میں ہوں مشتاق جفا مجھ پہ جفا اور سہی
دلچسپ معلومات
۱۸۶۵ء
میں ہوں مشتاق جفا مجھ پہ جفا اور سہی
تم ہو بیداد سے خوش اس سے سوا اور سہی
غیر کی مرگ کا غم کس لیے اے غیرت ماہ
ہیں ہوس پیشہ بہت وہ نہ ہو اور سہی
تم ہو بت پھر تمہیں پندار خدائی کیوں ہے
تم خداوند ہی کہلاؤ خدا اور سہی
حسن میں حور سے بڑھ کر نہیں ہونے کے کبھی
آپ کا شیوہ و انداز و ادا اور سہی
تیرے کوچے کا ہے مائل دل مضطر میرا
کعبہ ایک اور سہی قبلہ نما اور سہی
کوئی دنیا میں مگر باغ نہیں ہے واعظ
خلد بھی باغ ہے خیر آب و ہوا اور سہی
کیوں نہ فردوس میں دوزخ کو ملا لیں یارب
سیر کے واسطے تھوڑی سی فضا اور سہی
مجھ کو وہ دو کہ جسے کھا کے نہ پانی مانگوں
زہر کچھ اور سہی آب بقا اور سہی
مجھ سے غالبؔ یہ علائیؔ نے غزل لکھوائی
ایک بیداد گر رنج فزا اور سہی
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.