پرویز شاہدی کے اشعار
نہ جانے کہہ گئے کیا آپ مسکرانے میں
ہے دل کو ناز کہ جان آ گئی فسانے میں
مری زندگی کی زینت ہوئی آفت و بلا سے
میں وہ زلف خم بہ خم ہوں جو سنور گئی ہوا سے
ابھی سے صبح گلشن رقص فرما ہے نگاہوں میں
ابھی پوری نقاب الٹی نہیں ہے شام صحرا نے
یاد ہیں آپ کے توڑے ہوئے پیماں ہم کو
کیجئے اور نہ شرمندۂ احساں ہم کو
گیت ہریالی کے گائیں گے سسکتے ہوئے کھیت
محنت اب غارت جاگیر تک آ پہنچی ہے
یہ تاج کے سائے میں زر و سیم کے خرمن
کیوں آتش کشکول گدا سے نہیں ڈرتے
گزرا ہے کون پھول کھلاتا خرام سے
شادابؔ آج راہ گزر پا رہا ہوں میں
سخت جاں وہ ہوں کہ مقتل سے سرافراز آیا
کتنی تلواروں کو دیتا ہوا آواز آیا