من و سلویٰ
فرعون کےقہر سے بچ نکلنے کے بعد بنو اسرائیل نے حضرت موسیٰ سے پہلا مطالبہ پانی کا کیا تھا۔ حضرت موسی نے ایک چٹان پر اپنا عصا مارا اوربارہ قبیلوں کے لیے پانی کے بارہ چشمے جاری ہوگئے ۔ اس کے بعد بنواسرائیل نے کھانے کا مطالبہ کیا ۔ موسی نے خدا سے دعا کی، ان کی دعا قبول ہوئی۔ صبح ہوئی توبنواسرائیل نے دیکھا کہ زمین اوردرخت کے پتوں پرجابجا سفید دانے کی طرح شبنم کی صورت میں آسمان سے کوئی چیز برس کرگری ہوئی ہے، کھایاتو نہایت شیریں حلوے کی مانند تھی۔ یہ ’’من‘‘ تھی ۔
دن میں تیزہوا چلی توبٹیریں زمین پرآکر پھیل گئیں۔ بنواسرائیل نے بآسانی ان کوپکڑ لیا اوربھون کرکھانے لگے، یہ ’’سلوی‘‘ تھا ۔ من کا ذائقہ شیریں تھا اورسلوی کا نمکین۔
بنو اسرائیل طبعی طور پر ایک نافرمان قوم تھی انہوں نے اس نعمت کو بھی حقارت سے دیکھا جس کے نتیجے میں ان سے یہ نعمت چھین لی گئی اور من وسلوی اترنا بند ہو گیا ۔ اس تاریخی واقعے کو تلمیحی انداز میں بہت سے شاعروں نے استعمال کیا ہے۔ آتش کا یہ شعر ملاحظہ ہو۔
سیر رکھتا ہے طبیعت کو کلام شیریں
من وسلوی ہے یہ اپنے لئے گویا اترا
آتش
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.