کس کو معلوم ہے یہ کہاں ہے
ہمیں کچھ خبر ہی نہیں یہ کہاں ہے
مگر پھر بھی معلوم ہے
یہ پہاڑوں کے پیچھے
کئی وادیوں سے ورے
سات اور آٹھ سے بھی پرے
تلخ یادیں لیے
تھکتے قدموں
گئے دن کی
پاگل سی یادیں لیے
جھاڑیوں اور درختوں کی چھاؤں کے اس پار
آلام اور قحط کے غمزدہ دن کی مانند
دکھتے دلوں اور تشکیک کے مارے ذہنوں سے بڑھ کر
دکھی
اس زمیں کی تہوں میں بہت دور نیچے
کبھی آسمانوں کے اس پار
آئیں کہ دیکھیں
کہ مرغ سحر کی اذاں
ہارن بجتا نہ ہو جس جگہ پر
جنوں بھی اداسی بھی
اور ذہن کی کاوشوں سے پرے
اپنے خالق سے باغی ہوئے
آئیں دیکھیں
کہ یہ گہرا نیلا سا دریا
جو گہرا بھی ہے
اور چوڑا بھی ہے
ایک سو سال چوڑا ہے
گہرائی میں
موسموں کی رتیں
جب ہزاروں کٹیں
اس کی لمبائی میں
کتنی گمبھیر گہرائیاں ہیں
یہ گہرا سا نیلا سا دریا ہے
جس سے گزرنا
ہمارے مقدر میں لکھا ہوا ہے
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.