شاعر کا خطاب شاعری سے
جب میں نے تم سے کچھ کہنے کے لیے کہا
تم گانے لگیں
جب گانے کے لیے کہا
تم چپ رہیں
جب میں نے منہ بند رکھنے کے لیے کہا
تم چیخ پڑیں
میں تو تنگ آ چکا
کیا فائدہ ایسے مرید کا
جو کبھی مرشد کی ہدایت پر نہیں چلتا
ایک مرتبہ میں نے بھیجا تمہیں پانی دے کر
ایک جاں بلب شخص کے لیے
لیکن تم نے
اس کے قاتل کا مکان نذر آتش کر دیا
جب میں نے تمہیں طلوع صبح کا نغمہ گانے کے لیے کہا
تم نے مجھے صرف متنبہ کیا
آنے والی نیم شب سے
میں نے تمہیں سڑکوں پر بھیجا
انقلاب کی تبلیغ کے لیے
لیکن تم بس دغا کے شکار شہیدوں کا نوحہ کرتی رہیں
علیحدگی پسندی کے خیالات آم کرنے کو کہا
تو تم سڑکوں پر آوارگی میں مصروف
محبت کے گیت الاپتی رہیں
میں نے اپنے محبوب کے پاس
ایک پیغام دے کر تمہیں بھیجا
تم وہاں سے زعفرانی ملبوس پہنے لوٹ آئی
تم کس ماں کی جنی ہو
زمین کی یا آسمان کی
اور کہاں کسی اسپتال کے وارڈ میں
یا کسی نالی میں پیدا ہوئی ہو
کس نے تمہیں کھلایا پلایا
ہوا نے یا سورج نے
پروان چڑھی تم کس چیز پر
گوشہ نشینی میں یا تاریخ پر
کیا تم سچ مچ میری شاعری ہو
کیا یہ اتنا سب کچھ ہے مجھ میں
کون ہوں میں
گویا ہوں یا وہ جس کے بارے میں کوئی گویا ہے
جانے دو
لیکن ذرا بتاؤ تو
کل شب تم کس کے ساتھ ہم بستر تھی
کون سی کہانی چھپی ہوئی ہے
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.