Font by Mehr Nastaliq Web

aaj ik aur baras biit gayā us ke baġhair

jis ke hote hue hote the zamāne mere

رد کریں ڈاؤن لوڈ شعر
noImage

شاد لکھنوی

1805 - 1899

شاد لکھنوی کے اشعار

914
Favorite

باعتبار

وصال یار سے دونا ہوا عشق

مرض بڑھتا گیا جوں جوں دوا کی

نہ تڑپنے کی اجازت ہے نہ فریاد کی ہے

گھٹ کے مر جاؤں یہ مرضی مرے صیاد کی ہے

جوانی سے زیادہ وقت پیری جوش ہوتا ہے

بھڑکتا ہے چراغ صبح جب خاموش ہوتا ہے

ہم نہ بگڑیں گے اگر چشم نمائی ہوگی

پھر کہیں آنکھ لڑائی تو لڑائی ہوگی

عشق مژگاں میں ہزاروں نے گلے کٹوائے

عید قرباں میں جو وہ لے کے چھری بیٹھ گیا

خدا کا ڈر نہ ہوتا گر بشر کو

خدا جانے یہ بندہ کیا نہ کرتا

وہ نہا کر زلف پیچاں کو جو بکھرانے لگے

حسن کے دریا میں پنہاں سانپ لہرانے لگے

چشم پوشوں سے رہوں شادؔ میں کیا آئینہ دار

منہ پہ کانا نہیں کہتا ہے کوئی کانے کو

وصل میں بیکار ہے منہ پر نقاب

شرم کا آنکھوں پہ پردہ چاہئے

مشکل میں کب کسی کا کوئی آشنا ہوا

تلوار جب گلے سے ملی سر جدا ہوا

جب جیتے جی نہ پوچھا پوچھیں گے کیا مرے پر

مردے کی روح کو بھی گھر سے نکالتے ہیں

صحبت وصل ہے مسدود ہیں در ہائے حجاب

نہیں معلوم یہ کس آہ سے شرم آتی ہے

نشان میرؔ ہے ہم سے جو ہم مٹے اے شادؔ

یہ جان ریختہ‌ گوئی گئی زمانے سے

پانی پانی ہو خجالت سے ہر اک چشم حباب

جو مقابل ہو مری اشک بھری آنکھوں سے

رونے سے ایک پل نہیں مہلت فراق میں

یہ آنکھ کیا لگی مرے پیچھے بلا لگی

اس سے بہتر اور کہہ لیں گے اگر زندہ ہیں شادؔ

کھو گیا پہلا جو وہ دیوان کیا تھا کچھ نہ تھا

لگا کے ٹھٹ ہے ہر سونا مرادی

تمنائے دلی نکلے کدھر سے

مری بے رشتہ دلی سے اسے مزہ مل جائے

جگر کباب جو کوئی جلا بھنا مل جائے

ہر ایک جواہر بیش بہا چمکا تو یہ پتھر کہنے لگا

جو سنگ ترا وہ سنگ مرا تو اور نہیں میں اور نہیں

چشم تر نے بہا کے جوے سرشک

موج دریا کو دھار پر مارا

پوچھا جو شباب بشری چشم فنا سے

پلکوں نے صدا دی کہ بھروسا نہیں پل کا

Recitation

بولیے