Font by Mehr Nastaliq Web

aaj ik aur baras biit gayā us ke baġhair

jis ke hote hue hote the zamāne mere

رد کریں ڈاؤن لوڈ شعر
Sarfaraz Khalid's Photo'

سرفراز خالد

1980 | علی گڑہ, انڈیا

نئی نسل کے اہم شاعر

نئی نسل کے اہم شاعر

سرفراز خالد کا تعارف

اصلی نام : محمد سرفراز انور

پیدائش : 01 Jan 1980 | مدھوبنی, بہار

آئنے میں کہیں گم ہو گئی صورت میری

مجھ سے ملتی ہی نہیں شکل و شباہت میری

متھلا تہذیب، زبان و ادب، موسیقی، مصوری اور مکھانوں کی پیداوار کے لیے مشہور صوبہ بہار کا مدھوبنی ضلع اردو کا بھی اہم مرکز رہا ہے۔ اسی مرکز کے ایک قصبے 'بھوارہ' میں ایک ذی علم و ذی وقار خاندان کے معزز فرد جناب محمد خالد انور شہر کے میئر کی مسند تک پہنچے۔ انھی کے صحن کفالت مآب میں 3 مارچ سن 1980ء کو ایک ہونہار فرزند کی پیدائش ہوئی جس کا نام محمد سرفراز انور رکھا گیا۔ یہی محمد سرفراز انور ادب کی دنیا میں 'سرفراز خالد' کے قلمی نام سے مشہور ہوئے۔
         سرفراز خالد نے ابتدائی تعلیم اپنے آبائی وطن میں حاصل کی۔ اعلیٰ تعلیم کے لیے انھوں نے علیگڑھ مسلم یونیورسٹی کی راہ اختیار کی اور 1999ء میں بی۔اے سال اول میں داخلہ لیا۔ یہیں سے ایم۔اے کے بعد پی ایچ۔ ڈی کی سند بھی حاصل کی۔ پی ایچ۔ڈی کی تحقیق کے لیے ان کا موضوع "بین المتونیت اور آزادی کے بعد اردو افسانہ" تھا۔ یہ موقر تحقیقی مقالہ، جو اپنے موضوع اور طریقۂ کار میں منفرد تھا، کتابی صورت میں شائع ہوا تو اہل نقد و نظر نے اس کی خاطر خواہ پذیرائی کی۔
         سرفراز خالد کی عملی زندگی کا آغاز ایک معتبر صحافی کے طور پر ہوا۔ انھوں نے آٹھ برسوں تک اپنی لگن اور صحافتی سوجھ بوجھ سے ایک میڈیا فرم میں 'ڈپٹی ہیڈ آف دی ڈیسک' کے عہدے کو سر افراز کیا۔ سن 2019ء میں انھیں شعبۂ اردو ، علیگڑھ مسلم یونیورسٹی میں اسسٹنٹ پروفیسر کی استادانہ ذمے داریاں حاصل ہوئیں اور ایک ایماندار صلاحیت اپنے فطری منصب تک پہنچ گئی۔ وہ آج بھی اسی نیک خدمت پر مامور ہیں۔
         سرفراز خالد کو زبان و ادب کے متعدد شعبوں سے بیک وقت دلچسپی ہے۔ وہ محقق بھی ہیں، نقاد بھی۔ انھوں نے شاعری بھی کی ہے اور فکشن بھی لکھا ہے۔ ان کے افسانے اور بہت سے مضامین مقتدر ادبی رسائل میں شائع ہوتے رہے ہیں۔ ایک ناول اور شعری مجموعہ بھی طباعت کے مراحل میں ہے۔ انھوں نے متعدد ادبی سیمیناروں میں اپنے مقالات پیش کیے ہیں، ریڈیو اور ٹیلی ویژن کی نشریات میں شامل رہے ہیں اور "ریختہ" جیسے زبان کے بڑے اور اہم ادارے کی تقریبات میں اردو کے مختلف مباحث کی نظامت کی ہے۔
          ادب کی ان تمام دلچسپیوں کے باوجود سر دست غزل گوئی ہی ان کے تخلیقی عمل کا مرکز و منبع  ہے۔ اب غزل چونکہ اردو معاشرے کی نفسیات کا جزو لاینفک ہے چنانچہ اگر اچھا ہو تو ایک روایتی سا شعر بھی لطف و انبساط کا ذریعہ ہو سکتا ہے۔ یہ سب تو ہے لیکن وہ شاعر ہی کیا جو گزشتہ سے پیوستہ کے باوجود اپنی ڈگر آپ نہ بنائے لہذا سرفراز خالد کی غزل کا اختصاص یہ ہے کہ وہ فن کے عین سامنے کے وسائل مثلاً بیان، بدیع، تراکیب یا شور انگیزی وغیرہ کو بہت نمایاں نہیں کرتے بلکہ شعر کے اصل جوہر یعنی تجربے، معنی خیزی اور کیفیت کو بروئے کار لاتے ہیں۔ یہ کیفیت اس وجودیاتی کشمکش کے باوجود قائم رہتی ہے جو انسان کا سب سے بڑا المیہ ہے۔ سرفراز خالد کے یہاں اس المیے کا سب سے نمایاں پہلو ان کے لہجے میں مضمر وہ انا ہے جو اگر کبھی شکست کے احساس سے زیربار ہوتی بھی ہے تو حفظ ما تقدم کو ہاتھ سے جانے نہیں دیتی۔ بات آج کی غزل کی ہو تو  اسلوب، تجربے، کیفیت اور وجودیاتی انا کے اس امتزاج کے لیے سرفراز خالد کی غزل سے بچ کر گزر جانا نا ممکن ہے۔

موضوعات

Recitation

Jashn-e-Rekhta | 13-14-15 December 2024 - Jawaharlal Nehru Stadium , Gate No. 1, New Delhi

Get Tickets
بولیے