قطرہ قطرہ گر رہی ہے چاندنی
چمک رہے ہیں جگنو
کوئی شے ایسی نہیں جو کسی کی آنکھ کی نیند
آن بھر کے لیے توڑ دے لیکن
میری آنسو بھری آنکھوں کی نیند
ٹوٹ چکی ہے ان نیند کے ماتوں کے غم میں
سحر میرے ساتھ پریشان حال ٹھہر گئی ہے
صبح چاہتی ہے کہ میں اس کے مبارک دم سے
ان جان ہارے لوگوں کو بشارت دوں
لیکن اس سفر کے خیال ہی سے
میرے جگر میں کانٹا سا اٹک گیا ہے
گلاب کی اس نازوں پلی کونپل کا بدن
جیسے میں نے اپنے دل و جاں سے بویا تھا
اور جیسے میں نے اپنے دل و جاں سے پالا پوسا تھا
افسوس آج وہی میرے پہلو میں ٹوٹ رہا ہے
میں دیواروں پر اپنے ہاتھ پھیر رہا ہوں
تاکہ کوئی دروازہ کھول سکوں
میں بے کار کھڑا تکتا ہوں
کہ شاید کوئی دروازے پر آ جائے
لیکن ان کے اجڑے در و دیوار
میرے سر پر گرنے لگے ہیں
قطرہ قطرہ گر رہی ہے چاندنی
چمک رہے ہیں جگنو
ایک تھکا ہارا تنہا شخص کہیں دور نگر سے آیا ہے
اس کے پاؤں میں چھالے پڑے ہوئے ہیں
وہ ایک دیہاتی گھر کے دروازے پر رک گیا ہے
اس کے سر پر گٹھری ہے
اس کا ہاتھ دروازے پر ہے
اور وہ اپنے آپ سے کہتا ہے
میری آنسو بھری آنکھوں کی نیند
ٹوٹ چکی ہے ان نیند کے ماتوں کے غم میں
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.