زمین تنگ ہو رہی ہے
زمین تنگ ہو رہی ہے
ہمیں آخری راستے پر دھکیل رہی ہے
اس میں سے گزرنے کے لیے ہم اپنا ایک ایک عضو الگ کر رہے ہیں
زمین ہمیں جکڑ رہی ہے
کاش ہم گندم ہوتے اس زمین پر مرتے اور جی اٹھتے
سوچتا ہوں
کاش زمین ہماری ماں ہوتی
ہم پر رحم کھا سکتی
ہم جاتے اور خوابوں کے ساتھ پتھروں پر نقش ہو جاتے
آئینوں کی طرح ان کے چہروں کو دیکھتے
جنہیں ہمارے بعد اس زمین کے لیے جان دینی ہے
ہم ان کے بچوں کی عید پر روتے ہیں
ہم ان کے چہرے دیکھ رہے ہیں
جو ہمارے بچوں کو کھڑکیوں سے باہر پھینکیں گے آخری خلا میں
ہمارا ستارا آئینوں کو آویزاں کرے گا
کہاں جائیں گے ہم وہاں سے
جہاں سرحدیں ختم ہو جائیں گی
کہاں پرواز کریں گے پرندے آخری آسمان کے بعد
کہاں سوئیں گے آخری آخری ہوا میں سانس لینے کے بعد
ہم اپنے نام قرمزی دھند سے لکھیں گے
ہم اپنی نظموں کے ہاتھ کاٹ دیں گے
تاکہ ان کا اختتام ہماری جلد پر ہو
یہیں مریں گے ہم
اسی آخری راستے میں
اور یہیں ہمارے خون میں نمو پائیں گے زیتون کے درخت
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.