شب وصال میں مونس گیا ہے بن تکیہ
دلچسپ معلومات
۱۸۶۷ء
شب وصال میں مونس گیا ہے بن تکیہ
ہوا ہے موجب آرام جان و تن تکیہ
خراج بادشہ چیں سے کیوں نہ مانگوں آج
کہ بن گیا ہے خم جعد پر شکن تکیہ
بنا ہے تختۂ گل ہاے یاسمیں بستر
ہوا ہے دستۂ نسرین و نسترن تکیہ
فروغ حسن سے روشن ہے خوابگاہ تمام
جو رخت خواب ہے پرویں تو ہے پرن تکیہ
مزا ملے کہو کیا خاک ساتھ سونے کا
رکھے جو بیچ میں وہ شوخ سیمتن تکیہ
اگرچہ تھا یہ ارادہ مگر خدا کا شکر
اٹھا سکا نہ نزاکت سے گلبدن تکیہ
ہوا ہے کاٹ کے چادر کو ناگہاں غائب
اگرچہ زانوے نل پر رکھے دمن تکیہ
بضرب تیشہ وہ اس واسطے ہلاک ہوا
کہ ضرب تیشہ پہ رکھتا تھا کوہکن تکیہ
یہ رات بھر کا ہے ہنگامہ صبح ہونے تک
رکھو نہ شمع پہ اے اہل انجمن تکیہ
اگرچہ پھینک دیا تم نے دور سے لیکن
اٹھائے کیوں کے یہ رنجور خستہ تن تکیہ
غش آ گیا جو پس از قتل میرے قاتل کو
ہوئی ہے اس کو مری لاش بے کفن تکیہ
جو بعد قتل مرا دشت میں مزار بنا
لگا کے بیٹھتے ہیں اس سے راہ زن تکیہ
شب فراق میں یہ حال ہے اذیت کا
کہ سانپ فرش ہے اور سانپ کا ہے من تکیہ
روا رکھو نہ رکھو تھا جو لفظ تکیہ کلام
اب اس کو کہتے ہیں اہل سخن سخن تکیہ
ہم اور تم فلک پیر جس کو کہتے ہیں
فقیر غالبؔ مسکیں کا ہے کہن تکیہ
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.