت اندیشی پر افسوس کرتے رہے۔ کہتے تھے، ’’لالچی کہیں کے، پانچ سال بعد تین دینی پڑیں گی، دیکھ لینا!‘‘
وہ خلوصِ نیت سے اس دور کو کلجگ کہتے اور سمجھتے تھے۔ جہاں کوئی نئی چیز، کوئی نئی صورت نظر پڑی اور انہوں نے کچ کچا کے آنکھیں بند کیں اور یادِ رفتگاں کے اتھاہ سمندر میں غڑاپ سے غوطہ لگایا۔ اور کبھی ایسا نہیں ہوا کہ کندھے پر ایک آدھ لاش لادے برآمد نہ ہوئے ہوں۔ کہیں کوئی بات بارِ خاطر ہوئی اور انہوں نے ’’یادش بخیر‘‘ کہہ کر بیتے سمے اور بچھڑی ہوئی صورتوں کی تصویر کھینچ کے رکھ دی۔ ذرا کوئی امریکی طور طریق یا وضع قطع ناگوار گزری اور انہوں نے کولمبس کو گالیاں دینی شروع کیں۔ وہ فی الواقع محسوس کرتے کہ ان کے لڑکپن میں گنے زیادہ میٹھے اور ملائم ہوا کرتے تھے۔ میرے سامنے بارہا اتنی سی بات منوانے کے لیے مرنے مارنے پر تل گئے کہ ان کے بچپنے میں چنے ہرگز اتنے سخت نہیں ہوتے تھے۔ کہتے تھے آپ نہ مانیں، یہ اور بات ہے، مگر یہ ٹھوس حقیقت ہے کہ گزشتہ پندرہ بیس سال میں قطب مینار کی سیڑھیاں گھسنے کی بجائے اور زیادہ اونچی ہوگئی ہیں۔ اور اس کے ثبوت میں اپنے حالیہ سفر دہلی کا تجربہ ہانپ ہانپ کر بیان کرتے۔ چونکہ ہم میں سے کسی کے پاس سپورٹ تک نہ تھا، اس لیے اس منزل پربحث کا پلہ ہمیشہ ان کے حق میں جھک جاتا۔
من جملہ دیگر عقائد کے، ان کا ایمان تھا کہ بکری کا گوشت اب اتنا حلوان نہیں ہوتا جتنا ان کے وقتوں میں ہوا کرتا تھا۔ ممکن ہےاس میں کچھ حقیقت بھی ہو مگر وہ ایک لمحے کو بھی یہ سوچنے کے لیے تیار نہ تھے کہ اس میں دانتوں کا قصور یا آنتوں کا فتور بھی ہوسکتا ہے۔ وہ ریشے دار گوشت کو قصائی کی بے ایمانی سے زیادہ بکری کی اپنی بداعمالیوں سے منسوب کرتے۔ چنانچہ بعض اوقات خلال کرتے کرتے اس زمانے کو یاد کرکے ان کا گلا رندھ جاتا جب بکریاں اللہ میاں کی گائے ہوا کرتی تھیں۔
ہم نے کبھی انہیں نشہ کرتے نہیں دیکھا۔ تاہم ان کا دعویٰ تھا کہ میرے لڑکپن میں سرولی آم خربوزے کے برابر ہوتے تھے۔ ہم نےکبھی اس کی تردید نہیں کی۔ اس لیے کہ ہم اپنے گئے گزرے زمانے میں روزانہ ایسے خربوزے بکثرت دیکھ رہے تھے جو واقعی آم کے برابر تھے۔ بات سرولی پر ہی ختم ہوجاتی توصبر آ جاتا، لیکن وہ تو یہاں تک کہتے تھے کہ اگلے وقتوں کے لوگ غضب کے لمبے چوڑے ہوتے تھے۔ ثبوت کے طور پر اپنے تایا ابا کی رسولی کے سائز کا حوالہ دیتے جو مقامی میڈیکل کالج نے اسپرٹ میں محفوظ کر رکھی تھی۔ کہتے تھے آپ صرف اسی سے ان کی صحت کا اندازہ کر لیجیے۔ یہ سن کر ہم سب ایک دوسرے کا منہ دیکھنے لگتے، اس لیے کہ اول تو ہمارے بزرگ ان کے بزرگوں کے مقابلے میں ابھی بچے ہی تھے۔ دوم، ہم میں سے کسی کے بزرگ کی رسولی ابھی تک منظر عام پر نہیں آئی تھی۔
اس کلجگ کا اثر جہاں اور چیزوں، خصوصاً اشیائے خوردونوش پر پڑا، وہاں موسم بھی اس کے چنگل سے نہ بچ سکا۔ اوائل جنوری کی ایک سرد شام تھی۔ آغا نے ٹھنڈا سانس بھر کر کہا، کیا وقت آ لگا ہے! ورنہ بیس سال پہلے جنوری میں ایسی کڑاکے کی سردی نہیں پڑتی تھی کہ پنج وقتہ تیمم کرنا پڑے۔ چگی ڈاڑھی والے درویش نے سوال کیا، کہیں اس کی وجہ یہ تو نہیں کہ تم اس زمانے میں صرف عیدکی نماز پڑھتے تھے؟ لیکن بہت کچھ بحث و تمحیص کے بعد یہ طے پایا کہ محکمہ موسمیات کے ریکارڈ سے آغا کو قائل کیا جائے۔آغا دونوں ہاتھ گھٹنوں میں دے کر بولے، ’’صاحب! ہم تو اتنا جانتے ہیں کہ بیس برس پہلے اتنی کم سردی پڑتی تھی کہ ایک پتلی سی دلائی میں پسینہ آنے لگتا تھا اور اب پانچ سیر روئی کے لحاف میں بھی سردی نہیں جاتی! کیا سمجھے؟‘‘ وہ کچھ اور دلائل بھی پیش کرنا چاہتے تھے لیکن ان کی کٹکٹی بندھ گئی اور بحث ایک دفعہ پھر انہی کے حق میں ختم ہوگئی۔
قدیم نصابِ تعلیم کے وہ بے حد معترف و مداح تھے۔ اکثر کہتے کہ ہمارے بچپن میں کتابیں اتنی آسان ہوتی تھیں کہ بچے تو بچے، ان کے والدین بھی سمجھ سکتے تھے۔ اسی رَو میں اپنی یونیورسٹی کا ذکر بڑی للک سےکرتے اور کہتے کہ ہمارے وقتوں میں ممتحن اتنے لائق ہوتے تھے کہ کوئی لڑکا فیل نہیں ہو سکتا تھا۔ قسمیں کھا کھا کر ہمیں یقین دلاتے کہ ہماری یونیورسٹی میں فیل ہونے کے لیے غیر معمولی قابلیت درکار تھی۔ جس شہر میں یہ یونیورسٹی واقع تھی، اسے وہ عرصے سے اجڑا دیار کہنے کے عادی تھے۔ ایک دن میں نے آڑے ہاتھوں لیا، ’’آغا! خدا سے ڈرو! وہ شہر تمہیں اجاڑ دکھائی دیتا ہے؟ حالانکہ وہاں کی آبادی پانچ ہزارسے بڑھ کر ساڑھے تین لاکھ ہوگئی ہے!‘‘
’’مسلمان ہو؟‘‘
’’ہوں تو۔‘‘
’’دوزخ پر ایمان ہے؟‘‘
’’ہے۔‘‘
’’وہاں کی آبادی بھی تو روز بروز بڑھتی جا رہی ہے! کیا سمجھے؟‘‘
اختر شیرانی کی ایک بڑی مشہور نظم ہے جس میں انہوں نے یارانِ وطن کی خیر و عافیت پوچھنے کے بعد، دیس سے آنے والے کی خبر لی ہے۔ اس بھولے بھالے سوال نامے کے تیور صاف کہہ رہے ہیں کہ شاعر کو یقین واثق ہے کہ اس کے پردیس سدھارتے ہی نہ صرف دیس کی ریت رسم بلکہ موسم بھی بدل گیا ہوگا، اور ندی نالے اور تالاب سب ایک ایک کرکے سوکھ گئے ہوں گے۔ آغا کو اپنے آبائی گاؤں چاکسو (خورد) سے بھی کچھ اسی نوع کی توقعات وابستہ تھیں۔
چاکسو (خورد) در اصل ایک قدیم گاؤں تھا جو چاکسو کلاں سے چھوٹا تھا۔ یہاں لوگ اب تک ہوائی جہاز کو چیل گاڑی کے نام سے یاد کرتے تھے۔ لیکن آغا اپنے لعاب دہن سے اس کے گرداگرد یادوں کا ریشمی جالا بنتے رہے، یہاں تک کہ اس نے ایک تہ دار کوئے کی شکل اختیار کرلی جسے چیر کر (آغا کا تو کیا ذکر) جمیع باشندگانِ چاکسو باہر نہیں نکل سکتے تھے۔ ادھر چند دنوں سے وہ ان تنگ و تاریک گلیوں کو یاد کرکے زار و قطار رو رہے تھے، جہاں بقول ان کے جوانی کھوئی تھی۔ حالانکہ ہم سب کو ان کی سوانح عمری میں سوانح کم، اور عمر زیادہ نظر آتی تھی لیکن جب ان کے یادش بخیریا نے شدت اختیار کی تو دوستوں میں یہ صلاح ٹھیری کہ ان کو دو تین مہینے کے لیے اسی گاؤں میں بھیج دیا جائے جس کی زمین ان کو حافظے کی خرابی کے سبب چہارم آسمان دکھائی دیتی ہے۔
چنانچہ گزشتہ مارچ میں آغا ایک مدت مدید (تیس سال) کے بعد اپنے گاؤں گئے۔ لیکن وہاں سے لوٹے تو کافی آزردہ تھے۔ انہیں اس بات سے رنج پہنچا کہ جہاں پہلے ایک جوہڑ تھا جس میں دن بھر بھینسیں اور ان کے مالکوں کے بچے پڑے رہتے تھے، وہاں اب ایک پرائمری اسکول کھڑا تھا۔ اس میں انہیں صریحاً چاکسو کلاں والوں کی شرارت معلوم ہوتی تھی۔ جوں توں ایک دن وہاں گزارا اور پہلی ٹرین سے اپنی پرانی یونیورسٹی پہنچے۔ مگر وہاں سے بھی شاموں شام واپس آئے۔ بے حد مغموم و گرفتہ دل۔ انہیں یہ دیکھ کر بڑی مایوسی ہوئی کہ یونیورسٹی اب تک چل رہی ہے۔ ان جیسے حساس آدمی کے لیے یہ بڑے دکھ اور اچنبھے کی بات تھی کہ وہاں مارچ میں اب بھی پھول کھلتے ہیں اور گلاب سرخ اور سبزہ ہرا ہوتا ہے۔ در اصل ایک مثالی ’’اولڈ بوائے‘‘ کی طرح وہ اس وقت تک اس صحت مند غلط فہمی میں مبتلا تھے کہ ساری چونچالی اور تمام خوش دلی اور خوش باشی ان کی نسل پر ختم ہوگئی۔
آغا کی عمر کا بھید نہیں کھلا۔ لیکن جن دنوں میرا تعارف ہوا، وہ عمر کی اس کٹھن گھاٹی سے گزر رہے تھے جب جوان ان کو بوڑھا جان کر کتراتے اور بوڑھے کل کا لونڈا سمجھ کر منہ نہیں لگاتے تھے۔ جن حضرات کو آغا اپنا ہم عمر بتاتے رہے، ان میں سے اکثر ان کو منہ در منہ چچا کہتے تھے۔ خیر، ان کی عمر کچھ بھی ہو، مگر میرا خیال ہے کہ وہ ان لوگوں میں سے تھے جو کبھی جوان نہیں ہوتے۔ جب کبھی وہ اپنی جوانی کی بدعنوانیوں کے قصے سنانے بیٹھتے تو نوجوان ان کو یکسر فرضی سمجھتے۔ وہ غلطی پر تھے۔ کیونکہ قصے ہی نہیں، ان کی ساری جوانی قطعی فرضی تھی۔ ویسے یہ کوئی انہونی بات نہیں۔ اس لیے کہ بعض اشخاص عمر کی کسی نہ کسی منزل کو پھلانگ جاتے ہیں۔
مثال کے طور پر شیخ سعدی کے متعلق یہ باور کرنے کو جی نہیں چاہتا کہ وہ کبھی بچہ رہے ہوں گے۔ حالی جوان ہونے سے پیشتر بڑھا گئے۔ مہدی الافادی جذباتی اعتبار سے، ادھیڑ پیدا ہوئے اور ادھیڑ مرے۔ شبلی نے عمر طبیعی کے خلاف جہاد کرکے ثابت کر دیا کہ عشق عطیہ قدرت ہے۔ پیر و جواں کی قید نہیں،
مومن ہے تو بے تیغ بھی لڑتا ہے سپاہی
اور اختر شیرانی جب تک جئے دائمی نوجوانی میں مبتلا رہے اور آخر اسی میں انتقال کیا۔ اس سے اختر شیرانی کی تنقیص یا آغا کی مذمت مقصود نہیں کہ میرے کانوں میں آج بھی آغا کے وہ الفاظ گونج رہے ہیں جو انہوں نے ٹیگور پر نکتہ چینی کرتے ہوئے کہے تھے، ’’برا مانو یا بھلا۔ لیکن جوان مولوی اور بوڑھے شاعر پر اپنا دل تو نہیں ٹھکتا۔ کیا سمجھے؟‘‘
ان کی شادی کے متعلق اتنی ہی روایتیں تھیں جتنے ان کے دوست۔ بعضوں کا کہنا تھا کہ بی۔اے کے نتیجے سے اس قدر بددل ہوئے کہ خودکشی کی ٹھان لی۔ بوڑھے والدین نے سمجھایا کہ بیٹا خودکشی نہ کرو، شادی کرلو۔ چنانچہ شادی ہوگئی۔ مگر ابھی سہرے کے پھول بھی پوری طرح نہ مرجھائے ہوں گے کہ یہ فکر لاحق ہوگئی کہ بچپن انہیں اسیر پنجۂ عہد شباب کرکے کہاں چلا گیا اور وہ اپنی آزادی کے ایام کو بے طرح یاد کرنے لگے۔ حتی کہ اس نیک بخت کو بھی رحم آگیا اور وہ ہمیشہ کے لیے اپنے میکے چلی گئی۔
اس سے مہر بخشوانے کے ٹھیک پندرہ سال بعد ایک مسن خاتون کو محض اس بنا پر حبالۂ نکاح میں لائے کہ پینتیس سال اور تین شوہر قبل موصوفہ نے چاکسو میں ان کے ساتھ اماوس کی رات میں آنکھ مچولی کھیلتے وقت چٹکی لی تھی۔ جس کا نیل ان کے حافظے میں جوں کا توں محفوظ تھا۔ لیکن آغا اپنی عادت سے مجبور تھے۔ اس کے سامنے اپنی پہلی بیوی کی اٹھتے بیٹھتے اس قدر تعریف کی کہ اس نے بہت جلد طلاق لے لی۔ اتنی جلد کہ ایک دن انگلیوں پر حساب لگایا تو بچاری کی ازدواجی زندگی، عدت کی میعاد سے بھی مختصر نکلی۔ آغا ہرسال نہایت پابندی اور دھوم دھام سے دونوں طلاقوں کی سالگرہ منایا کرتے تھے۔ پہلی طلاق کی سلور جوبلی میں راقم الحروف کو بھی شرکت کا اتفاق ہوا۔ دوسری خانہ بربادی کے بعد شادی نہیں کی، اگرچہ نظر میں آخری دم تک سہرے کے پھول کھلتے اور مہکتے رہے۔
یوں ترنگ میں ہوں تو انہیں ہر عاقل و بالغ خاتون میں اپنی اہلیہ بننے کی صلاحیت نظر آتی تھی۔ ایسے نازک و نایاب لمحات میں وہ کتابوں کی الماری سے بیئر پینے کا ایک گلاس نکالتے جو ایک یادگار نمائش سے دودھ پینے کے لیے خریدا تھا۔ اب اس میں سکنجبین بھر کے جرعہ جرعہ حلق میں انڈیلتے رہتے اور ماضی کے نشہ سے سرشار ہوکر خوب بہکتے۔ اپنے آپ پر سنگین تہمتیں لگاتے اور عورت ذات کو نقصان پہنچانے کے ضمن میں اپنے ۵۵ سالہ منصوبوں کا اعلان کرتے جاتے۔ پھر جیسے جیسے عمر اور ناتجربہ کاری بڑھتی گئی وہ ہرخاموش خاتون کو نیم رضامند سمجھنے لگے۔ نہ جانے کیوں اور کیسے انہیں یہ اندیشہ ہو چلا تھا کہ حوا کی ساری نسل انہی کی گھات میں بیٹھی ہے۔ مگر کسی اللہ کی بندی کی ہمت نہیں پڑتی کہ ان کی پرغرور گردن میں گھنٹی باندھ دے۔
لیکن سوائے آغا کے سب جانتے تھے کہ وہ صنف نازک کے حضور ہمیشہ سرتاپا! بن کر گئے جب کہ انہیں مجسم؟ ہونا چاہیے تھا۔ ایک دن چگی ڈاڑھی والے درویش نے دبی زبان سے کہا کہ آغا تم دہلیز ہی چومتے رہ گئے۔ دستک دینے کی ہمت تمہیں کبھی نہیں ہوئی۔ ہنسے۔ کہنے لگے، میاں! ہم تو درویش ہیں۔ اِک گھونٹ لیا، دل شاد کیا، خوش وقت ہوئے اور چل نکلے۔ ملنگ کے دل میں سبیل پر قبضہ کرنے کی خواہش نہیں ہوتی۔
سینما دیکھنے کے شائق تھے اگرچہ اس کے مواقع بہت کم ملتے تھے۔ صرف وہ تصویریں چاؤ سے دیکھتے تھے جن میں ان کے زمانے کی محبوب ایکٹرسیں ہیروئن کا رول اداکر رہی ہوں۔ مگر دقت یہ تھی کہ ان کے چہرے یا تو اب اسکرین پر نظر ہی نہیں آتے تھے، یا پھر ضرورت سے زیادہ نظر آ جاتے تھے۔ ان میں سے جو حیات تھیں، اور چلنے پھرنے کے قابل، وہ اب ہیروئن کی نانی اور ساس کا رول نہایت خوش اسلوبی سے ادا کر رہی تھیں۔ جس سے ظاہر ہے آغا کو کیا دل چسپی ہوسکتی تھی۔ البتہ چھٹے چھماہے ’’پکار‘‘ یا ’’ماتا ہری‘‘ قسم کی فلم آجاتی تو آغا کے دل کا کنول کھل جاتا۔ چگی ڈاڑھی والے درویش کا بیان ہے کہ آغا گریٹا گاربو پر محض اس لیے فریفتہ تھے کہ وہ انہی کی عمروں تھی۔
ہرچند اس قبیل کی فلمیں دیکھ کر ہر تندرست آدمی کو اپنی سماعت اور بصارت پر شبہ ہونے لگتا۔ لیکن آغا کو ان کے مناظر اور مکالمے ازبر ہوچکے تھے اور وہ اس معاملے میں، ہماری آپ کی طرح اپنے حواس خمسہ کے چنداں محتاج نہ تھے۔ یہ باسی فلمیں دیکھتے وقت انہیں ایک باڑھ پر آئے ہوئے بدن کی جانی پہچانی تیز اور ترش مہک آتی جو اپنے ہی وجود کے کسی گوشے سے پھوٹتی ہوئی محسوس ہوتی تھی،
باسی پھول میں جیسے خوشبو، پھول پہننے والے کی۔ان کے مٹتے ہوئے نقوش میں اور ان مقامات پر جہاں پچیس سال پہلے دل بری طرح دھڑکا تھا، انہیں ایک بچھڑے ہوئے ہمزاد کا عکس دکھائی دیتا جو وقت کے اس پار انہیں بلا رہا تھا۔
سب جانتے تھےکہ آغا کی زندگی بہت جلد ایک خاص نقطے پر پہنچ کر ساکن ہوگئی۔۔۔ جیسے گراموفون کی سوئی کسی میٹھے بول پر اٹک جائے۔ لیکن کم احباب کو علم ہوگا کہ آغا اپنے ذہنی ہکلے پن سے بے خبر نہ تھے۔ اکثر کہا کرتے کہ جس وقت میرے ہم سن کبڈی میں وقت ضائع کرتے ہوتے، تو میں اکیلا جوہڑ کے کنارے بیٹھا اپنی یادداشت سےریت اور گارے کا لال قلعہ بناتا جسے میں نے پہلی بار اس زمانے میں دیکھا تھا جب حلوا سوہن کھاتے ہوئے پہلا دودھ کا دانت ٹوٹا تھا۔ بڑے ہوکر آغا نے یہ شاہ جہانی شغل (ہمارا اشارہ حلوا سوہن سےدانت اکھاڑنے کی طرف نہیں، تعمیر قلعہ جات کی طرف ہے) ترک نہیں کیا۔ بس ذرا ترمیم کر لی۔
اب بھی وہ یادوں کے قلعے بناتے تھے۔ فرق صرف اتنا تھا کہ اب بہتر مسالہ لگاتےاور ریت کے بجائے اصلی سنگِ مرمر وافر مقدار میں استعمال کرتے۔۔۔ بلکہ جہاں صرف ایک سل کی گنجائش ہوتی، وہاں دو لگاتے۔ نیز برج اور مینار نقشے کے مطابق بے جوڑ ہاتھی دانت کے بناتے۔ مدت العمر شیشے کی فصیلوں پر اپنی منجنیق نصب کر کے وہ بالشتیوں کی دنیا پر پتھراؤ کرتے رہے۔ ان قلعوں میں غنیم کے داخل ہونے کا کوئی راستہ نہیں تھا۔ بلکہ آغا نے خود اپنے نکلنے کا بھی کوئی راستہ نہیں رکھا تھا۔
یہ نہیں کہ انہیں اس کا احساس نہ ہو۔ اپنا حال ان پر بخوبی روشن تھا۔ اس کا علم مجھے یوں ہوا کہ ایک دفعہ باتوں ہی باتوں میں یہ بحث چل نکلی کہ ماضی سے لگاؤ ضعف پیدا کرتا ہے۔ پہلے درویش (جن کا روپیہ ان کی جوانی سے پہلے جواب دے گیا) نے تائید کرتے ہوئے فرمایا کہ جتنا وقت اور روپیہ بچوں کو ’’مسلمانوں کے سائنس پر احسانات‘‘ رٹانے میں صرف کیا جاتا ہے، اس کا دسواں حصہ بھی بچوں کو سائنس پڑھانے میں صرف کیا جائے تو مسلمانوں پر بڑا احسان ہوگا۔ غور کیجیے تو امریکہ کی ترقی کا سبب یہی ہے کہ اس کا کوئی ماضی نہیں۔ چگی ڈاڑھی والا درویش گویا ہوا، ’’قدیم داستانوں میں بار بار ایسے آسیبی صحرا کا ذکر آتا ہے، جہاں آدمی پیچھے مڑ کر دیکھ لے تو پتھر کا ہو جائے۔ یہ صحرا ہمارے اپنے من کے اندر ہے، باہر نہیں!‘‘ پہلے درویش نے بپھر کر دیو مالا سے منطقی نتیجہ نکالتے ہوئے کہا، ’’اپنے ماضی سے شیفتگی رکھنے والوں کی مثال ایک ایسی مخلوق کی سی ہے جس کی آنکھیں گدی کے پیچھے لگی ہوئی ہوں۔ چھان بین کیجیے تو بات بات پر ’یاد ایامیکہ‘ اور ’یادش بخیر‘ کی ہانک لگانے والے ہی نکلیں گے جن کا کوئی مستقبل نہیں۔‘‘
آغا نے یک لخت ماضی کے مرغزاروں سے سر نکال کر فیر کیا، ’’یادش بخیر کی بھی ایک ہی رہی۔ اپنا تو عقیدہ ہے کہ جسے ماضی یاد نہیں آتا اس کی زندگی میں شاید کبھی کچھ ہوا ہی نہیں۔ لیکن جو اپنے ماضی کو یاد ہی نہیں کرنا چاہتا وہ یقیناً لوفر رہا ہوگا۔ کیا سمجھے؟‘‘
مدتیں گزریں۔ ٹھیک یاد نہیں بحث کن دل آزار مراحل سے گزرتی اس تجریدی نکتے پر آ پہنچی کہ ماضی ہی اٹل حقیقت ہے۔ اس لیے کہ ایک نہ ایک دن یہ اژدہا حال اور مستقبل دونوں کو نگل جائے گا۔ دیکھا جائے تو ہرلمحہ اور ہر لحظہ، ہر آن اور ہر پل ماضی کی جیت ہو رہی ہے۔ آنے والا کل آج میں اور آج گزرے ہوئے کل میں بدل جاتا ہے۔ اس پر پہلے درویش نے یہ فیصلہ صادر فرمایا کہ ایشیا کا حال اس شخص جیسا ہے جس نے گئے جنم کی تمنا میں خودکشی کرلی۔ مشرق نے کبھی پل کے روپ سروپ سے پیار کرنا نہیں سیکھا۔ جینا ہے تو پھسلتے سرسراتے لمحے کو دانتوں سے پکڑو۔ گزرتے لمحے کو بے جھپک چھاتی سے لگاؤ کہ اس کی نس نس میں ماضی کا نیم گرم خون دوڑ رہا ہے۔ اسی کی جیتی جیتی کوکھ سے مستقبل جنم لے گا۔ اور اپنی چھل بل دکھا کر آخر اسی کی طرف لوٹے گا۔
یہاں چگی ڈاڑھی والے درویش نے اچانک بریک لگایا، ’’آپ کے ننھے منے لمحے کے نجیب الطرفین ہونے میں کیا کلام ہے۔ لیکن بیتی ہوئی گھڑیوں کی آرزو کرنا ایسا ہی ہے جیسے ٹوتھ پیسٹ کو واپس ٹیوب میں گھسانا۔ لاکھ یہ دنیا ظلمت کدہ سہی۔ لیکن کیا اچھا ہو کہ ہم ماضی کے دھندلے خاکوں میں چیختے چنگھاڑتے رنگ بھرنے کے بجائے حال کو روشن کرنا سیکھیں۔‘‘ آغا نے ایک بار پھر ترپ پھینکا، ’’بھئی ہم تو باورچی خانے پر سفیدی کرنے کے قائل نہیں!‘‘
بات یہ ہے کہ بہت کم لوگ جی داری سے ادھیڑپن کا مقابلہ کرپاتے ہیں۔ غبی ہوں تو اس کے وجود سے ہی منحرف اور ذرا ذہین ہوں تو پہلا سفید بال نظر پڑتے ہی اپنی کایا کو ماضی کی اندھی سرنگ کے خنک اندھیروں میں ٹھنڈا ہونے کے لیے ڈال دیتے ہیں۔ اور وہاں سے نکلنے کا نام نہیں لیتے جب تک کہ وقت ان کے سروں پر برف کے گالے نہ بکھیر دے۔ بال سفید کرنے کے لیے اگرچہ کسی تیاگ اور تپسیا کی ضرورت نہیں، تاہم ایک رچی بسی باوقار سپردگی کے ساتھ بوڑھے ہونے کا فن اور ایک آن کے ساتھ پسپا ہونے کے پینترے بڑی مشکل سےآتے ہیں۔ اور ایک بڑھاپے پر ہی موقوف نہیں، حسن اور جوانی سے بہرہ یاب ہونے کا سلیقہ بھی کچھ کچھ اس وقت پیدا ہوتا ہے جب وہ ایک گہری آہ اور آہ ایک لمبی کراہ میں بدل چکی ہوتی ہے۔
قدرت کے کھیل نرالے ہیں۔ جب وہ دانت دیتی ہے تو چنے نہیں ہوتے۔ اور جب چنے دینے پر آتی ہے تو دانت ندارد۔ آغا کا المیہ یہ تھا کہ جب قدرت نے ان کو دانت اور چنے دونوں بخشے تو انہوں نے دانتوں کو استعمال نہیں کیا۔ لیکن جب دانت عدم استعمال سے کمزور ہوکر ایک ایک کر کے گر گئے تو انہیں پہلی دفعہ چنوں کے سوندھے وجود کا احساس ہوا۔ پہلے تو بہت سٹ پٹائے۔ پھر دانتوں کو یاد کرکے خود روتے اور دنیا کو رلاتے رہے۔ عبارت آرائی برطرف، امر واقعہ یہ ہے کہ آغا نے بچپن اور جوانی میں بجز شطرنج کے کوئی کھیل نہیں کھیلا۔ حد یہ کہ جوتے کے تسمے بھی کھڑے کھڑے اپنے نوکروں سے بندھوائے۔ مگر جونہی بچپن کے پیٹے میں آئے، اس بات سے بڑے رنجیدہ رہنے لگے کہ اب ہم تین قسطوں میں بھی ایک بیٹھک نہیں لگا سکتے۔ اس میں وہ قدرے غلو سے کام لیتے تھے۔ کیونکہ ہم نے بچشم خود دیکھا کہ نہ صرف ایک ہی ہلے میں اڑاڑا کے بیٹھ جاتے، بلکہ اکثر و بیشتر بیٹھے ہی رہ جاتے۔
اس لحاظ سے چگی ڈاڑھی والے درویش بھی کچھ کم نہ تھے۔ زندگی بھر کیرم کھیلا اور جاسوسی ناول پڑھے۔ اب ان حالوں کو پہنچ گئے تھے کہ اپنی سال گرہ کے کیک کی موم بتیاں تک پھونک مار کر نہیں بجھا سکتے تھے۔ لہٰذا ان کے نواسے کو پنکھا جھل کر بجھانا پڑتی تھیں۔ اس کے علاوہ نظر اتنی موٹی ہوگئی تھی کہ عورتوں نے ان سے پردہ کرنا چھوڑ دیا۔ عمر کا اندازہ بس اس سے کرلیجیے کہ تین مصنوعی دانت تک ٹوٹ چکے تھے۔ بایں سامان عاقبت، شکلا جی اور آغا کے سامنے اکثر رباعی کے پردے میں اپنی ایک آرزو کا برملا اظہار کرتے جسے کم و بیش نصف صدی سے اپنا خون پلا پلا کر پال رہے تھے۔ خلاصہ اس دائمی حسرت کا یہ تھا کہ ننانوے سال کی عمر پائیں اور مرنے سے پہلے ایک بار۔۔۔ بس ایک بار۔۔۔ مجرمانہ دست درازی میں ماخوذ ہوں۔ ایک دفعہ زکام میں مبتلا تھے۔ مجھ سے فرمائش کی، ’’میاں! ذرا میری رباعی ترنم سے پڑھ کر سناؤ۔‘‘ میں نے تامل کیا، فرمایا، ’’پڑھو بھی۔ شرع اور شاعری میں کاہے کی شرم!‘‘
گو آغا تمام عمر رہین ستم ہائے روزگار رہے لیکن چاکسوکی یاد سے ایک لحظہ غافل نہیں رہے۔ چنانچہ ان کی میت آخری وصیت کے مطابق سات سو میل دور چاکسو خورد لے جائی گئی۔ اور چاکسو کلاں کی جانب پاؤں کرکے اسے قبر میں اتارا گیا۔ لاریب وہ جنتی تھے۔ کیونکہ وہ کسی کے برے میں نہیں تھے۔ انہوں نے اپنی ذات کے علاوہ کبھی کسی کو گزند نہیں پہنچایا۔ ان کے جنتی ہونے میں یوں بھی شبہ نہیں کہ جنت واحد ایسی جگہ ہے جس کا حال اور مستقبل اس کے ماضی سے بہتر نہیں ہوسکتا، لیکن نہ جانے کیوں میرا دل گواہی دیتا ہے کہ وہ جنت میں بھی خوش نہیں ہوں گے اور یادش بخیر کہہ کر جنتیوں کو اسی جہان گزراں کی داستان پاستاں سنا سنا کر للچاتے ہوں گے جسے وہ جیتے جی دوزخ سمجھتے رہے۔
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.