بانسری کہتی ہے
بانسری کہتی ہے
کاش میں دمشق سے گزروں
ایک گونج کی طرح
اس کے ساحلوں پر خوابیدہ ریشم
اور چیخوں میں خمیدہ
میری رسائی سے کہیں پہلے وہ مر چکا ہوگا
فاصلہ
آنسوؤں کی طرح گرتا ہے
بانسری بلاتی ہے
وہ آسمان کو ایک عورت سے
اور عورت کو
ایک سرک سے تقسیم کرتی ہے
تاکہ ہمیں الگ کر دے ایک دوسرے سے
کیا میں نے ساری مصیبت رائیگاں کاٹی
کیا میں نے توڑا پہاڑ کے پتھروں
اور محبت کے پہلے سیب کو
فاصلے کی تلوار پکارتی ہے
دمشق
میری جان
میں محبت کرنا اور ٹھہرنا چاہتا ہوں
بانسری مجھ پر کچھ اور مہربان ہو
اگر میں دمشق سے
ایک گونج کی طرح بھی گزر سکا
اور اگر میں تیرے آنسوؤں کی زبان بن سکا
تو میں دمشق کو بھی پا لوں گا
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.