رسالہ در معرفت استعارہ
انسانوں کو حیوانوں سے ممتاز کرنے کے لیے فلسفیوں نے اسے مختلف ناموں سے یاد کیا ہے۔ کہیں کسی نے اسے سماجی حیوان کا نام دیا ہے تو کہیں کسی نے اسے سیاسی حیوا ن کا نام دیا ہے۔ (ارسطو) نوعی اعتبار سے اسے HOMO SAPIEN یعنی حیوان ناطق عاقل کہا گیا ہے۔ انسان کی یہ تجنیس بغیر کسی تاریخی مشاہدے کے نہیں ہے۔ ہم انسان کا تصور نہ تو اس کی عقل سے جدا کرکے اپنے ذہن میں لا سکتے ہیں اور نہ اس کی نطق سے اور نہ عقل اور نطق کو ایک دوسرے سے جدا کیا جا سکتا ہے۔ کیونکہ زبان تمام تر تجریدی طریق کار (ABSTRACTION) کا نتیجہ ہے۔
پھر ایسا کیوں ہے کہ جب ہمارے حکماء انسان کے حواس کو گنواتے تو بالعموم وہ حواس ظاہری یا حواس خمسہ کا نام لیتے اور اس کے حواس باطنی یعنی اس کی عقل، قوت حافظہ اور قوت متخیلہ وغیرہ کا ذکر کم کرتے۔ اس کا سبب یہ ہے کہ ’’معلم اول‘‘ افلاطون حواس خمسہ کو ارضی اور عقل یا قوائے ذہنی کو سماواتی تصور کرتے۔ ان کا خیال تھا، جو دنیا میں اب بھی رائج ہے کہ جو کچھ ہم اپنے حواس خمسہ سے معلوم کرتے ہیں اس کا تعلق مظاہر یعنی حقیقت کے ظاہری روپ سے ہوتا ہے نہ کہ اصل حقیقت سے اور اس کی دلیل اس مکتبہ فکر کے لوگ یہ دیتے ہیں کہ حقیقت قایم بالذات ہوتی ہے۔ وہ تغیر پذیر نہیں ہوتی ہے۔ تغیر پذیر اس کے مظاہر ہوتے ہیں۔ ایسی صورت میں حقیقت کا تعین حواس کے ذریعہ کیا جا سکتا ہے۔ کیوں کہ حواس کا اعلان ہر لمحہ بہ سبب تغیر مظہر باطل ہوتا رہتا ہے۔ زیادہ سے زیادہ اعلانات کو آراء کی حیثیت دی جا سکتی ہے نہ کہ علم کی۔
چنانچہ اسی منطق کی بنیاد پر اگر ان لوگوں نے PARMENIDES کے ہم خیال ہوکر تغیر پذیر اشیاء کے وجود کو حقیقی ماننے سے انکار کیا کہ وجود حقیقی ان کی نظر میں قائم بالذات اور ناقابل تغیر ہے تو دوسری طرف وجود حقیقی یا حقیقت مطلق کے ادراک کا ذریعہ عقل REASON کو ٹھہرایا جو حواس خمسہ یا حواس ظاہری سے علیحدہ اپنا اک آزادا وجود رکھتی ہے اور جس کے استدراک میں مادی تجربات یا حواس خمسہ کے تجربات کو دخل نہیں ہوتا ہے۔ یہ اسی منطق کا نتیجہ ہے کہ ان کے فلسفے میں منفرد اور محسوس اشیاء کے مجرد اور یونیورسل تصورات ان سے خارج میں اپنا آزاد وجود رکھتے ہیں۔ یہ فلسفہ ادب کے حق میں کسی حدتک مہلک رہا ہے، اس پر آگے روشنی ڈالی جائےگی۔
فی الحال تو یہ کہنا ہے کہ حواس خمسہ اور عقل کی یہ دوئی یا خصوص اور عموم کی یہ دوئی یا تجربات اور تعمیمات کی یہ دوئی ایشیا اور یورپ کے آیڈیلسٹ فلسفوں میں محتلف راہوں سے جگہ بناتی رہی۔ ہاں یہ ضرور ہوا کہ جب یورپ نے سترہویں صدی میں استنباطی طریق استدلال (INDUCTIVE METHOD) اور یارضیاتی علوم میں کافی ترقی کی (جہاں استخراجی طریقہ DEDUCTIIVE HETHOD) اختیار کیا جاتا ہے تو عقل بالخصوص عملی عقل، الہامی قوت نہ رہ گئی جو افلاطون کے یہاں تھی بلکہ وہ ایک استدلالی طاقت میں تبدیل ہو گئی، پھر بھی جہاں کہیں یہ آئیڈیلسٹ فلسفہ رہا ہے وہاں کسی نہ کسی پیرائے میں عقل کو حواس سے جدا کرنے کی کوشش ضرور کی گئی ہے۔
چنانچہ دی کارت (DESCARTES) جو سترہویں صدی میں یورپ کا سب سے بڑا ماہر ریاضیات اور عقل پرست فلسفی سمجھا جاتا ہے، اس کا بھی یہی خیال ہے کہ عقل حواس کی اطلاعات سے آزاد ہو کر اصل حقیقت تک پہنچتی ہے، بالکل اسی طرح جس طرح کہ اقلیدس کے مفروضات کو ثابت کرتے وقت ہماری عقل کو حواس کی اطلاعات کا سہارا لینا نہیں پڑتا ہے۔ اس نظریے کے برخلاف لونارڈو ڈی ونچی، لارڈ بیکن اور لاک کا یہ نظریہ تھا کہ ہمارا کوئی بھی علم ایسا نہیں ہے جس میں ہمارے تاثرات حسی (SENSE PERSEPTION) یا حواس کی اطلاعات کو دخل نہ ہو۔ ڈی ونچی کا کہنا ہے کہ ہمارے تمام ہی حواس ارضی ہیں اور اس زمرے میں وہ عقل کو بھی شامل کرتا ہے۔ عقل ان سے صرف اس وقت علیحدہ معلوم ہوتی ہے جبکہ وہ ان کی اطلاعات پر غور و فکر کرتی ہے لیکن دی کارت نے اٹلی اور انگلستان کے تجربی (EMPERICAL) فلسفے کے اس اصول کو تسلیم نہیں کیا۔
اس کے برعکس وہ اپنی ریاضیات ہی میں ڈوبا رہا، اور اسی علم کے اصول کو سامنے رکھ کر جو استخراجی ہے، اس نے نہ صرف حواس ہی کی اطلاعات پر عدم اعتبار کا اظہار کیا بلکہ دنیائے رنگ وبو، لذت کام و دہن، نغمہ و آہنگ غرض کہ عالم کیف اور عالم تخیل کی ہر شے کو حقیقت کا درجہ دینے سے انکار کیا۔ اس لئے نہیں کہ وہ حقیقت کے مظاہر ہیں اور خود حقیقی نہیں ہیں جیسا کہ افلاطون کا خیال تھا، بلکہ اس لئے کہ ان کے بارے میں جو اطلاعات کہ ہمارے حواس بہم پہنچاتے ہیں وہ ان اطلاعات کو مبہم، غیر متعین اور ناصاف بتاتا ہے۔
دے کارت کی ’’عقل محض‘‘ جو حواس سے خارج میں اپنا آزاد وجود رکھتی ہے اور جو صرف دنیائے کم وبیش کی پیمائش کرتی ہے اور عالم کیف کو نظر انداز کرتی ہے، کانٹ کی ’’تنقید‘‘ کا خاص طور سے نشانہ بنی۔ کانٹ نے اپنی اس کتاب میں لاک اور دے کارت کے خیالات یعنی استنباطی اور استخراجی طریق کار کو ہم آہنگ کرنے کی کوشش کی ہے۔ کانٹ کی ’’عملی عقل‘‘ میں وہ ہم آہنگی ملتی ہے، گویہ صحیح ہے کہ وہ عملی عقل سے ماورا الہامی عقل یا وجدان (INTUTION) کا بھی قائل تھا۔ بات یہ ہے کہ اگر ایک طرف ہمارا تعقل تاثرات حسی پر مبنی ہوتا ہے تو دوسری طرف تاثرات حسی کی تنظیم میں عقل کا ہاتھ بھی سرگرم عمل رہتا ہے۔ چنانچہ اگر ہم معقولات کو معنی قرار دیں تو محسوسات کو اس کی صورت قرار دینا ہوگا۔ اشیا کی حقیقت کو جو مجرد ہوتی ہے، انسان نے اپنے حواس ہی کی انجمن میں دریافت کیا ہے نہ کہ اس سے بے نیاز ہوکر۔ عقل و حواس مل کر ہی کسی شئے کے علم کو بامعنی بناتے ہیں نہ کہ ان میں سے کوئی ایک۔ ٹھوس علم جسے بھرپور اور مکمل علم کہنا چاہئے، گلگونی محسوسات سے مملو ہوتا ہے نہ کہ اس سے عاری۔
گر عین وگر اقتباس دریافتہ
در انجمن حواس دریافتہ
بردامن جسم پاک تحقیر مدوز
حق رابہ ہمیں لباس دریافتہ
لیکن عقل حواس سے اس وقت جدا بھی نظر آتی ہے جبکہ وہ حواس کی اطلاع پر غور و فکر کرتی ہے، ان کی اصلاح کرتی ہے۔ استخراجی علم اسی لئے اس وقت تک قابل اعتنا نہیں ہو پاتا جب تک کہ حواس اس کی سچائی کا حلف نہ اٹھائیں۔ اس کے معنی یہ ہوئے کہ انضباط علم میں استنباطی اور استخراجی دونوں ہی طریق کار سرگرم عمل رہتے ہیں۔ اگر ایک طرف یہ صحیح ہے کہ طبیعات کے بہت سے مساوات حواس کی کسوٹی پر صحیح اترنے سے پہلے وضع کئے گئے ہیں اور ان کے وضع کرنے میں یقیناً استخراجی طریق کار کو دخل رہا ہے تو دوسری طرف یہ بھی صحیح ہے کہ جب تک کہ تجربات نے استنباطی طریق کار سے انہیں صحیح ثابت نہیں کیا ہے، ان پر کوئی ایمان بھی نہیں لایا ہے۔ اس کے یہ معنی ہوئے کہ عقل و حواس ایک دوسرے کے مددگار ہیں۔ وہ دونوں مل کر ہی تکمیل معنویت کرتے ہیں نہ کہ ایک دوسرے سے جدا رہ کر یا باہم تخالف میں، جیسا کہ بعض بعض میٹافزیکل مفکرین سوچتے آئے ہیں۔
عقل و حواس کے درمیان یہ جھوٹا تضاد یا دوئی، خواہ وہ افلاطونی ہو یا کارٹیزین، اس وجہ سے پیدا ہوئی کہ افکار کی دنیا پر حکمرانی استحصالی طبقوں کی آئیڈیلوجی کی رہی ہے۔ اگر حواس یا نطق احساسات بنی آدم کی طبقاتی تقسیم کو جھٹلاتی تو استحصالی طبقے کی مصلحت اندیش عقل انہیں آقا اور غلام، زمیندار اور کسان، مزدور اور سرمایہ دار میں تقسیم کرتے رہنے ہی کو عین حق ٹھہراتی۔ جس وقت ارسطو نے یہ بات کہی کہ غلامی فطری ہے تو اس نے یہ بات اپنے وقت کے آقا کے طبقے کے نقطہ نظر سے کہی، جس سے اس کا اپنا تعلق بھی تھا ورنہ فطرت میں نہ تو غلامی ہے اور آقائی۔ اس سے پتہ چلتا ہے کہ واپنی جس عقل سلیم کے ذریعے اس نتیجہ تک پہنچا، وہ حکمراں طبقے کی عقل مشترک تھی جو احساسات خلق سے بیگانہ تھی۔ جب بھی محسوسات کو عقل کے ساتھ نہیں رکھا گیا ہے اور ایسا طبقاتی سماج میں بالعموم ہوتا رہا ہے تو عقل مشیر سلطنت رہی ہے نہ کہ مشیر آدم۔۔۔ وہ بہانہ جو اور بدیہہ ساز رہی ہے نہ کہ شہید جستجوئے حق۔
اس سلسلے میں ڈی ونچی نے یہ بات کس قدر پتے کی کہی ہے کہ ہمارے تجربات نہیں بلکہ ہمارے فیصلے جھوٹے ہوا کرتے ہیں۔ ظاہر ہے کہ فیصلہ اسی وقت جھوٹا ہوگا جبکہ ہم محسوسات کو شریک عقل نہ کریں گے۔ ڈی ونچی کی یہ بات ہمارے ادیبوں کو ہمیشہ یاد رکھنی چاہئے کہ ’’آرٹ کی بنیاد تجربات اور محسوسات پر ہے نہ کہ منقولات اور معقولات پر۔‘‘ لیکن اگر شعراء کو سطحیت سے بچنا ہے اور بنیاد سے اوپر اٹھنا ہے تو وہ تعقل کے اصول کو نظر انداز بھی نہیں کر سکتے ہیں، انہیں محسوس کو معقول بنانا اور کثرت میں وحدت کو ڈھونڈھنا ہوگا۔ اشیاء کو اجناس وانواع میں تقسیم کرنا اور حادثات کے اسباب وعلل دریافت کرنے ہی پڑیں گے۔ ورنہ وہ اپنے محسوسات کو نطق کیونکر بخش سکتے ہیں۔ طبقاتی سماج میں آرٹ کی گتھی جو سلجھائی نہ جا سکتی ہے، اس کا سبب یہ ہے کہ وہ ناخن عقل جو حیات و موت، حسن و صداقت کی گتھیوں کو سلجھانے کے لیے ہے، اسے انسان نے دوسروں کو غلام بنانے میں تیز کیا اور وہ ہاتھ جو دوشیزہ فطرت کی نقاب کشائی کے لیے ہے، اسے اس نے اپنے بھائیوں پر اٹھایا۔
حواس گواہی دیتے رہے کہ وہ خون جو اس طرح بہا ہے وہ تیرا ہی خون ہے۔ لیکن اس کی عقل یہی کہتی رہی کہ اگر ایسا ہے تو ہوا کرے، مجھے تو دوسروں کی لاشوں پر ہی بڑھنا ہے۔ ملک گیری کی ہوس ہو یا اقتدار کی سیاست، مجاہدہ کفرو ایمان ہو یا تحفط اسناد کی جنگ، تاجر کی مشیت ہو یا کسی قائد کا فرمان۔ ان تمام معرکوں میں نظریاتی اور عملی دونوں ہی اعتبار سے انسان کی عقل اس کے حواس سے برسرپیکار رہی ہے۔ اگر معروضی نقطۂ نظر سے دیکھا جائے تو نگار زیست کا حسن اس کے پنچہ خونی سے نکھرا نظر آئے گا۔ جنگ وجدال کی بربریت سے اس کا پیراہن تار تار بھی ہے۔ کہیں معقول محسوس سے برسرپیکار ہے تو کہیں محسوس معقول سے، کہیں خرد کا ہاتھ جنوں کے گریبان میں تو کہیں جنوں کا ہاتھ خرد کے دامن پر ہے، اس پر ہر مفکر کا یہ دعویٰ کہ اس کے افکار ناقابل تردید اور آفاق گیر ہیں۔
لیکن ایسا سوچنے میں وہ بے تقصیر بھی ہے، کیوں کہ آیڈیلوجی کی تشکیل کے موقع پر وہ اپنے صحیح مقاصد اور ارادوں سے بے خبر رہتا ہے اور اگر اس کے خیالات نے کسی طبقاتی استحصال کی حمایت کی ہے تو اس میں اس کے شعور اور ارادے کو دخل نہیں رہا ہے کیونکہ آیڈیلوجی کی تخلیق جھوٹے (FALSE) شعور کے تحت ہوتی رہی ہے۔ خیال کو خیال محض سے نکالا جاتا رہا ہے۔ اس کے معنی یہ ہوئے کہ عقل تعمیمات یا تشکیل خیال کے موقع پر طبقاتی جانب داری کے اثرات سے اسی وقت آزاد ہو سکتی ہے جبکہ سماج میں طبقات نہ ہوں۔ دوسرے الفاظ میں عقل اور حواس کا تضاد (جو تعقل اور تخیل کے جھوٹے تضاد میں بھی ظاہر ہوتا ہے۔) یا معقول اور محسوس کا تضاد یا آیڈیلوجی اور تجربے کا تضاد اس وقت تک ختم نہیں ہو سکتا ہے جب تک کہ طبقاتی سماجی کے سارے تضادوں کی مکمل نفی کسی ایسے ایک غیر طبقاتی سماج سے نہ کی جائے جو اسٹیٹ اور سیاست دونوں ہی کی ضرورت کو ختم کر چکا ہو۔ جب تک کوئی ایسی سوسائٹی کلی حیثیت سے سارے عالم میں قائم نہیں ہوتی ہے اور جب تک طبقاتی نظام کے سارے تضادوں کی نفی نہیں ہوتی ہے، آیڈیلوجی اور تجربے کا تضاد موجود رہےگا جو ایک جھوٹا تضاد ہے نہ کہ سچا۔
یہ تضاد اس لئے پیدا ہو گیا ہے کہ انسان انسان کا مخالف اور اس کی عقل اس کے حواس کے مخالف رہی ہے۔ آج خون آدم جنگ کے خلاف فریاد کر رہا ہے لیکن دنیا ہے کہ ایٹم بم کے دھماکے کا تجربہ کیے جارہی ہے۔ ہم نے سرمایہ دارانہ نظام میں فاتح فطرت یا مسخر فطرت کا جو لقب پایا ہے وہ اسی نفسیاتی تہی مائیگی کی قیمت پر حاصل کیا ہے جو ناشناس احساسات انسانیت ہے۔
بہر حال قصہ مختصر یہ کہ اس نظام نے ہمارے تمام حواس کو احساس ملکیت کا مطیع کر لیا ہے اور ہماری عقل کو دام ودرم، تبادلہ زر، کموڈیٹی پروڈکشن کی منطق میں ایسا اسیر کر رکھا ہے کہ ہم اپنی ناک سے آگے دیکھنے کے لیے تیار ہی نہیں ہیں۔ نفس غیر یاتو ہماری نفس پروری کا ذریعہ ہے یا پھروہ ہمارے لئے بے معنی ہے۔ تاجر کی اس دکان میں نہ تو آدمی اپنی ذات سے مقصد ہے اور نہ دوسرے آدمیوں کے ساتھ کسی انسانی رشتے میں منسلک ہے۔ وہاں تو صرف ایک ہی رشتہ ہے اور وہ رشتہ زر ہے۔ تاجر کے اس نظام زیست سے صرف یہی نقصان نہیں پہنچا ہے کہ اب اکثریت کے حق میں لطف خرام ساقی اور ذوق صدائے چنگ کے لیے چشم و گوش نہ رہا بلکہ یہ بھی پہنچا ہے کہ ہمارے تجربات نے جو اپنی ہیئت میں سماجی ہیں، یک طرفی، تنگ نظری اور خود غرضی کا روپ دھار لیا ہے۔
تجھ کو پرائی کیا پڑی اپنی نبیڑ تو
اس ماحول میں ذہنی تخلیق یا فنون لطیفہ کا تحسین خلق کے نصب العین اور معیار سے گر کر بازار کی شئے میں تبدیل ہو جانا لازمی تھا جہاں اس کا حسن کے قوانین کا پابند رہنا اتنا ضروری نہ رہا جتنا کہ بازار کے بھاؤ اور زر اندوزی کے قوانین کا۔ یہ تہی مائیگی چشم و گوش، یہ افلاس دیدہ ودل اور یہ رسوائی حسن، سرِبازار، جہاں وہ تحسین و آفرین کی کوئی شئے نہیں بلکہ استعمال کی ایک شئے ہے۔ اس وجہ سے نہیں کہ سائنس کی ترقی نے یہ گل کھلائے ہیں کیونکہ سائنس کی ترقی نے تو چشم آدم کو اور زیاد ہ سے زیادہ وا کیا ہے۔ اس کے حواس کو بجلیوں کی طاقت عطا کی ہے۔ اور نہ یہ اس وجہ سے ہے کہ صنعتی ترقی بذات خود احساسات حسن اور لذت ہوش و گوش کی قاتل ہے۔ کیونکہ یہ صنعتی ترقی ہی کا نتیجہ ہے کہ آج ہمارے کان لطیف سے لطیف تر ساز کی آواز سے آشنا ہوئے ہیں اور ہماری نگاہیں رنگوں کے گوناگوں امتزاجات اور لطیف ترین عکسہائے گل سے مانوس ہوئی ہیں۔ جس قدر زیادہ سے زیادہ سازو سامان تشبیہ و استعارے کے لیے آج موجود ہیں، اتنے پہلے کبھی نہ تھے۔
آج ہم کو قوت اظہار پر بھی پہلے کے مقابلے میں زیادہ مقدرت ہے۔ آج ہی تو تخیل کے لئے زیادہ سے زیادہ دعوت فکر و نظر ہے۔ پھر ایسا کیوں کہ ہے کہ آشتی چشم و گوش کی ایک فضائے خاموش ہے۔ اس کا سبب وہی سرمایہ دارانہ نظام اور اس کے حصول نفع اور تقسیم اجرت کا غیر انسانی دستور ہے۔ وہ جو رشتہ زر ہے وہیں دشمن جان و دل، وہی دشمن شعر و نغمہ ہے۔ یہ فراق جسم وجاں کہ جسم ہلاک مشقت اور جاں فشردہ رنگ وبو، محروم آرزو ہے۔ یہ فراق عقل وجذبہ کہ عقل پاسبان کیسہ زر اور جذبہ قتیل شیوہ سوداگری ہے۔
ان کا وصال پر معنی اسی وقت ہوگا جبکہ ہماری محنت کا قطرہ قطرہ جو آج جام استحصال میں ہے، ہمارے اپنے جام میں بھی ہوگا۔ یعنی ہماری اپنی تحصیل ذات یا آرائش ذات میں بھی صرف ہوگا۔ اس وقت انسان اپنی ذات سے ایک مقصد اور ایک مکمل فرد ہوگا۔ اس وقت ہر فرد کی تکمیل شخصیت ضامن بنے گی، سارے افراد کی تکمیل شخصیت کی۔ اس وقت آرٹ تمام خارجی دباؤ سے آزاد ہوکر صرف قانون حسن کا پابند ہوگا۔ صرف انکشاف حقیقت کا ذریعہ بنےگا۔ حسن و صداقت کا اتحاد صرف اسی وقت پیدا ہوتا ہے جبکہ عقل تخیل کو معنی اور تخیل عقل کو صورت عطا کرتا ہے۔
ہمارا آرٹ اسی منزل کی طرف بڑھ رہا ہے۔ اس میں شبہ نہیں کہ دیر ہوتی جا رہی ہے جینے میں لیکن اتنی بے صبری بھی کیا، اگر آج ایک دست مانع ایٹم بم کے استعمال پر ہے تو وہ کل بازوئے استحصال پر ہوگا اور اگر آج آرٹ عہد عتیق کی اسطوری فضا اور قرون وسطیٰ کی تمثیلی (ALLEGORICAL) فضا سے آزاد ہے تو کل وہ باقیات قرون وسطیٰ کے اثرات اور طبقاتی نظام کی سیاسیات سے بھی آزاد ہوگا۔ یہ ایک عجیب کشمکش ہے لیکن اسی کشمکش سے وہ سحرانگیز آرٹ پیدا ہوگا، جس کا خواب یورپ کے رومانوی شعراء نے اپنی تحریک کے عروج کے زمانے میں دیکھا تھا۔ رومانوی شعراء نے سرمایہ دارانہ رشتوں کی مخالفت ہی میں شاعری کی ہے، انہوں نے اپنے احساسات اور ندائے تخیل سے اس بات کی تصدیق کی کہ انسان ایک ہے، وہ ناقابل تقسیم ہے، وہ انسان ہے، نہ کہ آقا اور غلام، زمیندار اور کسان، کامگار اور سرمایہ دار، منشی اور کوتوال۔
اس میں شبہ نہیں کہ انہوں نے اس بغاوت کو بہ قوت جذبہ پروان چڑھایا اور عقل کی مخالفت کی، لیکن جو چیز سمجھنے کی ہے وہ یہ کہ انہوں نے سرمایہ دارانہ طبقے کی عقل کے خلاف بغاوت کی، نہ کہ انسانی عقل کے خلاف۔ ورنہ ورڈسورتھ اپنے تخیل کو عقل مرتفع کا نام کیوں دیتا۔ انہوں نے اس عقل کے خلاف بغاوت کی جو اسیر سود زیاں تھی، جو انفرادی تگ ودو یا (LESSEZ FAIRE) کی بہیمانہ قدر کو عام کئے ہوئے تھی اور جو احساسات اور جذبات کی اطلاعات سے اس لئے کنارہ کش تھی کہ ان کا فیصلہ تاجر کے استحصال کے خلاف تھا۔ رومانوی تحریک جذباتی ہونے کے باوصف اسی وجہ سے ایک جمہوری تحریک تھی۔ روسو جس کے بارے میں کانٹ کا خیال ہے کہ وہ اخلاقیات کا نیوٹن تھا، اس کا فطری یا تخیلی انسان احساس ملکیت سے نا آشنا تھا۔
یورپ کے شعراء نے اسی شاعری کو ورثے میں پایا ہے جس کی طرف وہ جھکتے بھی ہیں اور جس سے وہ بدکتے بھی ہیں۔ بدکتے وہ ہیں جو سرمایہ دارانہ نظام کے تضادوں کی نفی کسی غیرطبقاتی نظام میں چاہتے ہیں۔ یقیناً آج آوازِ نوشا نوش مدہم اور چشم شاعر پرنم ہے، لیکن ایسا تو ہر اس جگہ ہے، جہاں کہیں بھی سرمائے کا جال ہے۔ اس کی انتظامی چوکیاں بیٹھی ہوئی ہیں۔ اس سے یہ نتیجہ نکالنا کہ شاعری ختم ہو گئی یا ختم ہو جائےگی، سرمائے کے ہاتھ میں کھیلنا ہوا۔ ہاں یہ ضرور ہے کہ اس عظیم نفسیاتی قحط سے ابھرنے کے لئے اب شاعری خون دل کی کشیدہی سے پروان چڑھےگی۔ وہ جو اک نہر خون شاعرکی صدا ہے اسی جوئے خون سے اب اس کی کشت زار سیراب ہوگی، پہلے جو برجستہ اور برافتادہ تھی اب کاو کاو جویائے زخم کاری ہے۔ روحانی افلاس کا مداوا اسی طرح تاریخ عالم میں ہوتا رہتا ہے۔ ہر نفسیاتی قحط کے بعد ذہنی تخلیق اسی طرح وجود میں آئی ہے۔
اگر یورپ کے شعرا اپنی روایات میں تہی مایہ نہیں تو ہم بھی اپنی روایات میں ان سے کم مایہ نہیں، اگر انہوں نے یونانی علم وفن سے استفادہ کیا تو ہمارے شعرا بھی کسی وقت اسی چشمے سے فیضیاب ہوئے ہیں۔ اگر انہوں نے پاکوبی، قبائے سریت (MYSTICISM) میں کی ہے تو ہمارے شعرا نے خرقہ تصوف میں کی ہے۔ اگر انہوں نے سرمایہ دار کے ظلم کے خلاف بغاوت کی ہے تو ہمارے شعرا نے منعم کے ظلم کے خلاف، اگر انہوں نے سرمائے کی بہانہ جو عقل کی مخالفت کی ہے اور قرون وسطیٰ کے اسناد کو ٹھکرایا ہے تو ہمارے شعرا نے بھی شیخ و برہمن کی عقل کو ٹھکرایا ہے اور ان کے اسناد سے منہ موڑا ہے۔
جب سے مغرب کی سرمایہ داری نے ایشیا کو غلام بنایا اور ہم نئے حقائق سے روشناس ہوئے تو ہمارے قدم دونوں ہی طرف ڈگمگائے ہیں۔ کبھی ہم نے آزادی کی لگن میں مغرب کی سائنس اور مادیت کو رد کیا تو کبھی احساس کمتری میں اپنے تمام تر ماضی کو یا تو تہہ تیغ کیا ہے یا انہیں لپیٹ کر طاق نسیان میں رکھا ہے لیکن اب جبکہ مشرق ایک نئے انداز سے ابھر رہا ہے اور اپنی کھوئی ہوئی کبریائی مزید استفادے سے حاصل کر رہا ہے تو کوئی وجہ نہیں معلوم ہوتی ہے کہ ہم اس افراتفری کے اب بھی شکار رہیں۔ مارکسزم ہو یا کوئی اور علم، تاریخی مطالعے کا بدل نہیں ہوا کرتا۔ یورپ کی تاریخ سے متعلق جتنا لکھا جا چکا ہے ابھی ایشیا کی تاریخ سے متعلق اتنا نہیں لکھا گیا ہے۔ اگر ایشیا کو بہت کچھ یورپ سے سیکھنا ہے تو یورپ کو آج بھی بہت کچھ ایشیا سے سیکھنا ہے۔ اور یہ مراسلہ بین الاقوامی ہمیشہ قائم رہےگا۔
ایشیا صرف اپنی مطلق العنان حکومت ہی کے لیے مشہور نہیں، یہاں سے کسی وقت کلچر کا سیلاب بھی مغرب کی جانب بہا ہے۔ ہماری شاعری نے مغرب کی شاعری کو متاثر کیا ہے۔ ہماری حکایتوں نے ان کی ناول نگاری کو متاثر کیا ہے۔ ہمارے افکار اور آرٹ نے ان کے افکار اور آرٹ کو متاثر کیا ہے۔ آج نئے افکار کی روشنی میں ہمارے پرانے افکار کی افادیت جو ضائع ہو چکی ہے، تو اس کے یہ معنی نہیں کہ جو کلچر کے اس زمانہ میں خلق ہوا وہ بھی سب کا سب بے کار ہے۔ شاعری اور آرٹ کی بنیاد تجربات اور محسوسات پر ہے نہ کہ منقولات یا معقولات پر۔ حقائق سے متعلق ہمارا فیصلہ غلط ہو سکتا ہے لیکن ہمارا تجربہ غلط نہیں ہوا کرتا ہے۔
دیکھنا یہ ہے کہ ہمارے شعرا نے اپنے تجربات کو کیونکر حسن کا جسم بخشا ہے، کیونکر اپنے زمانے میں شیخ، ملا، واعظ وصوفی اور زاہد کے بھرم کو بے نقاب کیا ہے۔ کیونکر تفریق انسانیت کے خلاف آواز اٹھائی ہے۔ منقولات اور ڈاگما سے نجات حاصل کی ہے۔ کیونکر حکمراں طبقے کے قانون کی مخالفت کی ہے۔ کیونکر انسانی فکر کو لچک بخشی ہے۔ حسن کاری اور انسان دوستی کی یہ روایات ہم نے صوفی شعرا سے سیکھی ہیں۔ علامہ اقبال کا ایسا شاعر جو تصوف میں عجمی لے کا مخالف تھا اور حجازی لے کو پسند کرتا، وہ شعرو شاعری کی دنیا میں انہیں کے کلام سے استفادہ کرنے پر مجبور ہو جاتا ہے، جن کے تصوف کی لے عجمی تھی، نہ کہ جحازی۔
علامہ اقبال سے صرف یہی نہیں سیکھنا ہے انہوں نے سرمایہ دارانہ نظام کی تنقید اپنی شاعری میں اس طرح نہیں کی جس طرح کوئی صحافی کرتا ہے۔ ان کی تنقید جمالیاتی جذبہ کے ساتھ ہے۔ شاعر کسی بھی نظام کو انسانی رشتوں کے پیٹرن اور تکمیل شخصیت کے امکانات کے نقطۂ نظر سے دیکھتا ہے نہ کہ اس نقطہ نگاہ سے کہ اس نظام کے تحت کتنے کارخانے کھلے ہیں اور کتنے ابھی کھلنے باقی ہیں، اس کی تنقید فلسفیانہ گہرائی اور پرمائیگی جذبہ کی حامل ہوتی ہے نہ کہ کسی وقائع نگار کی سطحیت کی۔ آرٹ کی دنیا میں ادراک حقیقت جمالیاتی جذبے کے ساتھ ہم آمیز ہوتا ہے۔ یہاں صرف تعقل نہیں بلکہ تخیل اور جذبہ بھی اس کے ساتھ مل کر کام کرتے ہیں۔ آرٹ کے میدان میں تعقل اور تخیل کے ملنے کے یہ معنی نہیں کہ سائنس اور آرٹ کا فرق ختم ہو جائےگا یا یہ کہ وہ ایک دوسرے کے متبادل بن جائیں گے۔ وہ ایک دوسرے کے مددگار رہتے ہوئے متحد ہوتے ہیں نہ کہ اپنی انفرادیت کو ضائع کرتے ہیں۔
اگر آرٹ وحدت کا جلوہ کثرت میں دیکھتا ہے تو سائنس کثرت کا جلوہ وحدت میں دیکھتی ہے، اگر فنکار کی تعمیم محسوس اور شخصی ہوتی ہے (وہ مخصوص ہی میں عموم دیکھتا ہے۔) توسائنس داں کی تعمیم مجرد اور غیر شخصی ہوتی ہے۔ شاعر حقیقت کو دیکھنے اور محسوس کرنے پر بچوں کے ایسا اصرار کرتا ہے لیکن سائنس داں بغیر دیکھے ہوئے بھی حقیقت پر ایمان لاتا ہے، وہ ایٹم کو بھی ابھی دیکھ نہیں پایا ہے، پھر بھی وہ اپنے فارمولے سے صحیح نتیجہ نکالتا ہے۔
دوسرا بڑا فرق ان کے درمیان یہ ہے کہ سائنس داں کی نظر موجودات کی طبعی ساخت پر ہوتی ہے۔ اس کے برعکس شاعر کی نظر ان کی جمالیاتی ساخت پر ہوتی ہے۔ شاعر کے لیے پھول ایک حامل قدر شئے ہے جو سائنس داں کے لیے نہیں ہے۔ یہ اختلاف، انداز نظر اور طریق تفہیم دونوں ہی کا ہے نہ کہ اس بات کا کہ دونوں ایک ہی بات کہتے ہیں بس ان کے انداز بیاں میں فرق ہے۔ ایک استدلالی طریقہ اختیار کرتا ہے تو دوسرا مصورانہ۔ شاعر کے کلام میں جو جذباتی وزن ہوتا ہے وہ سائنس داں کے یہاں نہیں ملتا ہے۔ پھول کی ہیئت دریافت کرنے سے پھول کی شاعری نہیں ہوتی ہے۔ دونوں ایک ہی شئے سے متعلق دو مختلف رنگ کی سچائیاں ابھارتے ہیں۔ ایک اس کی طبعی ساخت اور خصوصیت کو اجاگر کرتا ہے تو دوسرا اس کی جمالیاتی ساخت اور اقدار کو۔ یہ دو مختلف رنگ کی سچائیاں جو ایک ہی شے سے متعلق ہیں، ایک دوسرے کی ضد نہیں ہیں۔ لیکن اس چیز کا اطلاق میکانکی طور سے ہر موضوع پر نہیں کیا جا سکتا ہے کیونکہ تاریخ میں سوشیالوجی اور علم النفس آرٹ سے اکثر نقاط پر بغل گیر ہوتے ہیں لیکن اس باہمی لپٹ چھپٹ کے باوجود دونوں کا مواد مختلف اقدار کا حامل ہوتا ہے۔ کیونکہ دونوں نہ صرف دو مختلف طریقے سے ایک ہی شے کو بیان کرتے ہیں۔ بلکہ ایک ہی شے کو دو مختلف انداز نظر سے دیکھنے اور سمجھنے کی کوشش کرتے ہیں۔
شاعر ہو یا فن کار اس کے لیے سب سے بڑا مسئلہ اپنے تجربات کی بلا واسطگی کو برقرار رکھنے کا ہے۔ تجربات کو اسی حسی صورت میں پیش کرنے کا ہے جس صورت میں کہ اس کا عرفان ہوا تھا۔ ظاہر ہے کہ دام سخن میں آتے آتے وہ تجربات زبان کا واسطہ تو قبول ہی کرلیں گے لیکن وہ واسطہ ایسا تو ہوکہ آئینہ کا کام دے سکے، یہ مسئلہ مؤرخ اور محدث کو تو خیر ستاتا ہی نہیں، یہ مسئلہ ایسے شاعروں کو بھی نہیں ستاتا جو مجرد خیال کو باتصویر کرنے کے عادی ہوتے ہیں نہ کہ امیجز کے ذریعہ سوچنے کے عادی ہوتے ہیں۔ یہ کاو کاو زخم کاری صرف صف اول کے شعراء کے لئے مخصوص ہوتی ہے۔۔ شاعر کی حثییت ایک خالق، ایک موجد کی ہے نہ کہ شارح، مفسر اور مدرس کی۔ اگر شاعر کے یہاں اوریجنلٹی اور تازگی نہیں تو وہ کسی توجہ کا مستحق نہیں ہے۔ شاعرانہ ذہن انہیں معنوں میں مصورانہ دماغ (PICTORIL MIND) سے مختلف ہوتا ہے۔
شاعرانہ ذہن قلب حقیقت میں اترتا ہے۔ حقیقت کو محسوس صورت میں دیکھتا ہے کیونکہ اسے حقیقت کا براہ راست تجربہ ہوتا ہے۔ اس کے برعکس مصورانہ ذہن دوسروں کے خیالات کو صرف محسوس لباس پہنانا جانتا ہے، اسے کوئی بھی موضوع دے دیجئے وہ نظم کر دےگا۔ وہ جو کچھ کہتا ہے وہ براہ راست اس کے اپنے تجربے اور اپنے اگت اور گیان کا نتیجہ نہیں ہوتا ہے، اس سے بڑا فرق پیدا ہو جاتا ہے۔ شاعرانہ ذہن کی تخلیق میں صورت ومعنی کا رشتہ جسم و جان کا ہوتا ہے۔ شاعرانہ ذہن جس وقت حسن معنی کو جسم غیر کے پس منظر میں روشن کرتا ہے یعنی جب وہ کسی مشبہ کے لیے مشبہ بہ ڈھونڈھتا ہے تو وہ پہلے ان دونوں کی مماثلت معنوی کو دیکھتا ہے نہ کہ ان کی ظاہری یا صوری مماثلت کو جو ایک ثانوی شے ہے۔ تشبیہ اور استعارے کا یہی بنیادی فرق ہے ورنہ ہر استعارہ بذات خود ایک تشبیہ ہے۔
اس کے برعکس مصورانہ ذہن حسن معنی سے ناآشنا ہونے کے باعث مشبہ اور اور مشبہ بہ کی صرف ظاہری یا صوری مماثلت پر جاتا ہے۔ اس کے لئے ہلال، ناخن کا مشبہ بہ بن جاتا ہے لیکن شاعرانہ ذہن اس تشبیہ کو رد کر دےگا۔ کیونکہ ان دونوں کے درمیان مماثلت صوری ہے نہ کہ مماثلث معنوی۔ ناخن نور سے عاری ہے جو ہلال کی معنوی خصوصیت ہے۔ مصورانہ ذہن اسی طرح تمثیل (ALLEGORY) کے موقع پر کسی بھی مثال سے اپنا کام نکال لیتا ہے خواہ وہ مثال گدھے کی ہو یا مینڈک کی۔ تمثیلات میں ذہنی تصویریں تعمیم یافتہ ہوتی ہیں نہ کہ ٹھوس اور منفرد۔ تمثیلات نے ناولوں کے زندہ کردار کے لیے جو جگہ خالی کی ہے تو اس کا سبب یہی ہے کہ ناول میں کردار جن ذہنی تصویروں کے ذریعہ پیش کیے جاتے ہیں وہ بہ یک وقت منفرد، محسوس اور یونیورسل یا ٹپیکل (TYPICAL) دونوں ہی ہوتے ہیں۔
ناول کا کردار اپنے ٹائپ کے بے شمار کرداروں کا صرف نمائندہ ہی نہیں ہوتا بلکہ ان میں سے ایک بذات خود بھی ہوتا ہے۔ وہ یہ خصوصیات معنوی مماثلت کی بنیاد پر حاصل کرتا ہے۔ نہ کہ صورت اور شکل کی مماثلت کی بنیاد پر۔ اور جہاں کہیں ایسا نہیں ہے اسے ہم کامیاب کردار تسلیم نہیں کرتے ہیں۔ اسی طرح وہ شاعری بھی ناکامیاب تصور کی جاتی ہے جہاں تشبیہات کا انبار صرف ظاہری یا صوری مماثلت کی بنیاد پر لگا دیا جاتا ہے اور مشبہ اور مشبہ بہ کے درمیان وحدت معنویت یا تمثال معنویت پر زور نہیں دیا جاتا ہے۔ اگر آپ مثال کو صرف مثال ہی کی حیثیت سے دیکھیں تو میں ایک مثال دوں۔
جس طرح ڈوبتی ہے کشتی سیمین قمر
نور ِ خورشید کے طوفان میں ہنگامِ سحر
جیسے ہو جاتا ہے گم نور کا آنچل لے کر
چاندنی رات میں مہتاب کا ہم رنگِ کنول
جلوۂ طور میں جیسے یدِ بیضائے کلیم
موجۂ نکہت گلزار میں غنچے کی شمیم
ہے ترے سیلِ محبت میں یونہی دل میرا
یہ ہے وہ چیز جسے عرف عام میں شاعری کہتے ہیں لیکن حلقہ خواص میں اسے مصورانہ ذہن کی تخلیق کہیں گے ع ہے ترے سیل محبت میں یونہی دل میرا۔ اس خیال کو مصور کرنے کے لیے کیا کیا جتن شاعر نے نہیں کئے ہیں لیکن مشبہ لوہے کی سلاخ کی طرح اپنی جگہ اکڑا ہی رہ گیا۔ سیل محبت میں جو دل ڈوبتا اچھلتا ہے تو وہ ایک داخلی کیفیت کی تصویر ہے نہ کہ فی الواقع ویسا ہوتا ہے۔ کوشش یہ کرنی چاہئے تھی کہ اس داخلی کیفیت کو ابھارا جاتا کسی ایسی تشبیہ سے جو اس کیفیت کی معنوی خصوصیات کی حامل ہوتی، ظاہر ہے کہ اس کے لیے بس ایک استعارہ کافی تھا۔ لیکن جب کلام کو مزین کرنا ہو، ایک رنگ کے مضمون کو سورنگ سے باندھنے کا ارادہ ہو تو پھر جذبے کی اصل کیفیت تک پہنچنے کا کیا سوال ہے۔ یہ انداز سخن ہماری شاعری کا مروجہ انداز سخن رہا ہے، جہاں جذبے کی گہرائی مفقود اور تخیل کی اٹکھیلیاں ہی نظر آتی ہیں۔ اب یہ دیکھئے کہ ایک مصور ذہن کے مقابلے میں ایک شاعرانہ ذہن بزم سخن میں کیونکر جلوہ گر ہوتا ہے۔
ظلمت کدے میں میرے شبِ غم کا جوش ہے
اک شمع ہے دلیلِ سحر سو خموش ہے
یہاں شاعر نے کسی تشبیہ سے کام نہیں لیا ہے۔ وہ یہ نہیں کہتا ہے کہ میرے دل میں جوش غم اس طرح ہے جیسے یہ ہو جیسے وہ ہو۔ بلکہ اس کے برعکس وہ براہ راست ایسی تصویر پیش کرتا ہے جو اس کے غم سے معنوی اتحاد رکھتی ہے نہ کہ صوری، کیونکہ داخلی کیفیت کسی صوری مماثلت کی حامل نہیں ہوا کرتی۔ شاعر اپنے جوش غم کو تاریکی شب کے طوفان کی تصویر میں اس طرح دیکھتا ہے کہ اس میں دونوں کی معنوی خصوصیات متحد نظر آتی ہیں۔ چنانچہ جب وہ اس کی تصویر کو آگے بڑھاتا ہے تو وہ مستعارلہ کے اوصاف کا ذکر نہیں کرتا ہے بلکہ صرف مستعار منہ کے اوصاف کا۔
یہاں مستعار منہ، مستعار لہ کی کوئی تمثالی یا نمائندہ (REPRESENTATIVE) تصویر نہیں ہے جیسا کہ تمثیل میں ہوتا ہے، بلکہ مستعار لہ، کا ایک ایسا آئینہ ہے جس میں اس کی حقیقت منعکس ہو رہی ہے۔ مستعار لہ یا حقیقت، پس پردہ ہے لیکن مستعار منہ کا اشارہ اور قرائن یہ بتاتے ہیں کہ حقیقت اگر بالکل یہی نہیں تو اسی کے لگ بھگ ضرور ہوگی۔ یہاں جذبہ غم کو مصور نہیں بلکہ منکشف کیا گیا ہے، اس کے اپنے عین اور اقتباس (ESSENCE) میں۔ چنانچہ یہی سبب ہے کہ یہاں مستعار منہ اپنے ضد کی نفی بھی کرتا ہے کیونکہ کسی بھی شے کی حقیقت یا عین کو واضح کرنے کے لیے اس کے ضد کو بھی ابھارنا ضروری ہے۔
وہ جو شمع خاموش، دلیل سحر ہے لیکن طوفان شب یا غم اتنا شدید ہے کہ وہ شمع کے سر سے بھی گزر چکا ہے یعنی غم کا وہ عالم ہے کہ شمع امید کی لو بھی بجھ چکی ہے۔ اس شعر میں جذبے کا مکمل اظہار پہلے مصرع سے نہیں ہوتا ہے۔ ظلمت کدے میں میرے شب غم کا جوش ہے۔ پہلا مصرعہ تو صرف ایک بیان یا حقیقت کا صرف ایک پہلو ہے۔ اس کی تکمیل دوسرے مصرعے سے ہوتی ہے جبکہ ظلمت کدہ اپنی ضد کی نفی کرتا ہے۔ اک شمع ہے دلیل سحر سو خموش ہے۔ یہاں خیال تصویر کی صورت میں نمودار ہوا ہے نہ کہ وہ پہلے سے مجرد صورت میں موجود تھا کہ اسے لباس پہنانے کی ضرورت درپیش ہوتی۔
شاعرانہ ذہن تخلیقی ہوتا ہے نہ کہ صناعانہ۔ شاعرانہ ذہن قوت متخیلہ کا حامل ہوتا ہے۔ اس کے برعکس مصورانہ یا صناعانہ ذہن عام طور سے فینسی یا قوت واہمہ کا حامل ہوتا ہے۔ قوت متخیلہ اور فینسی کا فرق یہ ہے کہ قوت متخیلہ اگر ایک طرف متغائر اشیاء کی مماثلت باطنی یا عین ذات کو دریافت کرتی ہے تو دوسری طرف مماثل اشیاء کی مغائرت باطنی کو بھی ابھارتی ہے۔ اس کے برعکس فینسی مماثلت ظاہری پر جاتی ہے اور مماثلت باطنی کو نظر انداز کرتی ہے۔ قوت متخیلہ کا عمل تخلیقی ہے کیونکہ قوت متخیلہ، اپنے مواد کو بکھیر کر، گلا پگھلا کر ازسر نو تخلیق کرتی ہے، اس کے برعکس فینسی کی تخلیق نقالی یا تزئینی ہوتی ہے۔ تخلیقی شاعری میں بقول میر شعور جنوں کی منزل سے گزرتا ہے۔
خوش ہیں دیوانگیٔ میر سے سب
کیا جنوں کر گیا شعور سے وہ
بغیر اس جنون کے حافظے کی دیوی جو یونانی اساطیر میں شعر و شاعری کے دیوتاؤں کی ماں ہے، اپنا خزانہ جنون کے حوالے نہیں کرتی ہے۔ یہی جنون شاعر کو عالم بے خودی یا لاشعور کی دنیا میں لے جاتا ہے تاکہ وہ اپنی قوت حافظہ اور دوسرے قویٰ کے انتہائی ارتکاز کے ذریعے حقیقت کی تہہ تک پہنچ سکے۔
باہر کمال اند کے آشفتگی خوش است
ہر چند عقلِ کل شدہ ای، بے جنوں مباش
غالباً یہ اسی شعور پر ور جنوں یا ایک بیدار عالم خواب کا نتیجہ ہے کہ شاعری میں موسیقی ایک ڈوبتی ہوئی سی آہنگ یالوری کا اثر رکھتی ہے۔ شاعری میں موسیقی بین السطور، زیر لب، تہہ حرف اور گنگناہٹ کے ساتھ ہوتی ہے نہ کہ اس قدر بلند آہنگ اور پیش پیش کہ وہ نظارگی معنی کا حجاب بن جائے۔ مثلاً مندرجہ ذل اشعار میں موسیقی کی بلند آہنگی اور اس کا شعوری التزام ادراک معنی کے حسن پر غالب آ گیا ہے۔
مرا عیشِ غم، مرا شہدِ سم، مری بود ہم نفسِ عدم
ترا دل حرم، گروِ عجم، ترا دیں، خریدۂ کافری
دمِ زندگی، رم زندگی، غم زندگی، سم زندگی
غم رم نہ کر، سم غم نہ کھا کہ یہی ہے شانِ قلندری
شعر کا مقصد جذبات کو ابھارنا اور سچائی کو منکشف کرنا ہے نہ کہ باجے گاجے کے ساتھ کسی مردہ خیال کی میت کا جلوس نکالنا ہے۔ خیر یہ تو ایک ضمنی بات ہوئی۔ ورنہ اصل بات تو وہی ہے جس کی طرف میں آپ کی توجہ مبذول کرائے ہوئے تھا کہ شاعرانہ ذہن نہ صرف سائنٹفک ذہن سے مختلف ہوتا ہے بلکہ مصورانہ ذہن سے بھی، اور یہ اس کا ایک نتیجہ صریح ہے کہ شاعری کا مواد اور اس کا اظہار وبیان سائنس کے مواد اور اس کے اظہار و بیان سے مختلف ہوتا ہے۔ اسی موقع پر اس نکتے کو ابھارنا بھی ضروری سا معلوم ہوتا ہے کہ ایک تخلیقی نطم خواہ تعمیری اعتبار سے وہ کتنی ہی خوبصورت کیوں نہ ہو، اس وقت تک کسی سماجی اہمیت کی حامل نہیں ہوتی جب تک کہ اس کی اسپرٹ خارجی حقائق کی آئینہ نہ ہو۔
میں نے اسپرٹ کا لفظ اس لئے استعمال کیا ہے کہ فنون لطیفہ بنیادی حیثیت سے زندگی کی اقدار کو آئینہ دکھاتے ہیں نہ کہ اس کی کمیاتی کیفیت کو، لیکن چونکہ کلچر مشتمل ہوتا ہے زندگی کے خارجی اور داخلی دونوں ہی پہلوؤں پر، یعنی اس کا تعلق کیف وکم دونوں ہی سے ہوتا ہے اس لئے ایسا سوچنا کہ آرٹ تن تنہا پورے کلچر کی ترجمانی کر سکتا ہے، صحیح نہیں ہے۔ پورے کلچر کی ترجمانی سائنس اور آرٹ دونوں ہی مل کر کرتے ہیں۔ اگر آرٹ اندر سے باہر اور اقدار سے مقدار کی طرف جھکتا ہے تو سائنس باہر سے اندر کی جانب اور مقدار سے اقدار کی طرف بھی جھکتی ہے۔ لیکن ان میں سے ددنوں اپنا اپنا مرکز ثقل نہیں چھوڑتے ہیں۔
اس اندر باہر اور اقدار مقدار کے فلسفے کی وضاحت یہ ہے کہ زندگی عبارت ہے انسان کے دوگونہ طرز عمل سے۔ اگر ایک طرف وہ خود آگاہ و جود ہونے کے باعث اپنی خود آگہی میں اضافہ کرتا رہتا ہے تو دوسری طرف وہ اپنے طرز عمل سے نہ صرف خارج کی دنیا بلکہ اپنی فطرت کو بھی بدلتا رہتا ہے اور اس کا یہ دوگانہ طرز عمل ایک دوسرے سے پیوند ہے، ایک دوسرے پر اثر انداز ہوتا ہے اور ایک دوسرے سے مراسلہ رکھتا ہے۔ انسان کی زندگی میں آرٹ نے بالعموم اور شعر و ادب نے بالخصوص اپنی جگہ کچھ اس طرح متعین کی ہے یا اس کی جگہ متعین ہوتی گئی ہے کہ وہ اس کے دکھ درد (Suffering) کے عمل کے محرکات اور اس کی آرزوؤں کو پیش کرتا آیا ہے۔ ادب ہمیشہ سے ہی انسان مرتکز رہا ہے۔ جیسا کہ (HUMANISM) کا لفظ وضاحت کرتا ہے جس کا صحیح مفہوم انسان پرستی سے نہ کہ انسان دوستی سے ادا کیا جاسکتا ہے۔
آدمی بالعموم خارجی فطرت کو بھی اپنی ہی نفسیات کے آئینے میں دیکھتا رہا ہے۔ ادب کی یہ داخلیت پچھلی صدی سے کم ہوتی گئی ہے کیونکہ انسان اب نسبتاً زیادہ اسباب زندگی پر قابو پاتا جا رہا ہے۔ ہاں یہ صحیح ہے کہ جب تک کہ انسان کا دسترس سارے ہی اسباب زیست پر نہ ہو، اس کے عمل کا نتیجہ لازمی طور پر ویسا نہیں ہو سکتا ہے جیسا کہ وہ سوچتا ہے لیکن یہ ضروری نہیں کہ ہم اس کی مختاری کو ہمیشہ سو فیصد اختیار ہی کے تصور میں سوچیں۔ اگر ہم نوے یا ننانوے فی صدی بھی اسباب پر قابو پا سکتے ہیں تو کوئی وجہ نہیں کہ ہم میں وہ اعتماد نہ پیدا ہو سکے جس کی بنیاد پر ہم اپنے ہی کو اپنی تاریخ کا خالق کہیں۔ یہ اعتماد کبریائی ہماری زیست کا ایک نیا محور ہے جو روز بروز قوی تر ہوتا جا رہا ہے اور جو قدیم زمانے میں نسبتاً کمزور تھا، کیونکہ اس وقت انسان اس قدر صاحب مقدرت نہ تھا۔ یہ اسی اعتماد کے باعث ہے کہ آج ادب میں انسان اپنے خول سے باہر بھی نکلا ہوا نظر آتا ہے کیونکہ اس کے دکھ درد میں نسبتاً کمی واقع ہوئی ہے اور اسے اپنے عمل کے نتائج کا قوی تر یقین پیدا ہوا ہے۔
یہ طریق خود شناسی بہ تخالف موجودات خارج کہ دلیل علم آدم ہے، یہ سپردگی بہ فطرت، یہ رمیدگی زفطرت، یہ شوخی تعاقب فطرت کہ دلیل عزم آدم ہے یہ اتصال پیہم بہ فطرت، یہ افتراق قایم زفطرت کہ دلیل نبض آدم ہے، ایک نہ ختم ہونے والا سلسلہ عمل ہے۔ کیونکہ زندگی عبارت ہے فطرت سے پیہم الجھتے اور سلجھتے رہنے سے، فطرت کی ہار فطرت کی جیت ہے لیکن چونکہ انسان کا اپنا ایک ایگو بھی ہے جو خود آگاہ وجود کی نشانی ہے اور جو ماسوا انسان کسی دوسرے میں نظر نہیں آتا ہے، اس لئے وہ اپنے کو فاتح اور فطرت کو مفتوح سمجھتا ہے اور ایسا کہنے میں وہ اس لئے بھی حق بجانب ہے کہ اس نے اپنے حواس پر جو ایک عطیہ فطرت ہے، نئے سے نئے ایسے شیشے چڑھائے ہیں جو فطرت کے پاس موجود نہ تھے یہی سب اس کی کبریائی کی نشانی ہے۔
وہ جوں جوں اپنی تاریخ کا شعوری خالق بنتا جائےگا، اس کا ادب بھی دکھ درد کے بیان سے اس کے عظیم کارناموں کے بیان کی طرف بڑھتا اور پھیلتا جائےگا۔ لیکن وہ اپنا مرکز ثقل نہیں چھوڑ سکتا ہے۔ بغیر دکھ درد اور کرب کے کوئی ادب تخلیق نہیں ہوتا ہے۔ کیونکہ ادب کشمکش سے پیدا ہوتا اور کشمکش میں کرب اور تکلیف کا پایا جانا لازمی ہے۔ وہ کشمکش نئے سے نئے روپ اختیار کر سکتی ہے جس کی ہیئت سوسائٹی کے تضادات کی نوعیت سے متعین ہوتی رہےگی لیکن یہ ناممکن ہے کہ انسان کا کوئی بھی عمل یا اس کے عمل کا کوئی بھی تہیہ بغیر کشمکش کے پیدا ہو۔ آرٹ کی خوبی کسی بھی تہیہ عمل کو اس کے اسی کشمکش یا تناؤ کے ساتھ پیش کرنے میں ہے، جو اس میں موجود ہوتا ہے۔
جواں لہو کی پراسرار شاہ راہوں سے
چلے جو یار تو دامن پہ کتنے ہاتھ پڑے
دیار حسن کی بے صبر خواب گاہوں سے
پکارتی رہیں باہیں بدن بلاتے رہے
بہت عزیز تھی لیکن رخِ سحر کی لگن
بہت قریں تھا حسینانِ نور کا دامن
سبک سبک تھی تمنا دبی دبی تھی تھکن
یہ ہے حقیقت نگاری کا ایک ادنیٰ نمونہ۔ یہاں شاعر انقلابی عمل کو اندرونی کشمکش کے ساتھ پیش کر رہا ہے۔ یہ خوبی بات کو استعارے میں کہنے سے پیدا ہوئی ہے۔ اس بند یا پوری نظم کو رومانوی کہنا حقیقت نگاری کو نہ سمجھنے کے برابر ہے۔
تجربات کا یہ جدلیاتی طرز عمل جب بذریعہ زبان، ادب میں منعکس ہوتا ہے تو وہ اپنے عکس میں تجربے کی جدلیاتی طرز عمل کو بھی پیش کرتا ہے۔ کیونکہ بغیر اس کے اصل تجربے کو منتقل کرنا ممکن نہیں اور اصل تجربہ ہمیشہ ذہنی تصویروں ہی کی صورت میں منتقل کیا جا سکتا ہے۔ آرٹ میں ذہنی تصویروں کو اسی وجہ سے بنیادی جگہ دی گئی ہے۔ لیکن مندرجہ بالاحقیقت کی روشنی میں صرف ایسی ہی ذہنی تصویریں حقیقت کو آئینہ دکھا سکتی ہیں جو قانون اتحاد (Law Of Identity) اور قانون تخالف (Law of Opposition) یا جدلیات کے اصولوں پر مبنی ہوں۔ استعارہ اسی ذہنی تصویر کا نام ہے جس میں یہ دونوں ہی اصول کار فرما ہوتے ہیں۔ اب اس کی وضاحت سنئے۔
استعارہ جیسا کہ علم بیا ن میں بتایا گیا ہے، مجاز کی ایک قسم ہے۔ استعارہ ہمیشہ مجازی معنی میں مستعمل ہوتا ہے نہ کہ حقیقی یا لغوی معنی میں اور مجاز کے معنی ہیں تجاوز کرنا۔ اس کے یہ معنی ہوئے کہ جب کوئی ذہنی تصویر لغوی معنی سے تجاوز کرتی ہے تو اس کو استعارہ کہتے ہیں۔ انگریزی زبان میں استعارے کے لیے جو لفظ (METAPHOR) استعمال ہوتا ہے تو اس لفظ کا مفہوم بھی یونانی زبان میں تقریباً وہی ہے جو مجاز کا ہے یعنی آگے بڑھانا۔ اب یہ دیکھئے کہ استعارہ کیا ہے اور کیا نہیں۔ جس وقت آپ یہ کہتے ہیں کہ ان کا غصہ بھڑک اٹھا تو آپ استعارے کی زبان استعمال کرتے ہیں۔ کیونکہ بھڑکنا بنیادی حیثیت سے آگے کی خصوصیت ہے نہ کہ غصے کی، پھر بھی ایسا ہی کہنے میں ہم حقیقت سے قریب تر رہتے ہیں، کیونکہ غصے کی معنوی خصوصیت آگ کی معنوی خصوصیت کے مماثل ہے۔
ان کا غصہ بھڑک اٹھا، یہ ایک ذہنی تصویر ہے۔ اس کے برعکس اگر یہ کہیں کہ ان کو غصہ آ گیا تو ایک بیان ہوگا نہ کہ کوئی تصویر، جس میں جذبے کی شدت اور گہرائی کا تصور نہیں ملتا ہے۔ یہاں غصے اور آگ کے درمیان علاقہ تشبیہی معنوی ہے نہ کہ صوری۔ استعارہ کی ضرورت پڑتی ہی ہے اسی لیے کہ مستعار لہ کبھی اپنی لطافت و نزاکت کے باعث، تو کبھی تجرد کے باعث معرض اظہار میں آنے کے لیے کسی ایک محسوس وجود غیر کے اشارے، کنائے کا محتاج رہتا ہے۔ ظاہر ہے کہ اس موقع پر وہی وجود غیر اس خدمت کو انجام دے سکتا ہے جو مستعار لہ سے اتحاد معنوی رکھے ورنہ نقش حقیقی کا ابھرنا محال ہے۔ جہاں کہیں کسی مستعار لہ کو کوئی ایسا مستعار منہ ملا جو اس سے امتثال معنویت یا اتحاد معنویت رکھتا ہو تو پھر مستعار لہ اپنے اس آئینے سے ایسا نمو کرتا ہے کہ مستعار منہ محجوب ہو جاتا ہے اور صرف نقش حقیقت جلوہ گر رہتا ہے۔
نقش پیدا و آئینہ محجبوب
بہ خفا گشت از ایں سبب منسوب
غصے کا بھڑکنا، جو محاورہ بنا، اس کا سبب یہی ہے کہ ابتداءً وہ ایک استعارہ تھا۔ محاورہ بنتا ہی ہے اسی بنیاد پر کہ وہ اصلاً استعارہ تھا، جو استعارہ نہیں وہ محاورہ نہیں، وہ روز مرہ ہوتو ہو۔ استعارے اور محاورے میں فرق یہ ہے کہ استعارے کثرت استعمال سے کجلا جاتے ہیں تو ہم انہیں روز مرہ میں اس طرح استعمال کرنے لگتے ہیں جس طرح کہ عام لفظ ہماری زبان پر آتے ہیں۔
اس کے یہ معنی ہوئے کہ استعارہ صرف شعرا ہی استعمال نہیں کرتے بلکہ ہر شخص اپنی گفتگو میں استعمال کرتا ہے خواہ شہری ہو یا دیہاتی۔ میں نے آزما کر دیکھا ہے بغیر استعارے کے (یقیناً اس میں محاورہ شامل ہے) دو منٹ بھی گفتگو کرنا محال ہے۔ ایسا کیوں ہے؟ بات یہ ہے کہ دنیا میں وہی زبان ترقی یافتہ تصور کی جاتی ہے جس میں یہ صلاحیتیں زیادہ سے زیادہ ہوں کہ اگر وہ ایک طرف مجرد سے مجرد خیال کے تجزیے پر قادر ہو تو دوسری طرف وہ مجرد سے مجرد خیال کو ٹھوس اور محسوس صورت میں بھی پیش کرنے کی صلاحیت رکھتی ہو۔ یہ دونوں اصول یعنی تجرید و تجسیم یا تعمیم و تخصیص The Law of Generalization And The Law of Particularizatin بدرجہ اتم استعارے میں مدغم رہتے ہیں۔
استعارہ بہ یک وقت مجرد اور ٹھوس دونوں ہی ہوتا ہے۔ جس وقت وہ ایک سے زیادہ اشیاء کی قدر مشترک کو سمیٹتا ہے تو اس کا عمل تجرید کا ہوتا ہے اور جب اس قدر مشترک کو ایک محسوس اور ٹھوس جسم دیتا ہے تو اس کا عمل مجرد خیال کو محسوس کرانے کا یا تجسیم کا ہوتا ہے اور وہی زبان قوی اور مؤثر تصور کی جاتی ہے جو مجرد خیالات کا اظہار ٹھوس زبان میں کر سکے۔ اس ضرورت کو جیسا استعارہ پورا کرتا ہے کوئی اور اسلوب بیان پورا نہیں کر پاتا ہے۔ مارسل پروسٹ کا تو یہ کہنا ہے کہ اسٹائل کو جو چیز ادبیت بخشتی ہے وہ صرف استعارہ ہے۔ چنانچہ وہ فلابیر کے اسلوب کو صرف اس لئے پسند نہیں کرتا ہے کہ وہ عظیم استعارے سے عاری ہے۔ بہرحال خواہ آپ اس کے خیال سے متفق ہوں یا نہ ہوں، یہ حقیقت ہے کہ استعارے سے زیادہ ٹھوس، قوی اور موثر بیان کسی اور اسلوب کا نہیں ہوا کرتا کیونکہ استعارے میں حقیقت کو بہ اعتبار مناسبت معنی جسم ملتا ہے نہ کہ بہ اعتبار مناسبت صور جیسا کہ اکثر تشبیہ میں ہوتا ہے۔
جمالیات کی دنیا میں صورت و معنی کا اتحاد اسی وقت پیدا ہوتا ہے جبکہ زبان خیال کا آئینہ بن جاتی ہے اور ادب میں یہی شئے حسن سے عبارت ہے جیسا کہ بیدل کہتے ہیں۔ کہ حسن، مرأت عالم ومعلوم ہے۔ استعارے کی دنیا میں جو یہ عمل ہے کہ مستعار منہ کے اوصاف کو مستعار لہ کے اوصاف میں جمع کر دیا جاتا ہے اور مستعار لہ کا ذکر چھوڑ دیا ہے تو اس کا سبب یہی کہ مستعار لہ مستعار منہ سے اوصاف حقیقی یا اپنی معنویت میں متحد (IDENTICAL) ہوجاتا ہے لیکن استعارہ مستعار جو ٹھہرا، اس میں یہ اتحاد (IDENTITY) جزوی ہوتا ہے نہ کہ کلی کیونکہ مستعار منہ مستعار لہ سے مماثل ہوتے ہوئے بھی متغایر ہوتا ہے۔ اس لئے اس اتحاد کے باوصف ان میں تخالف بھی موجود رہتا ہے۔ مستعار منہ کے حقیقی (Literal) معنی تردید مستعار لہ کا حقیقی معنی کرتا ہے اور یہ ان کے اسی اتحاد اور تخالف کا نتیجہ ہے کہ اصل معنی مستعار منہ سے تجاوز کرتا ہے یا جست کرتا ہے جو ایک (Synthetic) معنی ہوتا ہے۔
یہ معنی جو حقیقت اور مجاز کے اتحاد اور تخالف سے پیدا ہوتا ہے، اصل حقیقت کو لو دیتا ہے نہ کہ اسی قطعیت کے ساتھ محدود کر دیتا ہے۔ حقیقت خواہ وہ کسی ذرے کی ہو یا انسان کی، اپنے حجابات میں لامحدود ہے کیونکہ وہ کائنات کی حقیقت سے بے شمار رشتوں میں مربوط ہے۔ حقیقت وہ اتھاہ ساگر ہے جس میں شرب مدام لگا ہوا ہے لیکن اس کا خزانہ نہ تو ختم ہو چکتا ہے اور نہ ختم ہو پائےگا۔ گویہ بھی صحیح ہے کہ ہم حقیقت سے روز بروز قریب سے قریب تر ہوتے جائیں گے بشرطیکہ ہم حقیقت کو قابل ادراک سمجھیں۔
کدام قطرہ کہ صد بحر در رکاب ندارد
کدام ذرہ کہ طوفانِ آفتاب ندارد
اس کے یہ معنی ہوئے کہ کسی بھی حقیقی تجربے کی سچائی کو استعارے ہی کے ذریعے پیش کیا جا سکتا ہے جو اس کو قطعیت کے ساتھ محدود نہیں کرتا ہے بلکہ اس کی لامحدودیت کی طرف بھی اشارہ کرتا رہے۔ ا ستعارہ، مستعار منہ سے آگے گزر جاتا ہے۔ یہ حقیقی تجربے کو لو دیتا ہے نہ کہ اسے گھیرتا اور متعین کرتا ہے جو ایک منطقی تصور کا کام ہے۔ استعارے کا مفہوم کثیر سمتی اور متحرک ہوتا ہے۔ استعارہ صرف خیال ہی کو نہیں چھوتا ہے بلکہ خیال کے ساتھ جو جذبات اور احساسات وابستہ ہوتے ہیں ان کی شدت اور گہرائی کو بھی ابھارتا ہے۔ وہ متحرک اس معنی میں ہے کہ استعارے کا مفہوم اپنی اشاریت کی وجہ سے تخیل کے لئے معنی کی راہیں کھولتا ہے نہ کہ اس کی راہیں روک کر بیٹھ جاتا ہے۔ کیونکہ وہ تو عالم وجود میں اسی لئے آیا تھا کہ اصل حقیقت کے صرف محدود ہی نہیں بلکہ لامحدود پہلوؤں کی طرف اشارہ کرے۔
اشارے کو یقیناً تابناک ہونا چاہئے لیکن اس میں وہ ابہام بقول غالب تو رہے ہی گا، جس پر تشریح قربان ہوتی ہے کیونکہ حقیقت کا لامحدود پہلو ہمیشہ مبہم ہوتا ہے۔ یہاں مسئلہ حسن معنی کے امکانات پر مر مٹنے کا ذکر ہے نہ کہ متعین تصورات میں گھر کر رہ جانے کا۔ استعارہ حقیقت کا آئینہ ہوتا ہے نہ کہ اس کو چھپا دینے والا پردہ۔ اس کی رمزیت حقیقت کی طرف ایک جنبش نگاہ کرنے میں ہے نہ کہ اس کے لیے پردۂ خفا بن جانے میں (رمز کے لغوی معنی بھی جنبش نگاہ ہی کے ہیں۔) حقیقت کے چہرے سے پردہ اٹھانے ہی کا نام استعارہ ہے۔ جہان معنی کو براہ راست منکشف کرنے کے لیے ذہن آدم نے اگر اسباب تعلق سے کوئی آلہ کار وضع کیا ہے تو وہ استعارہ ہی ہے۔
اس آلہ کار پر صرف شعرا ہی کا اجارہ نہیں رہا ہے۔ استعارے کو دنیا کے تمام بڑے بڑے نثار، مفکرین، مبلغین اور فلسفیوں نے بھی استعمال کیا ہے۔ ہاں یہ ضرور ہے کہ اس قسم کی تصنیفات میں جہاں تجزیہ خیال کو زیادہ دخل ہوتا ہے وہاں استعارہ کم استعمال کیا جاتا ہے۔ لیکن ہر اس تصنیف میں جس میں جذبے اور خیال کی آمیزش ہے، جہاں خیال کو جذبات کی گہرائی اور شدت کے ساتھ پیش کیا گیا ہے، وہاں استعارے کی زبان ناگزیر طور پر استعمال کی ہوئی ملتی ہے۔ افلاطون اور نطشے کی تصنیفات کو چھوڑیے، کارل مارکس کے ایسے ماہر اقتصادیات اور سیاسیات کی تصنیفات بھی استعاروں کے مہرو ماہ سے آباد ہیں۔ آئیے کیوں نہ اب ہم براہ راست استعارے ہی کو لیں اور اس کے حسن سمجھنے کی کوشش کریں۔
رات باقی تھی ابھی جب سرِبالیں آ کر
چاند نے مجھ سے کہا جاگ سحر آئی ہے
جاگ امشب جو مئے خواب ترا حصہ تھی
جام کے لب سے تہہ جام اتر آئی ہے
عکسِ جاناں کو وداع کرکے اٹھی میری نظر
شب کے ٹکھرے ہوئے پانی کی سیہ چادر پر
جابجا رقص میں آنے لگے چاندی کے بھنور
چاند کے ہاتھ سے تاروں کے کنول گرگر کر
ڈوبتے تیرتے مرجھاتے رہے کھلتے رہے
جاگ اس شب جو مئے خواب ترا حصہ تھی
جام کے لب سے تہہ جام اتر آئی ہے
یہاں مئے اور خواب کے درمیان جو وجہ شبہ یا وجہ جامع ہے وہ معنوی خصوصیات کی ہے نہ کہ ان کی شکل وصورت کی۔ وہ وجہ جامع اس کے لیے اور بھی زیادہ قوی ہے کہ شاعر جس خواب کی طرف اشارہ کر رہا ہے اس میں عکس جاناں کا خمار بھی ہے۔ مئے اور خواب کا ایک دوسرے کے ساتھ متحد یا ایک ہو جانے کا یہی سبب ہے اور جب یہ اتحاد قائم ہو گیا تو پھر اس کی ضرورت نہیں رہ جاتی کہ مستعار لہ جو خواب ہے، اس کے اوصاف کا ذکر کیا جائے۔ اس کے برعکس استعارے میں صرف مستعار منہ کے اوصاف کا ذکر کیا جاتا ہے کیونکہ وہ مستعار لہ سے اپنے اوصاف مشترک رکھتا ہے۔ استعارے کی خوبی یہی ہے کہ ذکر مستعار لہ کا ہوتا ہے لیکن حرف و حکایت مستعار منہ کی ہوتی ہے۔
خوشتر آں باشد کہ سردلبراں
گفتہ آید در حدیث دیگراں
عطار
ہر چند ہو مشاہدۂ حق کی گفتگو
بنتی نہیں ہے بادہ و ساغر کہے بغیر
غالب
دہر کا ہو گلہ کہ شکوۂ چرخ
اس ستمگر ہی سے کنایت ہے
جان جائیں گے جاننے والے
فیض فرہاد وجم کی بات کرو
مستعار منہ کی یہ گفتگو صرف خوشتر نہیں بلکہ حقیقت سے قریب تر ہوتی ہے کیونکہ اس گفتگو میں خیال کو جذبات کی شدت اور گہرائی کے ساتھ بھی پیش کیا جاتا ہے۔ ’جام کے لب سے تہ جام اترا ٓئی ہے‘۔ اس اظہار میں لذت خواب، پھر اس کی درد کشی کی طرف جو بلیغ اشارہ ہے، وہ غیر استعاراتی زبان میں ممکن نہیں۔ اب آپ اسی بند کے ایک دوسرے استعارے کو لیجئے۔ تاروں کے کنول گر گر کر ڈوبے تیرتے مرجھاتے رہے کھلتے رہے۔
عکس جاناں کو وداع کرتے ہی جو شاعر کی نظر اٹھی تو پہلی ہی نگاہ میں اس کی قوت متخیلہ نے ستاروں کی بنیادی خصوصیت کو پا لیا۔ شب کے ٹھہرے ہوئے پانی کی سیہ چادر پر، جا بجا رقص میں آنے لگے چاندی کے بھنور۔
’’چاندی کے بھنور‘‘ میں جو ایک مرکب استعارہ ہے، شاعر نے ستاروں کی دو بنیادی خصوصیت یعنی نور و حرکت کی صفات کو اکٹھا کر دیا ہے۔ لیکن چونکہ یہ مستعار منہ مرکب تھا جس کا بذات خود کہیں کوئی وجود نہیں ہے، اس لئے اس نے اس کو ترک کرکے ایک ایسے مستعار منہ کو تلاش کیا جس کا اپنا ایک حقیقی وجود بھی ہے اور جو نور و حرکت کی کیفیات میں ستاروں سے مماثل بھی ہے۔ کنول کا استعارہ اسی لاشعوری تلاش کا نتیجہ ہے۔ اب پوری تصویر کو اس طرح دیکھئے۔
شب کے ٹھہرے ہوئے پانی کی سیہ چادر پر
چاند کے ہاتھ سے تاروں کے کنول گر گر کر
ڈوبے، تیرتے، مرجھاتے رہے، کھلتے رہے
رہ گیا یہ مصرع، جابجا رقص میں آنے لگے چاندی کے بھنور، مندرجہ بالا تفصیلی تصویر کا ایک اچٹتا ہوا تاثر ہے جو پہلی نگاہ کا عطیہ ہے۔ بہرحال اس تصویر کا لطف جو کنول کے استعارے سے پیدا ہوا، یہ ہے کہ وہ کسی ساکت لمحے کی نہیں بلکہ متحرک لمحے کی تصویر ہے، ستاروں کی آنکھ مچولی میں جو نور اور تاریکی کی جھپکیاں ہوتی رہتی ہیں، اس کی تصویر بھی کنول کے کھلنے اور ڈوبنے، تیرنے اور مرجھانے کے وقفوں میں کھنچ آئی ہے۔ وہ جو دو مثالیں میں نے استعارے کی دی ہیں، ایک داخلی کیفیت کے اظہار کی اور دوسری خارجی کیفیت کے اظہار کی، زندہ استعاروں کی مثالیں تھیں۔ اب میں اس کے مقابلے میں ایک مردہ استعارے کی مثال دوں گا جو لطف سے یکسر خالی ہے۔
نہیں چھوڑتا ہے اشک مرا دامن و کنار
یہ طفلِ بد سرشت نہ گہوارے سے پلا
یہارے شعرا اشک کو طفل سے مستعار اس لئے کرتے آئے ہیں کہ مچلنے کی خصوصیات دونوں میں مشترک ہے۔ چنانچہ اشکوں کا مچلنا محاورہ بھی اسی استعارہ ہی سے بنا ہے۔ اول تو یہ کہ مجھے ان دونوں کی وجہ جامع کی معقولیت پر شبہ ہے لیکن میں فی الحال اس پر زور دینا نہیں چاہتا بلکہ یہ مان کر آگے بڑھنا چاہتا ہوں کہ اچھا صاحب چلئے یونہی سہی، آپ اشک کا ذکر کرنے کے لیے طفل کی خصوصیات کو مستعار لے سکتے ہیں۔ لیکن ایسا تو نہ کیجئے کہ وہ جو پس پردہ ہے یعنی اشک وہ فراموش ہو جائے۔ شاعر کی بنیادی گمرہی اس شعر میں یہی ہے کہ اس نے اشک کو فراموش کر دیا ہے۔ اس کے آماجگاہ یعنی دامن و کنار کو پکڑ لیا ہے۔ چنانچہ دوسرے مصرعے میں جو توجیہ یا حسن کی تعلیل ہے وہ اشکوں کے آنے کی نہیں بلکہ ان کے ’’دامن‘‘ اور ’’کنار‘‘ کے نہ چھوڑنے کی ہے۔ یہ شعر تمام تر لفظی صنعت گری کا تماشہ ہے جس میں جذبے کی پر چھائیں تک بھی نہیں ہے۔ اس کے برعکس اشک باری کی توجیہ ہمارے میر صاحب نے اس طرح کی ہے کہ اس میں تخیل اور جذبے دونوں ہی کو دخل ہے۔
دل سے رخصت ہوئی کوئی خواہش
گریہ کچھ بے سبب نہیں آتا
میر تقی میر
اول الذکرشعر میں مردہ استعارے کی جو میں نے صرف ایک مثال دی اور اس کی مزید مثالیں دینا نہیں چاہتا تو یہ نہیں سمجھئے کہ اس کی ہمارے یہاں کمی ہے بلکہ یوں سمجھئے کہ میں بڑے بڑے ناموں کا بھرم کھولنا نہیں چاہتا، لیکن جب میں یہ سوچتا ہوں کہ اس طرح تو ہمارے ادب کے بہت سے دیوان ڈوب جائیں گے تو میں ایک بات کا اضافہ کرنا بھی ضروری سمجھتا ہوں۔
آج شاعری کے میدان میں جھوٹے نگینے جڑنے والی صناعی عیب ہے لیکن ناسخ کے زمانے میں اسے بھی روا رکھا جاتا، اور شعرا متاخرین کے کلام سے اس کی متعدد مثالیں دی جاسکتی ہیں لیکن میر تقی میر کی شاعری جو استعارے کی شاعری ہے، اس قسم کی صناعی سے ۹۹ فیصد پاک ہے۔ میر کا کلام چھ دیوانوں پر مشتمل ہے۔ اس میں اچھے اشعار بھی ہیں اور بھرتی کے بھی۔ ایسے بھی اشعار ہیں جن میں کوئی استعارہ، کناریہ نہیں ہے لیکن جب آپ ان کا کوئی ایسا شعر ڈھونڈیں گے جس میں تخیل اور جذبہ دونوں ہی ہوں تو اس میں استعارہ اور اگر استعارہ نہیں تو کنایہ ضرور نظر آئےگا۔ اب ہم ان کی ایک ایسی سادہ غزل کے چند اشعار پیش کریں گے جن میں کوئی استعارہ بظاہر نہیں ہے۔ صرف صنعت تضاد کی پرکاری ہے۔ پھر اس غزل کا مقابلہ ان کی ایک ایسی غزل سے کریں گے جس کی زبان استعارے کی ہے۔ اس اول الذکر قسم کی سادہ و پرکار غزل کے چند اشعار یہ ہیں۔
کہتے ہو اتحاد ہے ہم کو
ہاں کہواعتماد ہے ہم کو
آہ کس ڈھب سے روئے کم کم
شوق حد سے زیادہ ہے ہم کو
دوستی ایک بھی نہیں تجھ کو
اور سب سے عناد ہے ہم کو
نامرادانہ زیست کرتا تھا
میر کی وضع یاد ہے ہم کو
یہ ان کی منتخب غزلوں میں سے ہے۔ اب ان اشعار کا مقابلہ ان کی آخرالذکر قسم کی غزل کے اشعار سے کیجئے۔
جیتے جی کوچۂ دلدار سے جایا نہ گیا
اس کی دیوار کا سر سے مرے سایا نہ گیا
کاو کاو مژۂ یارو دلِ زارو نزار
گتھ گئے ایسے شتابی کہ چھڑایا نہ گیا
زیرشمشیرِ ستم میر تڑپنا کیسا
سر بھی تسلیم محبت میں ہلایا نہ گیا
جی میں آتا ہے کہ کچھ اور بھی موزوں کیجے
دردِ دل ایک غزل میں تو سنایا نہ گیا
دل کے تئیں آتشِ ہجراں سے بچایا نہ گیا
گھر جلا سامنے پر ہم سے بجھایا نہ گیا
کیا تن حوصلہ تھے دیدہ ودل اپنے آہ
ایک دم راز محبت کا چھپایا نہ گیا
دل جو دیدار کا قاتل کے بہت بھوکا تھا
اس ستم کشتہ سے اک زخم بھی کھایا نہ گیا
یہ دونوں غزلیں میر کی ہیں اور ان کی منتخب غزلیں ہیں اس لئے یہ تو نہیں کہا جا سکتا ہے کہ پہلی غزل میں جذبہ نہیں ہے۔ لیکن اتنا ضرور کہا جائےگا کہ پہلی غزل میں صنعت تضاد کی کاوش اور پرکاری کی وجہ سے جو صناعیت پیدا ہو گئی ہے، اس سے جذبات کی شدت اور گہرائی میں بھی کمی پیدا ہو گئی ہے۔ اس کے برعکس دوسری غزل میں نہ صرف تخیل کی گلکاری ہے بلکہ جذبات کا بھی پورا پورا اظہار ہے۔ پہلی غزل سادہ پرکاری کی حامل ہے جو اپنا حسن کاریگری رکھتی ہے۔ دوسری غزل تشبیہ و استعارے کی حامل ہے جس کے اشعار سے مفہوم جست کرتے ہوئے نظر آتے ہیں۔ شعر کی خوبی یہ نہیں ہے کہ وہ نثر عاری کے درجے پر پہنچ جائے، جیسا کہ کچھ لوگوں کا خیال ہے بلکہ یہ ہے کہ اس میں تجربے کی بلا واسطگی یا خیال سے وابستہ جذبہ قتل نہ ہونے پائے۔ چنانچہ یہی سبب ہے کہ سادگی و پرکاری کے میدان میں میرسے مٹھی بھر غزلیں اور غالب سے صرف دو غزلیں بن پائیں۔ غالب کی وہ دو غزلیں ان مطلعوں سے شروع ہوتی ہیں۔
(۱)
کوئی امید بر نہیں آتی
کوئی صورت نظر نہیں آتی
(۲)
دلِ ناداں تجھے ہوا کیا ہے
آخر اس درد کی دوا کیا ہے
اور یہ حسن اتفاق ہے کہ ان کے یہاں بھی صرف صنعت تضاد ہی کی پرکاری ہے۔ استعارے کی اس تعریف کے ساتھ ساتھ یہ بتانا بھی ضروری ہے کہ استعارے کا استعمال بذات خود کوئی مقصد نہیں ہے۔ استعارہ تو ذہنی تصویر کا صرف ایک فارم ہے، مقصد اصل حقیقت تک پہنچنا ہے نہ کہ استعارے کو روایتی حیثیت سے برتنا۔ روایتی استعارے کو برتتے رہنے کی دھن تو روایتی خیال کو دہراتے رہنے کی دھن بن جاتی ہے۔ ہماری شاعری آخر آخر جو گل وبلبل کے تصورات میں اسیر ہوکر رہ گئی، اس کا ایک سبب یہ بھی تھا کہ ہمارے شعرا نے یا تو فارسی زبان کے روایتی استعاروں سے کام لیا یا پھر ان استعاروں کے کلیدی الفاظ مثلاً گل و بلبل، دام و قفس، مرغ چمن، باد نسیم وغیرہ کو لغوی معنوں میں اس طرح برتنے لگے جس طرح کہ صنایع لفظی میں الفاظ کو الفاظ کی نسبت سے برتا جاتا ہے، اس کا نتیجہ یہ ہوا کہ وہ الفاظ اپنی استعاراتی قوت کھونے لگے۔
لیکن جب سے روایت پرستی کا یہ زور کم ہوا اور لفظ نیچرل ہماری تنقید میں داخل ہوا تو نئے استعاروں کے علاوہ پرانے کلیدی الفاظ کی مدد سے نیے استعارے بھی وجود میں آنے لگے۔ چنانچہ اب ان الفاظ کے وہ پرانے تلازمات ذہنی اور انجمنی نئے ماحول اور نئے خیالات سے مطابقت پیدا کرنے کے عمل میں بدلتے جا رہے ہیں۔ اس میں علامہ اقبال اور دور حاضر کے چند غزل گو شعرا کا بالخصوص بہت بڑا ہاتھ ہے، تاہم یہ کہنا پڑےگا کہ اس قسم کے تصرفات کے امکانات محدود ہیں۔ ضرورت اس بات کی ہے کہ نئی سے نئی ذہنی تصویریں اور نئے نئے استعارے وضع کئے جائیں جن کی تخلیق کے لئے آج سامان مجلسی پچھلے زمانے کے مقابلے میں زیادہ موجود ہیں۔ خیر یہ تو اصلاحی باتیں ہیں، ہمیں ابھی اپنی توجہ استعارے پر ہی رکھنی چاہئے۔
علم بیان کی کتابوں میں استعارے کی مختلف قسمیں درج ہیں، جن میں استعارہ اصلیہ، استعارہ تبیعیہ، استعارہ مطلقہ، استعارہ بالتصریح، استعارہ بالکنایہ حتی کہ استعارہ تخیلیہ (ایں چہ بوالعجمی) تک درج ہے لیکن کس قدر حیرت کی بات ہے کہ ان میں ایک استعارے کا ذکر نہیں جو ان سب پر بھاری ہے۔ اسے استعارۂ انقلابی کہتے ہیں، جو استعارے کے تمام اقسام کے حدود کو توڑ کر اس طرح نمودار ہوتا ہے کہ علم بیان والے منہ تکتے رہ جاتے ہیں۔ بڑا شاعر اپنے انہیں انقلابی استعاروں سے پہچانا جاتا ہے۔ میر کا شعر ہے۔
کہاں آتے میسر تجھ سے مجھ کو خود نما اتنے
یہ حسنِ اتفاق! آئینہ تیرے روبرو ٹوٹا
یہ ہے ہ وانقلابی استعارہ ہے جو علم بیان کے معلموں کی تعریف سے آزاد ہے، یہ استعارہ میر نے اردو زبان میں فارسی زبان سے داخل کیا ہے، لیکن اس کا استعمال ایسا کیا ہے کہ ان کا اپنا بن گیا ہے۔ اس کی معنویت لامحدود وسعت خیال کی حامل ہے۔ یہ اپنی ذات سے ایک کتاب ہے اس میں انسان کی اس کی اپنی خود نمائی ہی پر نہیں بلکہ اس کی کبریائی پر بھی زور ہے۔
بات کیا آدمی کی بن آئی
آسماں سے زمین نپوائی
حیرت آتی ہے اس کی باتیں دیکھ
خود سری، خود ستائی، خود رائی
شکر کے سجدوں میں یہ واجب تھا
یہ بھی کرتا سدا جبیں سائی
سو تو اس کی طبیعتِ سرکش
سرنہ لائے فرو، کہ ٹک لائی
میر ناچیز مشتِ خاک اللہ
اس نے یہ کبریا کہاں پائی
یہ خود نمائی یہ کبریائی انسان کو اس آئینے کے ٹوٹنے سے ملی جو ’’آدم خاکی‘‘ کا تھا۔
آدم خاکی سے جلا ہے ورنہ
آئینہ تھا تو ولے قابل دیدار نہ تھا
اس ’’قابل دیدار‘‘ آئینے کے ٹوٹنے کی تلمیح یہ ہے کہ جب خدا نے حضرت انسان کو بقول صوفیائے کرام اپنی صورت پر خلق کیا، جیسا کہ انجیل میں بھی کہا گیا ہے اور اس میں تمام تر اپنا ہی جلوہ دیکھا تو وہ اپنے اس کمال فن پر اس قدر حیران و ششدر ہوا کہ وہ آئینہ اس کے ہاتھ سے چھوٹ کر گرپڑا اور وہ ریزہ ریز ہو گیا۔ چنانچہ اب ہر ریزے میں اس ماہ تمام کا عکس موجود ہے۔ میر نے محولہ بالا شعر میں وحدت سے کثرت کی طرف کس خوبی سے اشارہ کیا ہے اور کس خوبی سے وحدت الوجود کے فلسفے کو اس شعر میں سمویا ہے۔ لیکن اس میں صرف صوفیانہ فلسفہ ہی نہیں بلکہ انسان کی حقیقت بھی موجود ہے۔ یہ اس کی اسی الوہی خودنمائی اور کبریائی کا مظہر ہے کہ وہ تسخیر کائنات کئے جا رہا ہے اور اس کی طبیعت سرکش اپنا سرکسی کے سامنے فرو نہیں لاتی ہے۔ انسان کی اس خودنمائی اور کبریائی کی تاویل مختلف صورتوں میں کی جا سکتی ہے لیکن یہ حقیقت اپنی جگہ پر اٹل رہتی ہے کہ انسان خود گر، خود بین وخود نما ہے۔ میر کا یہ استعارہ دائمی حسن اور معنویت کا حامل ہے، اس کی دائمیت دست قدرت سے آئینے کے چھوٹ جانے اور قد آدم عکس کبریا کے ساتھ ٹوٹ جانے میں ہے۔
حسنِ یکتا چہ جنوں داشت کہ ازننگِ دوئی
خواست برسنگِ زند آئینہ برمازدہ است
بیدل
یہاں نہ تو ’’حکم سفر‘‘ کی بات ہے اور نہ ’’انتظار کرنے‘‘ کا مسئلہ ہے بلکہ رخصت انتظار کی بات ہے۔ اب کس کی نیابت اور کہاں کے تعینات ’’ شیخ جی آؤ مصلیٰ گرو جام کرو۔‘‘ اب بیچارگی و بندگی بے سود ہے۔
کب سے نظر لگی تھی دروازۂ حرم سے
پردہ اٹھا تو لڑیاں آنکھیں ہماری ہم سے
میر تقی میر
روئے او در مقابلِ مرأت
روئے ما بود در مقابلِ ما
ما کہ جز حق نہ ایم زعرفاں
پس چہ پرسی زحق وباطلِ ما
ملا شاہ قادری
یہ تھی ہمارے ادب میں (Humanism) یا انسان پرستی کی تحریک جو ہمارے ادب کا صدیوں سے سنگ بنیاد ہے۔ آرٹ صحیح معنوں میں اسی وقت باقدر اور بامعنی ہوتا ہے جبکہ انسان بھی بقول اقبال اپنے کو خالق تصور کرتا ہے۔ ورنہ وہ بے قدر اور بے معنی ہو جاتا ہے۔ بہرحال اس وقت اس موضوع پر مزید بحث کی گنجائش نہیں۔ میر کا یہ شعر پڑھئے اور ان کے عرفان ذات کی داد دیجئے۔
لایا ہے مرا شوق مجھے پردے سے باہر
میں ورنہ وہی خلوتی رازِ نہاں ہوں
اور پھر بیدل کے یہ اشعار پڑھئے۔
دریں گنبدِ بے درِ آسماں
زبیگانہ تاچند جوئی نشاں
توئی قبلۂ خود چو محرم شوی
توئی محرابِِ خویشی اگر خم شوی
یہاں آدمی اللہ کا ایک سرنہاں ہی نہیں بلکہ واقف اسرار یا خلوتی راز نہاں بھی ہے۔ اسی طرح غالب کا بھی یہ استعارہ انقلابی معنویت کا حامل ہے۔
آرائشِ جمال سے فارغ نہیں ہنوز
پیشِ نظر ہے آئینہ دائم نقاب میں
غالب نے اس شعر میں جس تخلیق پیہم کی طرف اشارہ کیا ہے وہ حقیقت اپنی جگہ پر دائمی ہے، اس حقیقت کی تاویلیں بدلتی رہتی ہیں اور بدلتی جائیں گی لیکن یہ حقیقت اپنی جگہ برقرار رہے گی کہ تخلیق پیہم اور غیر مختمم ہے۔ استعارے کی دائمیت اس میں ہے کہ وہ حقیقت معنی کی مختلف تاویلوں کو سہ جائے کیونکہ استعارہ جہان معنی کے ان گنت دروازوں کو وا کر دیتا ہے۔ اس میں شبہ نہیں کہ میر اور غالب کے ان دونوں اشعار میں معنوی تصویر صوفیانہ ہے یعنی انہوں نے حقیقت کو جو ایک مجرد شئے ہے، شخصیت کا لباس پہنا دیا ہے لیکن یہ امر بھی قابل غور ہے کہ آرٹ کی تو بنیاد ہی اسی پر ہے کہ غیر شخص (Impersonal) کو شخصی (Personal) یا مجرد کو محسوس بناکر پیش کیا جائے۔
چنانچہ صوفی کے (Vision) اور شاعر کے وجدان میں ایک طرح کی مماثلت بھی پائی جاتی ہے۔ دونوں ہی حقیقت کا جلوہ محسوس صورت میں دیکھتے ہیں۔ چنانچہ اگر آپ ان اشعار میں آئینہ کی ہیئت پر نگاہ نہ رکھیں بلکہ حقیقت پر نگاہ رکھیں تو یہی دیکھیں گے کہ اس شعر میں بھی حقیقت ہی کو آئینہ دکھانے کی کوشش کی گئی ہے نہ کہ اسے کسی فلسفیانہ تاویل سے مکدر کرنے کی کوشش کی گئی ہے۔ تاویل اور تصویر (Image) میں بڑا فرق ہے۔ یہاں صوفیانہ تصویر ہے نہ کہ صوفیانہ تاویل۔ اشارہ تخلیق پیہم کی طرف واضح ہے لیکن اب جبکہ نیا فلسفہ زندگی ہے، زندگی کو دیکھنے کا ایک نیا انداز ہے، زندگی کو ایک متعین رخ کی طرف لے جانے کی بات چیت ہے تو ضرورت اس بات کی ہے کہ ہم پرانے استعاروں کی طرف بغیر کسی تنقیدی نظرکے نہ جھکیں۔ کیونکہ ہر استعارہ اپنی جگہ پر ایک تعمیم بھی ہے جس میں ناظر حقیقت کا نقطہ نظر بھی جھلکتا ہے۔
شہادت گاہ ہے باغِ زمانہ
کہ ہر گل اس میں اک خونی کفن ہے
یہ میر کے زمانے کی ایک سچی تصویر ہے، لیکن ان کا نقطۂ نظر خوش بیں نہیں ہے، غالباً اس لئے کہ جن تاریخی قوتوں نے آج ایک خوش بیں نقطۂ نظر کو اس شعور کے تحت پیدا کیا ہے کہ حقیقت ایک ترقی پذیر شئے ہے، وہ شعور اس وقت ہماری سوسائٹی میں پیدا نہیں ہوا تھا۔ آپ کہیں گے کہ کسی کا نقطۂ نظر خوش بیں ہے کہ بدبیں، اس سے مشاہدے کی ٹھیٹھ سچائی پر کیا اثر پڑتا ہے۔ میرا یہ جواب ہے کہ اثر پڑتا ہے، جو شے کہ ترقی پذیر ہے، اس کو اس کے ترقی کرنے والے پہلو ہی کی طرف سے دیکھنا چاہئے۔ خوش بینی اسی لئے ترقی پسندوں کے مشاہدات کا جزو بن گئی ہے۔ لیکن خوش بینی کو خوش فہمی کے ساتھ خلط ملط نہ کرنا چاہئے، خوش فہمی ایک مغالطہ ہے، فریب نظر ہے، خوش بینی ایک نقطہ نگاہ ہے۔
ٹھہری ہوئی ہے شب کی سیاہی وہیں مگر
کچھ کچھ سحر کے رنگ پر افشاں ہوئے تو ہیں
ان میں لہو جلا ہو ہمارا کہ جان ودل
محفل میں کچھ چراغ فروزاں ہوئے تو ہیں
ہے دشت اب بھی دشت مگر خون پا سے فیض
سیراب چند خار مغیلاں ہوئے تو ہیں
دیکھئے ان اشعار میں مشاہدے کی صورت کتنی مختلف ہے۔ شاعر بظاہر ٹھہری ہوئی شب کی سیاہی میں بھی انوار سحر کی پر افشانیاں دیکھتا ہے۔ یہ اس کی خوش فہمی نہیں بلکہ حقیقت کا جدلیاتی مطالعہ ہے۔ اسی طرح جب وہ یہ کہتا ہے،
ہے دشت اب بھی دشت مگر خون پا سے فیض
سیراب چند خار مغیلاں ہوئے تو ہیں
تو وہ بظاہر سعی رائیگاں کا ایک قدر آفریں پہلو بھی دیکھ لیتا ہے۔ انسان کا کوئی بھی عمل رائیگاں نہیں جاتا ہے۔ اس کے ردعمل کا ایک پورا سلسلہ، حرکت میں آتا ہے جو نئے سے نئے عمل کا پیش خیمہ ہوتا ہے۔ یہاں خار مغیلاں کا استعمال ہمارے ے روایتی استعمال سے کس قدر مختلف ہے اور غالباً وہ لوگ جو اردو شاعری میں غزل کے علاوہ کوئی اور صنف سخن پسند ہی نہیں کرتے ہیں، وہ اسے اپنے اس دعوے میں بطور ثبوت کے بھی پیش کر سکتے ہیں کہ غزل میں بہت کچھ کہا جا سکتا ہے۔ پرانے استعارں کے کلیدی الفاظ کو نئے سے نئے معنوں میں استعمال کیا جا سکتا ہے۔
اس میں شبہ نہیں کہ ہماری غزل گوئی میں یہ بڑا ہی خوش گوار موڑ ہے اور اس سے ہم نے نئی لذت حاصل کی ہے لیکن ان کلیدی الفاظ کا محدود ذخیرہ اکتا دینے والا بھی ہے۔ قطع نظر اس بات کے کہ وہ تلازمات کے دو مختلف حوالوں کے حامل ہوتے ہیں۔ ایک قدیم اور ایک جدید، جوان کے اشاراتی معنوں کو باہمی اختلافات کی وجہ سے دھندلا بھی سکتے ہیں۔ ایسی صورت میں یہ سوچنے سے میں قاصر ہوں کہ ہمارے پرانے استعاروں کے کلیدی الفاظ کا خزانہ بہت دنوں تک ہمارا ساتھ دے سکتا ہے۔ ایک تبدیلی کی حدتک تو یہ موڑ بڑا چھا معلوم ہوتا ہے لیکن یہ ہمیں دور تک لے نہیں جا سکتا ہے اور اب یہ رجحان ایک قسم کی سہل پسندی میں تبدیل ہو رہا ہے۔
روایت کا احترام کچھ اسی میں نہیں ہے کہ ہم پرانے استعاروں کے کلیدی الفاظ کو نئے معنوں میں استعمال کرتے رہیں۔ اس کا احترام فنکارانہ تخلیق کی روایت کو اعلیٰ سے اعلیٰ درجے پر پہنچانے میں بھی ہے۔ ہر وہ لفظ جسے ہم استعمال کرتے ہیں، اپنے اندر استعارہ بننے کی صلاحیت رکھتا ہے۔ ایک خلاق ذہن اپنے کو صرف گنے چنے الفاظ کا پابند نہیں کیا کرتا ہے۔ ایک بڑے شاعر کو اس سے بھی جانچا جاتا ہے کہ اس کے ذخیرہ الفاظ میں کس قدر تنوع اور کس قدر وسعت ہے۔ اس نے اپنے تجربات کے جمالیاتی اظہار کے لیے کتنی مختلف صورتوں کو آزمایا ہے اور کتنی نئی ترکیبیں اور نئے استعارے دیے ہیں اور غالباً یہی سبب ہے کہ غزل کی اس رونق اور مقبولیت کے باوجود جو ان دنوں ہے، نہ تو نظم گوئی کا رجحان دبا ہے اور نہ نظم کے میدان میں نئے سے نئے تجربات کرنے ہی کا رجحان گھٹا ہے۔ مجھے ان دنوں فیض کی اس نظم نے،
یہ رات اس درد کا شجر ہے
جو مجھ سے تجھ سے عظیم تر ہے
بڑا چونکایا ہے۔ اس میں کچھ عجیب سی لذت محسوس کی ہے۔ ایسا معلوم ہوا کہ جیسے کوئی سمبالک نظم اتنی اچھی پہلی بار ہماری زبان میں کہی گئی ہے۔ لیکن میرے اس خیال سے غالباً قدیم مذاق کے لوگ متفق نہ ہوں گے کیونکہ ہماری شاعری کی روایت استعاروں کی رہی ہے نہ کہ سمبل کی۔ استعارے اور سمبل کا فرق یہ ہے کہ سمبل اشیاء کے صرف رشتوں کو ظاہر کرتا ہے اس کا کوئی تعلق اشیاء کی شیئت (Thingness) سے نہیں ہوتا ہے۔ یعنی سمبل مجرد محض ہوتا ہے۔ اس کے برعکس استعارہ مجرد اور محسوس دونوں ہی ہوتا ہے۔ چنانچہ یہی سبب ہے کہ سمبل میں وجہ جامع کبھی کبھی اس قدر مجرد ہوتی ہے کہ وہ سمبل نجی تلازمہ خیال کا حامل بن جاتا ہے اور اس طرح ناقابل فہم بھی بن سکتا ہے۔ لیکن کسی سالم تخلیق میں جو سمبالک ہو, سمبل اور استعارے کا یہ فرق کوئی معنی نہیں رکھتا ہے، کیونکہ سمبالک نظم میں پوری تخلیق سمبالک ہوتی ہے نہ کہ اس کا کوئی جزو۔
ایک نظم سمبالک اس وجہ سے نہیں کہلاتی ہے کہ اس میں کچھ سمبل استعمال کئے گئے ہیں بلکہ اس لئے کہ وہ پوری نظم یا اس نظم کا پورا خیال سمبالک ہوتا ہے مثلاً گورکی نظم (Stormy Petrel) یا چیخوف کا ڈرامہ (Sea Gull) یا ابسن کا ڈرامہ (Wild Duck) کہ ان میں سے ہر ایک سالم حیثیت سے سمبالک ہے نہ کہ جزوی حثییت سے۔ چنانچہ جب میں نے فیض کی اس نظم کو سمبالک قرار دیا تھا تو یہی چیز میرے ذہن میں تھی، کہ یہ کہ اس میں چند سمبل استعمال کئے گئے ہیں۔ ایسا تو ہماری اکثر نظموں میں ہوتا رہا ہے لیکن اب جبکہ میں اس فر ق کو واضح کرچکا ہوں یہ بتانا بھی ضروری ہے کہ اس نظم کا آخری بند، درخت کے سمبل سے آزاد ہو جاتا ہے یہ اس کا نقص ہے۔
آخر میں مجھے یہ کہنا ہے کہ اس مضمون میں نہ تو شاعری کو کسی ایک ٹائپ میں جکڑنے کی کوشش کی گئی ہے نہ اسے کسی ایک اسلوب میں محدود کرنے کی کوشش کی گئی ہے۔ ہر گلے رارنگ وبوئے دیگر است۔ ہر وہ شئے جو کثرت الصور ہے اور شاعری بھی ویسی ہی ایک شئے ہے۔۔۔ جو اپنی ذات میں کسی نہ کسی اصول کی بھی پابند ہوتی ہے یہ قانون فطرت ہے، اس سے نہ تو شاعری آزاد ہے اور نہ کوئی اور شئے، چنانچہ یہاں بحث شاعری کے اسی اصولی قانون یعنی قانون حسن سے کی گئی ہے جو مختلف اسالیب اور اصناف میں جلوہ گر رہتا ہے لیکن جہاں تک کہ حسن معنیٰ کا تعلق ہے وہ استعارے ہی کے آئینے میں جلوہ گر ہوتا ہے۔ شاعر جہاں نغمہ ساز ہے وہاں وہ استعارہ ساز بھی ہے۔
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.