Font by Mehr Nastaliq Web

aaj ik aur baras biit gayā us ke baġhair

jis ke hote hue hote the zamāne mere

رد کریں ڈاؤن لوڈ شعر
Nasir Shahzad's Photo'

ناصر شہزاد

1937 - 2007 | اوکاڑہ, پاکستان

ناصر شہزاد کے اشعار

1.6K
Favorite

باعتبار

ایک کاٹا رام نے سیتا کے ساتھ

دوسرا بن باس میرے نام پر

تجھ سے ملی نگاہ تو دیکھا کہ درمیاں

چاندی کے آبشار تھے سونے کی راہ تھی

یاد آئے تو مجھ کو بہت جب شب کٹے جب پو پھٹے

جب وادیوں میں دور تک کہرا دکھے بے انت سا

ہجرتوں میں حضوریوں کے جتن

پاؤں کو دوریوں نے گھیرا ہے

پستکوں میں پرانوں میں ارضوں میں آسمانوں میں

ایک نام کی بھگتی ایک قول کا کلمہ

کھلے دھان کھلکھلا کر پڑے ندیوں میں ناکے

گھنی خوشبوؤں سے مہکے مرے دیس کے علاقے

چوکھٹا دل کا یہاں ہے ہو بہ ہو تجھ سا کوئی

ہونٹ بھی آنکھیں بھی چھب ڈھب بھی تجھی سا فیس بھی

جنہیں ترے نام کی چاہ ہے یہ زمین ان کی گواہ ہے

وہیں کربلا کا وہ دشت ہے وہیں قصر کوفہ و شام ہے

پاٹی ہیں ہم نے بپھری چنابیں ترے لئے

ہم لے گئے ہیں تجھ کو سوئمبر سے جیت کے

تو شرافتوں کا مقام ہے تو صداقتوں کا دوام ہے

جہاں فرق شاہ و گدا نہیں ترے دین کا وہ نظام ہے

اخروٹ کھائیں تاپیں انگیٹھی پہ آگ آ

رستے تمام گاؤں کے کہرے سے اٹ گئے

ہم وہ لوگ ہیں جو چاہت میں

جی نہ سکیں تو مر رہتے ہیں

دینا مرا سندیش سکھی پھر

پہلے چھونا اس کے پاؤں

تجھ سے بچھڑے گاؤں چھوٹا شہر میں آ کر بسے

تج دیئے سب سنگی ساتھی تیاگ ڈالا دیس بھی

دریا پہ ٹیکری سے پرے خانقاہ تھی

تب تیرے میرے پیار کی دنیا گواہ تھی

مجمع نہیں مجلہ ہے اشعار کی جگہ

بھر اور کوئی سوانگ جو ہونا ہی ہوٹ ہے

قائم ہے آبرو تو غنیمت یہی سمجھ

میلے سے ہیں جو کپڑے پھٹا سا جو بوٹ ہے

کچھ گریزاں بھی رہے ہم خود سے

کچھ کہانی بھی المناک ہوئی

تجھے پچھاڑ نہ دیں روشنی میں تیرے رفیق

دیا بجھے نہ بجھے تو بھی پھونک مار تو لے

اک خطہ خوں میں کہیں دریا کے کنارے

دیوار زمانہ سے گرا دھیان پھسل کر

پھر مجھے مل ندی کنارے کہیں

پھر بڑھا مان آ کے راہوں کا

نیا باندھو ندی کنارے سکھی

چاند بیراگ رات تیاگ لگے

عمروں کے بجھتے معمورے میں

میں نے ہر لمحہ تجھ کو سوچا

سنگت دلوں کی جیونوں مرنوں کا ارتباط

پھر ڈر پڑا تھا کیا تجھے گرد و نواح کا

نین نچنت ہیں دیکھ کے تجھ کو

دل ہے ازل سے ہکا بکا

پھر یوں ہوا کہ مجھ سے وہ یوں ہی بچھڑ گیا

پھر یوں ہوا کہ زیست کے دن یوں ہی کٹ گئے

پاؤں کے نیچے سرکتی ہوئی ریت

سر میں مسند کی ہوا باقی ہے

سانس میں ساجنا ہوا کی طرح

سانس کا سلسلہ ہوا سے ہے

جب کہ تجھ بن نہیں موجود کوئی

اپنے ہونے کا یقیں کیسے کروں

شاہ بلوط کے اوپر دیکھ

چاند دھرا ہے تھالی پر

تلے تیغ کے وہ عبادتیں تری شان کی وہ شہادتیں

وہ حکایتیں وہ روایتیں ترے سارے گھر پہ سلام ہے

دیکھا قد گناہ پہ جب اس کو ملتفت

بڑھ کر حد نگاہ لگی اس کو ڈھانپنے

Recitation

Jashn-e-Rekhta | 13-14-15 December 2024 - Jawaharlal Nehru Stadium , Gate No. 1, New Delhi

Get Tickets
بولیے